مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے
آنریری قومی خدمت و بے نفسی
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب امور سلطنت کی سرانجام دہی کے لیے عمال کی ضرورت بکثرت پیش آنے لگی تو انہیں عمال کے انتخاب میں ایک بہت بڑی دشواری یہ پیش آئی کہ یہ لوگ حق الخدمت لینا زہدو اتقاء کے منافی سمجھتے تھے اور قومی خدمت بغیر معاوضہ ادا کرنا پسندکرتے تھے۔
1
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن سعدی حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ کیا مجھے خبر نہیں کہ آپ بعض ملکی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ لیکن جب کوئی معاوضہ پیش کیا جاتا ہے تو اسے لینے سے انکار کردیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ نے جواب دیا کہ میرے پاس گھوڑے ہیں اور میری مالی حالت اچھی ہے اس لیے چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی خدمت کروں۔
2
حضرت عبداللہ بن ارقم آنحضرتﷺ کے زمانہ میں مراسلات کی کتابت پر مامورتھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ اور پھرحضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی اس خدمت کو سرانجام دیتے رہے۔ بلکہ حضرت عمرؓ نے انہیں خزانچی بھی مقرر کردیا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جب سبکدوش ہوئے تو انہوں نے تیس ہزار یا بعض روایات کے مطابق دو لاکھ درہم بطور معاوضہ پیش کیے۔ مگر آپ نے لینے سے انکار کردیا اورکہا کہ میں نے یہ کام خدا تعالیٰ کی رضاکے لیے کیا ہے۔ اوروہی مجھے اسکا اجر دے گا۔
3
اس سے کس کو انکار ہوسکتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی خدمت اسلام کی سب سے بڑی خدمت تھی۔ کیونکہ حضورؐ کی ذات سے ہی اسلام کا قیام وابستہ تھا۔ اس لیے صحابہؓ کرام آنحضرتﷺ کی خدمت بھی بڑے شو ق سے کرتے تھے۔ اور اس کے لیے کوئی معاوضہ پسند نہ کرتے تھے۔ حضرت ربیعہ بن سلمیٰ کے متعلق آتا ہے کہ آپ دن رات خدمت کے لیے آپؐ کے حضور کمربستہ رہتے تھے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر جب آنحضرتﷺ اپنے گھر تشریف لے جاتے تو حضرت ربیعہ دروازہ پر بیٹھ جاتے۔ تااگر حضور علیہ السلام کو کوئی ضرورت پیش آئے تو اسے پورا کرسکیں۔ ایک بار آنحضرتﷺ نے ان کو خدمت کا کچھ معاوضہ دینا چاہا۔ لیکن انہوں نے انکارکردیا اورکہا۔ یا رسول اللہ مجھے صرف اس چیز کی ضرورت ہے کہ خداتعالیٰ کے حضور میری شفاعت کردیں کہ آگ سے نجات ہو جائے۔
ایک بار آنحضرتﷺ نے ان کو شادی کرنے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے کہا کہ چھنجٹ حضور کی خدمت گزاری میں مخل ہوگا۔ اس لیے مجھے پسند نہیں۔
4
ان کے علاوہ اور بھی کئی صحابہؓ تھے۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں خدمت نبویؐ کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔ حتیٰ کہ معمولی خدمات بھی نہایت اہتمام سے ادا کرتے تھے۔ آنحضرتﷺ کو ٹھنڈا پانی بہت مرغوب تھا۔ چنانچہ ایک صحابی نے یہ خدمت اپنے ذمہ لے رکھی تھی اور آپ کے لیے پانی ٹھنڈا کر کے لایا کرتے تھے۔
5
آج کل یہ مرض عام ہے کہ جو کام کسی کے سپرد کیاجائے وہ پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اسے مالی لحاظ سے کیا فائدہ ہوگا۔ لیکن صحابہ کرام اس قسم کے خیالات سے بالاتر تھے۔ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے حضرت عمروبن العاص سے فرمایا۔ کہ میں تم کو ایک مہم پر بھیجنا چاہتا ہوں۔ خدا تعالیٰ مالِ غنیمت دے گا تو اس میں سے کثیر حصہ تمہیں ملے گا۔ آ پنے جواب دیا کہ میں مال کے لیے مسلمان نہیں ہوا۔ صرف اس لیے اسلام لایا ہوں کہ آپ کا فیض صحبت حاصل ہو۔
6
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی آنحضرتﷺ کے ایک خادم تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے چاہا کہ ان کو کچھ معاوضہ دیں۔ چنانچہ فرمایا کہ کچھ مانگو۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ یا رسول اللہ میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں اورکچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا کچھ اور۔ تو انہوں نے کہاکہ بس یہی ایک چیز چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ کثرت سے نماز پڑھو۔ تو تمہیں دولت نصیب ہوگی۔
7
بے نفسی اور کسی طمع و لالچ سے بے نیاز ہو کر قومی خدمت سرانجام دینے کی تاریخ میں حضرت خالد بن ولید کا واقعہ سب سے زیادہ ممتاز ہے۔ بعض وجوہ کی بناء پر حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت کی ابتدء میں ہی ان کو لشکر اسلامی کی سپہ سالاری کے عہدہ جلیلہ سے معزول کر دیا اور حضرت ابوعبیدہ کے ماتحت کردیا۔ حضرت خالدبن ولید کی جنگی خدمات، بہادری، جرات، تدبر اورمعاملہ فہمی کے واقعات سے تاریخ اسلام کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ یہ انہی کی جانبازانہ مساعی کا نتیجہ تھا کہ جنگ یرموک میں رومی امپریلزم کی کمر ہمت ٹوٹ گئی۔ اور قیصر کا ایوان مسلمانوں کے رعب سے کانپنے لگا۔ لیکن اس کے باوجود حضرت عمرؓ نے ان کا عزل ضروری سمجھا اوراس کے احکام صادر کردئیے۔ حضرت خالد نے نہایت کشادہ پیشانی کے ساتھ خلیفہ وقت کے احکام کی تعمیل کی۔ اور دل میں کوئی انقباض بھی پیدا نہیں ہونے دیا۔ حضرت ابوعبیدہ کے ماتحت ہو کر بھی وہ اسی جانبازی اور سرفروشی کے ساتھ میدان جہاد میں دادِ شجاعت دیتے نظر آتے ہیں۔ جس طرح اپنے سپہ سالار ہونے کے وقت میں تھے۔ دراصل یہی جذبہ ہے جسکے ماتحت قومی خدمات کوئی نتیجہ پیدا کرسکتی ہیں۔ جو لوگ معمولی اور برائے نام عہدوں کی وجہ سے قومی و ملی کاموں میں رکاوٹیں ڈالتے اور ایسے بگڑ جاتے ہیں کہ بجائے کسی امداد کے تخریبی مساعی میں حصہ لینے لگتے ہیں۔ و ہ قوم کے لیے ایک لعنت ہیں۔ قومی خدمت میں خلوص، بے نفسی اور شہرت سے بُعد ہونا چاہیے۔ اور جو قومی کام کسی کے سپردہو اسے نفسانی جذبات سے بلند و بالا رہ کر ادا کرنا چاہیے۔ اور یہی و ہ سپرٹ ہے جو کسی قوم کی کامیابی کی ضامن ہوسکتی ہے۔
حوالہ جات
- (مسند احمد ج1 ص 17)
- (اسد الغابہ ج3 ص68)
- (مسند احمد ج4ص 58)
- (مسلم کتاب الزہد) ؟
- (ادب المفرد باب اعمال الصالح)
- (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)