مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے
ادائیگی قرض
قرض کی وصولی میں مقروض کے ساتھ آسانی اور سہولت کے معاملہ کی مثالیں آپ پڑھ چکے ہیں۔ ا س کا دوسرا حصہ اپنے قرض کی ادائیگی ہے۔ صحابہ کرام جہاں دوسروں سے اپنے قرض کی وصولی میں سہولت کا معاملہ کرتے تھے وہاں اپنے قرض ادا کرنے میں نہایت محتاط تھے۔ چند واقعات درج ذیل ہیں۔
1
حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک مرتبہ کسی شخص سے ایک لونڈی خریدی۔ لیکن قیمت ابھی بے باق نہ ہوئی تھی کہ و ہ شخص مفقود الخبر ہوگیا۔ حضرت عبداللہ ایک سال تک اس کی تلاش میں رہے لیکن و ہ نہ ملا۔ آخر جب اس کے ملنے سے مایوس ہوگئے تو ایک ایک دو دو درہم کر کے اس کی طرف سے صدقہ کردیا۔ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر وہ واپس آگیا تو اسے بھی قیمت ادا کردوں گا۔ اور یہ صدقہ میری طرف سے ہوگا۔
2
حضرت زبیر بن العوام کے متعلق یہ ذکر کیا جاچکاہے کہ باوجود تمول و ثروت کے وفات کے وقت آپ پر بائیس لاکھ روپیہ قرض تھا۔ آپ جب ایک جنگ میں شرکت کے لیے روانہ ہونے لگے تو گھر والوں سے کہا کہ مجھے اپنے قرض کا سب سے زیادہ خیال ہے۔ اگر میں شہادت پا ؤں تو میرا مال و متاع فروخت کر کے سب سے پہلے میرا قرض ادا کرنا۔
3
حضرت زبیرؓ کی مذکورہ بالا وصیت کے مطابق ان کے صاحبزادہ کی طرف سے مسلسل چار سال تک حج کے موقعہ پر یہ اعلان کرایا جاتا رہا کہ میرے والد کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو مجھ سے وصول کرے۔
4
فیاضی کے عنوان کے ماتحت یہ واقعہ درج ہو چکا ہے کہ حضرت سعید بن العاص اس قدر فیاض تھے کہ اگر کسی وقت کچھ پاس نہ ہوتا تو حاجت مند کو ہُنڈی تحریر کر کے دیتے تھے کہ پھر آکر وصول کرلے۔ ایک دن مسجد سے واپس آرہے تھے کہ ایک شخص ساتھ ہولیا۔ آپ نے اس سے پوچھا۔ کیا کوئی کام ہے تو اس نے کہا نہیں۔ آپ اکیلے تھے۔ یونہی ساتھ ہولیا۔ آپ نے کاغذ قلم اور دوات منگوائی اور اسے بیس ہزار کی ہنڈی تحریر کر دی۔ اتفاق کی بات ہے کہ آپ کی وفات ہوگئی لیکن وہ شخص اس ہنڈی کو کیش نہ کراسکا۔ وفات کے بعد اس شخص نے وہ ہنڈی ان کے صاحبزادہ حضرت عمر کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اسے فوراً تسلیم کرلیا اور بلا چون و چرا روپیہ ادا کردیا۔
ہمارے زمانہ کے لوگوں کو اس واقعہ پر غور کرنا چاہیے۔ آج کل یہ حالت ہے کہ بعض لوگ خود جو قرض لیتے ہیں اسے بھی ادا کرنے میں لیت و لعل کرتے اور قرض خواہوں کو سخت پریشان کرتے ہیں۔ اور پھر والدین کے قرضہ کو ادا کرنے والے تو بہت ہی کم ہیں۔ لیکن اس نوجوان نے اتنی گراں قدر رقم باپ کی طرف سے ادا کی۔ حالانکہ یہ قرض نہ تھا۔ بلکہ محض ایک عطیہ تھا اور اگر وہ چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ میں اس کا ذمہ دار نہیں لیکن انہوں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ والد نے جو عطا کی تھی اس کی ادائیگی نہ کریں۔
5
حضرت عبداللہ بن عمر جب غزوہ احد پر جانے کے لیے تیار ہوئے تو اپنے لڑکے حضرت جابرؓ سے فرمایا۔ کہ اس غزوہ میں ضرور شہید ہو جاؤں گا۔ مجھ پر جو قرض ہے اسے ادا کرنا اور اپنی چھ بہنوں کے ساتھ حسنِ معاملات کرنا۔ باوجود یہ کہ اتنے بڑے کنبہ کی پرورش کا بار حضرت جابر پر تھا وہ باپ کے قرض کو جلد از جلد ادا کرنا اس قدر ضروری سمجھتے تھے کہ جب کھجور کی فصل تیار ہوئی تو انہوں نے پوری دیانت کے ساتھ تمام قرض اداکیا۔ اور فرمایاکہ میں اس بات کے لیے بالکل تیار ہوں کہ اپنی بہنوں کے پاس ایک کھجور بھی نہ لے کر جاؤں لیکن قرض ادا کردوں۔
6
قرض کو ادا کرنے کا خیال صحابہ کرام کو اس طرح دامن گیر رہتا تھا کہ وہ اپنی ضروریات کی اشیاء بیچ کر بھی اس سے سبکدوش ہونے کے لیے تیاررہتے تھے۔ ابن حداد ایک صحابی تھے جن پر ایک یہودی کے چار درہم قرض تھے۔ اس نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں استغاثہ کیا تو آپ نے تین باراس صحابی سے فرمایا کہ یہودی کا حق اسے ادا کرو۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہؐ میرے پاس کچھ نہیں۔ کہاں سے ادا کروں۔ اس پر آنحضرتﷺ تو خاموش ہوگئے مگر حضرت ابن حداد کو خیال آیا۔ چنانچہ آپ اٹھے اور بازار میں گئے۔ اپنے عمامہ کو اتار کر اس سے تہبند کاکام لیا اور تہبند کو چاردرہم پر فروخت کر کے یہودی کا قرض ادا کردیا۔
7
آنحضرتﷺ خود قرض کی ادائیگی اور قرض خواہ کی دل جوئی کا خاص خیا ل رکھتے تھے۔ اور دراصل صحابہ کرام نے جو اخلاق سیکھے وہ آپ ہی سے سیکھے تھے۔ ایک یہودی زیدبن سعنہ کا کچھ قرض آنحضرتﷺ کے ذمہ تھا۔ ایک دن وہ آنحضرتﷺ کی مجلس میں آیا۔ قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا اور نہایت ناشائستہ باتیں کرنے لگا۔ یہاں تک کہہ گیا کہ تم بنی عبدالمطب بہت نادہندہ ہو وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ حسب معاہدہ قرض کی ادائیگی کی معیاد میں ابھی تین روز باقی تھے۔ اور اس کا تقاضا قبل از وقت تھا۔ صحابہ کرام کو اس کی بے ہودہ کلامی سخت ناگوار گزری۔ اور حضرت عمرؓ نے اس کے ساتھ کچھ درشتی کی لیکن آنحضرتﷺ نے اس سے منع فرمایا اور فرمایا۔ کہ لازم ہے اس کاقرض اداکردو۔ اور بیس صاع جو زیادہ دے دو۔ آنحضرتﷺ کی ا س خوش معاملگی کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہوگیا۔
حوالہ جات
- (بخاری کتاب الطلاق)
- (بخاری کتاب الطلاق)
- (بخاری کتاب الجہاد)
- (استیعاب ج2 ص185)
- (بخاری کتاب المغازی)
- (اصابہ زیر لفظ عبد اللہ بن ابی حداد) ؟