لباس التقویٰ
نماز دین کا ستون ہے
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ان کی ایک نہایت اہم صفت بیان فرماتا ہے کہ مومن نماز کو قائم کرتے اور قائم رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں افادیتِ نماز سے متعلق فرماتا ہے کہ۔ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ (العنکبوت: ۴۶)
یقیناً نماز بدیوں اور بری باتوں سے روکتی ہے۔
نماز کا بروقت اور باجماعت پڑھنا ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رحمت عطا کرتا ہے۔ پیارے آقا حضرت محمد مصطفیﷺ کا پاک اسوہ ہمارے لئے باعث تقلید ہے۔ آپ ساری رات اپنے خداوند کریم کے حضور کھڑے رہتے اور اس سے اس کا فضل اور رحمت طلب کرتے۔ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے آپ سے پوچھا کہ آپ کیوں اتنی عبادت کرتے ہیں۔ حالانکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو اسی زندگی میں جنت کی بشارت دی ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اس کے بدلے میں اپنے مولا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ:
اِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبینَ الشِّرکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلٰوۃِ (صحیح مسلم کتاب الایمان)
یعنی نماز کو چھوڑنا انسان کو کفر اور شرک کے نزدیک کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کی بہت حفاظت فرماتے تھے اور پوری دلجمعی کے ساتھ اپنے مولا سے دعائیں مانگتے تھے اور بخشش طلب کرتے تھے۔ آپ نے اپنی جماعت کو بھی نماز وں کے متعلق ہدایت ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ
’’جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘ (کشتی نوح)
اسی طرح آپؑ نے فرمایا:
’’اپنی پنجوقتہ نماز وں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو۔‘‘ (کشتی نوح)
پھرایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’نماز پڑھو، نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے اور جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو ایسا نہ کر کہ گویا تو ایک رسم ادا کررہا ہے بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہر وضو کرتے ہیں ویسا ہی ایک باطنی وضو کرو۔ اور اپنے اعضا ء کو غیر اللہ کے خیال سے دھو ڈالو۔ تب ان دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور نماز میں بہت دعا کرو اور رونا اور گڑگڑانا اپنی عادت کرلو تا تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ (ازالہ اوھام صفحہ ۴۴۹)
پیارے آقا حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے بھی نمازوں کو قائم کرنے کے بارے میں بہت نصیحت فرمائی ہے اور خصوصاً ایسی نماز کی جو ہمارے کاموں اور آرام کے اوقات میں آتی ہو اور جسے قرآن کریم نے ’’اَلصَّلٰوۃُ الْوُسْطٰی‘‘کے نام سے یاد کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کے اخلاص کا عمومی معیار اس ابتلاء کے موجودہ دور میں بہت بلند ہوا ہے، لیکن یہ اخلاص اپنی ذات میں محفوظ نہیں۔ اگر اس کو نماز اور عبادت کے برتنوں میں محفوظ نہ کیا جائے۔ عبادت کی مثا ل ہوا میں سانس لینے کی طرح ہے، جو سانس کا رشتہ زندگی سے ہے وہی رشتہ عبادت کو انسان کی روحانی زندگی سے ہے۔ نماز کم از کم ذکرِ الہی ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا، جو آج نمازی ہیں جب تک ان کی آئندہ نسلیں نمازی نہ بن جائیں جماعت کے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے میں ہر بالغ مرد و عورت احمدی سے بڑے عجز کے ساتھ یہ استدعا کرتا ہوں کہ اپنے گھروں میں اپنی اولادوں کی نمازوں کی حالت کا سچ کی نظر سے جائزہ لیں۔ مجھے شک ہے کہ جو جواب ابھریں گے وہ دلوں کو بے چین کر دینے والے ہونگے، کیونکہ جس حالت میں ہم آج اپنے بچوں کو پاتے ہیں وہ اطمینان بخش نہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۲۳ جولائی، ۱۹۸۸ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں نمازوں کو پڑھنے اور ان کی افادیت و اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
رغبتِ دل سے ہو پابندِ نماز و روزہ
نظر انداز کوئی حصہ احکام نہ ہو
(کلام محمود)