لباس التقویٰ
دعا ۔ایک الہٰی انعام
پیارے قارئین ! قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَاؤُ کُمْ (الفرقان۷۸)
یعنی اے نبیﷺ آپ کہہ دیجئیے کہ اگر تم دعائیں نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پروا نہیں کرے گا۔
اسی طرح اور بھی کئی مقامات پر دعاؤں کی اہمیت اور اس کی فضیلت سے متعلق قرآن کریم میں آیات ملتی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر ہمیں واقعی اپنے مولائے حقیقی کی صفات اور اس کی قدرتوں سے متعلق علم ہے اور ہم ان پر یقین بھی رکھتے ہیں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اپنی گذارشات اس کے حضور عرض کرنے سے رُکے رہیں اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو مصائب و تکالیف سے گزاریں۔ ہمارے پیارے آقا افضل الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے باعثِ تقلید ہے۔ آپ ساری ساری رات اپنے خدا کے حضور رو رو کر التجائیں کرتے اور یہی وہ اندھیری راتوں کی پرسوز دعائیں تھیں جنہوں نے چار دانگ عالم میں اسلام کو روشناس کروایا اور صدیوں کے مردوں کو زندہ کردیا۔ آپ نے ہمیں کثرت سے دعائیں کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ کیونکہ جب تک ہم خدا کی محبت میں گم ہو کر اس سے کچھ مانگتے نہیں وہ کیونکہ ہم پر انعام فرما سکتا ہے اور سیدھی راہ بغیر چاہے کیسے مل سکتی ہے آپؐ فرماتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا بڑا کریم اور سخی ہے جب بندہ اس کے حضور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔‘‘ (ترمذی کتاب الدعوات)
مہدی آخر الزمان حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے دُعا کو ایک لازوال اور ناقابلِ تسخیر ہتھیار قرار دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں
’’دعا میں اللہ تعالی نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے جو کچھ ہوگا دعا کے ذریعے ہی ہوگا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے۔ اور اس کے سوا کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں ہے جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا اس کو ظاہر کرکے دکھا دیتا ہے۔‘‘ (الفضل۱۸۔ اپریل، ۱۹۵۶)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’یہ ضروری نہیں ہے کہ دعائیں عربی زبا ن میں کی جائیں چونکہ اصل غرض نماز کی تضرع اور ابتہال ہے اس لئے چاہئے کہ اپنی مادری زبان میں ہی کریں۔‘‘ (روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ نمبر۱۴۶)
حضرت مصلح موعو دنے کیا خوب فرمایاہے۔
غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
اے میرے فلسفیو! زورِ دعا دیکھو تو
(کلام محمود)
دعا کی فرضیت اور برکات سے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنے بچوں کو بچپن سے یہی تربیت دی ہے کہ تم ہر مشکل کے وقت خدا کو کہا کرو اور اس سے دعا مانگا کرو۔ لیکن ہمارا خدا تو ہماری پیدائش سے بھی پہلے موجود تھا اور اس پر تو کبھی موت نہیں آئے گی۔ اس لیے بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ پہلے اپنے خدا سے تعلق جوڑیں اور پھر اپنے ماں باپ سے۔ تب وہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالی کے فضل ان پر نازل ہوں گے۔ چنا نچہ میرے بچوں نے جب دعائیں کیں۔ ایسے حیرت انگیز طور پر پوری ہوئیں کہ کئی دفعہ ان کو یقین نہیں آتا کہ خدا تعالی اتنی جلدی قبول فرما لے گا۔‘‘ (تشحیذالاذھان۔ جنوری ۱۹۸۴ء)
اللہ تعالی ہمیں مقبول دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین