مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

صبر و رضا

اسلام سے قبل مراسم ماتم اہل عرب کے تمدن کا ایک اہم جزو تھا۔ جو نہایت اہتمام کے ساتھ ادا کی جاتی تھی۔ کسی کی وفات پر اس کے اعزہ اپنا منہ نوچتے، بال کھسوٹتے، سینہ کوبی کرتے اور سخت جزع فزع سے کام لیتے تھے۔ عورتوں کا یہ فرض سمجھا جاتا تھا کہ سر کے بال کھول کر خاک ڈالیں۔ روتی پیٹتی جنازہ کے پیچھے پیچھے چلیں۔ حتی کہ بعض عورتیں سر کے بال منڈوا دیتی تھیں۔ رونے پیٹنے اور نوحہ کرنے کے لیے اجرت پر عورتیں بلوائی جاتی تھیں۔ جو بڑے زور کے ساتھ ماتم کرتیں۔ مردہ کی تدفین کے بعد دستر خوان بچھایا جاتا اور تمام نوحہ کرنے والی عورتوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ اسی طرح مرنے کے بعد تیسرے اور چالیسویں دن نیز ششماہی اورسالانہ تقاریب تھیں اور ان کو نظر انداز کر کے کوئی شخص سوسائٹی میں اپنی عزت کو برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔

لیکن رسول کریمﷺ نے ان تمام لغو رسوم کی ممانعت فرمادی۔ اور یہ تعلیم دی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مصیبت پہنچے اسے صبر کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے۔ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ مومن وہی ہے جو ہر تکلیف کے وقت اناللہ وانا الیہ راجعون کہہ کر اللہ تعالی کی قضا پر صبر کرتے ہیں۔ اورغیر معمولی اورغیر طبعی جزع و فزع سے کام نہیں لیتے۔ صحابہ کرام نے اس تعلیم کو اپنی تمام پرانی اورصدہا سالوں کی عادت کے باوجود حرزِ جان بنایا۔ او ر ہمیشہ اس پر سختی کے ساتھ قائم رہے۔ جیسا کہ ذیل کی چند ایمان پرور مثالوں سے واضح ہوتا ہے۔

1

حضرت ابو طلحہؓ صحابی کا ذکر گذشتہ صفحات میں کئی بار آچکا ہے۔ آپ جلیل القدر صحابی تھے۔ ان کا لڑکا بیمار تھا جسے اسی حالت میں چھوڑ کر و ہ صبح اٹھ کراپنے کام کاج کے لیے باہر چلے گئے۔ اور لڑکا بعد میں فوت ہوگیا۔ ان کی بیوی نے نہ صرف یہ کہ خود کوئی جزع فزع نہ کیا بلکہ تمام پڑوسیوں اور متعلقین کو روک دیا۔ کوئی صف ماتم نہ بچھائی۔ صرف اناللہ وانا الیہ راجعون کہہ کر خاموش ہورہیں۔ اور سب سے کہہ دیا کہ حضرت ابو طلحہؓ آئیں تو وفات کی اطلاع ان کو نہ دی جائے چنانچہ وہ جب شام کو واپس لوٹے تو دریافت کیا کہ بچہ کیسا ہے۔ بیوی نے جواب دیا کہ پہلے سے زیادہ پرسکون ہے۔ اس کے بعد خاوند کے لیے کھانا لائیں۔ رات نہایت سکون اور آرام کے ساتھ بسر کی۔ صبح ہوئی تو خاوند سے کہا کہ اگر ایک قوم کسی کو کوئی چیزعاریتہ دے اور پھر واپس لینا چاہے تو کیا اس کو حق ہے کہ اس پر کوئی اعتراض کرے۔ حضرت ابو طلحہ نے نفی میں جواب دیا تو کہا کہ اچھا پھر اپنے بیٹے پر صبر کرو۔

2

حضرت عبداللہ بن عمر کے صاحبزادہ کا جب انتقال ہوا اور آپ اس کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے تو بدوؤں کے ساتھ دوڑ میں مسابقت کرنے لگے۔ اس پر حضرت نافع نے کہا کہ ابھی تو آپ بیٹے کو دفن کر کے آئے ہیں اور اب بدوؤں کے ساتھ دوڑ رہے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے جوا بدیا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت نے جو کام کر دیا ہے اس کے نتائج کو جس طرح بھی ممکن ہو بھلا دینا چاہیے۔

3

جب اسلامی لشکر غزوہ احد سے واپس آرہا تھا تو صحابیات اپنے عزیز و اقارب کا حال دریافت کرنے کے لیے شہر سے باہر نکل آئیں۔ ان عورتوں میں ایک حضرت حمنہ بنت حجش تھیں۔ آنحضرتﷺ نے ان سے فرمایاکہ حمنہ اپنے بھائی عبداللہ بن جحش پر صبر کرو۔ انہوں نے یہ سن کر صرف انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اپنے ماموں حمزہ بن عبدالمطب کو بھی صبر کرو۔ اس پرپھر انہوں نے انااللہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ دعائے مغفرت کی اورخاموش ہو رہیں۔

4

حضرت عبداللہ بن عباس کوسفر میں اپنے بھائی قثم ابن عباس کے انتقال کی خبر ملی۔ سن کر انالِلّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ راستہ سے ہٹ کر دو رکعت نماز ادا کی اور پھر اونٹ پر سوار ہو کر آگے چل دئیے۔

صحابہ کرام کی زندگیوں میں ایسے اعلی اور شاندار نمونے صبر و رضا کے نظر آتے ہیں کہ پڑھ کر عقل انسانی ورطہ حیرت میں غرق ہو جاتی ہے اور صرف مردوں کے نہیں بلکہ عورتوں کے بعض حالات کو پڑھ کر جب اپنے زمانہ کو دیکھا جاتا ہے تو اپنے بزرگوں کے اسوہ سے اس قدربُعد دیکھ کر آنکھیں پرنم ہو جاتی ہیں۔

5

ایک صحابیہ حضرت ام عطیہ کا لڑکا خلافت راشدہ کے زمانہ میں کسی غزوہ میں شریک تھا کہ بیمار ہو کر بصرہ چلا آیا۔ ماں کو اطلاع ہوئی تو اس کی عیادت کے لیے بصرہ کا رخ کیا۔ اور بہ عجلت تمام وہاں پہنچیں۔ لیکن پہنچنے سے ایک دو روز قبل اس کا انتقال ہوگیا۔ آپ نے اس صدمہ جانکاہ پر نہایت اعلی نمونمہ صبر و رضا کا پیش کیا۔ اور تیسرے روز خوشبو لگائی اور فرمایا کہ شوہر کے سوا کسی کے لیے تین روز سے زیادہ سوگ جائز نہیں۔

جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے۔ کہ بین اور نوحہ کرنا منع ہے۔ لیکن ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کسی عزیز کی موت کے صدمہ پر دلی رنج کا پیدا ہونا طبعی چیز ہے۔ جس کا فقدان کوئی خوبی نہیں بلکہ سنگدلی پر دلالت کرتا ہے اور اس کے نتیجہً میں اگر آنسو نکل آئیں تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ اسلام ن جس چیز سے منع کیا ہے وہ نوحہ اور بین کرنا یا اور ایسی حرکات کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فعل پر شکوہ یا گلہ کا رنگ رکھتی ہوں۔ اور بے صبری کو ظاہر کرتی ہوں۔

آنحضرتﷺ کی تعلیم اور صحابہ کرامؓ کے اسوہ کو نظرانداز کر کے ایسے مواقع پر آج کل مسلمان جو کچھ کرتے ہیں وہ اسلام کی تعلیم پر سخت دھبہ لگانے والی بات ہے۔ اپنے غیر مسلم ہمسایوں کے تمدنی اثرات کو قبول کرکے مسلمانوں نے اپنی روایات کو بالکل بھلا دیا ہے۔ اور موت فوت کے موقعہ پر بالکل وہی کچھ کرتے ہیں جو ہندو یا زمانہ جاہلیت کے عرب کرتے تھے۔ یعنی نوحہ اور بین، سینہ کوبی، بال نوچنا، کھانے کی دعوتیں، اور تیسرا، چالیسواں وغیرہ کی رسوم اداکرنا۔ حالانکہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی اسلامی تعلیم کے رو سے جائز نہیں۔ اور سب سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ملا او مولوی اسلام کی صحیح تعلیم کو زندہ رکھنے کے ذمہ دار تھے۔ انہوں نے جلب منفعت اور معمولی لالچ کے لیے ان سراسر غیر اسلامی باتوں کو جزو اسلام بنا کر عوام الناس کے قلوب پر یہ بات نقش کر رکھی ہے کہ یہ باتیں نہایت ضروری ہیں۔ اور ان کے بغیر مرنے والے کی روح قرار حاصل نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی حالت پر رحم کرے۔ آمین۔

حوالہ جات

  1.  (مسلم کتاب الاداب)
  2.  (ابن سعد زکر واقد بن عبد اللہ)
  3.  (ابن سعد زکرحمنہ بنت جحش)
  4.  (اسد الغابہ ج4 ص85)
  5.  (بخاری کتاب الجنائز)