لباس التقویٰ
قومی زبان سے محبت
ابتدائے دنیا سے لے کر آج تک خدا تعالی نے جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے۔ وہ اپنی قوم سے اسی زبا ن میں مخاطب ہوتے رہے جو وہاں بولی جاتی تھی تاکہ وہ اس مُرسل ِمنَ اللہ کے پیغام کو آسانی سے سمجھ سکیں۔ اس کی شہادت ہمیں قرآن کریم سے ملتی ہے:
وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّابِلِسَانِِ قَوْمِہِ o (ابراھیم: ۵)
اور ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان دیکر بھیجا۔
ہمارے پیارے نبیﷺ کو اللہ تعالی نے عرب میں مبعوث فرمایا۔ اور آپؐ عربی بولتے تھے۔ جو کہ اُمُّ الْاَلْسِنَہ (یعنی تمام زبانوں کی ماں) ہے کیونکہ تمام زبانیں اسی سے بنی ہیں اسی طرح آپ پر قرآن کریم بھی عربی زبا ن میں ہی نازل کیا گیا تا کہ اس میں موجود احکامات نہی عن المنکر اور امر بالمعروف عرب قوم پراپنی تمام تر حکمتوں کے ساتھ واضح ہوسکیں۔ اسی طرح جب اللہ تعالی نے الہٰی نشانات کے ساتھ مہدی آخرالزمان کومبعوث کیا تو اس وقت برصغیر جو متحد تھا اس میں اردو بکثرت بولی جاتی تھی، جو آج بھی ہماری قومی زبان کہلاتی ہے۔ لہذا یہی مسیح موعود علیہ السلام کی زبان قرار پائی۔ ایک احمدی ہونے کے ناطے اردو ہماری بھی زبان ہے۔ اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اسے باقاعدہ قواعد و ضوابط کے تحت بولنے والے ہوں تا کہ اس کاحقیقی معنوں میں حق ادا ہو۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں کہ
’’میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اردو کو نئی زندگی دو اور ایک نیا لباس پہنا دو۔ آپ لوگوں کو چاہئیے کہ ہمیشہ اسی زبان میں ہی گفتگو کیا کریں۔ پس میری نصیحت تو یہ ہے کہ تم اردو کو اپناؤ اور اس کو اتنا رائج کرو کہ یہ تمہاری مادری زبان بن جائے اور تمہارا لب و لہجہ اردو دانوں کا سا ہو جائے۔‘‘ (روزنامہ الفضل ۶سمبر ۱۹۶۶)
پیارے قارئین! ان مندرجہ بالا ارشادات سے آپ پر اردو زبان کی اہمیت تو ضرور واضح ہوگئی ہوگی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اگر ایسے خطے میں رہائش پذیر ہوں جہا ں کوئی اور زبان بولی جاتی ہے تو وہ بھی سیکھی اور بولی جائے تاکہ روزمرہ معاملات میں آسانی ہو مگر بطور احمدی ہونے کے ناطے ہمیں عربی اور اردو سے بھی واقفیت ہونی چاہئیے تاکہ ہم قرآن کریم، احادیث اور روحا نی خزائن کو سمجھ کر اُن پر عمل کر سکیں۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ یہی چیزیں ہماری دنیا اور آخرت کو سنوا ر سکتی ہیں۔ اردو کا ذکر ہورہا ہو اور پیارے آقا حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی اردو کی کلاس کا ذکر رہ جائے تو گویا مضمون ادھورا رہ جاتا ہے۔ ایم ٹی اے پر حضور انور کا بیٹھ کر بچوں کے ساتھ اردو میں پیاری پیاری احادیث کاتذکرہ، دیگر دینی اور دنیاوی باتیں کرنا کسے اچھا نہیں لگتا، جو ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ ان پیاری باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لئے بھی اردو سیکھنا بہت ضروری ہے۔ جس کے لئے ہمیں باقاعدگی سے اردو کلاس میں شریک ہونا چاہئے۔
اللہ تعالی ہمیں اپنی زبان سے محبت عطا فرمائے تا کہ ہم ان تحریرات پر عمل کرنے والے بنیں، جو حضرت مسیح موعودنے ہمارے لیے قرآن اور حدیث کی روشنی میں رقم فرمائی ہیں۔ آمین