مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے
دین کی راہ میں قربانی
1
حضرت عکرمہؓ بن ابوجہل نے قبول اسلام کے بعد یہ عہد کیا تھا کہ جتنی دولت اسلام کی مخالفت میں صرف کر چکا ہوں۔ اس سے دوگنا خدمت اسلام میں صرف کروں گا اور اسلام کی مخالت میں جتنی لڑائیاں لڑا ہوں اس سے دوگنا اسلام کی تائید میں لڑوں گا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جو فتنہ ارتداد اٹھا اس میں شام کی معرکہ آرائیوں میں ان کے کارہانے نمایاں سے تاریخ اسلام کے صفحات مزین ہیں۔ اور اس طرح لڑائیوں کے متعلق انہوں نے اپنا عہد پورا کیا۔ مالی قربانی کا یہ حال ہے کہ ان سب لڑائیوں کی تیاری اور اخراجات کے لیے آپ نے کبھی ایک حبہ بیت المال سے نہیں لیا۔ جب لشکرِ اسلامی شام پر فوج کشی کے لیے تیار ہو رہا تھا تو حضرت ابوبکرؓ فوج کے معائنہ کے لیے تشریف لے گئے۔ تو ایک خیمہ کے باہر آپ نے دیکھا کہ چاروں طرف گھوڑے بندھے ہوئے ہیں۔ تلواریں اور دوسرا سامانِ جنگ باافراط رکھا ہے۔ آپ قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ خیمہ حضرت عکرمہ کا ہے اور سب سامان ان کا اپنا ہے۔ آپ نے کچھ رقم اخراجاتِ جنگ کے لیے ان کو دینا چاہی۔ مگر انہوں نے لینے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میرے پاس تاحال دو ہزار دینار موجود ہیں اس لیے بیت المال پر بوجھ ڈالنے کی مجھے ضرورت نہیں۔
2
مالی قربانی کے علاوہ عزت کی قربانی بھی انسان کے لیے بہت مشکل ہوتی ہے۔ اورکئی لوگ محض اس وجہ سے ہدایت سے محروم رہ جاتے ہیں کہ انہیں لوگوں کی نظروں سے گرجانے کا خوف ہوتا ہے لیکن صحابہ کی حالت بالکل مختلف تھی۔ اور دین کی راہ میں وہ ہرچیز کی قربانی کے لیے تیار رہتے تھے۔
حضرت سعدؓ بن معاذ اپنے قبیلہ کے سردار تھے۔ جب آپ نے اسلام قبول کیا تو قبیلہ کے لوگوں کو بھی اس کی اصلاح ہوگئی۔ آپ جب ان میں پہنچے تو کھڑے ہوئے کر پوچھا کہ میں تم میں کس درجہ کا آدمی ہوں۔ لوگوں نے کہا آپ سردار اور اہل فضیلت ہیں۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ جب تک تم لوگ اسلام قبول نہ کرو گے میں تم سے بات چیت کرنا پسند نہیں کرتا۔ آپ کو اپنے قبیلہ میں جو اثر و رسوخ حاصل تھا۔ ا س کا یہ نتیجہ ہوا کہ شام سے پہلے پہلے تمام قبیلہ مسلمان ہوگیا۔
3
حضرت عبداللہ بن زید کے پاس جائیداد بہت قلیل تھی۔ اور نہایت تنگی کے ساتھ بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اسلام کے لیے مال کی ضرور ت تھی۔ جسے پورا کرنے کے لیے چندہ کی تحریک کی گئی۔ حضرت عبداللہ کے پاس گو مال کی کمی تھی لیکن دل میں ایمانی حرارت موجود تھی۔ ا س سے مجبورہو کر آ پ کے پاس جو کچھ بھی تھا آپ نے سب کا سب خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا۔ ان کے باپ نے آکر آنحضرت ﷺ سے شکائتاً اس کا ذکر کیا۔ تو آپ نے ان کو لا کر فرمایا کہ خداتعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا ہے لیکن اب تمہارے باپ کی میراث کے طور پر تم کو واپس کرتا ہے۔ تم اس کو قبول کرلو۔
4
جب قرآن کریم کی آیت مَن ذَاالّذِی یُقَرِضُ الَلّٰہَ قَرضًا حَسَناً نازل ہوئی تو ایک نوجوان صحابی حضرت ثابتؓ بن وحداح آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کیا یا رسول اللہ کیا خداتعالیٰ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں، یہ سننا تھا کہ دنیوی ضرورتیں، بیوی بچوں کی فکر اور مستقبل کا خیال سب چیزیں آ پ کی نظر سے اوجھل ہوگئیں۔ اور صرف خدا اور اس کا رسول اور اس کے دین کی ضرورت سامنے رہی۔ چنانچہ آپ نے اپنا تمام مال صدقہ کر دیا۔
5
جب آیت کریمہ لن تنا لواالبرَّحتیٰ تنفقوا مما تحبّون نازل ہوئی تو صحابہؓ نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کیں۔ ایک نوجوان صحابی حضرت ابو طلحہؓ نے اپنی ایک نہایت قیمتی جائیداد وقف کردی۔ اس میں ایک کنواں تھا جس کاپانی شیریں تھا۔ اور آنحضرت ﷺ اسے بہت شوق سے پیا کرتے تھے۔
6
حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے ساتھ حضرت علیؓ کی شادی کے بعد ایک روز آنحضرت ﷺ آپ کے ہاں گئے تو حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا۔ کہ حارثہ بن نعمان کے پاس کئی مکانات ہیں ان سے فرمائیں کہ ایک مکان ہمارے لیے خالی کردیں۔ آپ نے فرمایا کہ و ہ ہمارے لیے پہلے ہی اتنے مکانات خالی کر چکے ہیں کہ مجھے اب ان سے بات کہتے ہوئے تأمل ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ان سے اس کے متعلق کوئی ذکر کرنا بھی پسند نہ کیا۔ حضرت حارثہ کو کسی اور ذریعہ سے اس بات کا علم ہوگیا۔ تو آپ بھاگے بھاگے آئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ میرا تمام مال اور جائداد حضورپر قربان ہے اور میں تو اس میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ آپ مری کوئی چیزقبول فرمائیں۔ جو چیز آپ قبول فرمالیں وہ مجھے زیادہ خوشی پہنچاتی ہے بہ نسبت اسکے کہ جو میرے قبضہ میں رہے۔ اور پھر خودبخود ایک مکان خالی کرکے پیش کیا جس میں حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ نے رہائش اختیار فرمالی۔
7
8ھ میں مسلمانوں کو ایک غزوہ پیش آیا جسے غزوہ جیش الخبط کہتے ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد تین سو تھی لیکن زادِ راہ ختم ہوگیا اور مجاہدین کو سخت پریشانی کاسامنا ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ درختوں کے پتے جھاڑ جھاڑ کر کھانے لگے۔ حضرت قیس بن سعد بن عبادہ بھی اس لشکر میں شریک تھے۔ آپ نے تین مرتبہ تین تین اونٹ قرض لے کر ذبح کیے اور سارے لشکر کو دعوت دی۔
8
حضرت صہیب ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ مگر نہایت مسکین اور بے کس آدمی تھے۔ قریشِ مکہ ان کو طرح طرح کی تکالیف پہنچاتے تھے۔ تنگ آکر آپ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو مشرکین نے کہا کہ تم جب یہاں آئے تھے تو بالکل مفلس اور قلاش تھے۔ اب ہماری وجہ سے مالدار ہوگئے ہوتو چاہتے ہو کہ تمام مال و اسباب لے کر یہاں سے نکل جاؤ۔ ہم ہرگز تمہیں ایسا نہ کرنے دیں گے۔ آپ کے دل میں ایمان کی جو لگن تھی وہ ایسی نہ تھی کہ مال و دولت کی زنجیر ان کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے سے باز رکھ سکتی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میں تمام مال و دولت تمہارے حوالہ کردوں تو پھر تو تم کو میرے جانے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ وہ رضامند ہوگئے۔ چنانچہ آپ نے سب مال و اسباب ان کے حوالے کیا اور بالکل مفلس ہو کر ہجرت اختیارکی۔ آنحضرت ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو فرمایا۔ رَبِح صَہیب یعنی صہیبؓ نفع میں رہے۔
جو لوگ معمولی مواقع پیش آنے پر دین کی خدمت سے محروم رہ جاتے ہیں اور ثواب کے مواقع ہاتھ سے کھو دیتے ہیں انہیں اپنے اس بزرگ کی مثال پر غور کرنا چاہیے جس نے ایمان کی حفاظت کے لیے اپنا تمام اندوختہ قربان کرنے میں ایک لمحہ بھی تامل نہ کیا۔
9
حضرت نوفل بن حارث نے غزوہ حنین میں تین ہزار نیزے اپنی گرہ سے خرید کر مجاہدین کے لیے پیش کیے۔
10
حضرت سعد بن مالک بیمار ہوئے تو آنحضرت ﷺ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ انہیں اپنی اس سعادت پر اس قدر مسرت ہوئی کہ عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا کل مال صدقہ کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ ورثاء کے لیے کیا چھوڑتے ہو۔ تو عرض کیا کہ وہ سب خدا تعالیٰ کے فضل سے آسودہ حال ہیں۔ مگر آپؐ نے فرمایا۔ کہ نہیں صرف 1/10 کی وصیت کرو۔ لیکن انہوں نے اس سے زیادہ کرنے کی خواہش کی تو آپ نے 1/3 کی اجازت دے دی۔
11
حضرت ابی وقاص مرض الموت میں مبتلا تھے کہ آنحضرت ﷺ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ حضرت ابی وقاص نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ میرے پاس دولت بہت ہے اور ورثاء میں سے صرف ایک لڑکی ہے۔ چاہتا ہوں کہ 2/3 مال صدقہ کردوں۔ آپؐ نے منع فرمایا تو عرض کیا۔ اچھا نصف کی اجازت دیجئے۔ مگر آپؐ نے اس کی بھی اجازت نہ دی اور فرمایا کہ تیسرا حصہ کافی ہے۔
12
حضرت طلحہؓ نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ اور جنگِ بدر میں جس جاں نثاری کے ساتھ رسول کریم ﷺ کے لیے سینہ سپر رہے اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ کسی دوسری جگہ آچکا ہے۔ لیکن مالی قربانی کے لحاظ سے بھی آپ کسی سے پیچھے نہ تھے۔ عہد کر رکھا تھا کہ غزوات کے مصارف کے لیے اپنا مال پیش کیا کریں گے۔ چنانچہ اس عہد کو استقلال اور استقامت کے ساتھ نباہا۔
غزوہ تبوک کے موقع پر جب مسلمان عام طور پر فلاکت میں مبتلا تھے اور سامان جنگ کی فراہمی کے لیے سخت دقت درپیش تھی۔ آپ نے ایک گراں قدر رقم پیش کی۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے آپ کو فیاض کا خطاب دیا۔
13
جب قرآن کریم کی آیت کریمہ رِجال صَدَقُوا مَاعَاھَدُ واللہ عَلَیہِ فَمِنھُم من قضی نحبہ یعنی کچھ آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو کچھ عہد کیا اس کو سچا کر دکھایا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ طلحہؓ تم بھی ان لوگوں میں سے ہو۔
14
حضرت طلحہؓ غزوہ ذی القرد میں آنحضرت ﷺ اوردیگر مجاہدین کے ساتھ ایک چشمہ آب پر سے گزرے تو اسے خرید کر وقف کردیا۔
15
حضرت عبدالرحمن بن عوف نے جوانی کے وقت اسلام قبول کیا۔ آپ بہت بڑے تاجر اوربہت بڑے مالدار تھے لیکن دولت سے پیار بالکل نہ تھا۔ بلکہ اسے راہ خدا میں خرچ کرنے میں ہی خوشی محسوس کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کا تجارتی قافلہ مدینہ آیا تو اس میں سات سو اونٹوں پر گیہوں، آٹا اوردیگر اشیاء خوردنی بار تھیں۔ چونکہ یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ تمام مدینہ میں چرچا ہونے لگا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے عبدالرحمن جنت میں رینگتے ہوئے داخل ہونگے۔ حضرت عبدالرحمن تک بھی یہ بات پہنچی۔ تو حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ گواہ رہیں میں نے یہ پورا قافلہ معہ اسباب و سامان حتیٰ کہ کجاوے تک راہ خدا میں وقف کردیا۔
16
مذکورہ بالا مثال پرہی آپ کی مالی قربانی ختم نہیں ہوتی بلکہ آپ زندگی بھر راہ دین میں کثرت سے قربانیاں کرتے رہے۔ چنانچہ دو مرتبہ آپ نے یک مشت چالیس چالیس ہزار دینار دئیے اور ایک غزوہ کے موقعہ پر جہاد کے لیے پانچ سو گھوڑے اور اتنے ہی اونٹ حاضر کیے۔
17
وفات کے وقت بھی آپ نے پچاس ہزار دینار اور ایک ہزار گھوڑے راہ خدا میں وقف کرنے کی وصیت کی۔ علاوہ ازیں اس وقت تک بدری صحابیوں میں سے جو جو زندہ تھے ان میں سے ہر ایک کے لیے چار چار سو دینار کی وصیت کی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت تک ایک سو بدری صحابی زندہ تھے۔ اور سب نے اس وصیت سے بخوشی فائدہ اٹھایا حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ نے بھی اپنا حصہ لیا۔
18
دین کی راہ میں صحابہؓ کی قربانیاں کئی رنگ میں ہوتی تھیں۔ ایک متمول انسان کا خدا کی راہ میں مال خرچ کرنا اور بات ہے لیکن ایک معمولی حیثیت کے آدمی کا اپنے سرمایہ اور پونجی سے محروم ہوجانا بہت بڑا ابتلاء ہے۔ اور شیطان نے اس راہ سے بھی صحابہؓ کے ایمان میں تزلزل پیدا کرنے کی کوششیں کی لیکن باقی تمام راہوں کی طرح وہ اس راہ سے بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکا۔
حضرت خبابؓ ایک نوجوان صحابی تھے جن کاایک مشرک عاص بن وائل کے ذمہ قرض تھا۔ آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد جب اس سے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ جب تک محمدﷺ کی نبوت کا علی الاعلان انکار نہ کرو گے میں یہ روپیہ تم کو ہرگز ادا نہ کروں گا۔ لیکن آپ نے جواب دیا کہ روپیہ ملے یا نہ ملے لیکن یہ تو قیامت تک نہیں ہوسکتا کہ میں ایک معمولی دنیوی فائدہ کے لیے نبوت و رسالت سے انکار کردوں۔
19
جانی اور مالی اور عزت کی قربانیوں کے علاوہ دنیا میں تعلقات اور رشتہ داروں کی قربانی بھی بہت مشکل ہے۔ آنحضرت ﷺ کی آواز پر جن لوگوں نے لبیک کہا۔ ان کے لیے اس قربانی کا موقعہ آنا بھی لازمی تھا۔ چنانچہ صحابہؓ کو یہ قربانیاں کرنی پڑیں۔ اور آپ نے دوسرے رنگ کی قربانیوں کی طرح اس میں بھی نہایت عمدہ نمونہ پیش کیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص اپنی والدہ کے بے حد فرماں بردار اور خدمت گزار تھے۔ انیس سال کا سن تھا کہ آپ کو قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی۔ ماں کو علم ہوا تو سخت رنج ہوا اور قسم کھائی کہ جب تک سعد نئے دین کو نہ چھوڑیں گے میں نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی اور نہ ان سے بات چیت کروں گی۔ چنانچہ اس قسم کو پورا کیا حتیٰ کہ تیسرے دن بے ہوش ہوگئی۔ اور نقاہت کی وجہ سے غش پرغش آنے لگے۔ اسے اپنے سعادت مند فرزند پر یہ امید تھی کہ اسے مسلسل فاقہ اور تکلیف کی حالت میں دیکھ کر ضرور اس کا کہا مان لے گا۔ اسلام سے برگشتہ ہو جائے گا اور ایمان کواس کی خوشنودی پر قربان کر دے گا۔ ایک طرف ماں کی جان جانے کا خیال تھا اور دوسری طرف ایمان کے ضائع ہونے کا۔ عام حالات میں دنیا دار لوگ اپنی ماں کو کسی عقیدہ پر قربان کرنے کے لیے بہت کم تیار ہوسکتے ہیں۔ لیکن حضرت سعد اسلام کو ماں کی جان سے بہت زیادہ قیمتی سمجھتے تھے۔ چنانچہ ماں کی اس ستیہ آگرہ کا ان پرکوئی اثر نہ ہوا اور اس سے صاف کہہ دیا کہ اگر تمہارے قالب میں سو جانیں ہوں اور ہر ایک نکل جائے تو بھی میں اپنے دین کو نہ چھوڑوں گا۔
20
ایسے ابتلاء اور بھی کئی صحابہؓ کو پیش آئے مگر سب کے سب ثابت قدم رہے۔ حضرت خالد بن سعید جب اسلام لائے تو ان کے باپ کو سخت صدمہ ہوا۔ بیٹے کو خوب زدوکوب کیا اور ساتھ ہی خود کھانا پینا ترک کردیا اورکہا کہ جب تک میرا بیٹا اسلام کو ترک نہ کرے گا میں نہ کھانا کھاؤں اور نہ پانی پیوں گا۔ گھر میں ان کے بائیکاٹ کا حکم دے دیا حتیٰ کہ سب نے بات چیت تک بند کردی مگر اس سعید نوجوان پر ان میں سے کسی بات کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور انہوں نے رسول کریمﷺ کی رفاقت کو ایک لمحہ کے لیے بھی چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ اور آخر کار حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ اس پر باپ کو اور بھی رنج ہوا اور وہ بھی اپنا مال و اسباب کو لے کر طائف کو چلاگیا۔
21
حضرت ابوبکر کی عمر آنحضرتﷺ سے اڑھائی سال کم تھی۔ آپؐنے چالیس سال کی عمر میں دعویٰ رسالت کیا۔ اور اس لحاظ سے حضرت ابوبکرؓ کاشمار بھی نوجوان صحابہ میں ہوسکتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ بہت سے غلام اور لونڈیاں جو اپنے مشرک آقاؤں کے قبضہ میں تھے اسلام قبول کرنے کے باعث طرح طرح کے مظالم کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے۔ اور ان کے ہاتھوں سخت اذیتیں اٹھا رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی محبت نے اپنے بھائیوں کے مصائب پر جوش مارا اور ان کی محبت نے مال و دولت کی محبت انکے دل میں سرد کردی۔ اور انہوں نے کئی ایسے غلام مثلاًحضرت بلالؓ ، حضرت عامر بن فہیرہ، نذیرہ، نہدیہ، جاریہ بن نوفل اور بنت تہدیہ وغیرہ کو خرید کر آزاد کردیا۔
کسی دنیوی لالچ کے بغیر اور کسی ظاہری نفع کی امید کے بالکل نہ ہونے کے باوجود ایسے لوگوں کے لیے جن سے نہ کوئی رشتہ تھا اور نہ قرابت۔ حتیٰ کہ ہم قوم بلکہ بعض حالتوں میں ہم وطن ہونے کا بھی تعلق نہ تھا۔ اس قدر مالی قربانی کرنا صرف مسلمانوں کا ہی حصہ ہے۔
22
حضرت ابوبکرؓ عرب کے متمول ترین لوگوں میں سے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبول اسلام کی توفیق ایسے وقت میں دی جو امنگوں اور آرزوؤں کا زمانہ تھا یعنی عالم جوانی میں، جو عمر عرب کے تمدن کے لحاظ سے داد عیش و نشاط دینے کی عمر سمجھی جاتی تھی لیکن آپ نے اپنی دولت و ثروت کو دین کے لیے وقف فرما دیا تھا۔ قبول اسلام کے وقت آپ کے پاس چالیس ہزار درہم نقد موجود تھے مگر سب راہ دین میں صرف کردئیے۔
آپ نے اس قدر مالی قربانیاں کیں کہ زمانہ خلافت میں آپ پر چھ ہزاردرہم قرض تھا۔ وفات کے وقت بھی آپ مقروض تھے۔ اور وصیت فرمائی تھی کہ میرا باغ بیچ کر قرض ادا کیا جائے اور پھر جو مال بچے وہ حضرت عمرؓ کے سپرد کر دیا جائے۔ اس عظیم الشان انسان کی وفات پر جو دنیا میں درہم و دینار سے کھیلتا رہا اور سیم وزر لٹاتا رہا جسے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے حکومت کا بھی بلند ترین منصب عطا کیا جب ا سکے مال و اسباب کاجائزہ لیا گیا تو صرف ایک غلام ایک لونڈی اور دو اونٹنیاں نکلیں۔ جو حضرت عمرؓ کے سپرد کر دی گئیں۔
23
حضرت عثمان نے 34سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ آپ بہت بڑے دولت مند تھے۔ مکہ سے ہجرت کرکے جب مسلمان مدینہ میں آئے تو پانی کی سخت تکلیف تھی۔ صرف ایک کنواں (بیررومہ)ایسا تھا جس کا پانی عمدہ اورشیریں تھا۔ مگر وہ ایک یہودی کی ملکیت تھا جو پانی قیمتاً فروخت کرتا تھا۔ ادھر صحابہ کی مالی حالت عام طور پر ایسی نہ تھی کہ مول لے کر پانی پی سکیں۔ اس لیے حضرت عثمانؓ نے وہ کنواں اس کے یہودی مالک سے بیس ہزار درہم میں خرید کر وقف کردیا۔
24
آنحضرتﷺ نے جب غزوہ تبوک کی تیاری کا حکم دیا تو مالی تنگی حد سے زیاد ہ تھی۔ اور سامان جنگ کا مہیا کرنا سخت مشکل ہو رہا تھا۔ آپ نے صحابہ کرام کو مالی اعانت کی تحریک فرمائی۔ تو حضرت عثمان نے دس ہزار مجاہدین کو اپنے خرچ سے آراستہ کیا۔ اور ان کے لیے معمولی سے معمولی چیز بھی آپ کے روپیہ سے خریدی گئی۔ اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور سامان رسدکے لیے ایک ہزار دینار نقد پیش کیے۔
25
حضرت امام حسنؓ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے تین مرتبہ اپنا آدھا آدھا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کیا۔ اور تنصیف میں اس قدر شدت سے کام لیا کہ دو جوتوں میں سے ایک جوتا بھی دے دیا۔ (اسد الغابہ جلد2۔ ص 13)
26
دین کی راہ میں صحابہ کرام کیا مرد اور کیا عورتیں ہررنگ میں قربانی کے لیے کمربستہ نظرآتے ہیں۔ مال و دولت اور جان عزیز کے علاوہ جب موقعہ ہوتا تو اپنی اولادوں کو بھی نہایت اخلاص کے ساتھ قربان کردیتے تھے۔ ایک عورت کی مثال پڑھیے اور غور کیجئے کہ ہمارے بزرگ کیسے کامل الایمان تھے۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب عراق میں قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی تو حضرت خنساء اپنے چار بیٹوں کو لے کر میدان جنگ میں آئیں اور ان کو مخاطب کر کے کہا کہ پیارے بیٹو! تم نے اسلام کسی جبر کے ماتحت اختیار نہیں کیا اس لیے اسکی خاطر قربانی کرنا تمہار افرض ہے۔ خدا کی قسم میں نے نہ تمہارے باپ سے کبھی خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا۔ یہ دنیا چند روزہ ہے اور اس میں جو آیا وہ ایک نہ ایک دن مرے گا۔ لیکن خوش بخت ہے وہ انسان جسے خدا تعالی کی راہ میں جان دینے کا موقعہ ملے۔ اس لیے صبح اٹھ کرلڑنے کے لیے میدان میں نکلو اور آخر وقت تک لڑو۔ کامیاب ہو کر واپس آؤ۔ نہیں تو شہادت کا مرتبہ حاصل کرو۔ سعادت مندبیٹوں نے بوڑھی ماں کی اس نصیحت کو گوش ہوش سے سنا اور لڑائی شروع ہوئی تو ایک ساتھ گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں۔ اور نہایت جوش کے ساتھ رجز پڑھتے ہوئے کفار پر ٹوٹ پڑے۔ اور چاروں نے شہادت کادرجہ پایا۔ دلاور ماں نے جب بیٹوں کی شہادت کی خبر سنی تو ان کو قربانی کا یہ موقعہ ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ (اسد الغابہ جلد 1 ص 560)
صحابہ کرامؓ کے مردوزن کی قربانیوں کی یہ چندایک مثالیں دینی ترقی کا راز اپنے اندر مضمر رکھتی ہیں۔ انہیں ہر قسم کی قربانیوں کے مواقع پیش آئے۔ مالی بھی اور جانی بھی۔ عزت کی بھی اور رشتہ داروں کی اور اولاد کی بھی۔ اور انہوں نے ہر موقعہ پر نہایت شرح صدر اور بشاشت قلب کے ساتھ یہ قربانیاں پیش کیں۔ پھر یہ سعادت کسی خاص طبقہ کے لیے مخصوص نہ تھی۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ مالدار لوگوں کے لیے قربانیاں کرنا کیا مشکل امر ہے؟ مشکل تو غریبوں کے لیے ہے جن کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہ ہو لیکن ان واقعات میں جہاں آپ کو نادار لوگوں کی انتہائی قربانیوں کی مثالیں نظرآئیں گی وہاں امراء کی بے مثال قربانیاں بھی ملیں گی۔ جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ جو پہلے ہی تنگ دست ہو اس کے لیے کچھ دے دینا کیامشکل ہے۔ مشکل تو ان لوگوں کے لیے ہے جن کی ضروریات وسیع ہوتی ہیں۔ جن کی تمدنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ وہ بوجہ عادی ہونے کے آرام و آسائش کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور تکلیف سے گزارہ نہیں کرسکتے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ قربانی نہ دولت و مال پر منحصر ہے اور نہ تنگدستی اور مفلسی کا نتیجہ۔ بلکہ اس کا تعلق انسان کے قلبی ایمان کے ساتھ ہوتا ہے جس کے دل میں ایمان کی شمع روشن ہو اس کے لیے قربانی کی راہ میں نہ اس کی غربت حائل ہو سکتی ہے نہ کثرت اموال۔
حوالہ جات
- (اسد الغابہ ج3ص568)
- (سیر انصارج2ص14ص)
- (اسد الغابہ ج2ص138، 139 )
- (اسد الغابہ ج۱ص305)
- (سیر انصارج۱ص168، 169)
- (ابن سعدج 8ص22)
- (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃسیف البحر۔۔۔ )
- (ابن سعدج3ص162)
- (اسد الغابہ ج5ص573، 574)
- (ترمذی ابواب الجنائز باب ما جاء فی الوصیۃ فی الثلث و الربع)
- (ابو داؤد کتاب الوصایا باب ما جاء فی ما لا یجوز للموصی فی مالہ)
- (اسد الغابہ ج 2ص475، 479)
- (فتح الباری ج ص )
- (اصابہ ج3 ص430)
- (اسد الغابہ ج3 ص377، 378)
- (اسد الغابہ ج3 ص379)
- (اسد الغابہ ج3 ص379)
- (بخاری کتاب الاجارہ باب ھل یواجر الرجل نفسہ من مشرک)
- (اسد الغابہ ج3 ص234، 235)
- (ابن سعد ج3ص100)
- (فتح الباری ج7 ص24)
- (ابن سعد ج1ص122)
- (ابن سعد ج1ص137)
- (استیعاب ج3 ص157)
- (مستدرک حاکم ج3 ص103)
- (اسد الغابہ ج6 زیر لفظ خنسا)