لباس التقویٰ
صبر و استقلال
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اپنے نیک بندوں کو ترقی اور کامیابی حا صل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بتایا ہے جو کہ صبر ہے۔ فرمایا:
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْااسْتَعِیْنُوْ ابِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّا بِرِیْنَo (البقرۃ: ۱۵۴)
اے لوگوں جو ایمان لا ئے ہو اور صبر او ر دعا کے ذریعے سے (اللہ تعالیٰ سے) مدد مانگو۔ اللہ تعالی یقینا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
صبرو استقلا ل کے میدان میں اگر ہم جا ئزہ لیں تو سب سے بڑھ کر ہمیں ایک ایسے اللہ کے بندے کا ذکر ملتا ہے جس پر غیر تو غیر، اپنوں نے بھی مصیبتوں کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ تکلیفوں سے پُر ملتا ہے اور وہ بھی کسی دنیاوی شان و شوکت کی خاطر نہیں بلکہ محض بھٹکی ہوئی قوم کو اس کے خالقِ حقیقی سے ملانے کے لئے برداشت کی گئیں۔ وہ عظیم صبروہمت کی مالک ہستی ہمارے نبی اکرمﷺ کی تھی۔ آپﷺ فرماتے ہیں کہ:
’’مومن کے تمام کام عجیب ہوتے ہیں اور یہ صفت مومن ہی کو حاصل ہوتی ہے کہ اگر اس کو آرام پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں خیر ہی ہوتی ہے۔ اور اگر مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے اور اس کا نتیجہ بھی بھلا ہی بھلا ہے۔ (مسلم)
صبر کا اعلی ترین درجہ ہمیں اس وقت ہی میسر آسکتا ہے کہ جب صدمہ یا کوئی دکھ تازہ ہو اور ہم خود کواسے رضائے الہی سمجھ کرخود کو قابو میں رکھیں۔ ایک موقعہ پر آنحضرتﷺ نے ایک بڑھیا کورونے دھونے سے منع کیا جو ایک قبر پر بیٹھی تھی۔ مگر اس نے توجہ نہ دی۔ بعد میں اس کو پتہ چلا کہ یہ تو آنحضرتؐ تھے تو وہ معذرت کے لیے آپ کے گھر آئی۔ آپؐ نے فرمایا کہ صبر کا ثواب تو اسی وقت ہی ہوتا ہے کہ جب صدمہ تازہ تازہ ہو۔ (بخاری)
حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’انسان کی طبعی حالتوں میں سے یہ بھی ایک حالت ہے کہ وہ مصیبت کے ظاہر ہونے کے وقت پہلے روتا پیٹتاہے آخربہت سا بخار نکل کرجوش تھم جاتا ہے اور انتہاتک پہنچ کر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے پس یہ دونوں حرکتیں طبعی حالتیں ہیں ان کو خلق سے کچھ تعلق نہیں۔ بلکہ اس کے متعلق خلق یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے ہاتھ سے جاتی رہے اور اس چیز کو خداتعالیٰ کی امانت سمجھ کر کوئی شکایت منہ پر نہ لاوے اور یہ کہے کہ خدا کا تھا خدا نے لے لیا۔ اور ہم اسی کی رضا کیساتھ راضی ہیں‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ص ۳۶۱)
حضرت مصلح موعودنے صبر واستقلال کے حقیقی مفہوم کو بہت کھول کر ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں:۔
’’صبر کے معنے یہ ہیں کہ اگر تمہیں کوئی گالی دے تو تم اسے گالی نہ دو۔ اگر کوئی تم پر ظلم کرے تو تم اس وقت تک ظلم کا جواب نہ دو جب تک شریعت تمہیں جواب دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن صبر کے یہ معنی نہیں کہ تم اپنا دفاع چھوڑ دو اور دین کے معاملے میں ذلت برداشت کرلو۔ کیونکہ اس طرح بہادری اور دلیری نہیں بلکہ بزدلی پیدا ہوجائے گی۔
صبر کے معنے یہ ہیں کہ انسان متواتر اور استقلال کے ساتھ ان بدیوں کا مقابلہ کرے جو اس کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں اور ان بدیوں کے مقابلہ کے لئے تیاررہے جو اس کو آئندہ پیش آنے والی ہوں۔ اسی طرح صبر کے ایک معنی یہ ہیں کہ انسان استقلال کیساتھ اپنی نیکیوں پر قائم رہے جو اس کو حاصل ہوچکی ہوں اور ان نیکیوں کے حصول کے لئے کوشش کرے جو اس کو ابھی ملی نہیں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۲ ص ۱۱۶، ۱۱۵)
دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو
آفتِ ظلمت وجور ٹل جائیگی
آہِ مومِن سے ٹکرا کے طوفان کا
رُخ پلٹ جائے گا رُت بدل جائے گی
(کلام طاہر)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر میدان میں صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں ترقی بھی عطا فرمائے۔ آمین۔