لباس التقویٰ
وطن سے محبت
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی ہے کہ جہاں وہ پیدا ہوتا ہے اور جن گلیوں میں وہ اپنا بچپن گذارتا ہے، وہ جگہ اس کے لئے کائنات کا سب سے حسین ترین مقام بن جاتی ہے۔ بعض اوقات کسی وجہ سے اگر اسے وہ جگہ چھوڑنی پڑ جائے تو دل غم سے بھر جاتا ہے اور آنکھ سے آنسو گرنے لگتے ہیں۔ اسی لئے قرآن کریم میں ہمیں آنحضرتﷺ کی اس مقبول دعا کا ذکر ملتا ہے جو آپ نے اپنی جائے پیدائش مکہ کو کفار کے حد درجہ بڑ ھتے ہوئے ظلم کی وجہ سے چھوڑتے وقت بارگاہ الہٰی میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے عرض کی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْ قٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَ جَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطَا نًا نَصِیْرًا o (بنی اسرائیل: ۸۱)
اور تو کہہ دے ! اے میرے رب مجھے نیک طور پر (دوبارہ مکہ میں ) داخل کر اور احسن طریق پر (مکہ سے) نکال اور اپنے پاس سے میرا کوئی مددگار اور گواہ بنا۔
ارشادنبویﷺ ہے کہ
حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ
وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔
وطن سے محبت کا سب سے بہترین طریق بے شک یہ ہے کہ وطن کے امراء او ر حکام کے ساتھ مل کر اس کی ترقی اور استحکام میں ہاتھ بٹایا جائے۔ اسی امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؐ فرماتے ہیں کہ
عَلیکَ السمع َوالطا عۃَ فی عُسرِ کَ و یُسرِ کَ و مَنشَطِکَ ومَکرِ ھِک و اثرۃِعلیک۔ (مسلم کتاب الامارۃ)
’’تنگدستی اور خوشحالی، خوشی اور ناخوشی، حق تلفی اور ترجیحی سلوک، غرض ہر حالت میں تیرے لیے حاکم وقت کے حکم کو سننا (قانونی قواعد کے تابع رہ کر) اور اسکی اطاعت کرنا واجب ہے۔‘‘
پس اس فرمان بالا سے پتہ چلتا ہے کہ حکام وقت کی اطاعت کرنا ضروری ہے سوائے اس کے کہ وہ مذہبی اَحکامات اور روایات کے مخالف ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں جب انگریزوں کی حکومت تھی اس وقت کے بہت سے علماء اور دیگر لوگ ہر بات میں حکومت کی مخالفت کرتے۔ چاہے وہ ان کے حق میں ہی کیو ں نہ ہو۔ یہ مخالفت صرف مذہب کی بنیاد پر تھی۔ آپؑ نے مختلف اشتہارات کے ذریعے حکومت کی معروف احکامات میں اطاعت کی نصیحت فرمائی اور قرآن کریم کے اس ارشاد کی طرف توجہ دلائی جس میں دشمنی کی بنا پر حق کو باطل کہنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ جس کے سبب لوگ آپ کے مخالف ہوگئے اور آپ کو انگریزوں کا ساتھی قرار دینے لگ گئے۔ آپ کی تصانیف میں متعدد مقامات پر حکومت کے اچھے اوصاف جو واقعی ان میں موجود تھے کا ذکر ملتا ہے آپ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ
’’میں سچ سچ کہتا ہوں اور تجربہ سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو حق کے لئے ایک جرات دی ہے۔ پس میں اس جگہ پر مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اُن پر فرض ہے کہ وہ سچے دل سے گورنمنٹ کی اطاعت کریں۔ یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر گذار نہیں ہوتا وہ خدا تعالیٰ کا شکر بھی نہیں کرسکتا۔‘‘ (لیکچر لدھیانہ ص ۲۴)
حضرت مصلح موعودنے قیام پاکستان کی تحریک میں ایک بے نظیر محبِ وطن ہونے کا ثبوت دیا اور نوجوانوں کو کثرت سے جدوجہد آزادی میں حصہ لینے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ قیام پاکستان اور حصول آزادی پر آپ نے تمام مسلمانوں کو نصیحتا فرمایا کہ
’’پاکستان کا مسلمانوں کو مل جانا اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سانس لینے کا موقع میسر آگیا اور وہ آزادی کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں اب ان کے سامنے اتنے غیر محدود ذرائع ہیں کہ اگر وہ ان کو اختیار کریں تو دنیا کی کوئی قوم ان کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی اور پاکستان کا مستقبل نہایت ہی شاندار ہوسکتا ہے۔‘‘ (خالد، اگست ۱۹۹۷ء)
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہر نعمت سے مالا مال کرے۔ اور اسے دشمنوں کے شر سے بچائے۔ آمین