لباس التقویٰ
میانہ روی میں برکت
خداتعالی اپنی کتاب میں مسلمانوں کو دینی اور دنیاوی ہر دو لحاظ سے ایک کامیاب زندگی گذارنے کی طرف ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ
وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْ لَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا o (بنی اسرآئیل: ۳۰)
اور تونہ (تو کنجوسی سے) اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن میں ڈال اور نہ ہی انہیں (فضول خرچی کرتے ہوئے) بالکل کھول دے ورنہ (دونوں صورتوں میں ) تُو ذلیل اور حسرت زدہ بن جائے گا۔ یعنی روز مرہ کے ہر کام میں انسانی کو اَفراط اور تفریط کا شکار ہونے کی بجائے درمیانی راہ نکالنی چاہئے۔ قرآن کریم میں مومنوں کی ایک نیک عادت یہ بیان فرمائی ہے کہ
وَالَّذِیْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ کَا نَ بَیْنَ ذَا لِکَ قَوَامًا o (الفر قان: ۶۸)
اور وہ (اللہ کے بندے) ایسے ہوتے ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی کنجوسی کرتے ہیں بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان رہتے ہیں (یعنی میانہ روی) اختیار کرتے ہیں۔ میانہ روی اور اعتدال پسندی سے متعلق متعدد مقامات پر حضرت نبیﷺ کی سوانح حیات میں مثالیں ملتی ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں
ثلاث من الا خلاقِ الایمان، مَن اِذا غَضِبَ لَم ید خُل غضَبُہ فی باطلِ، ومَن اذا رَضِیَ لَمْ یَخرُجہ رِضا ہ مِن حقِ، ومَن اذاقَد ر لَم یَتَحَاط َما لیسَ لہ۔
تین (افعال)اخلاق ایمان کے لئے ضروری ہیں اول یہ کہ جب کسی مومن کو غصہ آئے تو و ہ غصہ اسے جھوٹ اور گنا ہ کی طر ف نہ لے جائے اور جب وہ خوش ہو تو اس کی خوشی اسے حق سے دور نہ لے جائے۔ اور جب اسے حکومت اور طاقت ملے تو وہ اپنے حق سے زیادہ پر قابض نہ ہو۔ (المعجم الصغیر للطبرانی باب من اسمہ احمد)
یعنی سچے اور پختہ ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان ان حالتوں میں سے کسی ایک پر بھی ہو تو اپنے آپ کو قابو رکھتے ہوئے خالصتاً دینی امور کے تابع چلے اور اسی میں کامیابی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی بھی اپنے آقاؐ کیطرح میانہ رو تھی۔ حقوق العباد کے تمام فرائض کو اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ اِسلامی اَحکامات کے اندر رہ کر ادا کیا۔ ایک آیت کی وضاحت میں میانہ روی پر عمل نہ کرنے کے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعو دفرماتے ہیں:
’’اس آیت میں بتایا ہے کہ خرچ کے متعلق اس اصل کو مدنظر رکھو کہ نہ تو ہاتھ گردن سے بندھا رہے یعنی ضرورت کے وقت بھی خرچ کرنے سے دریغ ہو اور نہ ہاتھ ہر وقت مال لٹانے کے لیے دراز رہے بلکہ چاہئیے کہ تم ضرورت کے مطابق خرچ کرو۔ تا بے ضرورت خرچ تم کو اس وقت کی نیکی سے محروم نہ کردے جب خرچ کرنے کی کو ئی صحیح ضرورت پیدا ہوگئی ہو۔ یعنی جب ضرورت کے وقت یہ پیسہ کام نہیں آسکتا تو قوم پر اس کا عیب ظاہر ہوجاتا ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بے وقوف ہے اپنے مال کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ اور یہ بھی کہ یہ دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۴ص ۳۲۵)
میانہ روی کی یہ تعلیم صرف اخراجات کے دوران ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں خواہ وہ عبادت سے تعلق رکھتا ہو، خواہ تعلیم کے میدان میں یا کسی اور میدان میں میانہ روی پر عمل کرنے سے انسان دنیا اور آخرت میں ہر دو لحاظ سے سرخرو ہوتا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں ہر معاملہ میں بخل کرنے اور فضول خرچی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین