لباس التقویٰ
عفو و درگذر
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے ان بندوں کے ذکر میں فرماتا ہے جو اس کی محبت اور رحمت کو حاصل کرنے والے ہیں:
وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَا فِیْنَ عَنِ النَّاسِِ ط (اٰل عمران: ۱۳۵)
اور وہ (میرے محسن بندے) غصہ کو دبانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں
پس ہمیں پتہ چلا کہ خدا تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہونے کے لئے ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم اس کی مخلوق سے نرمی اور شفقت کے ساتھ پیش آئیں اور انہیں کبھی جھڑکنے اور بُرا بھلا کہنے سے باز رہیں اور اس کی تعلیم قرآنِ کریم سے ہمیں ایک اور جگہ ان الفاظ میں دی گئی ہے۔ فرمایا:
وَالْیَعْفُوْاوَالْیَصْفَحُوْا ط (النور: ۲۳)
اور چاہیے کہ وہ عفو سے کام لیں اور درگذر کریں
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبیﷺ کو رحمت العالمین بناکر بھیجا، جس کی سب سے بڑی مثال فتح مکہ کا وہ دن ہے کہ جب وہ تمام لوگ آپ کے سامنے عاجزی سے سر جھکائے کھڑے تھے جنہوں نے آپ کو اسلام کی اشاعت سے روکا اور آپ کے رشتہ داروں پر بہت مظالم ڈھائے گئے۔ مگر آپ نے انہیں بغیر کسی بدلے کے معاف فرمادیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سب اسلام لے آئے۔ آپؐ فرماتے ہیں۔ اَفضلُ الفضائلِ اَن تَصِلَ مَن قَطَعَکَ و تُعطِی مَن مَنَعَکَ و تَصْفَحْ عَمَّنْ شَتَمَکَ (مسنداحمد ص۴۳۸)
سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تُو تعلق توڑنے والے سے تعلق جوڑے اور جو تجھے نہیں دیتا اسے بھی دے اور جو تجھے بُرا بھلا کہتا ہے اس سے تو در گذر کر۔
ایک اور موقع پر معاف کرنے کا درس دیتے ہوئے آپؐ فرماتے ہیں کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور جو شخص دوسرے کے قصور معاف کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتا ہے اور کسی کے قصور معاف کردینے سے کوئی بے عزتی نہیں ہوتی۔ (مسنداحمد ص ۲۳۵۔ ۴۳۸)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عفو و درگذر کی درخشندہ مثالیں عملاً قائم فرمائیں اور خدا کے مسکین بندوں پر رحم کا درس دیا۔ نیز موقع محل کے مطابق نرمی و سختی کی تلقین کی۔
آپؑ فرماتے ہیں:
’’عفوہی ایک اخلاقی قوت ہے۔ اس کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا عفو کے لائق ہے یا نہیں۔ مجرم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض تو اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان سے کوئی حرکت ایسی سرزد ہوجاتی ہے جو غصہ دلاتی ہے لیکن وہ معافی کے قابل ہوتے ہیں۔ اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی شرارت سے چشم پوشی کی جائے اور ان کو معاف کردیا جائے تو وہ زیادہ دلیر ہو کر مزیدنقصان کا باعث بنتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول ص ۲۹۰)
حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ
’’کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی انسان عفو سے کام لے اور خدا تعالیٰ نے اس کو عزت نہ دی ہو۔ عفو سے اگر کام لو گے تو تمہاری عزت بڑھے گی۔ عزت کم نہیں ہوگی اور یہ ایک بہت ہی گہرا نفسیاتی راز ہے جو حضرت اقدس محمدﷺ نے ہم پر کھولا۔‘‘
پیارے بھائیو! آپ جب بھی کسی کے قصور اور غلطی کو معاف کریں گے یا کوئی آپ کو معاف کرے گا تو اس کے نتیجے میں ہمیشہ محبت بڑھے گی اور اپنے اَعمال کی اصلاح کی طرف قدم بڑھے گاتا کہ دوبارہ ایسی حرکت سے دوسرے کے دل اور جذبات کو تکلیف نہ پہنچے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک دوسرے کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی اور ایک دوسرے کے ساتھ دلی محبت پروان چڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین