لباس التقویٰ
غیبت سے اجتناب
اللہ تعالی نے اُمت مسلمہ کو ایک بہت نا پاک فعل یعنی غیبت کرنے سے منع کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ
وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌo (الحجرات ۱۳)
اور تم سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھا ئی کا گو شت کھانا پسند کرے گا۔ ہرگز نہیں بلکہ تم اس حرکت سے نفی کرو گے۔ پس تم اللہ سے ڈرو۔ یقینا اللہ بہت تو بہ قبول کرنے اور باربار رحم کرنے والا ہے۔
غیبت کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی انسا ن اپنے ساتھی سے متعلق اس کی غیر موجودگی میں ایسی بات بیان کرے جیسے اس کا سا تھی نا پسند کرتا ہو۔ کیونکہ ایسا کرنے سے نفرت اور لڑائی جھگڑے جنم لیتے ہیں اور با ہمی نا راضگیاں بڑھتی ہیں۔ حضرت نبی کریمﷺ نے ایک مو قع پر غیبت اور بہتان کی تشریح کرتے ہوئے فرمایاکہ اگر وہ عیب تمہارے بھائی میں پایا جاتا ہے جو تم نے اس کی پیٹھ پیچھے بیان کیاتو یہ غیبت ہے اور اگر تم نے وہ بات اس سے متعلق کی جو اس میں نہیں پائی جاتی تو یہ بہتان ہے۔ (مسلم کتاب البرولصلتہ)
قارئینِ کرام! ہمارا پیارا مذہب اسلام ہمیں محبت اور با ہم اتفاق سے مل جل رہنے کا درس دیتا ہے۔ جبکہ غیبت ہمارے درمیان حسد اور دشمنی کی دیوار کو بلند کرکے ہمارے دشمنوں کو خوش اور کامیاب بناتی ہے۔ کسی کی اصلاح اس کی پیٹھ پیچھے برائی سے نہیں ہو سکتی بلکہ ہمیشہ اس کے سامنے پیار اور محبت سے سمجھا کربات کرنی چا ہئے۔ حضرت مسیح موعود ایک جگہ جماعت کو نصیحت کرتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ:
’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دور سلسلہ چلا تے ہیں تو گناہ کرتے ہیں۔ کونسا ایسا عیب ہے جو کہ دور نہیں ہو سکتا۔ اسلئے ہمیشہ دعا کے ذریعہ دوسرے بھائی کی مدد کرنی چا ہئیے‘‘
اس نصیحت کے ساتھ ہی آپ علیہ السلام نے ایک واقعہ بیان فرمایا کہ ایک صوفی کے دومرید تھے۔ ایک نے شراب پی اور نا لی میں بے ہوش ہو کر گرا۔ دوسرے نے صوفی سے شکایت کی، تو اس نے کہا کہ تو بڑا بے ادب ہے اس کی شکایت کرتا ہے اور جاکر اُ ٹھا نہیں لا تا۔ وہ اُسی وقت گیا اور اسے اٹھا کر لے چلا۔ (ملفو ظات جلد ۴ ص ۶۰)
اس واقعہ سے ہمیں غیبت سے اجتناب کرنے اور دلی خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی اصلاح کرنے کا درس ملتاہے۔ ایک جگہ حضرت مصلح موعود غیبت سے اجتناب کی تلقین کرتے ہو ئے تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’غیبت کے متعلق بعض لو گوں میں یہ غلط فہمی پا ئی جاتی ہے کہ اگر کسی کا کوئی سچا عیب اس کی عدم موجو دگی میں بیان کیا جائے تو وہ غیبت میں داخل نہیں ہوتا۔ ہا ں اگر جھوٹی بات کی جائے تووہ غیبت ہوتی ہے حا لانکہ یہ صحیح نہیں۔ غیبت کا اطلا ق ہمیشہ ایسی سچی بات پر ہوتاہے جو کسی دوسرے کو بدنام کرنے کے لئے اس کی غیر موجودگی میں بیان کی جائے اگر جھوٹی بات بیان کی جائے گی تو وہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہو گا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۹ ص۵۷۹)
پس یہ ضروری نہیں کہ کسی میں وہ عیب نہ ہو تو اُسے بیان کرنا غیبت ہے، بلکہ وہ تو بہتان بن جاتاہے۔ اگر کسی میں کوئی برائی پائی بھی جائے تو باہم دوستی اور محبت سے اس کے نقصانات دوسرے کے سامنے رکھے جائیں اور دل سے دعا بھی کی جائے۔
اللہ تعالی ہمیں غیبت جیسی بری عادت سے محفوظ رکھے اور ہم ہمیشہ وہی باتیں کرنے والے ہوں جو نفرتوں کو مٹا کر بھائی چارے کو فروغ دینے اور رضائے الہی کو پانے کا سبب بنیں۔ اللہ کرے کہ ہم اس عادتِ بد سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کا میاب ہوں۔ آمین
خیر اندیشئی احباب رہے مدنظر
عیب چینی نہ کرو مفسدو نمام نہ ہو
(کلام محمود)