مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

شوق جہاد فی سبیل اللہ

1

حضرت سعد الاسود کے متعلق دوسری جگہ بتایا جاچکاہے کہ انہیں حصول رشتہ میں سخت مشکلات پیش آئی تھیں۔ اور آخر آنحضرتﷺ کی تجویز پر حضرت عمروبن وہب کی لڑکی نے آپ کے ساتھ رشتہ منظور کرلیا تھا۔ ہر شخص باآسانی اندازہ کرسکتا ہے کہ ایک ہمہ صفت موصوف پاکباز لڑکی کے ساتھ اس قدر تگ ودو اور کوشش کے بعدرشتہ میں کامیابی ان کے لیے کس قدر مسرت کا موجب ہوئی ہوگی۔ اور کس طرح ان کا دل امنگوں اور آرزوؤں سے لبریز ہوگا۔ تقریب رخصتانہ کی تکمیل کے سلسلہ میں آپ بیوی کے لیے بازار سے تحائف خریدنے کے لیے نکلے۔ اور عین اس وقت کہ آپ نہایت خوش آئند خواب کو پورا ہوتا دیکھنے کے سامان فراہم کرنے میں مصروف تھے۔ منادی کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا کہ یا خیل اللّٰہ ارکبی وبا لجنۃ البشری۔ یعنی اے خدا تعالیٰ کے سپاہیو! جہاد کے لیے سوار ہو جاؤ اور جنت کی بشارت پاؤ۔ اس آواز کا کان میں پڑنا تھا کہ تمام ولولے سرد پڑے گئے جہاد کاجوش رگوں میں دوڑنے لگا۔ اور نوعروس کے ساتھ شادی کا خیال ہی دل سے نکل گیا۔ اسی روپیہ سے تحائف کی بجائے تلوار، نیزہ اور گھوڑا خرید کیا۔ سر پرعمامہ باندھا اور مہاجرین کے لشکر میں جاکر شامل ہوگئے۔ وہاں سے میدان جنگ میں پہنچے اور داد شجاعت دینے لگے۔ ایک موقعہ پر گھوڑا کچھ اڑا تو نیچے اتر آئے اور پاپیادہ تیغ زنی کرنے لگے۔ حتیٰ کہ درجہ شہادت پایا اور نوعروس سے ہم آغوش ہونے کی بجائے عروس تیغ سے ہمکنار ہوئے۔ آنحضرتﷺ کوخبر ہوئی تو لاش پرتشریف لے گئے۔ آپ کا سر گود میں رکھ لیا۔ اور دعا فرمائی اورتمام سامان مرحوم کی بیوی کے پاس بھجوادیا۔

یہ واقعہ کسی حاشیہ آرائی یا تبصرہ کا محتاج نہیں۔ وہ نوجوان جو دین کے لیے بلائے جانے پر عذر تراشتے اور بہانے تلاش کرتے ہیں انہیں اس پر غور کرنا چاہیے۔

2

حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل کے جہادی کارناموں سے تاریخ کے اوراق مزین ہیں۔ شام پر فوج کشی ہوئی تو فحل کے معرکہ میں شامل تھے اور نہایت بے جگری سے لڑتے ہوئے دشمنوں کی صفوں میں گھس جاتے تھے۔ سر سینہ اور تمام جسم زخموں سے چھلنی ہو چکا تھا۔ لوگوں نے ازراہِ ہمدردی کہاکہ اس طرح اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں نہ ڈالیں تو جواب دیا کہ لات و عزیٰ کے لیے تو جان پر کھیلا کرتا تھا اور آج خدا اوررسول کے لیے لڑنے کا وقت آیا ہے تو کیا جان کو عزیز رکھوں۔ خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔

3

معرکہ یرموک میں حضرت خالد بن ولید نے حضرت عکرمہ کو ایک دستہ کاافسر مقرر کیا۔ دشمن بہت زبردست تھا اور اس نے ایسا حملہ کیا کہ مجاہدین اسلام کے قدم ڈگمگا گئے۔ حضرت عکرمہؓ نے یہ حالت دیکھی تو بہ آواز بلند پکارا کہ کون موت پر بیعت کرتا ہے۔ فوراً چار سو جان باز سامنے آموجود ہوئے اور خدا کی راہ میں جانیں لڑا دینے کا عزم کر کے دشمن پر ٹوٹ پڑے اور اپنے اس عہد کو ایسی دیانت داری سے نبھایا کہ اکثر نے شہادت پائی۔ اور جو باقی بچے وہ بھی زخموں سے چور چور تھے۔

4

حضرت واثلہ بن اسقع ایک نوجوان صحابی تھے۔ جو 9ھ میں اسلام لائے چند ہی روز بعد غزوہ تبوک کی تیاری شروع ہوئی۔ اور مجاہدین سر سے کفن باندھ باندھ کر میدان کی طرف روانہ ہوگئے لیکن اس نو مسلم کے پاس سواری نہ تھی۔ بہت کوشش کی مگر کوئی صورت نہ بن سکی۔ ادھر شوق جہاد نے بے تاب کر رکھا تھا۔ مدینہ کی گلیوں میں دیوانہ وار صدائیں لگانے لگے کہ کون شخص مجھے مال غنیمت کے عوض تبوک پہنچانے کا ذمہ لیتا ہے۔ اتفاق سے ایک انصاری بزرگ ابھی روانہ نہ ہوئے تھے۔ انہوں نے حامی بھری اور کہا کہ میں لے چلوں گا۔ کھانا بھی دوں گا اور سواری بھی۔ اس طرح آپ میدان جنگ میں پہنچے اور جہاد میں شامل ہوئے۔

5

حضرت ابو محجن ثقفی بہت آخر زمانہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس لیے ان کا ذکر عہد فاروقی میں ہی نظر آتا ہے۔ جس زمانہ میں ایران پر مسلمانوں نے فوج کشی کی یہ کسی وجہ سے قید تھے۔ لیکن جہاد کے شوق نے اس قدر بے تاب کر دیاکہ قید سے فرار ہو کر میدان جنگ میں جا پہنچے۔ حضرت عمرؓ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے سپہ سالار لشکر اسلام حضرت سعد بن ابی وقاص کو لکھا کہ انہیں گرفتار کرکے قید کر دیاجائے۔ چنانچہ وہیں قید کردئیے گئے۔

جب جنگ قادسیہ لڑی جارہی تھی یہ اس وقت پابند سلاسل تھے۔ لیکن میدان جنگ کے واقعات سن کر رگوں میں خون جوش مارہاتھا۔ حضرت سعد کی بیوی حضرت سلمیٰ سے کہا کہ مجھے آزاد کردو کہ میدان میں جاکر داد شجاعت دوں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر زندہ بچ گیا تو خود بخود آکر بیڑیاں پہن لوں گا۔ انہوں نے انکار کیا تو ایسے درد انگیز اشعار پڑھنے لگے کہ حضرت سلمیٰ کا دل بھر آیا۔ اور انہوں نے آزاد کردیا۔ چنانچہ میدان جنگ میں جا پہنچے۔ اور ایسی شجاعت سے لڑے کہ جس طرف نکل جاتے دشمنوں کی صفیں الٹ دیتے۔ صحابہ کرام آپ کی شجاعت کو دیکھ کر عش عش کر رہے تھے۔

6

غزوہ بدر کے وقت حضرت انسؓ کی عمر صرف بارہ برس تھی مگر میدان جنگ میں آنحضرتﷺ کے ساتھ پہنچے۔ اور آپ کی خدمت بجا لاتے ہوئے غزوہ احد کے وقت آپ کی عمر تیرہ سال تھی۔ لیکن اس میں بھی شریک ہوئے۔

7

حضرت ابو سعیدؓ خدری کی عمر غزوہ احد کے وقت صرف تیرہ سال تھی مگر لڑائی میں شامل ہونے کے لیے آنحضرتﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوئے۔ آپ نے سر سے پاؤں تک دیکھا اور فرمایا کہ بہت کم سن ہیں لیکن باپ نے ہاتھ پکڑ کر آنحضرتﷺ کو دکھایا کہ پورے مرد کا ہاتھ ہے۔ تاہم آپ نے اجازت نہ دی لیکن اس سے یہ بات واضح ہے کہ صحابہ کرام دینی خدمات کو اس قدر ضروری اور قابل فخر سمجھتے تھے کہ اپنے بچوں کو اس کا موقعہ دلانے کے لیے نہایت حریص رہتے تھے۔ اور ان کو آگے کرتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح یہ سعادت حاصل ہوجائے۔ ہمارے زمانہ میں جو لوگ نہ صرف خود پیچھے ہٹتے بلکہ اپنی اولاد کو بھی اپنے گھروں میں چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ ان لوگوں کی اپنی اولادوں سے محبت ہم سے کسی طرح کم نہ تھی۔ وہ بھی ہماری طرح انسان تھے۔ ان کے پہلو میں بھی دل تھے۔ جو ہم سے زیادہ پدری شفقت سے لبریز تھے۔ مگر جوش ایمان اور خدمت اسلام ان کے نزدیک دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب تھی۔

8

حضرت ابو سعید خدریؓ کی عمر غزوہ خندق کے وقت صرف پندرہ سال تھی مگر شریک جنگ ہوئے اور بڑھ بڑھ کر داد شجاعت دی۔ اسی طرح غزوہ بنی مصطلق میں بھی کم سنی کے باوجود شریک ہوئے۔

9

حضرت براء بن عازب غزو ہ بدر کے وقت بہت کم سن تھے۔ مگر جوش ایمان پورے جوش پر تھا۔ اس لیے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر آپ نے شرکت کی اجازت نہ دی۔

10

حضرت رافع بن خدیج کی عمر غزوہ بدر کے وقت صرف چودہ سال کی تھی مگر شوق جہاد کا یہ عالم تھا کہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش ہو کر شریک جنگ ہونے کی اجازت طلب کی۔ مگر آپ نے کمسنی کی وجہ سے واپس کر دیا۔ اگلے سال اجازت ملی لیکن ایک اور نوعمر لڑکے سمرہ بن جذب کو آنحضرتﷺ نے کم سنی کی وجہ سے اجازت نہ دی۔ تو اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپؐ نے رافع کو اجازت دے دی ہے حالانکہ میں کشتی میں اس کو گرالیتا ہوں۔ آنحضرتﷺ کو اس بات کا بہت لطف آیا اور فرمایا کہ اچھا سمرہ سے کشتی کرو۔ چنانچہ دونوں میں کشتی ہوئی اور آپ نے حضرت رافع کو پچھاڑ دیا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے اجازت دے دی۔

11

آنحضرتﷺ جب غزوہ بدر کے لیے نکلے تو کئی کم عمر بچے بھی شوق جہاد میں ساتھ ہوئے۔ جن میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی بھی تھے۔ آنحضرتﷺ نے مدینہ سے تھوڑی دور باہر آکر فوج کا جائزہ لیا تو بچوں کو واپسی کا حکم دیا۔ حضرت عمیر نے یہ حکم سنا تو لشکر میں ادھر ادھر چھپ گئے لیکن آنحضرتﷺ کو اس کی اطلاع ہوگئی۔ اور آپ نے واپسی کا ارشاد فرمایا۔ جسے سن کر آپ روپڑے۔ اس شوق اور تڑپ کو دیکھتے ہوئے آخر آپ نے اجازت دے دی۔

ذرا غور فرمائیے کہ انسان کو اپنی جان کس قدر عزیز ہوتی ہے لیکن صحابہ کرام اس طرح ایسے مواقع پر میدان میں نکلنے کی کوشش کرتے تھے جن میں جان جانے کا بہت زیادہ امکان ہوتاتھا۔ اور زندہ سلامت واپس گھر پہنچنے کی امید بالکل موہوم ہوتی۔ ہمارے زمانہ میں باوجود یہ کہ جانی خطرات بہت کم ہیں اور تبلیغ کے لیے نکلنے والوں کا تھوڑے سے عرصہ کے بعد زندہ سلامت گھر آجانے کا امکان بہت زیاد ہ ہوتا ہے۔ تاہم بعض لوگ اس سے جی چراتے ہیں اور بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اورپھر اسلام کی کس مپرسی کا بھی رونا روتے رہتے ہیں۔ اور یہ نہںا دیکھتے کہ جس راہ پر چل کر صحابہ کرام نے عزت حاصل کی اور اسلام کا علم بلند کیا اسے اختیارکیے بغیر وہ کامیابی کی امید کس طرح رکھ سکتے ہیں۔

12

حضرت عبدالرحمن بن عوف سے احادیث میں ایک ایسا واقعہ بیان ہے جسے پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مجاہدین اسلام کی جان بازی پر جرات و بسالت بھی آفرین کہتی ہے۔ آپ روایت کرتے ہیں کہ جب جنگ بدر میں صفیں آراستہ ہوئیں اور حملہ عام ہونے لگا تو میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ماری تو دونوں جانب انصار کے دو جوان لڑکے پائے۔ ان کو دیکھ کر مجھ پر افسردگی سی طاری ہوگئی میں نے خیال کیا کہ جنگ میں دونوں پہلو جب تک مضبوط نہ ہوں لڑائی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اور وہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو مضبوط ہوں اور جب میرے دونوں پہلو اس قدر کمزور ہیں کہ دو کم سن اور نوعمر بچے کھڑے ہیں تو میرے لیے کوئی قابل ذکر لڑائی کرنے کا کیا امکان ہوسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ابھی یہ خیال کرہی رہا تھا کہ ان میں سے ایک لڑکے نے مجھے آہستہ سے ایسے انداز میں کہ وہ دوسرے لڑکے سے اخفاء رکھنا چاہتا ہے پوچھا کہ چچا وہ ابوجہل کون ہیں جو مکہ میں آنحضرتﷺ کو بہت تکالیف پہنچایا کرتے تھے۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہوا ہے کہ اسے قتل کروں گا۔ اور یا پھر اس مردود کو قتل کرنے کی کوشش میں اپنی جان دے دوں گا۔ میں نے اس کے سوال کا ابھی جواب نہ دیا تھا کہ دوسرے نے بھی بالکل اسی انداز میں یہی سوال کیا۔ ان بچوں کے اس بلند ارادہ کو دیکھ کر میں حیران ہوگیا اور خیال کرنے لگا کہ بھلا یہ بچے اپنے عہد کو کس طرح پورا کرسکتے ہیں۔ جبکہ ابو جہل قریش کے بڑے بڑے نامی پہلوانوں اور آزمودہ کار سپاہیوں کے حلقہ میں ہے۔

تاہم میں نے ان کو ہاتھ کے اشارہ سے ابوجہل کا پتہ دے دیا۔ میرا اشارہ ہی کرنا تھا کہ وہ دونوں نوعمر بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفوں کو کاٹتے ہوئے چشم زدن میں ابوجہل پر جاپڑے اور اس پھرتی سے اس پر حملہ کیا کہ آن واحد میں اس سرکش انسان کا مغرور سر خاک پر تھا اور یہ سب کچھ ایسا آناً فاناً ہوا کہ ابو جہل کے ساتھی دیکھتے ہی رہ گئے۔ عکرمہ بھی اپنے باپ کے ہمراہ تھے۔ اسے تو وہ نہ بچا سکے مگر ان دونوں میں سے ایک لڑکے یعنی حضرت معاذ پر حملہ آور ہوئے اور تلوار کا ایسا وار کیا کہ ان کا ایک بازو کٹ کر لٹکنے لگا۔ اس قدر شدید زخم کھانے کے باوجود معاذ پیچھے نہیں ہٹا بلکہ عکرمہ کا پیچھا کیا لیکن وہ بچ کر نکل گئے۔ معاذ نے جنگ بدستور جاری رکھی۔ اور چونکہ کٹا ہوا ہاتھ لڑنے میں روک ہو رہا تھا اس لیے اسے زور کے ساتھ کھینچ کر الگ کر دیا اور پھر لڑنے لگے۔

13

صحابہ جہاد میں شرکت کے لیے کس قدر حریص ہوئے تھے۔ اس کا اندازہ کرنے کے لئے یہ واقعہ کافی ہے کہ حضرت سعد بن خشبہ جنگ بدر کے وقت کم عمر تھے۔ تاہم شرکت کے لیے تیار ہوگئے۔ چونکہ آپ کے والد بھی میدان جنگ میں جارہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں سے ایک کو ضرور گھر پررہنا چاہیے اور بیٹے کو گھر رہنے کے لیے کہا۔ بیٹے نے جواب دیا کہ اگر حصول جنت کے علاوہ کوئی اور موقعہ ہوتا تو بسر وچشم آپ کے ارشاد کی تعمیل کرتا اور اپنے آپ پر آپ کو ترجیح دیتا لیکن اس معاملہ میں میں ایسا کرنے کے لیے نہیں ہوں۔ آخر فیصلہ اس بات پر ٹھہرا کہ قرعہ ڈال لیا جائے۔ چنانچہ قرعہ میں بیٹے کا نام نکلا۔ وہ شریک ہوئے اور شہادت پائی۔

حوالہ جات

  1. (اسد الغابہ ج 4 ص202)
  2.  (اسد الغابہ ج ۳ ص568، 569)
  3.  (تاریخ طبری ص 2100)4
  4.  (ابو داؤد کتاب الجہاد)
  5.  (استیعاب ج 4 ص311)
  6.  (اسد الغابہ ج 1 ص177)
  7.  (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ بنی مصطلق)
  8.  (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ بنی مصطلق)
  9.  (بخاری کتاب المغازی ص565)
  10.  (تاریخ طبری ص 1392 )
  11.  (اصابہ ج4 ص603)
  12.  (سیرت خاتم النبیینؐ ص362)
  13.  (سیر انصار ج2ص 34)