مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

حلم اور جھگڑوں سے اجتناب

صحابہ کرام میں اسلامی تعلیم نے ایسی محبت اور یگانگت پیدا کر دی تھی کہ باہمی جھگڑوں سے بہت بچتے تھے۔ اور معمولی معمولی باتوں کے پیچھے پڑ کر جو عام لوگوں میں خطرناک فسادات پیدا کردیتی ہیں قومی وحدت کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ اور کسی بھائی کی طرف سے اگر کوئی ناخوشگوار بات پیدا ہوتی تو نہایت تحمل اور بردباری کا ثبوت دیتے تھے۔ دراصل ان کی عظیم الشان طاقت اور قوت کا ایک راز یہ بھی تھا کہ وہ باہم نفاق اور تفرقہ پیدا نہ ہونے دیتے تھے کیونکہ یہ ایک ایسی خطرناک چیز ہے جو قومی قوت اور طاقت کو تباہ کر دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس قوم کے افراد باہم دست و گریباں رہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ آمادہ پیکار ہوں وہ مخالف اور دشمن کا مقابلہ کرنے کی اہلیت کھو بیٹھتی ہے۔ چندواقعات ملاحظہ ہوں۔

1

حضرت قیسؓ بن عاصم المنقری اپنے قبیلہ کے رئیس تھے۔ ایک مرتبہ ایسا واقعہ ہوا کہ ان کے لڑکے کو ان کے بھائی کے لڑکے یعنی ان کے بھتیجے نے قتل کردیا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ انسان کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی صدمہ نہیں ہوسکتا۔ ایسے موقع پر بڑے بڑے تحمل اور بردبار لوگ بھی ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ لوگ مقتول کی لاش اور اس کے ساتھ قاتل کو گرفتار کرکے ان کے پاس لے آئے۔ ہر شخص غورکرسکتا ہے کہ نوجوان فرزند کی لاش اگر سامنے پڑی ہو ئی ہو تو اس کے دل کی کیفیت کیاہوسکتی ہے۔ اوروہ کس طرح قاتل کو ٹکڑے کر دینا چاہتا ہے۔ تاریخ میں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں کہ ایسے صدمات کے موقعہ پر کمزور سے کمزور اور بے بس سے بے بس انسان بھی خطرناک اقدام کر گزرے ہںی۔ لیکن حضرت قیسؓ نے ہر قسم کی طاقت اور سامان رکھنے کے باوجود کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی بلکہ صرف اتنا کیا کہ اپنے بھتیجے کو بزرگانہ انداز میں نصیحت کی۔ اس کے فعل کی شناعت کو اس پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو تم نے کتنا برا کام کیا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی اور اس طرح گنہگار ہوئے۔ اور اس کے علاوہ اپنے چچا زاد بھائی کو قتل کرکے قطع رحمی کی اور اپنی خاندانی طاقت کی کمزوری کا موجب ہوئے۔ بس اس کے بعد آپ نے اپنے دوسرے لڑکے سے کہا کہ اس کی مشکیں کھول دو اور بھائی کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرو۔

جو لوگ معمولی معمولی باتوں پر اپنے بھائیوں سے برسوں تنازعات کرتے رہتے ہیں ان کے لیے اس واقعہ میں بڑا سبق ہے۔

2

حضرت حذیفہ بن الیمان ایک نوجوان صحابی تھے۔ اپنے والد کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے۔ ایک موقعہ پر مشرکین اور مسلمانوں کے مابین ان کے والد آگئے۔ مسلمانوں نے مشرکین پرحملہ کیا تو حذیفہ نے آواز دی کہ دیکھنا سامنے میرے والد ہیں۔ لیکن یہ آواز مسلمانوں تک نہ پہنچ سکی۔ اور یوں بھی جب گھمسان کی جنگ ہو رہی ہو اور دو فریق ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہوں۔ دور سے آئی ہوئی کسی بیرونی آواز کا کیا اثر ہوسکتا ہے۔ چنانچہ یہ آواز بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی اور ایک مسلمان کے ہاتھوں نادانستہ طور پر حضرت حذیفہ کے والدشہید ہوگئے۔ حضرت حذیفہ کو علم ہوا تو بجائے اس کے کہ کوئی جھگڑا وغیرہ کھڑا کرتے صرف اتنا کہا۔ یغفر اللّٰہ لکم۔ یعنی اللہ تعالیٰ تم کو معاف کرے۔

اس واقعہ کے ساتھ اگر اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ اسلام سے قبل عربوں کی ذہنیت کیا تھی اور وہ کس طرح کتیا کے بچوں کی موت پر برسوں برسرپیکاررہتے تھے تو اس عظیم الشان انسان پر بے ساختہ درود بھیجنے کو دل چاہتا ہے جس نے ان کے اندر ایسا عظیم الشان اور پاکیزہ تغیر پیدا کردیا۔

3

ایک دفعہ دو صحابیوں یعنی امرٔا لقیس اور ربیعہ بن عبدان حضرمی کے مابین کسی زمین کی ملکیت کے بارے میں تنازعہ پیدا ہوگیا۔ جس میں ربیعہ نے بحیثیت مدعی آنحضرتﷺ کے حضور شکایت کی۔ آپ نے ان سے ثبوت طلب فرمایا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اگر تم ثبوت پیش نہ کرسکو گے تو ربیعہ سے قسم لے کر ان کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا۔ لیکن امرء القیس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ جو شخص اپنا حق سمجھتے ہوئے اسے چھوڑ دے اسے کیا اجر ملے گا۔ آپ نے فرمایا جنت۔ اس پر امرء لقیس نے کہا کہ یا رسول اللہ میں اس زمین سے ربیعہ کے حق میں دست بردار ہوتا ہوں۔

4

حضرت عروہ بن مسعود کو بعض لوگوں نے زخمی کر دیا تھا اور وہ آخری دموں پر تھے کہ ان کے قبیلہ کے بعض لوگ ان کے خون کا بدلہ لینے کی تیاریاں کرنے لگے۔ انہوں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اپنے قبیلہ کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میں نے خود اپنا خون معاف کردیا۔ میرے بارے میں کوئی جنگ و جدل نہ کرو میں چاہتا ہوں کہ تمہارے درمیان مصالحت رہے۔

5

صحابہ کرامؓ اکثر جھگڑے کے مواقع کو حلم و برداشت سے کام لے کر ٹال دیتے تھے۔ اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کے درمیان مقدمات بہت تھوڑے ہوتے تھے۔ حضرت سلمان بن ربیعہ باہلی کوفہ کے قاضی تھے۔ ان کی نسبت حضرت ابووائل کا بیان ہے کہ میں ان کے پاس مسلسل چالیس روز تک آتا جاتا رہا۔ لیکن ان کے یہاں کسی فریق مقدمہ کو کبھی نہیں دیکھا۔

6

مروان برسرعام منبرپر چڑھ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو برا بھلا کہا کرتا تھا۔ حضرت امام حسنؓ اس کی باتوں کو اپنے کانوں سے سنتے۔ اور خاموش رہتے تھے۔ ایک مرتبہ اس نے کسی شخص کے ذریعہ آپ کو نہایت فحش باتیں کہلا بھیجیں۔ آپ نے سنیں تو فرمایا اس سے کہہ دینا کہ خدا کی قسم میں اسے گالی کا جواب گالی سے دے کر اس پر سے دشنام دہی کا داغ نہیں مٹاؤں گا۔ آخر ہم دونوں نے ایک روز احکم الحاکمین کے حضور جانا ہے اور وہی منتقم حقیقی جھوٹے سے اس کے جھوٹ کا بدلہ لے گا۔

سیرت صحابہؓ کا یہ پہلو ہمارے زمانہ میں خاص طورپر قابل توجہ ہے۔ عام مسلمانوں میں آج تحمل و بردباری کا فقدان ہے جس کی ایک بڑی وجہ کسی نظام کا موجود نہ ہونا ہے چونکہ و ہ ایک ایسے منتشر گلہ کی طرح ہیں جس کا کوئی نگہبان نہیں۔ اس لیے قومی وحدت اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی قومی شوکت کے احساس سے بالکل عاری ہو کر ذرا ذرا سی باتوں پر طول طویل تنازعات بلکہ مقدمات میں مبتلا رہتے ہںل۔ اور اس طرح اپنی اقتصادی بدحالی کے باوجود بہت سا روپیہ ضائع کرنے کے علاوہ اپنا وقت اور قوت عمل بھی ضائع کرتے ہیں۔ اور اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے علماء اور مذہبی رہنما ان کے سامنے ان کے بزرگوں کا اسوہ پیش نہیں کرتے اور انہیں کبھی یہ بتانے کی زحمت گوارانہیں کرتے کہ ان کے آباؤاجداد کا کیا طریق عمل تھا۔ اور وہ ایسے موقع پر کس طرح حیرت انگیز حلم کا ثبوت دیتے تھے۔

حوالہ جات

  1.  (اسد الغابہ ج 4ص 126، 127 )
  2.  (بخاری کتاب المغازی باب اذ ھمت طائفتان منکم ان تفشلا)
  3.  (اسد الغابہ ج1ص 160)
  4.  (ابن سعد زکر عروہ بن مسعود)
  5.  (اسد الغابہ ج 2ص281)
  6.  (تار یخ الخلفاء سیوطی ص189)