لباس التقویٰ
یومِ حساب پرایمان
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی ایک مقامات پر اپنی مخلوق کو ایک ایسے آنے والے موقع سے آگاہ فرمایا ہے کہ جب اس معبود حقیقی سے ہماری ملاقات ضرور ہوگی اور ہم سب کو ہمارے دنیاوی اعمال کی جزا ملے گی، فرمایا۔
اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخۡفِیۡہَا لِتُجۡزٰی کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا تَسۡعٰیo فَلَا یَصُدَّنَّکَ عَنۡہَا مَنۡ لَّا یُؤۡمِنُ بِہَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰٮہُ فَتَرۡدٰی o (طٰہٰ: ۱۷۔ ۱۶)
قیامت یقینا آنے والی ہے۔ قریب ہے کہ میں اسے ظاہر کردوں تا کہ ہر نفس کو اس کے اعمال کے مطابق جزا دی جائے۔ پس جو (شخص) قیامت پر ایمان نہیں رکھتا اور صرف اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ وہ تجھے اس (قیامت کے روز) پر ایمان لانے سے نہ روک دے۔ ورنہ تو ہلاک ہوجائے گا۔
اسی طرح ایک اور موقع پر ان لوگوں کا حال بیان فرماتا ہے کہ جنہوں نے قیامت کے دن کو مذاق سمجھا۔ کہ
وَ قِیْلَ الْیَوْ مَ نَنْسٰکُمْ کَمَا نَسِیْتُمْ لِقَائَ یَوْ مِکُمْ ھٰذَا وَ مَأْوٰکُمُ النَّا رُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ o (الجاثیۃ: ۳۵)
اور ان لوگوں سے کہا جائے گا۔ کہ آج ہم نے تم کو اسی طرح چھوڑ دیا ہے جس طرح تم نے اس دن کی ملاقات کے خیال کو بھلا دیا تھا۔ اس لئے تمہارا ٹھکانہ آگ ہے اور کوئی تمھارا مدد گا ر نہیں ہوگا۔
ایمان داروں کے لئے نہایت بابرکت انعام ہے کیونکہ وہاں انہیں اپنے اعمال صالحہ کے سبب رضائے الہٰی کا حصول ہوگا اور دیگر اولیاء اللہ کی صحبت ملے گی۔
پیارے آقاﷺ جنگ ِاحزاب کے موقع پر صحابہ کے ساتھ مل کر خندق کھودرہے تھے تویہ دعا کرتے کہ اے اللہ ! اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے تو مہاجرین اور انصار کو بخش دے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی)
اسی طرح ایک اور موقع پر جب آپؐ ایک کان کٹے بکری کے بچے کو صحابہ کے سامنے فروخت کے لئے پیش فرمارہے تھے، جو مردہ تھا تو صحابہ نے کہا کہ ہم تو اسے مفت بھی نہیں لے سکتے تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جتنا حقیر تمہاری نظروں میں یہ مرا ہوا کن کٹابکراہے اس سے زیادہ یہ دنیا اللہ کی نظروں میں حقیر ہے۔ (مسلم)
یہ حقیقت ہے کہ آخرت پر پختہ ایمان انسان کو سب گناہوں سے بچا لیتا ہے۔ جس طر ح ایک بچہ سکول کا کام وقت پر کرتا ہے تا کہ اگلے دن سز اسے بچ سکے ویسا ہی عمل وہ شخص بھی دہراتا ہے جو آخرت میں کامیابی کا سچا خواہش مند ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جب انسان آخرت او راس کی باتوں کو قصہ اور داستان سمجھے تو سمجھ لو کہ وہ رد ہوگیا اور دونو ں جہانوں سے گیا گزرا ہوا۔ اس لئے کہ آخرت کا ڈر بھی تو انسان کو خائف اور ترساں (یعنی خوف زدہ اور پیاسا) بنا کر معرفت کے سچے چشمہ کی طرف کشاں کشاں لے آتا ہے اور سچی معرفت بغیر حقیقی خشیت اور خدا ترسی کے حاصل نہیں ہوسکتی۔ پس یاد رکھو کہ آخرت کے متعلق وسواس کا پیدا ہونا ایمان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے اور خاتمہ بالخیر میں فتور پڑ جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول ص ۳۴)
حضرت خلیفہ المسیح الثانی یوم حساب پر ایمان رکھنے سے متعلق فوائد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’مومنوں کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ یعنی وہ قربانیاں کرتے اور کرتے چلے جاتے ہیں۔ تو جو لوگ قربانیاں کرنے والے ہوتے ہیں وہ دنیا میں اپنا نام چھوڑجاتے ہیں۔ وہ مرجاتے ہیں مگر ان کا نام ان کی اولادوں کی حفاظت کرتا چلا جاتا ہے اور پھر اللہ تعالی کی طرف سے اگلے جہان میں جو انہیں لازوال بدلہ ملے گا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۷ ص ۳۳۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں تہہ دل سے آخرت میں یوم حساب پر یقین کامل رکھنے اور اس دن خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول ہونے کے لئے اعمال صالحہ بجا لانے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین