مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

دین کی راہ میں شدائد کی برداشت

1

حضرت عمار کے والد یاسر بن عامر یمن سے آکر مکہ میں آباد ہوئے تھے۔ ان کے حلیف ابو حذیفہ نے اپنی لونڈی حضرت سمیہ کے ساتھ ان کی شادی کردی۔ جب مکہ میں آفتاب رسالت طلوع ہوا تو یہ تینوں بزرگ ابتداء ایام میں ہی قبول صداقت کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت عمار اس وقت عمر کی ابتدائی منازل طے کر رہے تھے۔ مسلمانوں کی تعداد 303۔ 5 ہی تھی کہ باپ ماں اور بیٹا مسلمان ہوگئے۔ یہ و ہ زمانہ تھا کہ مکہ کے ذی وجاہت مسلمان بھی قریش کی ستم رانی سے محفوظ نہ تھے تو اس غریب الوطن خاندان کا کیا حال ہوگا۔ بنی مخزوم نے اس خاندان کو سخت مظالم کا تختہ مشق بنایا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان بے چاروں پر مظالم کی انتہا کردی اور ایسی وحشت و بربریت کا ثبوت دیا کہ آج بھی اس کا ذکر آنے پر انسانیت کی جبین عرق ندامت سے تر ہوجاتی ہے۔ دنیا میں سنگین سے سنگین جرائم پر اتنی شدید سزا کی مثال شاید ہی تاریخ پیش کرسکے جو ان بے بس اور بے کس لوگوں کو محض اسلام قبول کرنے پر دی جاتی تھی۔ مختصر یہ ہے کہ حضرت عمار کی والدہ کو ابوجہل نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر شہیدکردیا۔ لیکن یہ انجام دیکھنے کے باوجود بھی وہ مستقل رہے۔ اور ان کے قلوب میں نور ایمان کی جو شمع روشن ہو چکی تھی۔ مظالم کی شدید ترین آندھیاں اور جبروستم کے بے پناہ طوفان اسے گل نہ کرسکے۔ حضرت یاسر بھی بوجہ ضعیف العمری ان شدائد سے جانبر نہ ہوسکے اور انتقال فرما گئے۔ حضرت عمار کو قریش دوپہر کے وقت انگاروں پر لٹاتے، پانی میں غوطے دیتے ایک مرتبہ انہیں انگاروں پر لٹایا جارہا تھا کہ آنحضرتﷺ کا اس طرف سے گزر ہوا۔ آپ نے حضرت عمار کے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمایا یا نار کونی برداً وسلاما علی عمار کماکنت علیٰ ابراھیم اچھا ہونے کے بعد آپ کی پیٹھ پر زخموں کے نشانات باقی رہے لیکن ان پیہم صدمات اور ان تکالیف کے باوجود جو خود حضرت عمار کو دی جاتی تھیں۔ ان کے ایمان میں کوئی لغزش نہ آئی۔ اور و ہ نہایت پامردی سے اس پر قائم رہے۔ ایمان ان کے نزدیک دنیا کی ہر چیز بلکہ اپنی جانوں سے بھی زیادہ قیمتی چیز تھی۔ جس کی حفاظت و ہ ہرچیز سے ضروری سمجھتے تھے۔

2

حضرت بلال نے عالم جوانی میں اسلام قبول کیا مگر آپ غلام تھے۔ اس زمانہ میں عرب کے غلام جو حیثیت رکھتے تھے وہ تاریخ دان اصحاب سے پوشیدہ نہیں۔ کسی غلام کا اپنے آقا کی مرضی کے خلاف ادنیٰ سے ادنیٰ حرکت کرنا بھی گویا اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ اور پھر اسلام کو قبول کرنا جسے مٹا دینے کے لیے کفار کی تمام طاقتیں وقف تھیں۔ کوئی آسان بات نہ تھی۔ امیہ بن خلف آپ کو چلچلاتی دھوپ میں جبکہ مکہ کی زمین آگ اگل رہی ہوتی گرم ریت پر لٹاتا اور سینہ پر بھاری پتھر رکھ دیتا تھا۔ تاکہ آپ حرکت نہ کرسکیں۔ اور کہتا کہ توبہ کرو ورنہ یونہی سسک سسک کر جان دینی ہوگی۔ مگر آپ کی زبان سے عین اس حالت میں بھی احد احد کی آواز نکلتی تھی۔ یعنی اللہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔

3

حضرت خباب بن ارت کو بھی طرح طرح کے مظالم کا تختہ مشق بنایا جاتا تھا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ مشرکین انگارے دھکاتے اور مجھے ان پرلٹا دیتے اور اس پر بھی جب ان وحشیوں کا شوق ستم رانی پورا نہ ہوتا تو ایک شخص سینہ پر سوار ہو جاتا کہ جنبش نہ کرسکوں۔ اور اس طرح اس وقت تک مجھے لٹائے رکھتے جب تک کہ جسم سے رطوبت نکل نکل کر آگ کو سردنہ کردیتی۔ لیکن یہ مردمجاہد آئے دن کے ان مصائب کے باوجود اپنے ایمان پر مستقل رہا۔ اورکسی مداہنت سے کام لے کر بھی ان تکالیف سے نجات حاصل کرنے کا خیال دل میں نہ لاتا۔

4

حضرت عمر نے اسلام لانے سے قبل اپنی بہن اوربہنوئی حضرت سعد بن زید کو اس قدر مارا کہ ان کے چہرے سے خون کے فوارے چھوٹنے لگے۔ مگر ان کے ایمان میں کوئی لغزش نہ آئی اور آخر ان کا استقلال حضرت عمر کو اسلام میں داخل کرنے کا موجب ہوا۔

5

حضرت ابو جندل بن سہیل مکہ میں ہجرت کے بعد مسلمان ہوئے اور ان کے والدنے ان کو قید میں ڈال دیا۔ بیڑیاں پہنا دیں اور کئی برس تک انہیں مقید رکھا۔ اس قید پر قناعت نہ کرتے ہوئے انہیں اس قدر زدوکوب کیا جاتا کہ بدن پر نشان پڑ جاتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر کفار کی طرف سے شرائط طے کرنے کے لیے یہی سہیل دربار رسالت میں آیا تھا۔ ابھی اس شرط پر بحث جاری تھی کہ قریش کا جو آدمی مسلمان ہو کر آئے گا اسے قریش کے پاس لوٹا دیا جائے گا کہ حضرت ابوجندل اسی طرح پابجولاں کسی نہ کسی طرح کفار کی نظروں سے بچتے ہوئے وہاں آپہنچے۔ انہیں دیکھتے ہی ان کے والد نے کہاکہ ابو جندل کو واپس کر دیا جائے۔ اور اس کے بغیر شرائط صلح طے کرنے سے انکار کردیا۔ آنحضرتﷺ کو چونکہ معاہدات کا بہت خیال تھا۔ آپ نے ابوجندل کو واپس جانے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے چاہا کہ یہ فیصلہ نہ ہو۔ اپنی مصیبتوں کا نہایت درد ناک الفاظ میں ذکر کرکے آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام کے جذبات رحم کو اپیل کیا۔ صحابہ بھی اپنے بھائی کی حالت کو دیکھ کر بے تاب و بے قرار ہوتے جاتے تھے۔ اور کسی حالت میں انہیں واپس بھیجنا پسند نہ کرتے تھے۔ وہ اس بات کو زیادہ پسند کرتے تھے کہ اپنی بھائی کو مصیبتوں سے نجات دلانے کے لیے اپنی جان قربان کردیں۔ ان کی تلواریں نیاموں میں تڑپ رہی تھیں مگر آنحضرتﷺ کے ارشاد کے سامنے کسی کو دم مارنے کا حوصلہ نہ تھا۔ اس لیے خون کے گھونٹ پی کر خاموش رہ گئے۔ حضرت ابوجندل کی اپیل پر آپ نے صرف یہی فرمایا کہ صبر سے کام لو۔ اور واپس چلے جاؤ۔ چنانچہ نہایت خاموشی سے واپس چلے گئے اور پھر انہی مصائب میں گرفتار ہوگئے۔ لیکن پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔

6

معرکہ احد کے بعد چند لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ: تعلیم دین کے لیے چند معلمین ہمارے ساتھ بھیجے جائیں۔ آپ نے ستر مشہور قاری ان کے ساتھ روانہ کیے۔ جن میں سے ایک حضرت حرام بن ملحان تھے۔ جب یہ مقدس قافلہ منزل کے قریب پہنچا تو حضرت حرام نے ساتھیوں سے کہا کہ آپ لوگ ٹھہریں اور میں پہلے جاکر ان لوگوں کا حال دیکھتا ہوں۔ چنانچہ آپ ان کے قبیلہ میں پہنچے اور آنحضرتﷺ کی رسالت پر تقریر شروع کی۔ ان بدبختوں کی نیت پہلے ہی بد تھی۔ چنانچہ آپ تقریر کر رہے تھے کہ ایک شخص نے پیچھے سے اس زور سے تیر مارا کہ ایک پہلو کو توڑتا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔ جب جسم سے خون کا فوارہ چھوٹا تو حضرت حرام نے اس سے چلو بھر کر منہ اور سر پھیرا اور فرمایا فزت ورب الکعبہ یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ آپ کے ساتھیوں کو یہ خبر پہنچی تو وہ بھی پہنچے اور لڑ کر شہادت حاصل کی۔

بنا کر وند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

7

دین کی راہ میں صحابہ تکالیف کو جس قدر خوشی کے ساتھ برداشت کرتے تھے اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ایک غزوہ میں سب کے پاس صرف ایک سواری تھی۔ سفر لمبا تھا اور اکثر پا برہنہ تھے۔ چلتے چلتے بعض کے پاؤں میں زخم ہوگئے۔ بعض کے ناخن گر گئے۔ زخموں کی وجہ سے صحابہ نے پاؤں میں چیتھڑے لپیٹ رکھے تھے۔ اس وجہ سے اس غزوہ کا نام ہی ذات الرقاع پڑ گیا۔

8

غزوہ احزاب میں صحابہ کے پاس سامان رسد اس قدر کم تھا کہ ایک ایک مٹھی جو اور تھوڑی سی چربی پر ہر ایک گزارہ کرتا تھا۔

9

ایک غزوہ میں سامان رسد کی اس قدر قلت تھی کہ صحابہ کھجوروں کی گٹھلیاں چوس چوس کر پانی پی لیتے تھے۔

10

ایک غزوہ میں صحابہ کو فی کس ایک کھجور ملتی تھی۔ جس کو وہ بچوں کی طرح چوس چوس کر کھاتے اور پانی پی لیتے تھے۔ اس کے علاوہ درختوں کے پتے جھاڑ لاتے اور انہیں پانی میں بھگو کر کھالیتے تھے۔

11

حضرت مصعب بن عمیر مکہ کے ایک مالدار گھرانہ کے چشم و چراغ تھے اور اس لیے اس قدر نازونعم میں پرورش پائی تھی کہ مکہ میں اس لحاظ سے کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔ عمدہ سے عمدہ لباس پہنتے اور اعلی سے اعلی خوراک کھاتے تھے۔ نہایت بیش قیمت خوشبوئیں اورعطریات استعمال میں لاتے تھے غرضیکہ نہایت آسائش کی زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے کھانے پینے اور پہننے کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔

لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ایک عرصہ تک تو اسے پوشیدہ رکھا۔ آخر ایک روز ایک مشرک نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ اور آپ کی ماں اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو خبر کردی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو قید میں ڈال دیا گیا۔

آپ ایک عرصہ تک قید و بند کے مصائب نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہے اور موقعہ ملنے پر ترک وطن کرکے حبشہ کی راہ لی۔ اس قدر پرتکلف زندگی کے عادی نوجوان کو قید اور غریب الوطنی میں جس قدر مصائب کا سامنا ہوسکتا ہے ان کے بیان کی ضرورت نہیں۔ لیکن ایمان نے دل پر ایسا اثر کر رکھا تھا کہ کسی مصیبت نے ان کو مغلوب نہیں کیااور پائے استقلال میں کبھی ذرہ بھرلغزش نہ آئی۔

12

حضرت ابو فکیہ صفوان بن امیہ کے غلام تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اسلام کی دولت سے مالامال کیا۔ صفوان اور دوسرے کفار ان کو طرح طرح کی تکالیف دیتے تھے۔ ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر زمین پر لٹا دیتے۔ اور اوپر وزنی پتھر رکھ دیتے تھے۔ تاکہ حرکت نہ کرسکیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کا دماغ مختل ہوجاتا۔ سفاک ان کے پاؤں میں رسہ باندھتے اور گرم زمین پر گھسیٹتے ہوئے لیے پھرتے تھے مگر وہ نہایت صبر کے ساتھ ان کی سختیوں کو برداشت کرتے اور کبھی یہ خیال دل میں نہ لاتے تھے کہ اپنی جان کو مصیبت سے بچانے کے لیے کسی مدا ہنت سے کام لیں۔

13

حضرت زبیر بن عوام جب اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے تو آپ کے چچا نے کوشش کی کہ جبروتشدد کے ذریعہ ان کو ارتداد اختیار کرنے پر مجبور کیاجائے۔ چنانچہ وہ بدبخت آپکو ایک چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں پہنچاتا تھا۔

14

تحمل و شدائد کے ضمن میں باوجود یکہ اس جلد میں صحابیات کا ذکر مقصود نہیں تاہم حضرت ام شریک کا ذکر کیے بغیر ہم نہیں رہ سکتے۔ جب آپ ایمان لائیں تو ان کے اقارب نے ان کو ایذا دینی شروع کی اور اس کے لیے یہ طریق ایجاد کیا کہ انہیں دھوپ میں کھڑا کر دیتے اور اس سخت گرمی کے ساتھ شہد ایسی گرم چیز کھلاتے اور پانی بالکل نہ دیتے تھے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آپ کے حواس مختل ہو جاتے۔ ایسی حالت میں ان سے کہتے کہ اسلام چھوڑ دو۔ مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ سمجھانے کے لیے وہ آسمان کی طرف اشارہ کرتے تو و ہ سمجھ جاتیں کہ توحید کا انکار کرانا چاہتے ہیں۔ مگر آپ جواب دیتیں کہ یہ ہرگز نہ ہوگا۔

صحابہ کرام نے دین کی راہ میں جو شدائد اور مصائب برداشت کیے ان میں ہجرت کی داستان نہایت درد انگیز ہے۔ اپنے گھر بار اور وطن عزیز کے ساتھ تمام عزیز و اقارب حتی کہ مال و اسباب کو بھی چھوڑ دینا بیوی بچوں سے منہ موڑ لینا کوئی آسان بات نہ تھی۔ لیکن صحابہ کرام نے یہ سب کچھ چھوڑا۔ اور ایسا چھوڑا کہ پھر واپسی کی خواہش بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہوتی تھی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف اگر کبھی مکہ میں آتے تھے تو اپنے قدیم مکان میں اترنا تک پسند نہ کرتے تھے۔

ہر شخص اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچے تو اسے معلوم ہو سکتاہے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ کوئی ایک دن کے لیے بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ بیوی بچوں اورماں باپ عزیز و اقارب دوست احباب اور وطن عزیز سے جداہو۔ لیکن صحابہ کرام نے خدا تعالیٰ کے لیے ان سب جدائیوں کو گوارا کیا تاکہ اپنے ایمان کو سلامت رکھ سکیں۔

آنحضرتﷺ کی ہجرت سے قبل بعض صحابہ نے کفار کی ایذا رسانیوں سے نجات کی کوئی راہ نہ دیکھتے ہوئے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور وہاں غربت اور غریب الوطنی کی زندگی کو مکہ کی زندگی پر ترجیح دی۔ اورجب آنحضرتﷺ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی تو پھر بہت سے لوگ وہاں چلے گئے۔ وہاں جاکر ان کو گوناگوں مشکلات کا سامنا ہوا۔ آب و ہوا راس نہ آئی۔ اور کئی بزرگ بخار میں مبتلا ہوگئے۔ صحت برباد ہوگئی کاروبار کا کوئی انتظام نہ تھا گھر بار نہ تھے، وطن عزیز اور مکہ کی وادیوں، چشموں اور پہاڑیوں کے نظاروں کی یاد ان کو بے تاب کر دیتی تھی۔ مگر آفرین ہے ان جواں ہمت لوگوں پر کہ اسلام کی را ہ میں ان سب مشکلات کو بخوشی برداشت کیا۔ اور زبان سے اف تک نہ کی۔

مختصر یہ کہ اسلام قبول کرنے والے جانباز لوگوں کو ظالم و سفاک لوگ سخت دکھ اور اذیتیں پہنچاتے تھے۔ اور اس کے لیے طرح طرح کے طریقے ایجاد کرتے رہتے تھے۔ اور ستم پرستم یہ ہے کہ یہ تکالیف کوئی آنی اور وقتی نہ ہوتی تھیں بلکہ ان کا سلسلہ بہت لمبا چلتا تھا۔ ایک دفعہ ہی جان دے دینا آسان ہے لیکن مسلسل ظلم برداشت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ہرروز نئی موت قبول کی جائے۔ لیکن ہمارے نوجوان صحابہ نے اس موت کو پوری جواں مردی اور جرات کے ساتھ برداشت کیا اوریہ ایک ایسی خصوصیت ہے کہ جو کسی اور قوم کو حاصل نہیں چنانچہ صحابہ کرام جب شام گئے تو ان کے متعلق اہل کتاب کے ایک عالم نے جو رائے ظاہرکی وہ یہ ہے۔

“عیسیٰ بن مریم کے وہ متبع جو آروں سے چیرے اور سولی پر لٹکائے گئے ان لوگوں سے زیادہ تکالیف برداشت کرنے والے نہ تھے” (استیعاب جلد1 صفحہ2)

آج جو لوگ دین کی راہ میں عارضی اور بالکل معمولی سی جدائی بھی برداشت کرتے ہوئے گھبراتے ہیں اور وقتی طورپر بھی تبلیغ اسلام کے لیے گھروں سے نہیں نکلتے ہیں اس لیے تامل کرتے ہیں کہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے اہل و عیال کو کوئی معمولی سی تکلیف ہوگی یا کاروبار کو کوئی خفیف سا نقصان پہنچے گا۔ یا حالت سفر میں و ہ گھر جیسا آرام و آسائش حاصل نہ کرسکیں گے۔ وہ صحابہ کرام کے مثیل ہونے کا دعویٰ اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا خیال بھی کس طرح دل میں لاسکتے ہیں۔

ان واقعات سے آپ پر ظاہر ہوگیا ہے کہ صحابہ کرام دین کی راہ میں بھوکے اور پیاسے رہتے تھے۔ سامان کی کمی کی وجہ سے سخت تکالیف اٹھاتے تھے۔ مگر ان کے قلوب میں ایمان کی اس قدر حرارت موجود تھی کہ جس کے سامنے مصائب کے پہاڑ بھی پگھل کر بہ جاتے تھے اور کوئی چیز ان کے مجاہدانہ اقدام میں حائل نہ ہوسکتی تھی۔ آج زمانہ بالکل مختلف ہے انسانی تمدن میں بہت حد تک تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ اور گوعلمبرداران صداقت کو آج بھی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے مگر آج ان کی نوعیت بدل چکی ہے اور شدت میں بہرحال کمی آچکی ہے۔ دوسری طرف اسلام کی حالت ہم سے یہ تقاضا کر رہی ہے کہ اسے سربلند کرنے اور اس کی صحیح تصویر کودنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے پورے جوش کے ساتھ میدان عمل میں نکلیں اور مندرجہ بالا سطور کے مطالعہ سے اگر ہمارے نوجوان دین کی خاطر انتہائی قربانی کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اور یہ عزم کریں کہ اس راہ میں جو مصائب بھی آئیں گے۔ وہ انہیں خوشی سے برداشت کریں گے تو اسلام کی ترقی یقینی ہو جاتی ہے اور اس کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ درجات پائیں گے کہ ان کا نام ابدالاباد تک زندہ رہے گا۔ اور جس طرح آج صحابہ کے واقعات پڑھ کر ہمارے دلوں کی عمیق ترین گہرائیوں سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں آنے والی نسلوں کے قلوب میں ہمارے لیے محبت کے یہی جذبات موجزن ہوں گے۔

حوالہ جات

  1.  (مستدرک حاکم ج3 ص383)
  2.  (اسد الغابہ ج1 ص283)
  3.  (ابن سعد ج3 ص117)
  4.  (سیر الصحابہ ج2 ص42)
  5.  (بخاری کتاب الشروط)
  6.  (بخاری کتاب المغازی)
  7.  (مسلم کتاب الجہاد)
  8.  (بخاری کتاب المغازی)
  9.  (مسلم کتاب الایمان)
  10.  (ابو داؤد کتاب الاطعمہ)
  11.  (ابن سعد ج3 ص82) (اسد الغابہ ج4ص387)
  12.  (اسد الغابہ ج5ص249)
  13.  (سیر الصحابہ ج2 ص42)
  14.  (ابن سعد ج8 ص111)
  15.  (ابن سعد ج3 زکر عبدالرحمان بن عوف)