لباس التقویٰ
پردہ کی اہمیت
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کئی ایک مقامات پر خواتین کو پردہ کی نصیحت فرمائی ہے۔ ایک آیت ِمبارکہ میں پردہ سے متعلق اِن الفاظ میں آنحضرتﷺ کو حکم ہوا کہ
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ (الاحزاب: ۶۰)
اے نبیﷺ ! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی بیو یوں سے کہہ دے کہ (جب وہ با ہر نکلیں تو) چادروں کو اپنے اوپر لپیٹ کر نکلیں۔ اگر ہم پردہ کی اہمیت وافادیت سے متعلق اسلامی احکامات کا مطالعہ کریں تو بلا شبہ دیگر تمام مذاہب سے بڑھ کر پر دہ کی ضرورت پر زور ملتا ہے، جس کا ہمارے اخلا ق پریقینا بہت گہرا اثر پڑتاہے۔ ایک مو قع پر آنحضرتﷺ نے حضرت اُم ِسلمہؓ اور حضرت میمونہؓ کو ایک نا بینا صحابی سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ جب انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! وہ تو نا بینا ہیں اور ہمیں دیکھ نہیں سکتے تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی نا بینا ہو اور اسے دیکھ نہیں سکتیں۔ (مشکوۃ کتاب الادب)
دین اسلام میں عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی پر دہ کی نصیحت فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ عورت اور مرد دونوں آنکھیں نیچی رکھیں سوائے ان کے جو آپس میں خونی رشتہ دار ہوں۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’عورتوں کو چاہئے کہ نا محرم (جن کا نکاح نہیں ہوا)سے اپنے تئیں بچائیں اور یا د رکھنا چاہئے کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکا ح جا ئز نہیں اور جتنے مرد ہیں ان سے پر دہ کرنا ضروری ہے۔ جو عورتیں نا محرم لوگوں سے پر دہ نہیں کر تیں، شیطان ان کے ساتھ ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول ص ۶۹)
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بھی بے پردگی کی بہت مذمت کی ہے اور فرمایا:
’’پردہ چھوڑنے والا قرآن کی ہتک کرتا ہے ایسے انسان سے ہمارا کیا تعلق۔ وہ ہمارا دشمن ہے اور ہم اس کے دشمن اور ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے احمدی مردوں اور ایسی احمد ی عورتوں سے کوئی تعلق نہ رکھیں‘‘۔ (الفضل ۲۷جون ۱۹۵۸ء)
حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
’’قرآن نے پردے کا حکم دیا ہے انہیں (یعنی احمد ی مستورات کو)بہر حال پردہ کرنا پڑے گا یا وہ جماعت چھوڑ دیں کیونکہ ہماری جماعت کا یہ موقف ہے کہ قرآن کریم کے کسی حکم سے تمسخر نہیں کرنے دیا جائے گا۔ نہ زبان سے اور نہ عمل سے۔ اسی پر دنیا کی ہدایت اور حفاظت کا انحصار ہے۔‘‘ (الفضل ۲۵نومبر ۱۹۷۸ء)
حضرت خلیفتہ المسیح الر ابعؒ نے بھی ایک مو قع پر فرمایا:
’’بڑی شدت کے ساتھ اللہ تعالی نے میرے دل میں یہ تحر یک ڈالی ہے کہ احمد ی مستورات بے پردگی کے خلاف جہاد کا اعلا ن کریں۔ کیونکہ اگر آپ نے بھی میدان چھوڑ دیا تو دنیا میں اور کو نسی عورتیں ہو نگیں جو اسلامی اقدار کی حفاظت کے لئے آگے آئیں گی۔‘‘ (الفضل ۲۸ فروری ۱۹۸۳ء)
مندرجہ بالا اقتباسات سے ہمارے لئے پردے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے اور اس پر سختی سے پا بندی کرنے کا درس ملتاہے۔ جو نہ صرف ہمارے اپنے اخلاق و اطوار کی حفاظت کے لئے مفید ہے بلکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کی نیک نامی اور دین و دنیا میں کامیابی کا بھی ضامن ہے۔
اللہ تعالی ہمیں ظاہری و باطنی ہر دو لحاظ سے پردے کی روح کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !