لباس التقویٰ
والدین سے حسن سلوک
خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں مل جل کر رہنے اور دکھ سکھ میں شریک ہونے کا مادہ پیدا کیا ہے اور مختلف رشتے قائم کئے ہیں ان میں سے سب سے مضبوط اور قریبی رشتہ ماں باپ کا قرار دیا ہے، جس سے متعلق قرآن کریم میں نصیحت فر مائی ہے کہ
وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَانًا۔ (الاحقاف ۱۶)
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھے سلوک کی تاکید کی ہے۔
اس احسن تعلق کے ساتھ ساتھ والدین کے حق میں یہ دعا بھی قرآنِ کریم نے بطورِاحسان سکھلائی ہے۔ رَبِّ ارْ حَمْ ھُمَاکَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاo (بنی اسرائیل۔ ۲۵)
کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔
حضرت سید الانبیا ء محمد مصطفیﷺ جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام اول و آخر بنی نوع انسان پر فضیلت عطا فرمائی۔ آپ بھی اپنی والدہ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے اور ادب و احترام کا سلوک فرماتے۔ والدین کے ساتھ ساتھ آپ نے ان کے دوستوں کے ساتھ بھی ویسے ہی احسن سلوک سے پیش آنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ایک موقع پر والدین کے مرتبہ او ر اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’بہت ہی بد قسمت ہے وہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر انکی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوسکا۔‘‘ (مسلم کتاب البروالصلۃ)
اسی طرح ایک اور موقع پر بڑے بھائی کا مقام بھی والدین کے ساتھ ملایا ہے اور ان سے بھی ویسے ہی سلوک کی نصیحت فرمائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کی ایک آیت کی تفسیر کرتے ہوئے والدین کے ادب و احترام کا ان الفاظ میں ذکر فرماتے ہیں:
’’اور تیرے خدا نے یہی چاہا ہے کہ تم اس کی بندگی کرو اُس کے سوا کوئی اور دوسرا تمہارا معبودنہ ہو اور ماں باپ سے احسان کرو۔ اگر وہ دونوں یا ایک ان میں سے تیرے سامنے بڑی عمر تک پہنچ جائیں تو تُو ان کو اُف نہ کہہ اور نہ ان کو جھڑک بلکہ ان سے ایسی باتیں کہہ کہ جن میں ان کی بزرگی اور عظمت پائی جائے۔‘‘ (ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ص ۴)
والدین کے ساتھ محبت اور نرمی سے پیش آنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’فَلَا تَقُل لَّھُمَا اُفِّ وَّلَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْماً، یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں ان سے نہ کر جن میں ان کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو۔ اس آیت کے مخاطب تو آنحضرتﷺ ہیں لیکن دراصل مرجع کلا م امت کی طرف ہے کیونکہ آنحضرتﷺ کے والد اور والدہ آپ کی خوردسالی میں ہی فوت ہوچکے تھے اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ آنحضرتﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں ان کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہئے۔‘‘
حضرت مصلح موعودنے اپنی کئی خطبات اور تقاریر میں والدین کی عظمت اور ان کا احترام بجالانے کی گرانقدر نصائح فرمائی ہیں۔ آپؓ ایک جگہ آنحضرتﷺ کے ایک فرمان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
:’’اسلام نے والدین کے لئے خاص ہدایات دی ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ من ادرک احد والدیہ ثم لم یغفرلہ فابعدہ اللہ عزوجل۔ (ابن کثیر جلد ۶ ص ۶۱) یعنی جس شخص کو اپنے والدین میں سے کسی کی خدمت کا موقع ملے اور پھر بھی اس کے گناہ نہ معاف کئے جائیں تو خدا اس پر لعنت کرے مطلب یہ کہ نیکی کا ایسا اعلیٰ موقعہ ملنے پر بھی اگر وہ خدا کا فضل حا صل نہیں کرسکا تو جنت تک پہنچے کے لئے ایسے شخص کے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد۴، ص۳۲۱)
جملہ با لا ارشاد کی روشنی میں ہر احمدی بچے اور بڑے کو یہ عہد کرنا چا ہئیے کہ وہ کبھی بھی اپنے والدین سے حسن سلوک کے معاملے میں کو تاہی کا مرتکب نہ ہو گا۔ اللہ تعالی ہمیں ان ارشادات پر عمل پیرا ہو کر والدین کی خدمت کی توفیق عطافرمائے، اور دین ودنیا کی حسنات سے نوازے۔ آمین