لباس التقویٰ
مہمان نوازی
اللہ تعالی قرآن کریم میں ایک مو قع پر حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی کو پسند کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب اسکے پاس میرے پیغمبر مہمان بن کرآئے تو حضرت ابراہیم نے ان کے سلام کا جواب دیتے ہوئے انہیں نہایت عزت سے گھر بیٹھایا اور ان کی ضیافت کے واسطے بُھنا ہوا گوشت تیار کروا کے ان کی خدمت میں حا ضر کیا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ایک انسان کے اخلاق اس وقت تک بہتر اور مکمل نہیں ہوسکتے جب تک وہ حقوق العباد کا مکمل طورپر خیال رکھنے والا نہ ہو دینِ اسلام نے دیگر تما م مذ اہب سے بڑھ کر مہمان نوازی کے حقوق پر درس دیا ہے۔ جس کا جامع اور اعلی نمونہ ہمیں حضرت محمد عربیﷺ کی ذات اقدس سے ملتا ہے۔ جو اپنے مہمانوں کے طعام و آرام کا بہت خیال رکھتے تھے۔ آپﷺ فرماتے ہیں کہ
’’جو شخص اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان لا تا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے۔‘‘ (سنن ابو دا ؤ د کتاب الا طعمہ)
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام مہمانوں سے بہت شفقت اور مہر بانی فرماتے آپ نے ایک دفعہ نصیحت کے رنگ میں بہت دلچسپ اور سبق آموز قصہ سناتے ہوئے فرمایا
’’ایک دفعہ ایک شخص کو جنگل سے گزرتے گزرتے رات پڑ گئی اور وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا سردی کا موسم تھا، نہ کھانے کو کچھ، نہ جسم گرم کرنے کو آگ تھی درخت کے اوپر دو نر اور مادہ پرندوں نے گھو نسلہ بنا یا ہواتھا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ یہ شخص آج ہمار امہمان ہے۔ اسے آرام پہنچا نا چاہئے انہوں نے اپنا گھونسلہ نیچے گرا دیا تا کہ وہ آگ جلا سکے۔ اسکے بعد انہوں نے سوچا کہ اسے بھوک لگی ہوئی ہوگی تو انہوں نے اپنے آپ کو نیچے گرادیا تاکہ وہ ان دونوں کو بھون کر کھا سکے۔‘‘
آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’دیکھو ان پرندوں نے اپنا سامان بھی دے دیا اور اپنی جانیں بھی قربان کردیں تا کہ اپنے مہمان کو آرام پہنچا دیں اسی طرح ہم کو بھی اپنے مہمان کی خاطر کرنی چاہئے۔‘‘ (الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۶)
مہمان نوازی سے متعلق یہ واقعہ بے شک ایک عظیم الشان مثال اور مشعل ِراہ ہے کہ جو ہمارے اندرمعزز مہمانوں کی عزت اور احترام کا جذبہ پیدا کردیتا ہے۔ حضرت مصلح موعود اِکرام ضعیف سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں کہ
’’تمام احباب کو اس طرف توجہ دلاتاہوں کہ رسول اکرمؐ نے جو ہدایات ہماری زندگی کی درستگی اور نفع اور فائدہ کے لئے دی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر ایک مومن کا فرض ہے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ اکرامِ ضیف آج کل ذلیل بات سمجھی جاتی ہے۔ لیکن یہ ایسے اعلی درجہ کے رکنوں میں سے ہے کہ اس کے پابند کو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ضائع نہیں کرتا۔ پس مہمانوں کو کسی کے گھر لانا خدا کا فضل ہے اس لئے اس کی قدر کرنی چاہئیے۔ اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ (خطباتِ محمود جلد ۷ ص ۱۸۴۔ ۱۸۳)
حضرت مولوی شیر علی صاحب گھر میں ایک دو بھینس رکھتے تھے اور لسی لینے والے اکژ آپ کے پاس آیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مولوی صاحب اپنے کمرہ میں کام کر رہے تھے کہ ایک صاحب اسی غرض کے لیے آئے۔ آپ نے اٹھ کر لسی لا دی۔ وہ باہر نکلے تھے کہ دوسرا آگیا۔ علی ھذا لقیاس نصف درجن کے لگ بھگ آدمی آئے۔ مولوی صاحب کام چھوڑ کر اُٹھتے اور لسی لا دیتے اور آپ کے چہرہ پر بڑی بشارت ہوتی تھی۔ لسی لینے والے اکثرکہتے مولوی صاحب ذرا سا نمک ڈال کر لانا۔ اگر آپ بھول جاتے تو دوبارہ نمک لا کردیتے تھے۔ (سیرت شیر علی ص۲۷۱)
مہمان نوازی کے بارہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ اپنے خطبات میں اس موضوع سے متعلق متعدد بار وضاحت فرما چکے ہیں۔ ہر سال جلسہ سالانہ انگلینڈ کے موقع پر آپ مہمان نوازی کے تمام پہلوؤں سے متعلق یاد دہانی فرمائی اور اسوہ رسولﷺ پر عمل کرنے کی نصیحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مہمانوں کی عزت و احترام کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔ تاکہ ہم ان کی نیک دعاؤں کے حقدار ٹھہریں۔ آمین