مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

ایثار

صحابہ کرام کا نوجوان طبقہ اپنے بھائیوں کے لیے مجسم ایثار و قربانی تھا۔ تاریخ اسلام کے اوراق اس کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں سے چند ایک واقعات بطور نمونہ درج کیے جاتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں دوستوں کو ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔

1

ایک غزوہ میں حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل، حضرت حارثؓ بن ہشام اور حضرت سہیلؓ بن عمر زخمی ہوئے۔ تینوں جان کنی کی حالت میں تھے اور شدید پیاس محسوس کر رہے تھے۔ ایسی حالت میں ایک شخص عکرمہؓ کے لیے پانی لایا۔ ظاہر ہے کہ ایسے نازک وقت میں اس پانی کے چند قطرات ان کے لیے کتنی بڑی قیمتی چیز تھے۔ عام حالات میں دوسرے کے لیے ایثار کرنا اور اپنے جذبات کو دوسرے کے لیے قربان کردینا کوئی ایسی مشکل بات نہیں لیکن جب انسان کو اپنا آخری وقت نظرآرہا ہو اور وہ جانتا ہو کہ اس وقت پانی کا ایک قطرہ میرے لیے آبِ حیات کاحکم رکھتا ہے۔ اس وقت اپنی حالت کو فراموش کر دینا اور اپنے بھائی کی ضرورت کا احسا س کر کے اسے مقدم کرنا کس قدر مشکل کام ہے۔ اس کا اندازہ ہر شخص بآسانی لگاسکتا ہے۔ لیکن لاکھوں لاکھ درود ہوں اس مقدس وجود پر جس نے عرب کے وحشیوں میں، جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ایسا انقلاب عظیم پیدا کردیا کہ وہ اپنے بھائی کی ضرورت کو دیکھ کر اپنی حالت کو بالکل ہی بھول جاتے تھے۔ چنانچہ جب پانی حضرت عکرمہؓ کے پاس لایا گیا تو آپ نے دیکھا کہ حضرت سہیلؓ حسرت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اور آپ کی اسلامی اخوت اور جذبہ ایثار کے لیے یہ چیز ناقابل برداشت ہوگی کہ خود پانی پی لیں۔ درآنحالیکہ آپ کا بھائی پاس ہی پیاسا پڑا ہو۔ چنانچہ فرمایا کہ پہلے ان کو پلاؤ۔ وہ شخص پانی لے کر حضرت سہیلؓ کے پاس پہنچا۔ مگر وہ بھی اسی چشمۂ روحانیت سے فیض یاب تھے جس کا ہر ایک قطرہ نفسانیت کے لیے موت کا حکم رکھتا تھا۔ چنانچہ حضرت سہیلؓ کی نظر اس وقت حضرت حارثؓ پر پڑی اور آپ نے دیکھا کہ وہ بھی پانی کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے تک رہے ہیں۔ اس خیال کا آنا تھاکہ آپ کے لیے اس پانی کو اپنے حلق سے اتارنا ناممکن ہوگیا۔ یہ کیونکر ممکن تھاکہ آپ اپنی جان کو اپنے بھائی کی جان سے زیادہ قیمتی سمجھ سکتے۔ اور اسے پیاس کی حالت میں چھوڑ کر خود پانی پی لیتے۔ چنانچہ پانی لانے والے سے کہا کہ پہلے حضرت حارثؓ کو پلاؤ۔ وہ پانی لے کر ان کے پاس پہنچا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان تینوں میں سے کوئی بھی پانی نہ پی سکا اور سب نے تشنہ کامی میں جانِ عزیز آفریں کے سپرد کردی۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔

غور فرمائیے کہ ان تینوں کے درمیان کوئی دنیوی رشتہ نہ تھا بلکہ اسلامی اخوت تھی۔ جس نے دوسرے کو پیاس کی حالت میں دیکھ کر حلق سے پانی کے چند قطرات کا اترنا ناممکن بنا دیا۔ اور پھر سوچیے کہ کیا یہ کیفیت کسی دنیوی تدبیر سے انسان کے اندر پیدا کی جاسکتی ہے؟

2

ایک مسلمان اپنے باغ کی دیوار تعمیر کرنا چاہتا تھا لیکن بیچ میں ایک دوسرے شخص کا درخت آتا تھا۔ دیوار بنانے کے خواہش مند نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضرہو کر عرض کیا کہ یہ درخت مجھے دلوا دیجئے۔ تاکہ میری دیوار سیدھی بن سکے لیکن درخت کا مالک اسے دینا پسند نہ کرتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ درخت دے دو تو اس کے عوض جنت میں تمہیں درخت ملیں گے۔ مگر وہ اپنا درخت دینا پسند نہ کرتا تھا۔ اور آنحضرت ﷺ بھی بطور حکم اسے یہ کہنا نہ چاہتے تھے۔ ایک اور نوجوان صحابی حضرت ثابتؓ بن وحداح کو جب اس کا علم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس درخت کے عوض تمہیں جنت میں درخت ملیں گے تو آنحضرت ﷺ کی خواہش کو پورا کرکے جنت الفردوس میں باغات کے حصول کی خواہش نے ان کو بے تاب کر دیا اور فوراً درخت کے مالک کے پاس پہنچے اور اس سے کہا۔ کہ مجھ سے میرا باغ لے لو اور اس کے عوض یہ درخت مجھے دے دو۔ اس کو اور کیا چاہیے تھا۔ فوراً معاملہ طے ہوگیا۔ حضرت ثابتؓ یہ طے کر کے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ میں نے یہ سودا کیا ہے اور یہ درخت دیوار بنانے والے کے حوالہ کردینے پر آمادگی ظاہر کی۔ آنحضرت ﷺ یہ سن کر نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا۔ ثابتؓ کے لیے جنت میں کتنے درخت ہیں۔

اس کے بعد حضرت ثابتؓ اپنی بیوی کے پاس باغ میں پہنچے اور کہا کہ یہاں سے نکل چلو۔ میں نے یہ باغ جنت کے ایک درخت کے عوض فروخت کر دیا ہے۔

اس نیک بخت بیوی کاایثار ملاحظہ ہو کہ اس پر نہایت مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ نہایت نفع مند سودا ہے۔ (اصابہ جلد 7۔ ص 58)۔

صحابہ کرامؓ کے ایثار کے ساتھ یہ واقعہ ان کی ایمانی حالت کا بھی آئینہ دار ہے۔ موجودالوقت جائیداد کو آئندہ زندگی میں نفع کے خیال سے چھوڑ دینا اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوسکتا جب تک انسانی قلب اس یقین اور ایمان کے ساتھ پر نہ ہو کہ آنحضرت ﷺ کے دہن مبارک سے نکلی ہوئی بات ایک اور ایک دو کی طرح صحیح اور یقینی ہے۔

اس واقعہ کو پڑھ کر جب ہم اپنے زمانہ کی حالت پر نظر کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح لوگ معمولی معمولی باتوں پر اپنے بھائیوں کے ساتھ جھگڑتے اور تنازعات کرتے رہتے ہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ ان کے لیے ایثار پر آمادہ نہیں ہوتے بلکہ انہیں ان جائز اور واجبی حقوق سے محروم کرنے کے لیے کس طرح قانونی موشگافیوں کی آڑ لیتے ہیں۔ اور طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے کام لیتے ہیں تو ہمارا سرندامت سے جھک جاتا ہے۔ کیا ہم امید رکھیں کہ ہمارے دوست اپنے بزرگوں کی مثال کو خضرِ راہ بنائیں گے اور بالخصوص اس واقعہ سے سبق حاصل کریں گے۔

3

حضرت لبیدؓ بن ربیعہ بہت فیاض آدمی تھے۔ اور جاہلیت کے زمانہ میں یہ عہدکر رکھا تھا کہ جب بادِ صبا چلاکرے گی میں جانور ذبح کر کے لوگوں کو کھلایا کروں گا۔ اور ہمیشہ اس عہد کو نبھاتے رہے لیکن ایک زمانہ ایسا آیا۔ کہ آپ کی مالی حالت اس قابل نہ رہی۔ تاہم اس عہد کو نہ ٹوٹنے دیا۔

لیکن اپنے اس عہد کو نباہنے کے لیے خود انہیں جس قدر خیال تھا۔ ان کے اسلامی بھائیوں کو اس سے کم نہ تھا۔ اور وہ اپنے بھائی کے اس عہد کو ایفاء ہوتا دیکھنے کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ جب باد صبا چلتی تو بطور امداد اونٹ جمع کر کے حضرت لبید کے پاس بھیج دیتے۔ کہ وہ اس عہد کے پورا کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اور ان کے اس عہد کی ذمہ داری براہ راست ان پر نہ ہونے کے باوجودوہ کبھی اپنے بھائی کے لیے ایثار سے غافل نہ ہوتے تھے۔

4

آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد جب سقیفہ بنو ساعدہ میں صحابہ کرامؓ خلافت کا سوال حل کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تو اگرچہ بعض طبائع میں ایک قسم کی کشمکش موجود تھی اوربوجہ اسکے کہ تمام لوگ یکساں طور پر اعلیٰ درجہ کے تربیت یافتہ نہیں ہوتے اور پھر عربوں کی عصبیت تومشہور ہی ہے۔ یہ موقعہ نہایت نازک تھا اور اگر آنحضرت ﷺ کے فیضِ نے صحابہ کرامؓ کو سراپا ایثار بنا کر نفسانیت کا خاتمہ نہ کر دیا ہوتا اورادنیٰ سی تحریک بھی عوام الناس کو زمانہ جاہلیت کی عصبیت کی طرف متوجہ کردیتی تو خطرناک فتنہ کا دروازہ کھل جاتا لیکن اس وقت بھی ان لوگوں میں ہمیں ایثار کا پہلو غالب نظر آتا ہے۔ چنانچہ اس خطرہ کو بھانپ کر ایک انصاری نوجوان حضرت زیدبن ثابت اٹھے۔ اور فرمایا کہ آنحضرت ﷺ مہاجر تھے۔ اس لیے آپ کا خلیفہ بھی مہاجر ہی ہونا چاہیے۔ ہمارے لیے یہ کافی فخرہے کہ آپ کے انصار تھے اور جس طرح آپ کے انصار تھے اسی طرح آپ کے خلفاء کے بھی انصار ہی رہیں گے۔ اور جذبات و نفسانیت کو اس طرح نظر انداز کردینے کی تحریک کانتیجہ یہ ہوا کہ باہم نفاق و اختلاف کا دروازہ بند ہوگیا۔ اور باوجود یہ کہ مختلف نسلوں اور قبائل کے مسلمان وہاں جمع تھے۔ خلافت کامسئلہ بخیروخوبی طے ہوگیا اور کوئی جھگڑا پیدا نہ ہوا۔ (مسنداحمدبن حنبل جلد5 صفحہ 1820)

5

حضرت حمزہؓ جب جنگ احد میں شہید ہوئے تو ان کی حقیقی بہن حضرت صفیہؓ نے اپنے صاحبزادہ حضرت زبیرؓ کو دو چادریں دیں کہ ان سے حضرت حمزہؓ کے کفن کا کام لیا جائے۔ جب ان کو کفن پہنایا جارہا تھا تو حضرت زبیرؓ نے دیکھا کہ حضرت حمزہ کے پہلو میں ایک انصاری کی لاش پڑی ہے جس کے لیے کفن میسر نہیں۔ آپ نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ اپنے ماموں کو تو دو چادریں پہنا دیں اور دوسرا بھائی پاس بے کفن پڑا رہے۔ چنانچہ آپ نے ایک چادر ان کے لیے دے دی لیکن ایک چادر حضرت حمزہؓ کے لیے کافی نہ تھی۔ سر چھپایا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں چھپاتے تو سر ننگاہوجاتا۔ آنحضرت ﷺ نے دیکھا تو فرمایا کہ چادر سے چہرہ ڈھانک دو اور پاؤں پر گھاس اور پتے ڈال دو۔

اللہ اللہ! کیسے لوگ تھے کہ فرطِ غم کی حالت میں بھی جبکہ انسان اپنے ہوش و حواس کھو دیتا ہے انہیں اپنے بھائیوں کا اس قدر خیال رہتا تھا کہ مردوں میں بھی امتیاز گوارا نہ کرتے اور ان کی ضروریات سے آنکھیں بند نہ کرسکتے تھے۔

6

حضرت قیس بن عبادہ کے لوگ کثرت سے مقروض تھے۔ ایک دفعہ آپ بیمار ہوئے تو مقروض عیادت کے لیے آتے ہوئے شرماتے تھے۔ آپ کو علم ہوا تو اعلانِ عام کرادیا کہ میں نے سب قرضے معاف کئے۔ اس پر لوگ اس کثرت سے آنے لگے کہ بالاخانہ کا زینہ جس میں آپ صاحب فراش تھے ٹوٹ گیا۔

7

حضرت کثیرؓ بن صلت امیرمعاویہؓ کے مقروض تھے۔ امیرمعاویہؓ نے مردان کو لکھا کہ قرضہ میں ان کا مکان خرید لو۔ مردان نے حضرت کثیر کو بلاکر کہا کہ تین روز کے اندر اندر یا تو روپیہ کا انتظام کر دو۔ ورنہ مکان دینے کے لیے تیار رہو۔ حضرت کثیرؓ مکان دینا نہ چاہتے تھے۔ ادھر روپیہ کا کوئی انتظام نہ تھا۔ قرض کی رقم میں تیس ہزار کی کمی تھی۔ سوچتے سوچتے حضرت قیس بن عبادہ کا خیال آیا۔ تو ان کے پاس جاکر تیس ہزار قرض مانگا، جو انہوں نے فوراً دے دیا۔ اور وہ روپیہ لے کر مردان کے پاس پہنچے۔ معلوم نہیں کس وجہ سے اسے ایسا خیال آیا کہ اس نے روپیہ بھی لوٹا دیا اورمکان بھی لینے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اب چونکہ روپیہ کی ضرورت نہ رہی تھی اس لیے فوراً حضرت قیسؓ کے پا س پہنچے۔ کہ اپنا روپیہ واپس لے لیں۔ مجھے اب ضرورت نہیں رہی مگر انہوں نے فرمایا ہم کوئی چیز دے کر اسے واپس نہیں لیا کرتے۔

8

حضرت طلحہؓ جو نوجوان صحابہ میں سے تھے۔ بنو تمیم کے محتاجوں اور تنگدستوں کی کفالت کیا کرتے تھے۔ مقروضوں کا قرض ادا کردیتے تھے۔ ایک شخص صبیحہ تیمی پر تیس ہزار درہم قرض تھا۔ حضرت طلحہؓ نے سب کا سب اپنے پاس سے ادا کردیا۔

9

صحابہ کرامؓ میں لالچ نام کو نہ تھا۔ اور ہمیشہ دوسرے بھائیوں کا خیال رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمرؓ کو عطیہ دینا چاہا تو انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہؐ مجھے اس وقت ضرورت نہیں اس لیے آپؐ اسے دیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔

10

صحابہ کرامؓ کی زندگیاں مجسم ایثار تھیں اور وہ ہر موقعہ پر اپنے بھائیوں کے لیے قربانی کرنے کے واسطے آمادہ رہتے تھے۔ لیکن ان کے ایثار کے سب واقعات کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے تو صرف ایک واقعہ ہی ایسا ہے جس کی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔

مسلمان جب ہجرت کرکے مدینہ میں آئے تو اکثر ان میں سے بالکل غریب اور نادار تھے۔ نہ کھانے کو کچھ پاس تھا نہ پہننے کو اور نہ سر چھپانے کو کوئی جگہ تھی۔ لیکن انصارِ مدینہ نے اس اخلاص اورایثار کے ساتھ ان سے سلوک کیا کہ انہیں محسوس تک نہ ہونے دیا کہ وہ کسی غیر جگہ میں ہیں۔ اپنے مکانات ان کی رہائش کے لیے خالی کردئیے اور انہیں اپنے اموال میں حصہ دار بنالیا۔ اپنی زمینیں اور باغات ان کے ساتھ تقسیم کردئیے اور یہاں تک ان کے لیے ایثار کرنے کو تیار ہوگئے کہ حضرت سعد بن الربیع نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو، جن کے ساتھ ان کی مواخات قائم ہوئی تھی، کہہ دیا کہ میری دو بیویاں ہیں۔ جن میں سے ایک کو میں طلاق دے دیتا ہوں تاکہ آپ اس کے ساتھ نکاح کرسکیں۔ اگرچہ حضرت عبدالرحمن نے اس تجویز کو بوجہ اس کے ناجائز ہونے کے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور نہ ہی حضرت سعد بن الربیع اسے جائز سمجھتے تھے۔ تاہم یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ و ہ اپنے بھائی کے لیے کس قدر ایثار پر آمادہ۔۔۔۔۔ ہیں۔ انہوں نے یہ پیشکش کر دی اور مہاجرین کے لیے انصار کے ایثار کی یہ ایک ایسی درخشاں مثال ہے کہ جس کی نظیر نہ تو آج تک تاریخ عالم پیش کر سکی ہے اور نہ آئندہ پیش کرسکے گی۔

11

ایک دفعہ ایک یتیم لڑکے نے ایک شخص پر ایک نخلستان کی ملکیت کے متعلق دعویٰ کیا۔ آنحضرت ﷺ نے اس یتیم کے خلاف فیصلہ کیا۔ جسے سن کر وہ روپڑا۔ ایک یتیم کی آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو اس سراپا رحم اور مجسم شفقت انسان پرکوئی اثر نہ کرتے، یہ ناممکن تھا۔ چنانچہ آپؐ نے ازراہ رحم ا س شخص سے فرمایا کہ گو فیصلہ تمہارے حق میں ہے لیکن اگر یہ نخلستان اس بچے کو دے دو تو اللہ تعالیٰ ا سکے عوض تمہیں جنت میں دے گا۔ ہر انسان چونکہ عرفان کے صحیح مقام پر نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ ممکن ہے اس لیے اسے اس مشورہ کے قبول کرنے میں تامل تھا۔ لیکن وہیں ایک اور صحابی حضرت ابوالدحداحؓ موجود تھے۔ آنحضرت ﷺ کے منہ سے اس فقرہ کا سننا تھا کہ حضور کی خواہش کو پورا کرنے اور جنت میں اس کے عوض زیادہ باغات کے حصول کے خیال نے جائیداد کے لئے ان کی محبت کو سرد کردیا۔ اور انہوں نے فوراً اپنے دل میں فیصلہ کیا کہ ایک یتیم لڑکے لیے زیادہ سے زیاد ہ ایثار کا نمونہ دکھائیں۔ چنانچہ انہوں نے ا س باغ کے مالک سے کہا کہ تم میرا باغ لے لو اور اس کے عوض اپنا یہ باغ مجھے دے دو۔ چونکہ یہ سودا نفع مند تھا۔ وہ فوراً رضامند ہوگیا۔ معاملے طے کر کے حضرت ابوالدحداح آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ یا رسول اللہ! جو نخلستان ا س یتیم کو دلوانے کی آپ کی خواہش تھی وہ اگر میں دے دوں تو کیا مجھے جنت میں اس کے عوض باغ ملے گا۔ آپؐ نے فرمایا ہاں چنانچہ وہ باغ اس لڑکے کو دے دیا۔

ہمارے دوست ان چند مثالوں پر اگر غور کریں اور دیکھیں کہ اپنے جذبات کو اپنے بھائیوں کے لیے قربان کرنے۔ دو بھائیوں کے جھگڑے اور تنازعہ کا تصفیہ کرانے، غریبوں کی امداد کرنے اور انہیں قرض کے مصائب سے نجات دلانے، دین کی راہ میں نقصان اٹھانے والے بھائیوں کے ساتھ سلوک کرنے اور ان کے لیے آسائش کے سامان بہم پہنچانے کے لیے ان پر کس قدر بھاری ذمہ داریاں ہیں تو نہایت ہی قلیل عرصہ میں مسلمانوں کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ اور بلحاظ قوم اس قدر عزت اور ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔ کہ جسے دیکھ کر دنیا دنگ رہ جائے۔ لیکن اس کا کیا علاج؟ کہ ایثار کے مفہوم سے بھی مسلمان نا آشنا ہیں اور ان کی نگاہ اپنے نفس اور اپنے خاندان سے آگے جا ہی نہیں سکتی۔

حوالہ جات

  1.  (استیعاب ج3ص19)
  2.  (اصابہ ج7 ص58)
  3.  (استیعاب ج3ص393)
  4.  (مسند احمد ج5ص238)
  5.  (ابن سعدج3ص9)
  6.  (سیر انصارج2 ص134)
  7.  (استیعاب ج3ص539)
  8.  ؟
  9.  (بخاری کتاب الزکوۃ باب الاستعفاف عن المسئلۃ)
  10.  ؟
  11.  (استیعاب ج4ص210)