مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

شوق تحصیل علم

کون نہیں جانتا کہ عرب جاہلیت کا مرکز تھا جس میں تعلیم کا نام و نشان بھی مشکل سے ملتا تھا۔ لیکن نورِ ایمان کے ساتھ مسلمانوں کے اندر حصول علم کا ایک ایسا جذبہ پیدا ہوگیا جس نے نہ صرف یہ کہ ان کی کایا پلٹ دی بلکہ دنیا بھر کے علوم کا ان کو بانی بنا دیا۔ یہ مضمون اس قدر وسیع ہے کہ اس پر کئی ضخیم جلدیں لکھی جاسکتی ہیں مگر یہ اس کا موقعہ نہیں۔ اس لیے صرف بطور نمونہ چند نوجوان صحابہ کی علمی شان کے ذکر پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔

1

حضرت ابوہریرہ کا جو مرتبہ علم حدیث میں ہے اس سے سب دنیا واقف ہے۔ مگر شاید اس بات کا علم کم لوگوں کو ہوگا کہ آپ نے عین جوانی میں یعنی تیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ اور اس زمانہ میں جو امنگوں اور آرزوؤں کا زمانہ ہے آنحضرت ﷺ کے دہن مبارک سے بکھرنے والے موتیوں کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھنے کے جوش میں تمام جذبات کو مار کر ایک بے نوا فقیر کی طرح اپنے آپ کو حضور کے قدموں میں ڈال دیا۔ اور سایہ کی طرح ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے۔ کئی کئی فاقے گزر جاتے مگر پیٹ پر پتھر باندھ کر اس وجہ سے سجدہ ہی میں پڑے رہتے کہ ایسا نہ ہو کھانے کی فکر میں باہر جائں اور بعد میں آنحضرت ﷺ باہر تشریف لاکر کوئی بات ارشاد فرمائیں اور اس کے سننے سے محروم رہ جائیں۔ فاقہ کی وجہ سے کئی بار غش کھا کھا کر گرتے۔ اور لوگ خیال کرتے کہ آپ مرض مرع کے مریض ہیں۔ حالانکہ یہ حالت صرف بھوک کے باعث ہوتی تھی۔ اسی جانفشانی کانتیجہ ہے کہ آپ سے مرویات کی تعداد 5374 ہے۔

(اصابہ جلد 7۔ صفحہ 205)

2

آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت حضرت اسامہ بن زید کی عمر صرف بیس سال تھی لیکن یہ بات متفق علیہ ہے کہ آ پکا سینہ اقوال النبی ﷺ کا خزینہ تھا۔ بڑے بڑے صحابہ کو جس بات میں شک ہوتا اس کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ (بخاری جلد 1۔ صفحہ 414)

3

حضرت عثمان بن ابی العاص آنحضرت ﷺ کے آخری زمانہ میں اسلام لائے تھے۔ اوراس وقت آپ کی عمر بھی بہت چھوٹی تھی مگر علمی پایہ کا اندازہ اس سے ہوسکتاہے کہ حضرت عمرؓ فرمایاکرتے تھے کہ یہ لڑکا تفقہ فی الاسلام اور علم القرآن کا بڑا حریص ہے۔ کم سنی کے باوجود امتیاز کے باعث آنحضرت ﷺ نے آپ کو بنی تقیف کا امام مقرر فرمایا تھا۔

(تہذیب الناس صفحہ220)

4

حضرت ابو سعید خدری کی عمر گو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بہت چھوٹی تھی تاہم آپ سے 1170 احادیث مروی ہیں جس سے اندازہ کیا جاکتا ہے کہ وہ حصول علم کاکس قدرشوق رکھتے تھے۔

5

حضرت سعد بن زراہ کو آنحضرت ﷺ نے بوجہ ان کی علمیت کے بنو نجار کا نقیب مقرر فرمایا تھا۔ بلحاظ سن و سال آپ سب نقیبوں میں سے چھوٹے تھے۔

(اسد الغابہ جلد1۔ صفحہ 71)

6

حضرت جابر بن عبداللہ کی عمر قبولِ اسلام کے وقت صرف 1819۔ سال تھی۔ لیکن تحصیل علم کا اس قدر شوق تھا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن انیس کو ایک حدیث یاد ہے۔ حضرت عبداللہ اس وقت شام میں رہتے تھے۔ حضرت جابر نے ایک اونٹ خریدا اور اس حدیث کو سننے کے لیے ان کے پاس شام میں پہنچے۔ اسی طرح ایک حدیث حضرت مسلمہ امیر مصر کو یادتھی اوراسکی خاطر حضرت جابر ان کے پاس مصر پہنچے۔ (فتح الباری جلد 1۔ صفحہ159)

7

حضرت زید بن ثابت نے گیارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا اور اسی وقت قرآن کریم پڑھنا شروع کردیا۔ آنحضرت ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ سترہ سورتیں حفظ کر چکے تھے۔ عرب کے نوجوان ابتدائی زندگی جس طرح گزارتے تھے اسے مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک اچنبھا بات تھی۔ اس لیے لوگ آپ کو آنحضور کی خدمت میں لے گئے۔ حضور ﷺ نے آپ سے قرآن سنا تو نہایت مسرور ہوئے۔

8

حضرت زیدبن ثابت جن کا ذکر مندرجہ بالا واقعہ میں ہو چکا ہے نہایت ذکی اور فہیم تھے۔ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس بعض خطوط سریانی اور عبرانی میں آتے ہیں جن کااظہار کسی پر مناسب نہیں ہوتا۔ اور یہ زبانیں سوائے یہود کے کوئی نہیں جانتا بہتر ہے کہ تم یہ زبان سیکھ لو۔ چنانچہ آپ سیکھنے لگے۔ اور اس قدر شوق اور محنت سے کام لیا کہ پندرہ ہی روز میں خطوط پڑھنے اور ان کا جواب لکھنے پر قادرہوگئے۔ (سند جلد5۔ صفحہ 186)

9

حضرت سہل بن سعد کی عمرآنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بہت چھوٹی تھی تاہم تحصیل علم کے شوق کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ آپ سے 1188 احادیث مروی ہیں۔ (سیر انصاریہ جلد 2۔ صفحہ 6)

10

حضرت عمرو بن خرم نے کمسنی میں اسلام قبول کیا تھالیکن علمی قابلیت اصابت رائے اور قوت فیصلہ کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ بیس سال کی عمر میں ہی آنحضرت ﷺ نے آپ کو نجران کا حاکم مقرر کر کے بھیجا۔ (سیر انصار جلد 2۔ صفحہ 117)

11

حضرت عمیر بن سعد آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اس قدر کمسن تھے کہ غزوہ میں شرکت نہ کرسکے۔ تاہم صحابہ میں بلحاظ علم و فضل ایسا بلند مرتبہ حاصل کرلیا تھا کہ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ کاش مجھے عمیر جیسے چند آدمی اور مل جاتے تو امور خلافت میں ان سے بہت مدد ملتی۔ (سیر انصار جلد 2۔ صفحہ120)

12

مسلم نوجوانوں کو قرآن سیکھنے کا اس قدر شوق تھا کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے کسی خاص غرض کے ماتحت حفاظ کی مردم شماری کرائی۔ تو معلوم ہوا کہ فوج کے ایک دستہ میں تین سو سے زائد حفاظ تھے۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن)

13

حضرت معاذ بن جبل نے عین عالم شباب یعنی 32 سال کی عمر میں انتقال کیا تھا مگر اس عمر کو عام طو پر نفسانی خواہشات کے غلبہ کی عمر سمجھی جاتی ہے۔ آپ نے جس پاکبازی کے ساتھ بسرکیا اس کا انداز اس امرسے ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر جب انتقال فرمانے لگے تو لوگوں نے کہا کہ کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں مگر آ پ نے فرمایا کہ کاش معاذ زندہ ہوتے تو ان کو خلیفہ مقرر کر جاتا۔ نیز آپ فرمایا کرتے تھے کہ عجزت النساء ان یلدن مثل معاذ یعنی عورتیں معاذ کا ثانی پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ (سیر انصار جلد 2 صفحہ 184) اس کے علاوہ آپ مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔ (کنز العمال 134) مکہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے آپ کو یمن کا امیر مقرر فرمایا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضور علیہ السلام کے نزدیک آپ کا علمی اور عقلی پایہ بہت بلندتھا۔ (مسند جلد5۔ صفحہ 235)

14

حضرت مجمع بن جاریہ نے بچپن میں ہی قرآن کریم حفظ کرلیا تھا جو اگرچہ فی زمانہ کوئی خاص بات نہیں سمجھی جاتی لیکن اس زمانہ کے تمدن کے لحاظ سے بہت بڑی بات تھی (اسد الغابہ جلد4۔ صفحہ203) زہد و تقدس کی وجہ سے اپنی قوم میں امام تھے۔ آپ کا باپ ہی مسجد ضرار کا بانی تھا۔ مگر آپ نے باوجود کم سنی کے اسلامی تعلیم کی روح کو ایسی عمدہ طرح اخذ کیا ہوا تھا کہ باپ کا قطعاً کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ (سیر انصار جلد 2۔ صفحہ 204)

15

حضرت نعمان بن منذر کی عمر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں آٹھ سال کی تھی لیکن حضور علیہ السلام کے حالات کا بغور مطالعہ کرتے رہتے اور انہیں یاد رکھتے تھے۔ منبر کے بالکل قریب بیٹھ کر وعظ سنتے تھے۔ ایک مرتبہ دعویٰ سے کہا کہ میں آنحضرت ﷺ کی رات کی نماز کے متعلق اکثر صحابہ سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں۔ (مسند جلد4۔ صفحہ269)

16

حضرت سمرہ بن جندب عہد نبوت میں بالکل صغیر السن تھے۔ مگر سینکڑوں حدیثیں یاد تھیں لکھا ہے کہ کان من الحفاظ المکثرین عن رسول اللّٰہ ﷺ یعنی آپ حدیث کے حافظ اور آنحضرتﷺ سے کثیر روایت کرنے والے تھے۔ (استیعاب جلد 2۔ صفحہ 579)

17

حضرت عمر کے متعلق لکھا ہے کہ مدینہ سے کسی قدر فاصلہ پر اقامت رکھتے تھے مگر تحصیل علم کا اس قدر شوق تھا کہ ایک روز خود آنحضرت ﷺ کے دربار میں حاضر ہوتے اور دوسرے روز اپنے پڑوسی حضرت عتبان بن مالک کو بھیجتے۔ تاکہ کسی روز بھی حضور کے ارشادات سننے سے محروم نہ رہیں۔ آپ واپس آکر اس روز کی بات پڑوسی کو سناتے اور دوسرے روز ان سے خودسنتے۔ (بخاری کتاب العلم)

18

مدینہ سے باہر رہنے والے مسلمان قبائل اپنے میں سے بعض کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تھے۔ جو دربار رسالت میں کچھ عرصہ حاضر رہ کر تعلیم حاصل کرتے اور پھر واپس جاکر اپنے قیبلہ کو سکھاتے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر صفحہ88)

19

اصحاب الصفہ نہایت غریب اور نادار لوگ تھے جو گزارہ کے لیے محنت شاقہ پرمجبور تھے۔ چنانچہ دن کے وقت جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اور باہر سے شہر میں پانی بھر کر لاتے۔ اور اس طرح قوت لایموت کا انتظام کرتے تھے۔ اس وجہ سے دن میں تعلیم کا وقت بہت کم ملتا تھا اس لیے رات کو پڑھتے تھے۔ (مسند جلد 3۔ صفحہ 137)

20

حضرت عمرو بن مسلمہ کی عمر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں سات آٹھ سال کی تھی مگر اپنے قبیلہ میں سب سے زیاد ہ قرآن دان تھے۔ قبیلہ کے لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ امام الصلوۃ کسے بنائیں۔ آپ نے فرمایا جو سب سے زیاد ہ قرآن دان ہو چنانچہ آپکو امام بنایا گیا۔ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)

21

حضرت سلمان فارسی ابو الدرداء کو لکھتے ہیں کہ علم ایک چشمہ ہے جس پر لوگ پیاس بجھانے کے لیے آتے ہیں۔ اور دوسروں کو سیراب کرنے کے لیے اس سے نالیاں نکالتے ہیں لیکن اگر کوئی عالم خاموش ہو تو وہ جسم بے روح ہے۔ اگر علم کو لٹایا نہ جائے تو وہ مدفون خزانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ عالم کی مثال اس شخص کی سی ہے جو تاریک راستے میں چراغ دکھاتا ہے۔

22

حضرت عبداللہ بن عباس نہ صرف آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بلکہ حضرت عمر کے زمانہ میں کم سن تھے مگر علمی پایہ اتنا بلند تھا کہ حضرت عمر اکثر پیچیدہ اور مشکل مسائل ان سے حل کراتے تھے۔ و ہ اپنی کم عمری کی وجہ سے مجلس میں بات کرنے سے جھجکتے تو حضرت عمر ان کی ہمت بندھاتے اور فرماتے کہ علم عمر کی کمی یا زیادتی پر منحصر نہیں۔ آپ کو شیوخ بدرکے ساتھ بٹھاتے تھے۔

(بخاری صفحہ 615)

23

حضرت عبداللہ بن عباس کی عمر آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت صرف چودہ پندرہ سال تھی مگر پھر بھی علمی جستجو اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ آپ کی مرویات کی تعداد 6620 ہے۔

24

بعض لوگ محض اس وجہ سے علم بلکہ بعض دینی خدمات سے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ کسی کے پاس جاکرکسب علم کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ مگرصحابہ کرام میں یہ مرض نہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس آنحضرت ﷺ کے چچا زاد بھائی ہونے کی وجہ سے خاص خاندانی وجاہت کے مالک تھے۔ اس کے علاوہ ان کا علمی پایہ بھی بہت بلند تھا جسکا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ مگر یہ علو مرتبت تحصیل و طلب علم کے راستہ میں روک نہ تھا۔ آپ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعدآپ کے اصحاب کے پاس جاتے اور ان سے حضور کی باتیں سنتے تھے۔ جب آپ کو معلوم ہوتا کہ کہ فلاں شخص نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے تو فوراً اس کے مکان پر پہنچتے۔ اور اس سے حدیث سنتے تھے اوراس طرح آپ نے عرب کے کونہ کونہ میں پھر کران جواہر پاروں کو جمع کیا۔ جو اطراف ملک میں مختلف لوگوں کے پاس منتشر صورت میں موجود تھے۔ (مستدرک حاکم جلد 3 فضائل ابن جساس) اس محنت کا یہ نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام میں جب آنحضرت ﷺ کے کسی قول یا فعل پر اختلاف ہوتا تو حضرت عباس کی طرف رجوع کرتے تھے۔ جس طرح آپ نے کوشش اور سعی کے ساتھ علم حاصل کیا تھا اسی طرح کوشش اور محنت کے ساتھ اس کی اشاعت بھی فرماتے۔ چنانچہ ان کا حلقہ درس بہت وسیع تھا۔ اور سینکڑوں طلباء روزانہ ان سے اکتساب علم کرتے تھے۔ (مستدرک حاکم جلد3)

25

حضرت عمر نے قبول اسلام کے بعد جہاں دینی علوم میں کمال حاصل کیا وہاں دین کی راہ میں کام آنے والے دنیوی علوم بھی سیکھے۔ چنانچہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے عبرانی بھی سیکھ لی تھی۔ چنانچہ آپ ایک دفعہ توریت کاایک نسخہ لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس گئے اور اسے پڑھنا شروع کیا۔ آپ پڑھتے جاتے تھے اور آنحضرت ﷺ کا چہرہ فرطِ انبساط سے متغیر ہوتا جاتا تھا۔

26

علم الفرائض یعنی تقسیم ترکہ کے علم کو مرتب کرنے والے حضرت عثمان اور حضرت زید بن ثابت ہیں۔ قرآن شریف میں جو اصول بیان کیے گئے ہیں انہیں بنیاد قراردے کر ان دونوں بزرگوں نے علم الفرائض کی ایسی مستحکم عمارت کھڑی کر دی کہ آج تک مسلمان اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور قیامت تک اٹھاتے رہیں گے۔

27

حضرت علیؓ کے متعلق یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ آپ نے کمسنی میں اسلام قبول کیا تھا تاہم تحصیل علم کا شوق اس قدر تھا کہ آپ کے علمی کمال کودیکھ کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا انامدینۃ العلم و علی بابھا یعنی میں علم کا گھرہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔

28

آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت حضرت حسن کی عمر صرف آٹھ سال تھی لیکن باوجود اس کے آپ نے علمی لحاظ سے اس قدر ترقی کرلی تھی کہ بعد کے زمانہ میں مدینہ میں جو جماعت علم افتاء کی ترتیب کے لیے مقرر ہوئی آپ اس کے ایک رکن تھے۔

29

دینی علم میں اضافہ کا شوق ہر چھوٹے بڑے صحابی کو رہتا تھا۔ ایک دفعہ امیر معاویہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو لکھا کہ آپ نے رسول کریمﷺ کی زبان مبارک سے جو کچھ سنا ہے اس سے مجھے بھی مستفید کریں۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ آنحضرت ﷺ نے فضول گوئی مال کے ضیاع اور سوال سے منع فرمایا ہے۔

30

دینی علوم کے علاوہ دنیوی علوم کی طرف بھی صحابہ کرام کو خاص توجہ تھی۔ چنانچہ امیر معاویہ نے اپنے زمانہ کے جید عالم حضرت عبید بن شربہ سے تاریخ گزشتہ کے واقعات سلاطین عجم کے حالات، انسانی زبان کی ابتداء اور اس کی تا ریخ اور مختلف ممالک کے واقعات اور مشہور مقامات کے حالا ت سنے۔ اورپھر ان کے قلم بند کیے جانے کا مکمل انتظام کیا تھا۔

31

حضرت عبداللہ بن زبیر کی عمر آنحضرتﷺ کے زمانہ میں گو صرف سات آٹھ سال تھی تاہم جب بڑے ہوئے تو دینی علوم میں نہایت بلندپایہ رکھنے کے علاوہ دینوی علوم کے بھی ماہر تھے۔ ان کے پاس مختلف ممالک کے غلام تھے۔ اورسب کے ساتھ ان کی مادری زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں حصولِ علم کی راہ میں جو مشکلات تھیں ان پر نظر رکھتے ہوئے اگر اس بات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام تحصیل علم کے لیے کس قدر محنت کرتے تھے۔

32

آنحضرتﷺ کی تعلیم اور صحبت قدسی نے صحابہ کرام کے اندر شوق علم اس قدر بھر دیا تھا کہ اب ایسے وحشی ملک کے نہ صرف مردوں نے بلکہ عورتوں نے اس میں بہت محنت کی۔ اورکوشش کرکے نہایت بلند مقام علمی میدان میں حاصل کیے۔ حضرت ربیعہ بنت معوذ بن عفراء باوجود عورت ہونے کے ایسی عالمہ تھیں کہ بڑے بڑے جیدعالم مثلاً حضرت ابن عباس اور امام زین العابدین اکثر ان سے مسائل اسلامی دریافت کرتے تھے۔

33

حضرت اسماء بنت عمیس علم تعبیر الرویا میں اس قدر دسترس رکھتی تھیں کہ حضرت عمر جیسا فاضل اورجید عالم بھی بعض مرتبہ اپنے خوابوں کی تعبیریں ان سے دریافت کیا کرتا تھا۔

اپنے بزرگوں کی حصول علم کے لیے جدوجہد اور علمی میدان میں ممتاز مقام حاصل کرنے کو ایک طرف رکھیے۔ انہوں نے نہ صرف دینی علوم بلکہ اشد ترین رکاوٹوں کے باوجود دنیوی علوم سیکھنے میں جو محنت اور مشقت اٹھائی اور جو ترقیات کیں ان پر نظر ڈالیے اور اس کے ساتھ دورِ حاضرہ کے مسلمان کہلانے والوں کی حالت کو ملاحظہ فرمائیے کہ یہ تعلیم کے میدان میں سب سے پسماندہ اور جاہل سمجھے جاتے ہیں تو طبیعت کس قدر رنجیدہ ہوتی ہے۔

یہ تو دورِ اول کے مسلمانوں کی علمی جولانیاں تھیں۔ بعد میں آنے والوں نے اس میدان میں جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ بھی نہایت ہی شاندار اورزندہ جاوید ہیں۔ آج دنیا میں جو علوم مروج ہیں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان تمام کی بنیادیں مسلمانوں کے ہاتھوں رکھی گئی تھیں اور آج مختلف علوم و فنون میں جو نئی نئی تحقیقاتیں ہو رہی ہیں یہ سب کی سب انہی بزرگوں کی دماغی کاوشوں کی روشنی میں ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔ مگر افسوس کہ یورپ نے ان جواہر پاروں سے فائدہ اٹھایا اور اس وجہ سے علمی ترقیات کرتے کرتے زندگی کے ہرشعبہ میں اس قدر ترقی کر گیا کہ ساری دنیا پر چھا گیا۔ لیکن مسلمانوں نے اپنی اس میراث کی کوئی قدر نہ کی اور اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ہاتھ سے حکومت تو گئی تھی لیکن وہ آہستہ آہستہ زندگی کے تمام شعبوں میں گرتے گئے اور آج یہ حالت ہے کہ ان کا شمار دنیا کی پسماندہ اقوام میں ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے۔

حوالہ جات

  1.  (اصابہ ج7 ص353)
  2.  (بخاری کتاب الانبیائ)
  3.  (تہذیب الناس ص260)
  4.  (استیعاب ج4 ص235ص)
  5.  (اسد الغابہ ج1 ص100)
  6.  (فتح الباری ج 1 ص159)
  7.  (اسد الغابہ ج2ص137)
  8.  (مسند احمد ج5 ص189)
  9.  (سیر انصارج2 ص 6)
  10.  (سیر انصارج2 ص117)
  11.  (سیر انصارج2 ص 120)
  12.  (بخاری کتاب فضائل القرآن)
  13.  (سیر انصارج2 ص184)(مسند احمد ج5 ص235)
  14.  (اسد الغابہ ج4 ص272)(سیر انصارج2 ص204)
  15.  (مسند احمد ج4 ص269)
  16.  (استیعاب ج2 ص213 تا215)
  17.  (بخاری کتاب العلم)
  18.  (بخاری کتاب الجہاد)
  19.  (مسند احمد ج3ص137)
  20.  (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
  21.  (دارمی باب البلاغ)
  22.  (بخاری کتاب التفسیر)
  23.  (تہذیب التہذیب زیر لفظ عبد اللہ بن عباس)
  24.  (مستدرک حاکم ج۳ فضائل ابن عباس)
  25.  (مسند دارمی ص 62)
  26.  (کنز العمال ج6 ص372)
  27.  (مستدرک حاکم ج3 ص493)
  28.  (اعلام الموقعین ج1 ص72)
  29.  (بخاری کتا ب ا لزکوۃ)
  30.  (فہرست ابن ندیم ص132)
  31.  (مستدرک حاکم ج 3 ص548)
  32.  (سیر الصحابیات ص 135)
  33.  (اصابہ ج 8 ص16)