لباس التقویٰ
ہمسا یہ کے حقوق
اللہ تعا لی نے قرآ ن کریم میں رشتہ داروں اور قریبی تعلق رکھنے والوں سے بہت احسان اور صلہ رحمی کی نصیحت فرمائی ہے۔ ہمسائیوں سے اچھے تعلقات رکھنا اور دکھ سکھ میں ان کے ساتھ شریک ہونا ایک مسلمان کا بنیادی فرض ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ہمسایوں کے لئے مندرجہ ذیل اَلفاظ منتخب فرمائے ہیں اور ان کے ساتھ محبت کا سلوک روارکھنے کا درس دیا ہے، فرما یا کہ
وَالْجَا رِذِی الْقُرْ ٰبی وَالْجَا رِالْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِِ (النِّساء: ۳۷)
اور رشتہ دارہمسایوں اور بے تعلق ہمسا یوں کے ساتھ بیٹھنے والے لوگوں (اور دوستوں )سے محبت اور پیار کا تعلق قا ئم کرو۔
محترم قارئین ! ہمسا یہ داری ایک ایسا رشتہ ہے جو بعض اوقات قریبی رشتہ داروں سے بھی بڑھ کر کام آتا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے ہمسایوں سے خو شگوارمیل جول اور محبت کا سلوک قائم رکھنا چاہئے اور زندگی کے ہر دکھ سکھ میں ایکد وسرے کی خیر خبر رکھنی چا ہئے لیکن بہت افسو س کی بات ہے کہ آج کے اس دور میں ہم نے اس تعلق کو با لکل بھلا دیا ہے اور ہمسایے تو الگ، ہمیں اپنے گھر والوں کی پوری طر ح سے خبر نہیں ہوتی۔
حضرت نبی کریمﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ
اِذا طَبَغْتَ مر قۃ فا کثِر مَا ئَ ھا وتجا ھد جِیرا نَکَ (مسلم کتاب البر و الصلۃ)
جب کبھی تم اچھا سالن بنا ؤ تو اس کاشوربہ کچھ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسی کا بھی خیال رکھو یعنی کسی نہ کسی پڑوسی کو بھی اس میں سے سالن بھجواؤ۔
یہ ہے وہ سلوک جس کی تاکید ہمیں ہمارے پیارے نبیﷺ نے فرمائی ہے، ایک اور جگہ ذکر ملتاہے کہ ایک صحا بیؓ نے آپﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کس طرح معلوم ہو کہ میں اچھاکر رہا ہوں یا برا۔ حضورﷺ نے فرمایا جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بڑے اچھے ہوتو سمجھو کہ تم اچھا کررہے ہو اور جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم بڑے برے ہو سو سمجھ لوکہ تمہار ارویہ برا ہے۔ (ابنِ ما جہ ابو اب الزھد)
اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعودؑ فر ماتے ہیں:
’’میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھا ئیوں کے لئے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔ اگر ایک بھا ئی بھوکا مر تا ہو تو دوسرا تو جہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیر ی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یا اگر وہ کسی او رقسم کی مشکلات میں ہے تو اتنانہیں کرتے کہ اس کے لئے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔ حدیث شریف میں ہمسا یہ کی خبر گیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکا ؤ تو شوربہ زیادہ کرلو تا کہ اسے بھی دے سکو۔ اب کیا ہوتا ہے، اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں لیکن اس کی کچھ پر واہ نہیں۔ یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھرکے پاس رہتا ہو۔ بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں۔‘‘ (ملفو ظات جلد ۴ص ۲۱۵)
حضرت مصلح موعود حقو ق ہمسا یہ کی ادائیگی سے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’شہریت میں سب سے مقدم اور سب سے پہلے ہمسا ئے ہیں۔ دیگر مذاہب میں بھی ہمسایہ کے متعلق تعلیم آتی ہے۔ مگر جس رنگ میں (دینِ حق) نے ہمسایہ کے حقوق کو بیان کیا ہے۔ اس رنگ میں اور کسی مذہب نے بیان نہیں کیا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۶ص ۳۱)
اللہ تعالی ہمیں اپنے ہمسایوں سے محبت اور امن کے ساتھ تعلق وابستہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین