مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

آنحضرت ﷺ کے ساتھ اخلاص و فدائیت

رسول کریمﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کو جو عشق اور تعلق فدائیت تھا اس کی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ صرف چند ایک واقعات درج کر کے بتایا جاتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے صحابہؓ آپ پر فدا ہونے کے لیے ہر وقت اسی طرح تیار رہتے تھے جس طرح پروانہ شمع پر۔

مردوں کی فدائیت تو کجا مسلم خواتین کو بھی آنحضرتﷺ کے ساتھ ایسا بے نظیر اخلاص تھا کہ وہ حضور کے وجود کو اپنے تمام اقرباء سے زیادہ قیمتی تصور کرتی تھیں۔ جنگ احد سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرتﷺ بمع صحابہ کرام کے شام کے قریب مدینہ کو واپس ہوئے۔ چونکہ اس جنگ میں یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ آنحضرتﷺ نے شہادت پائی ہے اس لیے مدینہ کی عورتیں عالم گھبراہٹ میں گھروں سے نکل کر رستہ پر کھڑی تھیں۔ اور عالم بے تابی میں منہ اٹھا اٹھاکر دیکھ رہی تھیں کہ اس طرف سے کوئی آتا ہوا دکھائی دے اور وہ آنحضرتﷺ کے متعلق دریافت کریں۔ ایک انصاری عورت نے ایک شخص سے جو اسے احد سے واپس آتا ہوا دکھائی دیا آنحضرتﷺ کے متعلق دریافت کیا۔ اس کا دل چونکہ مطمئن تھا اور جانتا تھا کہ حضور صحیح و سالم ہیں۔ اس نے اس عورت کے سوال کا تو کوئی جواب نہ دیا لیکن یہ کہا کہ تمہارا باپ شہید ہوگیاہے۔ لیکن جس طرح اس مرد نے آنحضرتﷺ کے متعلق کوئی تشویش نہ ہونے کی وجہ سے اس عورت کے سوال کی طرف کوئی توجہ نہ دی اسی طرح اس عورت نے اپنی بے تابی کے باعث اس خبر کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے پھر حضور علیہ اسلام کے متعلق پوچھا۔ اس نے پھر اپنے اطمینان قلب کے باعث اس کی تشویش کا اندازہ نہ کرتے ہوئے اسے اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ کہا کہ تمہارا بھائی بھی شہید ہو چکاہے۔ مگر اسکے نزدیک یہ خبر بھی چنداں اہمیت نہ رکھتی تھی۔ اس کی نظر میں باپ اور بھائی بہن سب اس وقت ہیچ نظر آرہے تھے اور ایک ہی خیال تھا کہ اس محبوب حقیقی کی حالت سے آگاہ ہو۔ اس لیے اس نے اس خبر کو بھی نہایت بے التفاتی سے سنا اور نہایت بے تابی کے ساتھ پھر وہی سوال دھرایا۔ یعنی آنحضرتﷺ کے متعلق دریافت کیا کہ آپؐ کیسے ہیں لیکن اب بھی اس کو اس بے چاری کے جذبات کا احسا س نہ ہوسکا۔ اور بجائے اس کے کہ اسے آنحضرتﷺ کی خیریت کی خبر سنا کر اس کے دل کو راحت پہنچاتا اسے اس کے خاوند کی شہادت کی اندوہناک خبرسنائی۔ مگر اس خبر نے بھی جو اس کے خرمن امن کو جلا کر خاکستر کر دینے کے لیے کافی تھی اس شمع نبوت کے پروانہ پر کوئی اثر نہ کیااور اس کی توجہ کو نہ ہٹایا۔ اس نے پھر نہایت بے تابی کے ساتھ آنحضرتﷺ کی خیریت دریافت کی۔ اور بے چین ہو کر بولی کہ مجھے ان خبروں کی ضرورت نہیں۔ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون مرا، کون جیتا ہے مجھے تو صرف یہ بتاؤ کہ رسول خدا ﷺ کا کیا حال ہے۔ آخر جب اس کے پاس اس کے متعلقین کے تعلق کوئی اور خبر نہ رہی تو اس نے اسے بتایا کہ آنحضرتﷺ بفضلہ تعالیٰ بخیریت ہیں اور صحیح و سالم تشریف لا رہے ہیں۔ یہ جواب سن کر اس کی جان میں جان آئی او باوجود یکہ ایک لمحہ پہلے وہ اپنے تمام خاندان کی تباہی کی خبر سن چکی تھی لیکن آنحضرتﷺ کی سلامتی کی خبر نے تمام صدمات کو اس کے دل سے محو کردیا۔ اورایک ایسی راحت اور تسکین کی لہر اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کر گئی کہ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ کل مصیبۃ جلل۔ یعنی اگر آپ زند ہ ہیں تو پھر سب مصائب ہیچ ہیں۔

2

صحابہ کرام کا آنحضرتﷺ کے ساتھ عشق کا اندازہ ایک اور واقعہ سے کریں۔ غزوہ احد میں آنحضرتﷺ کاچہرہ مبارک زخمی ہوا تو حضرت مالک بن سنان نے بڑھ کر خون کو چوسا اور ادب کے خیال سے چوسے ہوئے خون کو زمین پر پھینکنا گوارا نہ کیا بلکہ اسے پی گئے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھنا چاہے جس کا خون میرے خون سے آمیز ہو تو وہ مالک بن سنان کو دیکھے۔ اس کے بعد حضرت مالک نے نہایت بہادری کے ساتھ لڑ کر شہادت حاصل کی۔

3

جنگ بدر کے موقعہ پر آنحضرتﷺ ایک تیر کے ساتھ اسلامی لشکر کی صفیں درست کر رہے تھے۔ ایک صحابی سواد نامی صف سے کچھ آگے بڑھے ہوئے تھے۔ آپ نے تیر کے اشارہ سے انہیں پیچھے ہٹنے کو کہا تو اتفاق سے تیر کی لکڑی آہستہ سے ان کے سینہ میں لگی۔ انہوں نے جرأت کر کے عرض کیا۔ کہ یا رسول اللہ آپ کو خدا نے حق و انصاف کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ مگر آپ نے مجھے ناحق تیر مارا۔ میں تو اس کا بدلہ لوں گا۔ صحابہ کرام ان کی اس بات پر دل ہی دل میں بہت پیچ و تاب کھا رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ایسے گستاخانہ کلمات ادا کرنے والی زبان کاٹ ڈالیں۔ گو ادب کی وجہ سے بولتے نہ تھے۔ ان کے یہ جذبات بھی اس عشق کا نتیجہ تھے جو ان کو اپنے ہادی ﷺ کے ساتھ تھا۔ لیکن اپنی محبت کے باعث وہ اس محبت کا اندازہ نہ کرسکتے تھے جس کا چشمہ حضرت سواد کے دل میں ابل رہاتھا۔ اور جس سے مجبور ہو کر انکے منہ سے یہ گستاخانہ الفاظ نکلے تھے۔ آنحضرتﷺ جو سراپا انصاف اور مساوات تھے کب اس بات کو گوارا کرسکتے تھے کہ کسی شخص کے دل میں خیال رہے کہ آپ نے اس سے زیادتی کی ہے۔ چنانچہ آپ نے فوراً فرمایا کہ بہت اچھا تم مجھ سے بدلہ لے لو۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرا سینہ ننگا تھا۔ جس وقت آپ کا تیر مجھے لگا۔ یہ سن کر آنحضرتﷺ نے بھی اپنے سینہ مبارک سے کپڑا ٹھا دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دنیائے عشق و محبت میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ حضرت سواد آگے بڑھے اور نہایت ادب کے ساتھ اپنے پیارے محبوب کے سینہ مبارک کو چوم لیا۔ اور اس طرح اپنی بے قرا ر روح کی تسکین حاصل کی۔ یہ دیکھ کر آنحضرتﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ سواد یہ تمہیں کیا سوجھی۔ حضرت سواد نے رقت بھری آواز میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ زبردست دشمن کے ساتھ مقابلہ ہے جنگ کا میدان ہے اور کوئی دم معرکہ کارزار گرم ہونے والا ہے خدا جانے کون زندہ رہتا ہے اور کسے شہادت کا درجہ نصیب ہوتا ہے معلوم نہیں۔ پھر اس مقدس وجو د کو دیکھنے کاموقعہ ملتا ہے یا نہیں۔ میرے دل میں یہ خیالات موجزن تھے کہ معلوم نہیں پھر اس مقدس و اطہر جسم کو چھونے کی سعادت کبھی حاصل ہو سکے گی یا نہیں اس لیے میں نے چاہا کہ مرنے سے قبل ایک مرتبہ آپ کے جسم مبارک کو تو چھولوں اور اس کے لیے میرے دل نے یہی صورت تجویز کی۔

4

حضرت سعد بن ربیع جنگ احد میں سخت زخمی ہوگئے تھے۔ جنگ کے بعد آنحضرتﷺ نے حضرت ابی بن کعب کو انکے متعلق دریافت حال کے لیے بھیجا۔ وہ تلاش کرتے ہوئے بڑی مشکل سے آپ تک پہنچے۔ حضرت سعد اس وقت حالت نزع میں تھے۔ حضرت ابی نے ان سے دریافت کیا کہ کوئی پیغام ہو تو دے دو۔ اب ہر شخص اپنے دل میں غور کرے کہ ایسی حالت اگر اسے پیش آئے تو وہ کیا پیغام دے گا۔ یقینا اس کے سامنے اس وقت اس کے بیوی بچے عزیز و اقارب مال اور جائیداد اور لین دین کے معاملات ایک ایک کر کے آتے جائیں گے۔ اور اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے جس قدر تفصیل سے ممکن ہو بیوی بچوں کے مستقبل، ان کے ساتھ اظہار محبت و الفت، تلقین صبر و رضا، جائداد و املاک کے مناسب انتظام وغیرہ وغیرہ امور کے متعلق ہدایات دینا ضروری سمجھے گا لیکن اس سعید نوجوان نے عین اس وقت جبکہ اسے اپنی موت نہایت ہی قریب نظرآرہی تھی اوروہ دیکھ رہا تھا کہ بہت تھوڑے عرصہ کے بعد اس کی آنکھیں بند ہو جائیں گی، طاقت گویائی سلب ہو جائے گی اور اس کے لیے اپنے متعلقین کے واسطے کوئی پیغام دینا ناممکن ہو جائے گا۔ لیکن باوجود اس کے اس وقت نہ اس کے سامنے اپنی بیوی کی بیوگی آئی، اور نہ اس کے سامنے بچوں کی یتیمی، کہ ان کے تعلق میں کوئی جملہ زبان سے نکالتا۔ اور اس نے جو پیغام دیا وہ یہ تھا کہ میرے بھائی مسلمانوں کو میرا پیغام پہنچا دینا اور میری قوم سے کہنا کہ اگر تمہاری زندگی میں رسول خداﷺ کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو یاد رکھنا کہ خدا تعالیٰ کے حضور تمہارا کوئی جواب مسموع نہ ہوگا۔ یہ الفاظ کہے اور جان دے دی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

5

ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے ایک بدو سے گھوڑا خریدا۔ اور سودا طے ہوگیا لیکن لوگوں کو اس کا علم نہ تھا۔ اس لیے حضور جب تشریف لے جا رہے تھے تو کسی نے اسے زیادہ قیمت پیش کر دی۔ اس نے چاہا کہ آنحضرتﷺ کے ساتھاس کا جو سودا طے ہو چکا ہے اسے کسی بہانہ سے فسخ کر دے۔ چنانچہ اس نے حضور کو آواز دی کہ آپ گھوڑا لیتے ہیں تو لیں ورنہ میں اسے کسی اورکے پاس بیچ دوں گا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم تو میرے پاس گھوڑا فروخت کر چکے ہو اور سودا مکمل ہو چکاہے۔ مگراس نے انکار کیا اور کہا کہ ہرگز نہیں میں نے کوئی سودا نہیں کیا۔ اگر جیسا کہ آپؐ کہتے ہیں۔ سودا ہو چکا ہے تو کوئی گواہ پیش کریں۔ عین اس وقت ایک صحابی حضرت خزیمہ بن ثابت وہاں آنکلے اور یہ گفتگو سنی۔ جب آنحضرتﷺ سے اس شخص نے گواہ طلب کیا تو حضرت خزیمہ نے آگے بڑھ کر کہا کہ میں گواہ ہوں کہ یہ سودا ہو چکا ہے۔ آنحضرتﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کس طرح شہادت دیتے ہوکیا تم سودا ہونے کے وقت موجود تھے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہؐ جب ہم آپؐ پر ایمان لے آئے ہیں تو اس بات پر یقین کر کے ایمان لائے ہیں کہ حضورؐ راستباز اور پاکبازہیں۔ اور جب ایسی اہم باتوں میں آپ کی صداقت کی تصدیق کر چکے ہیں تو پھر ایسی معمولی سی بات میں آپؐ کے راستی پر ہونے کی تصدیق میں کوئی تامل کیسے ہوسکتا ہے۔

6

جنگ احد کے بعد بعض لوگوں کا آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کراپنے قبائل میں تعلیم دین کے لیے قراء بھیجنے کی درخواست کرنے اور پھر ان کو ساتھ لے جاکر بئر معونہ کے مقام پر شہید کر دینے کے واقعہ کا ذکر اس کتاب میں کسی دوسری جگہ آچکا ہے۔ ان ستر قراء میں سے صرف دو زندہ بچے تھے جنہیں کفارنے اسیر کرلیا تھا۔ اور ان میں سے ایک حضرت زیدؓ تھے جنہیں صفو ان بن امیہ کے پاس فروخت کردیا گیا۔ صفوان نے انہیں اپنے باپ کا قاتل سمجھ کر اس لیے خریدا تھا کہ شہید کر کے اپنے جذبہ انتقام کو فرو کرے۔ چنانچہ اس نے ان کے شہید کرنے کا انتظام کیا۔ انہیں مقتل میں لے جایا گیا۔ اورعین اس وقت جبکہ وہ موت سے ہم آغوش ہونے کے لیے تیار کھڑے تھے ایک شخص نے کہاکہ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اس وقت تمہاری جگہ محمد ﷺ ہمارے قبضہ میں ہوں اور تم اپنے گھر میں آرام سے بیوی بچوں میں بیٹھے ہو تو تمہیں یہ بات پسند ہے یا نہیں۔ حضرت زید نے نہایت لاپروائی کے ساتھ جوا ب دیا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو۔ آنحضرتﷺ کا نعوذ باللہ ظالموں کے پنجہ میں اسیر ہو کر مقتل میں کھڑا ہونا تو درکنار خدا کی قسم! میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرسکتا کہ محمد ﷺ کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھے۔ اور میں گھر میں بیٹھا ہوں۔ ابو سفیان یہ جواب سن کر عش عش کر اٹھا اور کہنے لگا کہ محمد (ﷺ) کے ساتھی آپ سے جتنی محبت کرتے ہںئ دنیا میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔

7

صحابہ کرام سفر و حضر میں آنحضرتﷺ کی حفاظت کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔ ایک سفر کے موقعہ پر ایک جگہ پڑاؤ ہوا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ پانی کا انتظام کرلو ورنہ صبح تکلیف اٹھاؤ گے۔ چنانچہ لوگ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر نکل گئے۔ آنحضرتﷺ اپنے اونٹ پر تشریف فرما تھے کہ نیند کا غلبہ ہوا اور آپ سو گئے۔ حضرت ابوقتادہ پاسبانی کے لیے پاس بیٹھے رہے اور حضور نیند میں جس طرف جھکتے ابو قتادہ اس طرف سہارا دے دیتے۔ تا حضور کی استراحت میں فرق نہ آئے۔ ایک دفعہ جو سہارا دیا تو حضور کی آنکھ کھل گئی۔ اور آپ نے فرمایا۔ ابو قتادہ تم کب سے میرے ساتھ ہو۔ انہوں نے جواب دیا شام سے۔ آپؐ نے فرمایا۔ حفظک اللّٰہ کما حفظت رسولہ یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے جس طرح تم نے اس کے رسول کی حفاظت کی ہے۔

8

حضرت انسؓ کے متعلق پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ آٹھ دس سال کی عمر میں آنحضرتﷺ کی خدمت پر مامور ہوئے تھے لیکن اس کمسنی کے باوجود آپ پر پروانہ وارفدا تھے۔ اور نہایت محبت و اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ نماز فجر سے قبل اٹھ کر مسجد نبوی میں پہنچتے۔ اور حضور کے تشریف لانے سے قبل حضور علیہ السلام کے لیے پانی وغیرہ کا خاطر خواہ انتظام کر کے حاضر رہتے۔

9

حضرت ابو طلحہؓ نے بیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ جنگ احد میں جب بعض مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے کفار نے دوبارہ حملہ کیا تو آنحضرتﷺ کے گردوپیش بہت تھوڑے آدمی رہ گئے تھے۔ حضرت طلحہؓ نے اس وقت نہایت جان نثاری کا ثبوت پیش کیا۔ اور اپنی جان پر کھیل کر حضور کی حفاظت کرتے رہے۔ دشمن کی طرف سے جو تیر آتا اسے اپنے ایک ہاتھ پر روکتے تھے اور جب نیزا آکرلگتا تو ہاتھ کو ادھر ادھر جنبش دینا تو درکنار منہ سے بھی اف تک نہ کرتے تھے۔ مبادا حرکت پیدا ہو اورہاتھ سامنے سے ہٹ جائے اور اس طرح رسول کریم ﷺ کو کوئی گزند پہنچ جائے۔ آپ نے اسی ایک ہاتھ پر اس قدر تیر کھائے کہ وہ بالکل شل ہوگیا۔

10

جنگ بدر کے موقعہ پر آنحضرتﷺ نے ارشاد الٰہی کے ماتحت صحابہ کرام کو یہ اطلاع نہ دی تھی کہ یقینا کوئی جنگ پیش آنے والی ہے۔ جب مدینہ سے باہر آگئے تو صحابہ کرام کو جمع کر کے تمام حالات ان کو بتائے اور ان سے مشورہ دریافت فرمایا کہ اب ہمیں کیا راہ اختیار کرنی چاہیے۔ اکثر صحابہؓ نے نہایت پرجوش تقریریں کیں اور کہا کہ ہمارے مال اور جانیں سب راہِ الٰہی میں حاضر ہیں۔ ہم ہر وقت اور ہر میدان میں خدمت کے لیے تیار ہیں۔ مگر آنحضرتﷺ نے پھر فرمایا کہ لوگو! مشورہ دو۔ کیا کرنا چاہیے۔ اس پر صحابہ نے پھر اپنی فدائیت اور جاں نثاری کا یقین دلایا۔ اور ایک صحابی حضرت مقداد بن اسود نے نہایت پرجوش تقریر کرتے ہوئے کہا۔ یا رسول اللہ! ہم موسیٰ کے اصحاب کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ جا تو اور تیرا رب لڑتے پھرو۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ جبکہ آپؐ جہا ں بھی چاہتے ہیں ہمیں لے چلیں ہم آپ کے دائیں لڑیں گے اوربائیں لڑیں گے، آگے لڑیں گے اورپیچھے لڑیں گے اوردشمن آپ تک نہ پہنچ سکے گا۔ جب تک کہ ہماری لاشوں پر سے نہ گزرے مگر ان تقریروں کے باوجود آنحضرتﷺ نے پھر فرمایا کہ لوگو! مشورہ دو کہ کیا کرنا چاہیے۔ اس پر ایک انصاری حضرت سعدبن معاذ نے کہا کہ یا رسول اللہ شاید آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ اور بات بھی دراصل یہی تھی۔ انصار کے ساتھ چونکہ معاہدہ یہی تھا کہ مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں و ہ دفاع کریں گے اور اب مدینہ سے باہر لڑائی کا امکان تھا۔ آنحضرتﷺ کو اس معاہدہ کا خاص خیال تھا اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ انصار کو اس سے زیادہ کے لیے مجبور کریں۔ جتنی ذمہ داری اٹھانے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا اس لیے آپ انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے۔ حضرت سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ خدا کی قسم جب ہم آپ کو سچا سمجھ کر آپ پر ایمان لے آئے تو اب اس معاہدہ کاکیا ذکر وہ تو اس وقت تک کے لیے تھا جب تک کہ ہمیں آپؐ کی پوری معرفت حاصل نہ تھی۔ اب تو ہم آپ کو خود دیکھ چکے ہیں اس لیے آپؐ جہاں فرمائیں ہم آپ کے ساتھ چلیں گے۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ معبوث فرمایا اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کا ارشادفرمائیں تو ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ ہٹے گا۔

11

حضرت زبیر بن العوامؓ صرف سولہ برس کے تھے جب اسلام قبول کیا لیکن حد درجہ مستقل مزاج اور جان نثار تھے۔ آنحضرتﷺ کے ساتھ خاص فدائیانہ تعلق رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے مشہور کر دیا کہ مشرکین نے آنحضرتﷺ کو نعوذ باللہ گرفتار کرلیاہے۔ حضرت زبیر کو یہ خبرپہنچی تو بے تاب ہو گئے اور باوجود یکہ مکہ میں مسلمانوں کی حالت اس وقت نہایت کمزور تھی آپ تلوار لے کر لوگوں کو چیرتے ہوئے حضور کی خدمت میں جا پہنچے۔ حضورؐ نے دیکھا تو دریافت فرمایا کہ کیا بات تھی۔ آپ نے سارا واقعہ سنایا۔ تو حضور بہت خوش ہوئے۔

12

پہلے بھی یہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ صحابہ کرام آنحضرتﷺ کی حفاظت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ جنگ احد میں اس خاص نازک موقعہ پر جن لوگوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر اپنے محبوب رسول ﷺ کی حفاظت کی سعادت حاصل کی ان میں سے ایک حضرت عبدالرحمن بن عوف تھے۔ اس معرکہ میں آپ کے بدن پر بیس زخم آئے۔ مگر آپ نے قدم پیچھے نہ ہٹایا۔ پاؤں میں ایک ایسا کاری زخم لگا تھا کہ مندمل ہونے کے بعد بھی اس کا اثرقائم رہا اور ہمشہ کے لیے پاؤں لنگڑا ہوگیا تھا۔ آنحضرتﷺ جب کبھی باہر تشریف لے جاتے تو اکثر حضرت عبدالرحمن بھی پیچھے پیچھے ہولیتے تھے۔ ایک نخلستان میں پہنچ کر آنحضرتﷺ سجدہ میں گر گئے۔ اور اس قدر لمبا سجدہ کیا کہ حضرت عبدالرحمن کو خیا ل گزرا کہ شاید روح اطہر قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ محبت کی وجہ سے یہ خیال آتے ہی بے تاب ہوگئے اور گھبرا کر قریب آئے۔ پاؤں کی آہٹ پاکر آنحضرتﷺ نے سر اٹھایا۔ اور دریافت فرمایا کہ کیابات ہے حضرت عبدالرحمن نے اپنی گھبراہٹ کی وجہ بیان کی۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ یہ سجدہ شکر تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر درود بھیجے گا وہ خود اس پر درود بھیجے گا۔

13

آنحضرتﷺ جب کہیں باہر تشریف لے جاتے تو حضرت بلالؓ خدمت کے لیے ہمرکاب رہتے اورہاتھ میں بلم لے کر آگے آگے چلتے تھے۔ آپ کی ناداری او افلاس ایک معروف بات ہے۔ تاہم آنحضرتﷺ کے ساتھ جو عشق تھا اس کے اظہار کے لیے آپؐ کی دعوت کا بہت شوق رہتا تھا۔ چنانچہ محنت ومزدوری سے کچھ نہ کچھ اس غرض سے پس انداز کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ نہایت اعلیٰ درجہ کی خوش ذائقہ کھجوریں لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بلال یہ کہاں سے حاصل کیں۔ عرض کیا، یا رسول اللہ میرے پاس کھجوریں تو تھیں مگر بہت خراب اور حضو ر کے پیش کرنے کے ناقابل۔ اس لیے میں نے ان کھجوروں کے دو صاع دے کر یہ ایک صاع حاصل کی ہیں۔ تا حضور کو پیش کرسکوں۔ آئندہ کے لیے گو حضور نے اس قسم کے سودے سے منع فرمادیا تاہم اس سے آنحضرتﷺ کے ساتھ آپ کی محبت کا باآسانی اندازہ کیا جاسکتاہے۔

14

حضرت زید بن حارثؓ گو ایک اچھے خاندان کے نونہال تھے مگر اتفاق ایسا ہوا کہ ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے بچپن ہی میں ان کی متاع آزادی کو چھین لیا۔ اور عکاظ کے بازار میں فروخت کے لیے لے آئے۔ جہاں حکیم بن حزام نے خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے حضور پیش کردیا اور اس طرح آپ آنحضرتﷺ کے حضور پہنچے۔

ایک دفعہ ان کے قبیلہ کے بعض لوگ بہ نیت حج مکہ میں آئے تو انہیں پہچان لیا اور جاکر ان کے والد کو خبر دی۔ جس پر اس کا خوش ہونا ایک طبعی بات تھی چنانچہ وہ اپنے بھائی کو ساتھ لے کر مکہ میں پہنچا۔ اور آنحضرتﷺ سے بصد منت و الحاح عرض کیا کہ میرے لڑکے کو آزاد کردیں۔ اور جو فدیہ چاہیں لے لیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ فدیہ کی ضرورت نہیں زید کو بلا کر پوچھ لیاجائے اگر وہ جانا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

چنانچہ حضرت زید کو بلایا گیا۔ اور آنحضرتﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم ان لوگوں کو جانتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ میرے والد اور چچا ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا اگر ان کے ساتھ جانا چاہو تو جاسکتے ہو۔ ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ بچپن میں ہی والدین، عزیز و اقارب اور وطن عزیز سے چھوٹ جانے والے کو اتنے لمبے عرصہ کی مایوسی کے بعد جب پھر ان سے ملنے کا موقعہ ملے اور پھر اپنے محبو ب وطن میں جاکر ماں باپ، بہن بھائیوں دوسرے رشتہ داروں، دوست، احباب اور بچپن کے ہم جولیوں سے آزادانہ طور پر ملنے جلنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ اس کے رستہ میں حائل نہ ہو تو اس کے جذبات ایسے وقت میں کیا ہوسکتے ہیں۔ سامنے باپ اور چچا کھڑے تھے اور اس یقین کے ساتھ ان کے دل بھرے ہوئے تھے کہ ہمارا لخت جگر اب ہمارے ساتھ جائے گا۔ جدائی کی دلگداز گھڑیاں ا ب ختم ہونے کو ہیں اور پھر اس کا کوئی امکان بھی نہیں ہوگا۔ وہ تاعمر ہمارے پاس ہی رہے گا۔ وہ یہ وہم بھی نہ کرسکتے تھے کہ جب زید کو آنحضرتﷺ جانے کا اختیار دے رہے ہیں تو اسے اس میں کوئی تامل ہوسکتا ہے مگر حضرت زید نے جواب دیا کہ میں حضور پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ آپ ہی میرے باپ اور ماں ہیں۔ آ پ کے در کو چھوڑ کر میں کہیں جانا پسند نہیں کرتا۔ اس جواب کو سن کر ان کے والد اور چچا محو حیرت ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ زید کیا تم ہم پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو۔ حضرت زید نے کہا کہ ہاں مجھے اس ذات پاک میں ایسی خوبیاں نظر آتی ہیں کہ اس پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔

15

اہل عرب کا خیال تھا کہ کسی کا پاؤں سن ہو جائے تو اگر وہ اپنے محبوب کو یا دکرے تو یہ کیفیت دور ہوجاتی ہے۔ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر کا پاؤں سن ہوا تو کسی نے کہا کہ اپنے محبوب کو یاد کریں۔ تو انہوں نے جھٹ کہا۔ یا محمد۔

یہ ایک ذوقی بات ہے۔ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے جس سے صحابہؓ کی فدائیت اور آنحضرتﷺ کے ساتھ ان کے انتہائی عشق کی کیفیت معلوم ہوتی ہے۔

16

کفار جب آنحضرتﷺ پر تشدد کرتے تو بسا اوقات حضرت ابوبکرؓ اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر آپ کی حفاظت کی سعادت حاصل کرتے۔

ایک دفعہ آنحضرتﷺ خانہ کعبہ میں تبلیغ فرما رہے تھے کہ قریش سخت برہم ہوئے۔ اور آپ پر حملہ آور ہوئے۔ اس وقت قریش کے غصہ کا پارہ اگرچہ انتہا پر پہنچا ہوا تھا اور ان سے تعرض کرنا گویا اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں ڈالنا تھا تاہم حضرت ابوبکرؓ کے جذبہ جان نثاری نے جوش مارا اور آپؐ نے آگے بڑھ کر قریش کو بہت لعنت ملامت کی اور فرمایا۔ خدا تم لوگوں سے سمجھے کیا تم آپؐ کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ آپ ایک خدا کا نام لیتے ہیں۔

17

ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک کافر عقبہ بن معیط نے اپنی چادر کا حضور کے گلے میں پھندا ڈال ڈیا لیکن عین اس وقت حضرت ابوبکرؓ پہنچ گئے۔ اور اس بدبخت کی گردن پکڑ کر آپ سے علیحدہ کی اور فرمایا: کیا تم اس شخص کو قتل کردو گے جو تمہارے پا س خدا تعالیٰ کی کھلی نشانیاں لایا ہے اور کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔

18

آنحضرتﷺ جب ہجرت کے اراد ہ سے مکہ سے نکلے اور غار ثور میں پناہ گزین ہوئے تو اس غار کے تمام سوراخ اگرچہ نہایت احتیاط کے ساتھ بند کر دیے گئے تاہم ایک سوراخ باقی رہ گیا۔ آنحضرتﷺ حضرت ابو بکر کے زانو پر سر مبارک رکھ کر استراحت فرمارہے تھے کہ اتفاقاً اس سوراخ میں سے ایک زہریلے سانپ نے سر نکالا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے محبوب آقاکے آرام میں کوئی معمولی خلل بھی گوارا نہ کرتے ہوئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر خوشی اور مسرت کے جذبات سے اس سوراخ پر پاؤں رکھ دیا جس پر سانپ نے کاٹ لیا۔ زہر اثرکرنے لگا مگر آپ نے پھر بھی حضور کے آرام کا اس قدر خیال رکھا کہ اف تک نہ کی۔ اور معمولی سی معمولی حرکت بھی آپ سے سرزد نہ ہوئی۔ تا آنحضرتﷺ کے آرام میں خلل نہ آئے۔ لیکن درد کی شدت بے قرار کر رہی تھی۔ اس لیے آنکھوں سے آنسو گر گئے۔ جن کا ایک قطر ہ آنحضرتﷺ کے رخسار مبارک پر گرا۔ آپ کی آنکھ کھل گئی اور دریافت فرمایا کہ کیا معاملہ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ سانپ نے ڈس لیا ہے۔ آنحضرتﷺ نے لعاب دہن اس مقام پر لگایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے زہر دور ہوگیا۔

19

حضرت ام عمارہ ایک صحابیہ تھیں۔ غزوہ احد میں جب ایک اچانک حملہ کی وجہ سے بڑے بڑے بہادران اسلام کے پاؤں تھوڑے سے وقت کے لیے اکھڑ گئے تو وہ آنحضرتﷺ کے پاس آپ کی حفاظت کے لیے پہنچ گئیں۔ کفار آپ کو گزند پہنچانے کے لیے نہایت بے جگری کے ساتھ حملہ پر حملہ کر رہے تھے۔ ادھر آپ کے گرد بہت تھوڑے لوگ رہ گئے تھے۔ جو آپ کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں پر کھیل رہے تھے۔ ایسے نازک اور خطرناک موقعہ پر حضرت ام عمارہ آپ کے لیے سینہ سپر تھںپ۔ کفار جب آنحضرتﷺ پر حملہ کرتے تو وہ تیر اور تلوار کے ساتھ ان کو روکتی تھیں۔ آنحضرتﷺ نے خود فرمایا کہ میں غزوہ احد میں ام عمارہ کو برابر اپنے دائیں اور بائیں لڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ ابن قیمہ جب آنحضرتﷺ کے عین قریب پہنچ گیا تو اسی بہادر خاتون نے اسے روکا۔ اس کمبخت نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ اس جانباز خاتون کا کندھا زخمی ہوا۔ اور اس قدر گہرا زخم آیا کہ غار پڑ گیا۔ مگر کیا مجال کہ قدم پیچھے ہٹا ہو بلکہ آگے بڑھ کر اس پر خود تلوار سے حملہ آور ہوئیں اور ایسے جوش کے ساتھ اس پر وار کیا کہ اگر وہ دوہری زرہ نہ پہنے ہوئے ہوتا تو قتل ہوجاتا۔

20

آنحضرتﷺ کے ساتھ آپ کے صحابہ کے اخلاص کو دیکھ کر وہ عیسائی مورخین بھی جو مسلمانوں اور ان کے مذہب پر خواہ مخواہ اعتراض پیدا کرتے رہتے ہیں اس کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکے۔ چنانچہ ایک عیسائی مورخ لکھتا ہے کہ

“عیسائی اس کو یاد رکںی تو اچھا ہو کہ محمد کے مسائل نے وہ درجہ نشہ دین کا آپ کے پیروؤں میں پیدا کردیا تھا کہ جس کو حضرت مسیح کے ابتدائی حواریوں میں تلاش کرنا بے سود ہے۔ جب حضرت مسیح کو یہود صلیب پر لٹکانے گئے تو ان کے پیرو بھاگ گئے اور ان کا نشہ دینی جاتا رہا۔ اور اپنے مقتدا کو موت کے پنجہ میں گرفتار چھوڑ کر چل دئیے۔ برعکس اس کے محمدﷺ کے پیرو اپنے مظلوم پیغمبر کے گرد آئے اور اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر کل دشمنوں پر آپ کو غالب کردیا”۔

آنحضرتﷺ کے ساتھ آپ کے صحابہ کے عشق و فدائیت کے واقعات سے یہ بات ظاہر ہے کہ صحابہ کرام آپ کی حفاظت کے لیے ظاہری انتظامات سے بھی غافل نہ ہوتے تھے۔ اور کبھی اس خیال میں نہ رہتے تھے کہ جب آپ اس قدر مقرب بارگاہ الٰہی ہیں تو وہ خود آپ کی حفاظت کرے گا۔ اور آنحضرتﷺ کے متعلق ایسے واقعات اور انتظامات کی موجودگی کے باوجود حیرت ہے کہ آج کل بعض لوگ ایسے انتظامات کو توکّل کے منافی قراردیتے ہوئے غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ اور یہ نہیں سوچتے کہ جب آپ کے لیے بھی ایسے انتظامات ضروری تھے تو آپ کے جانشین یا اس کے خلفاء کے لیے وہ کیونکر ناجائز ہو سکتے ہیں۔

بے شک یہ صحیح ہے کہ اس زمانہ میں جنگیں درپیش نہیں ہیں لیکن کیا حفاظت صرف جنگ کے موقع پر ہی ضروری ہوتی ہے۔ اور عام حالات میں نہیں۔ کیا ہمارے زمانہ میں باوجود ایک آئینی حکومت ہونے کے حملوں اور قاتلانہ حملوں کے واقعات نہیں ہوتے۔ بالخصوص جب مذہبی مخالفت انتہائی شدت پر ہو۔ اور مطلب پرست مولویوں نے جاہل عوام الناس کو مذہب کے نام پر سخت مشتعل کر رکھا ہو۔ حتیٰ کہ اپنے مخالفوں کی جان لینے کے جواز کے فتوے صادر کردئیے ہوں۔ تو ان کی موجودگی میں حفاظت کے معمولی انتظامات جنہیں زیادہ سے زیادہ احتیاطی تدابیر کہا جاسکتا ہے کیونکر توکّل کے منافی سمجھے جاسکتے ہیں اور ان پر ایک دیانت دار اور خدا ترس انسان کیونکر معترض ہو سکتا ہے۔

پس یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اگر اس قسم کا کوئی انتظام کیا جائے تو و ہ تقویٰ اور توکّل کے منافی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ نہ صرف یہ جائز اور بالکل ضروری ہے بلکہ اس سے غفلت برتنا اور آنحضرتﷺ کے نور کے حقیقی مشعل برداروں کی جان کی حفاظت کے انتظامات سے غفلت برتنا بہت بڑا قومی جرم ہے۔

حوالہ جات

  1.  (سیرۃ ابن ہشام ج3 ص105)
  2.  (سیر انصار جلد 1 ص185)
  3.  (سیرۃ ابن ہشام ذکر غزوہ بدر)
  4.  (موطا کتاب الجہاد باب ترغیب فی الجہاد )
  5.  (مسند احمد بن حنبل ج5 ص215)
  6.  (سیر انصارجلد 1 ص363)
  7.  (مسند احمد بن حنبل ج5 ص298)
  8.  (سیر انصارجلد ۱ ص168، 169)
  9.  (سیر انصارجلد 1 ص160)
  10.  (سیرۃ ابن ہشام ذکر غزوہ بدر)
  11.  (اسد الغابہ ج2 ص130)
  12.  (مسند احمد بن حنبل ج1ص191)
  13.  (بخاری کتاب الکفالہ باب اذا باع الو کیل شیئا۔۔۔ )
  14.  (ابن سعد ج1 ص28)
  15.  (ادب المفرد )
  16.  (بخاری کتاب المناقب باب مناقب ابو بکر)
  17.  (بخاری کتاب بنیان الکعبہ باب ذکر ما لقی النبی ﷺ و اصحابہ من المشرکین بمکۃص )
  18.  (زرقانی ج1 ص335)
  19.  (سیرۃ ابن ھشام ذکر احد)