لباس التقویٰ
علم کی ترغیب
خدا تعالی نے اپنے بندوں کو دعا کیساتھ ساتھ اس کی صفات حسنہ اور کائنات میں بکھرے ہوئے عجائبات قدرت کا علم حاصل کرنے کی بھی تاکید فرمائی ہی۔ اس لئے حقیقی حمد کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو اہل علم اور باشعور کہلاتے ہیں۔ قرآن کریم میں ایسے بندوں کے متعلق فرمان الہٰی ہے کہ
یَرْ فَعِِِِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا مِنْکُمْ لا وَالَّذِیْنَ اُوْ تُوا الْعِلْمَ دَرَجَا تٍ ط
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو تم میں سے مومن ہیں اور علم رکھنے والوں کو درجات میں بلند کردے گا۔ (المجادلۃ۔ ۱۲)
یعنی ایسے علم رکھنے والے جو اس پر ایمان بھی لاتے ہیں و ہ دنیا اور آخرت میں دوسروں کی نسبت زیادہ بامراد اور باعزت ہونگے۔ عالِم باعمل ہونے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک دعا سکھلائی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ
وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo (طٰہٰٰ ۱۱۵)
اور تو کہہ کہ اے میرے رب ! میرے علم کو بڑھا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بکثرت رب زدنی عِلما پڑھنے والے ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ہدایت کے تابع ہم حقیقی علم کو پاسکیں۔ کسی چیز سے متعلق کامل علم کا نہ ہونا گویا اس چیز سے ناواقفیت اور دوری ہے۔ کائنات کی ہر چیز انسان کے لئے فائدہ مند ہے لیکن اگر اس کے فوائد و نقصانات کا علم ہی حاصل نہ کیا جائے تو وہ نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس طرح دنیا میں پھیلے ہوئے تما م علو م ہماری رہنمائی ایک خالق و مالک ہستی کی طرف کرتے ہیں لہذا خدا تعالی سے تعلق باندھنے اور محبت بڑھانے کی خاطر ضروری ہے کہ ہم اس کی صفات و عجائبات کا بھی بغور مطالعہ کریں۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی آخر الزّمانﷺ نے فرمایا۔
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃ ٌعَلٰی کُلِّ مُسْلِمِo (ابن ماجہ)
ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم حاصل کرے۔
ایک اور موقع پر آپﷺ نے یہ نصیحت فرمائی ہے کہ جن سے تم علم سیکھو ان کی بھی بہت عزت کیا کرواور ادب و احترام سے پیش آیا کرو۔
حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے بھی اپنے محبوب آقا حضرت محمدﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے دنیاوی تعلیم میں غرق ہونے کی بجائے خدا تعالیٰ کی خاطر مجاہدات اور ریاضتیں کیں۔ جس کی بدولت علم کا وہ لازوال خزانہ آج ہمارے سامنے ہے۔ جو لاکھو ں دنیاوی کتابوں کے مطالعہ سے بھی حاصل نہیں ہوسکتا علم کی حقیقی تعریف کرتے ہوئے فرمایا۔
’’علم و حکمت ایسا خزانہ ہے جو تمام دولتوں سے اشرف ہے۔ دنیا کی تمام دولتوں کو فنا ہے لیکن علم و حکمت کو فنا نہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد ۴ ص ۱۶۱)
حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ نے حصولِ علم کی خاطر بہت سفر کیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ
’’علم و حکمت کے حصول میں ترقی کے نتائج و فوائد، زمین وآسمان کے تمام ذرات اللہ تعالی کی ہستی کی صفات پر گواہ ہیں۔ پس زمینی علوم یا آسمانی علوم جس قدر ترقی کریں گے خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی صفات کی زیادہ وضاحت اور زیادہ صراحت ہوگی۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد ۴ ص ۸۵)
حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ کی ۶ ستمبر۱۹۳۴ء کو انگلستان اعلیٰ تعلیم کے لئے روانگی کے موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے چند ضروری نصائح فرمائیں۔ فرمایا کہ
’’میں تم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سب علم قرآن میں ہی ہے اور اس کی کنجی محبتِ الہٰی ہے جو خدا تعالی سے محبت کرتا ہے اسے قرآن کریم کا علم دیا جاتا ہے اور جو اس کے قبضہ میں اپنے آپ کو دے دیتا ہے۔ وہ اس کی عرفان کے دودھ سے خود پرورش کرتا ہے۔ پس میں تمہیں انگلستان کسی علم سیکھنے کے لئے نہیں بھجوا رہا کہ جو کچھ علم کہلانے کا مستحق ہے۔ وہ قرآن کریم میں موجود ہے اور جو قرآن کریم میں نہیں وہ علم نہیں جہالت ہے۔‘‘ (حیاتِ ناصر ۸۲)
آج اگر ہم ان تمام علوم کا جائزہ لیں جو اپنی بلندیوں کو چھو رہے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان سب کا تفصیلا یا اشارۃ ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے جو آج سے ۱۴سوسا ل قبل نازل ہوا۔ پس یہ بات سو فیصدی درست ہے کہ اگر ہم ترقی کی اس دوڑ میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو دعا کے ساتھ خداتعالیٰ کے فضل کو طلب کرتے ہوئے بغور قرآن کریم کا مطالعہ کرنا پڑے گا اور ساتھ ساتھ وضاحت کی خاطر دیگربزرگانِ سلسہ کی کتب کو بھی زیر مطالعہ رکھنا ضروری ہے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث فرماتے ہیں کہ
’’علم ایک بحر ِبے کنا ر ہے اس لئے ایک انسان علم میں خواہ کس قدر ترقی کرجائے علم ختم نہیں ہوتا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۱۰ص ۱۵۷)
اس طرح ایک اور موقع پر ایک اہم مقصد اِن الفاظ میں بیان فرمایا۔
’’یہ بھی نہ بھولنا کہ انسان علم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ خود اس سے فائدہ اُٹھائے اور دوسروں کی خدمت کرے۔ پس ہمیشہ عالم باعمل بننے کی کوشش کرو۔ خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور اپنے سایہ رحمت میں ہمیشہ رکھے‘‘ (حیاتِ ناصرص۲۱۹)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمارے علاوہ دوسروں کے لئے بھی امن اور ہدایت کا باعث بنے اور ہماری آخرت کو سنوارنے میں مدد گار ہو۔ آمین