لباس التقویٰ
قنا عت اور سادگی
اس مضمون کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالی نے جو کچھ انسان کو عطا فر ما یا ہے وہ اُس پر خوش رہے اور دوسروں کی طرف لالچ سے نہ دیکھے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فضول خرچی سے بچتے ہوئے سادگی بھی اختیار کرے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے کہ
وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَامَتَّعْنَا بِہٖ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ زَھْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَنَّھُمْ فِیْہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَّ اَبْقَیo (طٰہٰ: ۱۳۲)
اور تو اپنی آنکھوں سے پھاڑ پھاڑ کر (لا لچ کے ساتھ) اُن لوگوں کی طرف نہ دیکھ جنھیں ہم نے ظاہری دنیاوی دولت سے مالا مال کر رکھاہے (یہ مال اس لئے انہیں دیا گیا ہے)تا کہ ہم انہیں اس کے ذریعہ سے آزما سکیں اور تیرے رب کا رزق (ان سے) زیا دہ بہتر او ر باقی رہنے والا ہے۔
دینی اور دنیاوی ہر دو پہلوؤں میں ہمیں حضرت محمدﷺ کی حیات ِمبارکہ سے کا مل رہنمائی ملتی ہے۔ آپﷺ جن کی خا طر کا ئنات کو قا ئم کیا گیا، کے گھر کئی کئی دن چو لہا نہ جلتا۔ اور چند کجھوروں اور پا نی پر گزارہ کرنا پڑتا تھا۔ دنیا کی با دشاہت ملنے کے باوجود آپ کا لباس نہایت سادہ مگر صاف ستھرا ہوتا تھا۔ اپنا سارا ما ل خدا تعالی کی رضا کی خاطر یتیموں اور بے سہارا عورتوں میں تقسیم فرما دیتے اور اہل خانہ کو سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ آپﷺ نے ایک موقعہ پر فرمایا
اَلْقَنَا عَۃُ کَنْزٌلَا یَفْنَی
قناعت ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔
ایک اور موقعہ پر آپﷺ نے قنا عت پسند شخص کے بارے میں فرمایا کہ قانع وہ ہے جس کے پاس گزارا نہ ہو۔ اس پر وہ صد قہ و خیرات کرے جبکہ اس کی غربت سے بھی کو ئی آگاہ نہ ہو۔ اور وہ ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی کسی سے نہ مانگے۔ غربت کی وجہ سے حیاء کا پردہ نہ اٹھائے۔ (بخاری)
مسیحِ وقت حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیا نی علیہ السلام کی حیات ِمبارکہ کے مطا لعے سے قناعت کا مضمون اپنے کمال کو پہنچا ہو انظر آتا ہے مہمان نوازی میں کئی مواقع ایسے آئے کہ آپ نے بھوکے رہ کر اور وں کو کھانا کھلایا۔ اکتوبر۱۹۰۵ میں جب آپؑ دہلی تشریف لائے تو اس موقع پر حضرت میر قاسم علی صاحب جو آپ کے رفیق تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ
’’میں نے اپنی خو اہش کے مطا بق حضور کے واسطے علیحدہ سا لن کچھ سبزی ڈلواکر تیار کر ایا اور باقی تمام مہمانوں کے لئے آلو گوشت پکوایا۔ فرماتے ہیں کہ دو جگہ پکانے کی تکلیف نہ کیا کرو ایک ہی قسم کا کھا نا سب کے واسطے پکو ایا کرواور سب کے کھلا دینے کے بعد جوسالن نیچے کا بچ رہے اس میں سے تھوڑا سا میرے واسطے بھیج دیا کرو اور اگر آم کا اچار ملے تو اس سے روٹی لگاکر کھانا مجھے پسند ہے بجائے سا لن وغیرہ کے۔‘‘
سبحان اللہ !کیا سادگی کا نمونہ ہے۔ اسی لئے ایک مو قع پر فر مایا کہ غذا روح پر اثر کرتی ہے لہذا جسمانی غذا کو کم کرو تا کہ روحانی غذا بڑھ سکے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الاوّلؓ قناعت کے ضمن میں ایک نہایت حسین مثال پیش فرماتے ہیں۔ یہ واقعہ حضرت خلیفتہ المسیح الرابع اید ہ اللہ تعالی نے خو اتین سے خطاب کے دوران پیش فرمایا۔ فرماتے ہیں کہ
’’خلافت سے پہلے جب جموں میں حضرت خلیفہ اول طبیب تھے۔ وہ ایک راستہ سے گزرتے تو ایک ننگے فقیر کو دیکھتے جو دھوتی پہنے بیٹھارہتاتھا۔ اس کا چہرہ غم آلود رہتا، جیسے اسے اپنی غربت کا بہت دکھ ہو۔ تا ہم وہ مانگتا پھر بھی نہ تھا، جو چا ہے ڈال د ے۔ ایک دفعہ خلیفہ اولؓ پاس سے گزر ے تو وہ خوشی سے اچھل رہاتھا۔ چھلانگیں مار رہا تھا۔ اس سے وجہ پو چھی تو اس نے کہا کہ جس کو کوئی خواہش نہ رہے اُسے تو خزانے مل گئے۔ آنحضرتﷺ کا ارشادہے کہ قناعت نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔‘‘
حضرت صاحب نے فرمایا یہ ساری باتیں آپ نے اولاد کو سمجھانی ہیں۔ حرصوں کو کم کرنا ضروری ہے۔ اللہ پر نظر ڈالیں تو پھر حرصیں اور تمنائیں کم ہوجائیں گی۔ پھر زندگی میں جو سکون حا صل ہوگا اس کی کوئی مثال نہیں ملے گی۔ (الفضل۳ستمبر ۱۹۹۸)
اللہ تعالی ہمیں ہر لا لچ سے محفوظ رکھ کر صر ف اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین