مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

سوال سے نفرت بے نیازی اور سیر چشمی

صحابہ کرامؓ کے دلوں میں آنحضرتﷺ نے خدا تعالیٰ پر جو ایمان پیدا کر دیا تھا وہ انہیں تنگ سے تنگ حالت میں بھی انسان کے سامنے جھکنے نہیں دیتا تھا اس لیے وہ سوال کو سخت معیوب سمجھتے تھے۔ اس کی چندمثالیں پیش کی جاتی ہیں۔

1

حضرت مالکؓ نے جنگ احد میں شہادت پائی تو ان کے فرزند حضرت ابو سعید خدری کی عمر اس وقت صرف تیرہ سال تھی۔ باپ نے کوئی جائداد نہ چھوڑی تھی کہ جس سے بسر اوقات ہوسکتی۔ فاقہ پر فاقہ آنے لگا حتی کہ کئی بار پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارا کرنا پڑا۔ ایک روز ان کی والدہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺکے پاس جاؤ۔ آج انہوں نے فلاں شخص کو دیا ہے تم بھی مانگو۔ ماں کے حکم کے ماتحت وہ حضورکی خدمت میں پہنچے۔ اس وقت حضور خطبہ ارشاد فرما رہے تھے جس میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص تنگی کی حالت میں صبر کرے اللہ تعالیٰ اسے غنی کرے گا۔ یہ سن کر حضرت ابو سعید نے دل میں کہاکہ جب میرے پاس ایک اونٹنی موجود ہے تو مجھے مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ واپس آگئے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی بات ان کے حق مںا پوری کی اور اس قدررزق دیا کہ تمام انصار سے دولت و ثروت میں بڑھ گئے۔

2

حضرت ثوبان ایک غلام تھے جنہیں آنحضرتﷺ نے خرید کر آزاد کردیا تھا۔ اور نصیحت فرمائی تھی کہ کبھی کسی سے سوال نہ کرنا۔ چنانچہ انہوں نے اس ارشاد پر اس قدر شدت سے عمل کیا کہ اگر کبھی سواری کی حالت میں کوڑا زمین پر گرجاتا تو کسی سے یہ بھی نہ کہتے کہ پکڑا دو بلکہ خود اتر کر پکڑتے تھے۔

3

ایک مرتبہ چند صحابہؓ آنحضرتﷺ کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئے تو دیگر شرائط بیعت کے علاوہ آپ نے ایک شرط یہ پیش کی کہ لاتساَلو الناس شیئا۔ یعنی لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔ اور ان لوگوں نے نہایت سختی کے ساتھ اس ارشادپر عمل کیا۔

4

ایک بار حکیم بن حزام نے آنحضرتﷺ سے کچھ سوال کیا جسے آپ نے پورا کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے پھر مانگا اور آپ نے پھر دیا لیکن ساتھ نصیحت فرمائی کہ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہرحال بہتر ہے۔ حضرت حکیم نے اس نصیحت کو سن کر عہد کیا کہ آئندہ کبھی کسی سے کچھ نہ مانگوں گا۔ اور اس عہد پر اس شدت سے عمل کیا کہ نہ صرف یہ کہ اس کے بعد کسی سے کچھ مانگا نہیں بلکہ اگر خود بخود پیش کیا جاتا تو اسے قبول کرنا باعث عار سمجھ کر رد کردیتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ اپنے عہد خلافت میں ان کو عطیہ دینے کے لیے طلب فرماتے تو وہ انکار کردیتے۔ حضرت عمرؓ نے بھی اپنے زمانہ میں ان کو عطیہ دینا چاہا مگر انہوں نے قبول نہ کیا۔ آخر حضرت عمرؓ نے کہا کہ مسلمانو! تم گواہ رہو کہ میں حکیم کو ان کا حق دیتا ہوں مگر وہ خود نہیں لیتے۔

5

حضرت مالک بن سنان کو سوال سے اس قدر نفرت تھی کہ ایک مرتبہ تین روز تک بھوکے رہے لیکن کسی سے کچھ مانگا نہیں۔

6

ایک مرتبہ عبدالعزیز بن مروان نے حضرت عبداللہ بن عمر کو لکھا کہ اپنی ضروریات مجھے پیش کریں۔ میں پوری کروں گا۔ انہوں نے جواب مںا لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہترہے۔ خیرات اس شخص سے شروع کرو جس کے تم کفیل ہو میں تم سے کچھ نہیں مانگتا۔

7

ایک بار حضرت وائل بن حجر حضرت امیر معاویہ کے پاس آئے تو انہوں نے ان کو عطیہ دینا اوروظیفہ مقرر کرنا چاہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں مجھ سے زیادہ مستحق لوگوں کو دو۔

8

حضرت عثمان نے ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن ارقم کو تیس ہزار درہم دینا چاہے مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔

9

مال خمس میں سے ایک حصہ اہل بیت کو ملا کرتا تھا جس کا انتظام اور تقسیم وغیرہ حضرت علیؓ کے سپرد تھی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مرتبہ بہت سا مال آیا۔ تو آپ نے حسب معمول اہل بیت کا حصہ حضرت علیؓ کو دینا چاہا۔ مگر انہوں نے کہا کہ اس سال تو ہم اس سے بے نیاز ہیں جو مسلمان مستحق ہیں یہ بھی ان میں تقسیم کردیں اور حضرت عمر نے وہ حصہ بیت المال میں داخل کردیا۔

آنحضرتﷺ کے ان صریح ارشادات اور بزرگوں کے اسوہ کے باوجود جب ہم دیکھتے ہیں کہ آج گداگروں اور بھیک منگوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمان کہلانے اور امت محمدیہ میں اپنا شمار کرانے والوں کی ہے تو ہر غیرت مند اور باحیا مسلمان کا سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔

حوالہ جات

  1.  (مسند احمد ج3 ص380)
  2.  (مسند احمد ج6 ص373)
  3.  (ابو داؤد کتاب الزکوۃ)
  4.  (بخاری کتاب الزکوۃ)
  5.  (اسد الغابہ ج4 ص234)
  6.  (مسند احمد ج6 ص4)
  7.  (استیعاب ج4 ص123)
  8.  (استیعاب ج3 ص4)
  9.  (ابو داؤد کتاب الخراج)