لباس التقویٰ
رمضان المبارک کی برکات
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے کہ: یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرۃ: ۱۸۴)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر (بھی) روزوں کا رکھنا (اسی طرح) فرض کیاگیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں تا کہ تم (روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے) بچو۔
ایک اور آیتِ مبارکہ میں رمضان المبارک میں نازل کردہ ایک روحانی مائدہ کا ذکر ان اَلفاظ میں کیا گیا ہے:۔ شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدَی للِّنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَفَلْیَصُمْہٗ ط (البقرۃ: ۱۸۶)
رمضان کا مہینہ وہ (مہینہ) ہے کہ جس میں قرآن اتار اگیا یہ تمام لوگوں کے لئے ہدایت اور کھلے دلائل اور حق و باطل میں امتیاز کا درس اپنے اندر رکھتا ہے۔ پس جو شخص نہ مریض ہو اور نہ مسافر، اس ماہ کو پائے تو اسے چاہیے کہ اس کے روزے رکھے۔ حضرت نبی کریمﷺ نے اپنی حیات ِمبارکہ میں فرض روزوں کے ساتھ بہت سے نفلی روزوں کا بھی اہتمام فرمایا۔ آپﷺ ہر ماہ دو تین نفلی روزے رکھتے اور بالخصوص جمعہ والے دن اس کو ترجیح دیتے۔ آپؐ ایک موقع پر روزے کی افادیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
’’جو شخص ایمان کے تقاضوں کے مطابق اور نفس کااحتساب کرتے ہوئے رمضان کو قائم کرتا ہے اس کے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔‘‘
یہ بات واقعی ہی حقیقت ہے کہ رمضان کا نزول خداتعالیٰ کے عظیم احسانات میں سے ہے۔ کیونکہ اس مبارک مہینہ میں انسان بہت سے گناہوں سے بچنے اور بہت سی نیکیوں کو حاصل کرنے کی توفیق پالیتا ہے۔ لیکن ہمیشہ یہ فکر رہنا ضروری ہے کہ کیا ہم روزوں کے حقوق کو پورے تقویٰ اور خلوص دل سے ادا کررہے ہیں کہ نہیں؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’روزوں کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تحلیل میں لگے رہیں۔ جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۵ ص ۱۰۲)
بچوں کے روزہ کے متعلق حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ:
’’جب بچے کی ضروری قوتیں نشوونما پاچکی ہوں تو ہر سال کچھ نہ کچھ روزے رکھوانے چاہئیں تاکہ عادت ہوجائے مثلاً پہلے پہل ایک دن روزہ رکھوایا پھر دوتین چھوڑ دئیے۔ پھر دوسری دفعہ رکھوایا۔ ایک چھڑوادیا میرے نزدیک بعض بچے تو پندرہ سال کی عمر میں اس حد کو پہنچ جاتے ہیں کہ روزہ ان کے لئے فرض ہوجاتا ہے۔ بعض سولہ سے انیس اور حد بیس سال تک اس حالت کو پہنچتے ہیں۔ اس وقت روزہ رکھنا ضروری ہے پس یاد رکھو روزہ فرض ہونے کی حالت میں بلاوجہ روزہ نہ رکھنا اپنے ایمان کو ضائع کرنا ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد ۱۰ ص ۱۱۸)
حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ جماعت کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’پس اس فتنے کی فکر کرو جو تمہارے گھروں میں ہورہا ہے تمہارے بچوں کی صورت میں رونما ہورہا ہے۔ تمہارے احوال کی صورت میں رونما ہورہا ہے اور اس کو دور کرنے کے لئے الصلوۃ والصوم دو ہی چیزیں ہیں۔ نمازوں سے گھر کو بھر دو اور جب رمضان کے مہینے آیا کریں او ر ویسے بھی اپنے گھروں کو روزوں سے بھر دیا کرو۔ ہر قسم کے فتنے سے نجات پاؤ گے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶ دسمبر ۱۹۹۷)
رغبتِ دل سے ہو پابندِ نماز و روزہ
نظرانداز کوئی حصہ احکام نہ ہو
(کلامِ محمود)