مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

جرأت و بہادری

مسلمانوں نے نہایت ہی قلیل تعداد اور بے سروسامانی کی حالت میں چند ہی سالوں میں دنیا کا نقشہ بدل دیا تھا۔ اسکی کئی ایک وجوہات ہیں۔ جن میں سے ایک ان لوگوں کی غیر معمولی جرات و بہادری ہے۔ ایمان نے ان کی قلبی کیفیت ایسی کر دی تھی۔ اور مشق الہی میں انہیں اس قدر سرشار کر دیا تھا کہ اسلام کے مقابلہ میں وہ نہ اپنی زندگی کی کوئی قدر و قیمت سمجھتے تھے اور نہ اپنے عزیز و اقارب کی۔ ان کے حوصلے بلند اور ارادے اس قدر مضبوط تھے کہ سخت مشکلات کے وقت بھی وہ کسی بات سے خوف نہ کھاتے تھے۔ ان کی جرات و بہادری کے واقعات تاریخ میں اس قدربیان ہے کہ ان کے بیان کے لیے کئی ضخیم جلدیں درکار ہیں لیکن ہم یہاں بطور نمونہ چند ایک واقعات درج کرتے ہیں۔

1

صحابہ کرامؓ نے جب مدین میں داخل ہونا چاہا تو بیچ میں دریا ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اس مشکل کا کوئی حل اس وقت نہ تھا۔ آخر ان جواں مردوں نے نتائج سے بے پرواہ ہو کراپنے گھوڑے دریا میں ڈال دئیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مد دفرمائی اور اکثر ان میں سے صحیح و سالم کنارے پر پہنچ گئے۔ اور اس طرح دریا پار کر کے شہر میں پہنچے۔ ایرانیوں نے دیکھا تو کہا کہ دیوان آمدند اور شہر کو خالی کر دیا۔

2

قادسیہ کے میدان میں حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں جب ایرانیوں کے ساتھ فیصلہ کن جنگ ہوئی تو ایک سخت مشکل سامنے آئی۔ ایرانی ہاتھیوں کو میدان جنگ میں لائے۔ اور وہ جس طرف رخ کرتے مسلم مجاہدین کو کچلتے ہوئے چلے جاتے۔ اور صفوں کی صفیں الٹ دیتے تھے۔ حضرت قعقاعؓ نے یہ تدبیر کی کہ اونٹوں پر سیاہ رنگ کے جھول ڈال کر ان کو ہاتھیوں کے مقابلہ پر کھڑا کیا۔ مگر اس سے خاطر خواہ نتیجہ مرتب نہ ہوا۔ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے۔ اور ہاتھیوں کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ انہیں بعض پاسی نومسلموں نے بتایا کہ اگر ان کے سونڈ اور آنکھیں بیکار کر دی جائیں تو پھر یہ کوئی ضرر نہیں پہنچا سکیں گے۔ آپ نے حضرت قعقاعؓ ، حضرت محالؓ اور حضرت ربیعؓ کو اس پر مامور فرمایا۔ ان تینوں بہادروں نے ہاتھیوں کو گھیرے میں لے لیا اور برچھے مار مار کر ان کی آنکھیں ضائع کرنے لگے۔ ہاتھیوں میں ایک سفید رنگ کا ہاتھی تھا جسے گویا ان کا سپہ سالار کہا جاسکتا تھا۔ حضرت قعقاعؓ نے جرات سے کام لے کر اس کے سونڈ پر ایسی تلوار ماری کہ وہ کٹ کر الگ جاپڑی۔ اور و ہ بے قرار ہو کر ایسا بے تحاشا بھاگا کہ سب ہاتھی اس کے پیچھے ہولیے۔

3

جرات و بہادری صرف اس کا نام نہیں کہ انسان تلوار کے ساتھ میدان جنگ میں دشمن کے ساتھ نبردآزما ہو بلکہ صداقت کو اس وقت قبول کرنا جب ہر طرف سے اس کی مخالفت ہو رہی ہو۔ اور دشمن ایذا رسانی پر اترے ہوئے ہوں، اور صداقت کو قبول کرنا گویا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہو۔ اسکی حمایت کے لیے کھڑے ہو جانا اصل جرات و بہادری ہے اور صحابہ کرام کی زندگی میں اس بہادری کی مثالوں کی بھی کمی نہیں۔

حضرت علیؓ کی عمر بمشکل چودہ پندرہ برس کی ہوگئی کہ آنحضرتﷺ نے اپنے خاندان کو تبلیغ کرنے کے لیے ایک دعوت کا انتظام کیا۔ جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہو چکے تو آپ نے اٹھ کر ان کو دعوت اسلام دی اور فرمایا کہ میں تمہارے سامنے دین ودنیا کی بہترین نعمت پیش کرتاہوں۔ کون ہے جو میرا معاون و مددگار ہوگا۔ سب لوگ یہ بات سن کر چپ رہے لیکن حضرت علیﷺ نے اٹھ کر فرمایا کہ گو میں سب سے چھوٹا ہوں اور کمزور ہوں تاہم آپ کا دست و بازو بنوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ پھر اسی سوال کو دہرایا۔ آپ نے تین مرتبہ ایسا کیا لیکن تینوں مرتبہ کوئی نہ بولا۔ سوائے حضرت علی کے کہ آپ نے تینوں مرتبہ کھڑے ہو کر آپ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ اور اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ خاندان کے سب بڑے بڑے لوگ اس بار کو اٹھانے سے انکار کرتے ہیں۔

4

آنحضرتﷺ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا تو یہ وہ وقت تھا جب مشرکین نے بھی یہ دیکھ کر کہ مسلمان ایک ایک دودو کرکے مکہ سے نکلتے جارہے ہیں یہ فیصلہ کیا کہ آنحضرتﷺ کا کام تمام کردیا جائے۔ چنانچہ جس شب آپ نے مکہ کو چھوڑنا تھا وہ مسلح ہو کر آپ کے مکان کے ارد گرد پہرہ دینے لگے۔ آنحضرتﷺ نے اس خیال سے کہ کفار کو شک نہ ہو حضرت علی کو اپنے بسترپر سونے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ حضرت علی نے اپنی جان کے خوف سے بے نیاز ہو کر ا س خدمت کو قبول کیا اور عین اس وقت جب کفار کی تلواروں کی جھنکار مکان سے باہر صاف سنائی دے رہی تھی حضرت علی نہایت اطمینان کے ساتھ آپ کے بستر پر لیٹے رہے۔ اور کفار کو چونکہ آپکے اندر ہونے کا یقین تھا اس لیے انہوں نے دوسری طرف توجہ نہ کی۔ اور آنحضرتﷺ کو مکہ سے نکل جانے کا موقعہ مل گیا۔ صبح کے وقت جب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو بہت برہم ہوئے مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔

5

بہادری اور جرات کے واقعات صرف مردوں تک ہی محدود نہیں بلکہ عورتوں میں بھی یہ وصف ہمیں نمایاں نظر آتا ہے۔ غزوہ خندق کے موقعہ پر آنحضرتﷺ نے تمام مسلمان خواتین کو ایک قلعہ میں محفوظ کردیا تھا اوروہاں حضرت حسان کی ڈیوٹی لگا دی تھی۔ ایک دفعہ ایک یہودی قلعہ پر حملہ کی راہ تلاش کرتاہوا اس کے پھاٹک پر پہنچا۔ حضرت صفیہ نے اسے دیکھا تو حضرت حسان سے کہا کہ اسے قتل کردیں۔ ورنہ یہ جاکر اپنے ساتھیوں کو اطلاع دے گا۔ جس سے حملہ کاخطرہ ہے۔ لیکن حضرت حسان کی طبیعت ایک بیماری کی وجہ سے ایسی ہوگئی تھی کہ خونریزی کو دیکھ بھی نہ سکتے تھے۔ چہ جائیکہ اس میں خود کوئی حصہ لے سکیں اس لیے انہوں نے معذوری کااظہار کیا۔ اور یہودی کے بہ سلامت واپس چلے جانے کی صورت میں چونکہ سخت خطرہ کااحتمال تھا اس لیے حضرت صفیہ خود آگے بڑھیں۔ خیمہ کی ایک چوب اکھیڑی اور قلعہ سے اتر کر اس زورسے یہودی کے سر پر ماری کہ و ہ بدبخت وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت صفیہ نے اس کا سر کاٹ کر قلعہ سے نیچے پھینک دیا تاکہ یہودیوں پر رعب طاری ہو جائے۔ چنانچہ اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا اور یہودیوں نے سمجھ لیا کہ قلعہ میں بھی ضرور فوج موجود ہے اور اس وجہ سے انہیں قلعہ پر حملہ کی جرات نہ ہوئی۔

6

حضرت ام سلیم غزوہ حنین میں ایک خنجر ہاتھ میں لیے پھر رہی تھیں۔ حضرت ابوطلحہؓ نے آنحضرتﷺ کو اس سے مطلع کیا۔ حضور نے فرمایا کہ خنجرکیوں پکڑے ہوئے ہو۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہﷺ اگرکوئی مشرک قریب آئے گا تو اس کا پیٹ چاک کردوں گی۔ آنحضرتﷺ یہ جواب سن کر مسکرائے۔

7

ایرانیوں کے ساتھ جنگوں کے دوران میں ایک مرتبہ مسلمانوں نے ایک مقام انبار پر محاصرہ کیا۔ جس کاحاکم شیرزاد نامی ایک ایرانی سردار تھا۔ اس نے شہر کی فصیل کے باہر مٹی کا ایک دمدمہ تیا رکرلیا تھا۔ اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید تھے۔ جب محاصرہ نے طول کھینچا تو حضرت خالد اپنے جان باز سپاہیوں کو لے کرآگے بڑھے۔ رستہ میں خندق حائل تھی اور اس کے دوسری جانب ایرانیوں نے تیروں کی بارش شروع کر رکھی تھی۔ خندق کو عبور کرنے کے لیے حضرت خالد نے حکم دیا کہ کمزوراور دبلے اونٹ ذبح کر کے اس میں ڈال دیے جائیں اور اور اس طرح ایک قسم کا پل بنالیا گیا۔ باقی رہا تیروں کی بارش سو یہ ان سرفروشوں کے لیے کوئی درخورِ اعتناء چیز نہ تھی۔ دشمن اپنا کام کر رہے تھے اور یہ اپنا۔ وہ تیر برسا رہے تھے اور یہ آگے بڑھتے جارہے تھے۔ مسلمان مجاہدین کو تیروں نے جس قدر نقصان پہنچایا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ایک ہزار کی آنکھیں بے کارہوگئیں۔ مگر یہ برابر بڑھتے گئے حتی کہ پہلے دمدمہ پر قبضہ کرلیا اور پھر فصیل پر پہنچ گئے۔ ایرانیوں نے سخت مزاحمت کی لیکن جو لوگ اس طرح موت سے کھیلتے ہوئے یہاں پہنچے تھے وہ کسی مزاحمت کو کب خاطر میں لاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہیں فتح ہوئی اوروہ فاتحانہ شان کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔

8

محض شجاعت اور بہادری ہرگز کام نںیے آسکتی بلکہ اس کے ساتھ فہم و فراست سے کام لینا بھی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ مسلمان جب ایرانیوں کے ساتھ نبردآزما تھے تو بصرہ کے حاکم حضرت عبداللہ بن عامر نے حضرت ہرم بن حیان کو جور کا محاصرہ کرنے کے لیے بھیجا۔ ا س محاصرہ نے طول پکڑا اور شہر میں داخلہ مشکل نظرآنے لگا۔ حضرت ہرم بن حیان دن کے وقت روزہ رکھتے اورشب کو عبادت کرتے تھے۔ ایک دن افطاری کے وقت انہیں کھانا نہ ملا لیکن انہوں نے صبر کیا اور اگلے روز پھرروزہ رکھ لیا۔ مگر شام کو پھر کھانا نہ ملا اور اس طرح کئی روز گزر گئے۔ آخر ایک روز انہوں نے اپنے خادم سے پوچھا کہ میرے لیے کھانا کیوں تیار نہیں ہوتا۔ اس نے بتایا کہ میں تو ہر روز تیار کر کے رکھ جاتا ہوں معلوم نہیں کہاں جاتا ہے۔ اس روز خادم نے مقررہ جگہ پر کھانا رکھا اور خو دنگرانی کرتا رہا۔ تھوڑی دیر میں ایک کتا آیا اور کھانا اٹھا کر چلتا ہوا۔ خادم بھی پیچھے پیچھے ہولیا اور اس نے دیکھا کہ کتا ایک بد رو کے رستہ شہر میں داخل ہوگیا۔ خادم نے واپس آکر حضرت ہرم کو اطلاع دی۔ انہوں نے اسے تائید غیبی سمجھا۔ اور چند شجاع نوجوانوں کو ساتھ لے کر رات کے وقت اسی بدرو کے رستہ شہر میں جا داخل ہوئے۔ محافظوں کو قتل کر کے دروازے کھول دئیے اور اس طرح اسلامی لشکر شہر پر قابض ہوگیا۔

9

جنگ قادسیہ کے موقعہ پر جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو پہلے لشکر ایران میں سے ایک شہزادہ ہرمزنامی میدان میں نکلا اور مبارز طلب کیا۔ حضرت غالب بن عبداللہ اسدی اس کے مقابلہ کے لیے نکلے اور فوراً ہی اسے گرفتار کرکے اسلامی لشکر میں لے آئے۔ اس کے بعد اہل فارس کا ایک اور بہت بڑا نامور پہلوان آیا اور اس کے مقابلہ کے لیے حضرت عاصم پہنچے۔ اور دونوں میں زور آزمائی ہونے لگی۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ایرانی پہلوان میدان سے بھاگا۔ حضرت عاصم نے اس کا پیچھا کیا اور عین اس وقت جب کہ وہ اپنے لشکر کی صف اول کے قریب پہنچ چکا تھا پیچھے سے اس کے گھوڑے کی دم کو پکڑ کر اسے ایک قدم بھی آگے اٹھانے سے روک دیا۔ اور پھر اس پہلوان کو اس کے گھوڑے سے زبردستی اٹھا کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا اور اس طرح گرفتار کرکے اپنی فوج میں لے آئے۔

10

ایرانی جب قادسیہ سے بھاگے تو ان کا ایک سردار شہر یار کوثی کے مقام پر اپنی فوج کو جمع کر کے مسلمانوں سے انتقام لینے کے منصوبے سوچنے لگا۔ حضرت زہرہ بھی تھوڑی سی فوج کے ساتھ ادھر سے گزرے تو ان کو شہریار کی تیاریوں کا علم ہوا۔ اور وہ بھی ان کی آمد کی خبر سن کر باہر نکلا۔ دونوں لشکر بالمقابل ہوئے اور شہر یار نے چیلنج کیا۔ کہ تم میں سے جو شخص بہادر ترین ہو و ہ میرے سامنے آئے۔ حضرت زہرہ نے کہا کہ پہلے تو میرا ا رادہ خود تم سے مقابلہ کرنے کا تھا مگر تمہارے اس غرور کو دیکھ کر میں کسی عام سپاہی کو بھیجتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے حضرت نائل بن چشم اعرج کو جو قبیلہ بنو تمیم کے غلام تھے بھیجا۔ حضرت نائل دبلے پتلے اور شہر یار بڑی ڈیل ڈول کا آدمی تھا۔ اور ا س نے فوراً ہی حضرت نائل کو گرد ن سے پکڑ کر نیچے گرالیا اور چھاتی پر چڑھ بیٹھا۔ لیکن حضرت نائل کے منہ میں ان کے ہاتھ کا انگوٹھا آگیا۔ اور آپ نے اس پر اس زور سے کاٹا کہ وہ شدت درد کی تاب نہ لاسکا۔ اور حضرت نائل اس کے نیچے سے نکل کر اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھے اور خنجر کے ساتھ اس کا پیٹ چاک کردیا۔

اسلامی لشکر کے سپہ سالار نے حضرت نائل کو حکم دیا کہ شہر یار کی زرہ ہتھیار اور سارا لباس پہن کر سامنے آئے۔ چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی۔

11

رومیوں کے ساتھ جنگ کے سلسلہ میں مسلمانوں نے ایک قلعہ کامحاصرہ کیا۔ جس نے بہت طول کھینچا۔ کفار باہر آتے نہ تھے اور مسلمان قریب جائیں تو تیر اور پتھر برساتے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ نے مدینہ سے کمک منگوائی۔ جس میں ایک حبشی نژاد غلام حضرت وامس بھی تھے جن کی کنیت ابوالہول تھی۔ انہوں نے آکر حضرت ابو عبیدہ سے کہا کہ مجھے تیس جان بازدے دئیے جائیں۔ تو میں قلعہ کے اندر داخلہ کی کوئی صورت انشاء اللہ پیدا کرلوں گا۔ رات کے وقت حضرت وامس تیس نوجوانوں کو لے کر قلعہ کے نیچے پہنچے اور ساتھیوں کو ذرا پیچھے ٹھہرا کرخود قلعہ کے ارد گردچکر لگایا۔ اور اندازہ لگایا کہ ایک چھوٹا سا برج سنسان ہے یا تو اس پر کوئی پہریدار نہیں ہے اور یا اگر ہے تو سویا پڑا ہے۔ حضرت وامس نے اپنے ساتھیوں میں سے دو کو تو واپس حضرت ابو عبیدہ کے پاس یہ پیغام دے کر بھیج دیا کہ ایک ہزار سوار صبح ہونے سے قبل قلعہ کے نیچے پہنچ جائیں۔ فصیل کی بلندی کو دیکھ کر اندازہ کیا کہ سات آدمی اگر نیچے اوپر کھڑے ہوں توآخری آدمی اوپر پہنچ سکتا ہے۔ چنانچہ آپ نیچے کھڑے ہوئے اور چھ آدموں کو ایک دوسرے کے اوپر چڑھایا۔ اس طرح آخری آدمی فصیل پر پہنچ گیا۔ اور اس نے ایک رسہ کنگروں سے مضبوط باندھ دیا۔ جس کے سہارے یہ سب مجاہدین برج میں داخل ہوگئے۔ وہاں دو پہریدارشراب کے نشہ میں مدہوش پڑے تھے۔ کیونکہ سویرے ہی مسلمانوں نے مصلحتاً لشکر اٹھا کر کوچ کا اعلان کر دیا تھا اور رومی ان کے واپس جانے پر جشن منا کر شراب سے بے ہوش ہو رہے تھے۔ چنانچہ برج کے بے ہوش پہریداروں کو قتل کردیا گیا۔ حضرت وامس اپنے ساتھیوں کو لے کر دروازہ پر پہنچے اور پہریداروں کو قتل کرنا شروع کیا۔ انکے شور مچانے پر فوجی بیدار ہو کر حملہ آور ہوئے۔ حضرت وامس نے اپنے ساتھیوں کو دروازہ کے ساتھ ساتھ کھڑا کر دیا تاکہ اس پر قبضہ رہے اور رومیوں سے باقاعدہ جنگ ہونے لگی۔ حضرت وامس نے ایسا مورچہ قائم کرلیا تھا کہ رومی زیادہ تعداد میں ان پر حملہ نہیں کرسکتے تھے۔ جگہ تنگ تھی۔ اور اتنے ہی رومی آگے بڑھ سکتے تھے جتنے اس میں سما سکیں۔ اور جو آگے بڑھتے مسلمان مجاہدین ان کو تہ تیغ کر دیتے۔ نصف شب سے لے کر صبح تک برابر یہ معرکہ جدال گرم رہا اور آٹھ مسلمان شہید ہوگئے۔ صبح کے قریب قلعہ سے باہر اسلامی لشکر پہنچ گیا اور نعرہ ہائے تکبیر بلند کرنے لگا۔ حضرت وامس نے یہ معلوم کر کے کہ مسلمان آ پہنچے مدافعت کاخیال چھوڑ کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور مسلمان فاتحانہ اندازمیں اندرداخل ہوگئے۔ اس لڑائی میں حضرت وامس کے بدن پر ستر زخم آئے مگر وہ برابر لڑتے رہے۔

حوالہ جات

  1.  (تاریخ طبری ص 2441)
  2.  (تاریخ طبری ص1172)
  3.  (مستدرک حاکم ج3 ص4)
  4.  (ابن سعد ج8 ص27)
  5.  (مسلم ج2 ص103)
  6.  (تاریخ اسلام ص307)
  7.  (تاریخ اسلام ص40)
  8.  (تاریخ اسلام ص 353)
  9.  (تاریخ اسلام )