لباس التقویٰ
صحبت صالحین
قرآن کریم میں اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو نصیحت فرماتا ہے
لَایَتَّخِذَالْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَائَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ
مومن لوگ مومنوں کو چھوڑ کر کافر وں کو اپنا دوست نہ بنائیں۔ (اٰل عمران: ۲۹)
یعنی ایسے لوگ جو اپنے قیمتی وقت کو فضول اور شیطانی کاموں میں گذارتے ہیں، اُن سے دوستی رکھنا بھی اِن کے اپنے لیے بھی ویسا ہی نقصان دہ ہے جیساکہ اُن کے لیے، کیونکہ ایسا کرنے سے انسان خود بھی وہی کام کرنے لگ جاتا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ مزید وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعا لی نے فرمایا۔
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ (البقرۃ: ۲۵۸)
’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لاتے ہیں وہ انہیں اندھیروں سے نکال کرروشنی کی طرف لاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے دوست نیکیوں سے روکتے ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں وہ لوگ آگ میں پڑنے والے ہیں وہ اسی میں رہیں گے۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے ماحو ل میں دیگر اُٹھنے بیٹھنے والے لوگوں سے ضرور اثر پکڑتاہے اور باوجودنہ چاہنے کے بھی، اس میں ان لوگو ں جیسی حرکات و سکنات پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے دوستیاں بڑھائیں اور بدزبان اور بد کردار کے حامل انسانوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے والے پہلے بالکل جاہل اور اخلاق سے عاری تھے مگر آہستہ آہستہ حضورؐ کی صحبت کا اثر یہ ہوا کہ وہ لوگ الہٰی رنگ پکڑ گئے اور ساری دنیا پر اخلاق حسنہ کی تلوار سے حکومت کی۔ آپؐ فرماتے ہیں۔
’’بُرے ہم نشین اور اچھے ہم نشین کی مثال عطار اور لوہار کی ہے۔ عطار کے پاس بیٹھے گا تو وہ تجھے تحفہ دے گا یا تو اس سے خوشبو خریدے گا یا کم از کم تجھے پہنچ جائے گی، اگر لوہار کے پاس بیٹھو گے تو کپڑے جلیں گے یا پھر دھویں اور گلے سڑے پانی کی بو تجھے تکلیف دی گی۔‘‘ (مسلم کتاب البروالضلۃ)
اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا کہ۔
’’آدمی اپنے قریبی دوست کے طریق پر عمل کرتا ہے۔ پس اسے چاہئیے کہ غور و فکر کرے کہ وہ کس کا ساتھی ہے۔‘‘ (ابوداؤد کتاب الادب)
حضرت مسیح موعودؑ، صحبت ِصالحین کی افادیت سے متعلق فرماتے ہیں۔
’’جو شخص شراب خانہ میں جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی پرہیز کرے اور کہے کہ میں نہیں پیتا ہوں لیکن ایک دن آئے گا وہ ضرور پئے گا۔ پس اس سے کبھی بے خبر نہیں رہنا چاہئیے۔ کہ صحبت میں بڑی تاثیر ہے۔ جو شخص نیک صحبت میں جاتا ہے خواہ وہ مخالفت کے ہی رنگ میں ہو لیکن وہ صحبت اپنا اثر کئے بغیر نہ رہے گی۔ اور ایک نہ ایک دن وہ اس مخالفت سے باز آجائیگا۔‘‘ (ملفوظات جلد ششم ص ۲۴۷)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جماعت احمد یہ عالمگیر کو صحبتِ صالحین کی اہمیت سے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’میں نے جماعت کو نصیحت کی تھی کہ بدوں سے پرہیز کرو اور جتنا حصہ بھاگ سکتے ہو بدوں سے دور بھاگواور نیکوں کی مجلس میں بیٹھو کیونکہ بدوں سے خالی بھاگنا کافی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کس طرف بھاگو۔ اگر بدوں سے بھاگو گے تو اس سے بہتر مجلس پیش نظر ہونی چاہئیے۔ اور یہی وہ مضمون ہے جسے حضرت محمدﷺ نے خوب کھول کھول کر بیان فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسی مضمون پر بہت روشنی ڈالی ہے‘‘۔
خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیکی کے رستے پر صحبت صالحین جیسے موثر ہتھیار سے عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسے لوگوں کی دوستیوں سے بچائے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے نیک بندوں کے احکامات کے منافی چلتے ہیں۔ آمین