لباس التقویٰ
عاجزی و انکساری
اللہ تعالی نے اپنے انعامات اور برکات کے دروازے انہیں لوگوں پرکھولے ہیں جو اس کی راہ میں عاجزی و انکساری سے کام لیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْ تُوْ االْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہِ اِذَایُتْلٰی عَلَیْھِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَ ذْقَانِ سُجَّدًا o (سورۃ بنی اسرائیل: ۱۰۸)
کہ جن بندگان خدا کو اس (قر آن) سے پہلے علم دیا جاچکاہے۔ جب ان کے سامنے اسے پڑھا جاتا ہے تو وہ(اسے سن کر)کامل فرما نبرداری اخیتار کرتے ہوئے ماتھوں کے بل گرجاتے ہیں۔ پس علم ِالہی اور عرفان ِالہی کے حصول کے واسطے عاجزی اور انکساری ایک لازمی شرط ہے۔ پیارے آقا نبی کریمﷺ کا اپنے مولائے حقیقی کے ہاں ارفع و اعلی اور بے نظیر مقام کسی دنیاوی بادشاہت یا جسمانی قوت کے سبب نہ تھا بلکہ آپؐ کی عاجزی اور فروتنی ہی تھی کہ آپؐ خود کو تمام بنی نوع انسان سے کمزور اور حقیر گردانتے اور کبھی بھی تکبر اور غرور کو قریب نہ آنے دیتے۔ آپﷺ نے فرمایا۔
اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَہٗ اللّٰہُ اِلَی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ۔ (کنز العمال جلد ۲ صفحہ ۲۵)
کہ جب بندہ عاجزی اور فروتنی اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا ساتویں آسمان تک رفع کرلیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ۔
’’مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار‘عاجزی‘ فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے معموروں کا خاصہ ہوتاہے۔ ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ میں یہ وصف تھا۔ آپؐ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آنحضرتﷺ کا کیا معاملہ ہے اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے تھے۔‘‘
حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی عجزو انکساری کا مجسمہ تھے، اور یہی توقع آپ جما عت سے رکھتے تھے، آپؒ فرماتے ہیں کہ:
’’میں پھر اپنی حقیقت کی طرف آتا ہوں۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی تمہارے اندرکبر اور غرور پیدا نہ ہو۔ تمہارے سرعاجزی سے ہمیشہ خدا کے آستانہ پرجھکے رہیں۔‘‘ (حیاتِ ناصرجلد۱ص۶۵۰)
جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
گالیاں سن کے دعا دوپا کے د کھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار
(درثمین)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم’’سچّے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو‘‘پر عملی رنگ میں پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین