مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے
عبادت گزاری اور زہد و اتقاء
1
حضرت ابو ہریرہ کے متعلق ثابت ہے کہ آپ نے عالم جوانی میں اسلام قبول کیا مگر شب بیداری آپ کامحبوب مشغلہ تھا۔ آپ کا کنبہ نہایت مختصر اور صرف تین اصحاب پر مشتمل تھا۔ یعنی آپ خود، آپ کی بیوی اور ایک خادم۔ مگر اس مقدس خاندان نے بھی عبادت الہی کے لیے ایسی تقسیم اوقات کر رکھی تھی کہ جس سے ساری رات ہی عبادت میں بسر ہو۔ اور وہ اس طرح کہ تینوں باری باری ایک تہائی رات جاگتے اور عبادت کرتے تھے۔
2
حضرت حرام بن تمحان رات کے وقت قرآن کریم کا درس دیتے اورنمازیں پڑھتے رہتے تھے۔
3
حضرت عبداللہ بن عمر جوانی میں ہی نہایت متقی اورعبادت گزار تھے۔ عبادت کے شوق میں رات کومسجد کے فرش پر سورہتے۔ دنیاوی دلفریبیوں سے کوئی سروکار نہ تھا اور خواہشات نفسانی پر پوراقابو رکھتے تھے۔
آنحضرتؐ پر آپ کی عبادت گزاری اور پاکبازی کا اس قدر اثر تھا کہ برملا اس کا اظہار فرمایا۔ چنانچہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت حفصہ سے فرمایا کہ عبداللہ جوان صالح ہے۔
4
پہلے یہ ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل نے اسلام لانے کے بعدقرار کیا تھا کہ اسلام کی مخالفت میں جو کچھ کیا ہے اور جس جس رنگ میں مخالفت کی ہے۔ اسی رنگ میں مگر اس سے دوگنا خدمت اسلام کریں گے۔ چنانچہ اسلام کی تائید میں میدان جہاد میں آپ نے جو جو کارہائے نمایاں کیے، جس طرح بڑھ بڑھ کر ہر موقعہ پر داد شجاعت دیتے رہے اس کے بے شمار ثبوت تاریخ اسلام میں نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ عبادت میں بھی اس اقرار کو صدق دل کے ساتھ پورا کر کے دکھادیا۔ حالت کفر میں آپ کی جبیں بتوں کے آگے سجدہ ریز رہ چکی تھی اور اپنی ا س نادانی پر انہیں رہ رہ کر افسوس آتا تھا۔ اور اس سے اس کلنک کے ٹیکہ کو دھونے کے لیے بے چین و بے قرار رہتے تھے۔ چنانچہ اسے خدا تعالیٰ کے سامنے اس طرح جھکایا کہ پوری طرح تلافی مافات کردی۔ ارباب سیر تسلیم کرتے ہیں کہ آپ عبادت میں بڑی مشقت اٹھاتے تھے۔
قرآن کریم کے ساتھ والہانہ عشق تھا۔ اسے چہرہ پر رکھ کر فرماتے کتاب ربی۔ کتاب ربی اور یہ کہتے ہوئے ساتھ ساتھ روتے جاتے تھے۔
5
حضرت ابو طلحہ کے متعلق بیان کیا جاچکا ہے کہ آپ نے بالکل نو عمری میں اسلام قبول کیا تھا۔ لیکن عبادت کے ذریعہ تقویٰ میں وہ بلندمقام حاصل کرلیاتھا کہ بڑے بڑے صحابہ ان سے دعائیں کراتے تھے۔
عبادت اس کثرت سے کرتے تھے کہ سجاد لقب پڑ گیا تھا۔
6
اسلام لانے سے قبل حضرت ابو سفیان مخالفت میں جس قدر بڑھے ہوئے تھے اس کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ مگر مسلمان ہونے کے بعد اسلامی تعلیم کا ایک زندہ نمونہ بن گئے تھے۔ رات اور دن کا اکثر حصہ عبادتِ الہی میں گزارتے تھے۔ اور اسی وجہ سے آنحضرتﷺ نے آپ کو جوانانِ جنت کا لقب دیا تھا۔
7
حضرت شداد بن اوس کمسنی میں اسلام لائے تھے۔ مگر نہایت عابد و زاہدتھے۔ رات کو دیر دیر تک مصروف عبادت رہتے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ لیٹتے تو پھر خیال آتا کہ میں نے خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا نہیں کیا۔ اور اس وجہ سے فوراً اٹھ بیٹھتے اور عبادت میں مصروف ہو جاتے تھے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات رات رات بھر نماز پڑھتے اور عبادت میں مصروف رہتے۔
8
حضرت عبداللہ بن رداحہ کی بیوی کا بیان ہے کہ جب آپ گھر سے نکلتے تو دو رکعت نفل پڑھ کر نکلتے تھے۔ اور واپس آتے تو بھی اسی طرح کرتے۔ یعنی فوراً دو نفل اداکرتے۔
9
حضرت حذیفہ بن الیمان بھی نوجوان تھے۔ مگرعبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کے ساتھ رات بھر نماز پڑھتے رہے اور عبادت میں برابر شامل رہے۔
10
حضرت عتاب بن اسیہ بالکل نوعمر صحابی تھے۔ حتیٰ کہ وفات کے وقت آپ کی عمر صرف 25 ۔ 26 سال کی تھی۔ لیکن زہد و اتقاء کی وجہ سے فضلائے صحابہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ اور اپنی عبادت گزاری کے باعث اتنا بلند مقام حاصل کرچکے تھے کہ آنحضرتﷺ نے انہیں مکہ کا عامل مقرر فرمایا۔ اور ان کاتقرر کرتے وقت فرمایا کہ اگر مجھے ان سے زیادہ موزوں آدمی نظرآتا تو اسے اس عہدے پر مقر کرتا 0۔ 8ھ میں آپ پہلے امیر الحج مقرر ہوئے۔
11
حضرت عبدالرحمن بن عوف باوجود یہ کہ بہت دولت مند تھے مگر خشیت اللہ اور تقویٰ سے قلب معمور تھا۔ اور دنیوی نعماء ان کے لیے کسی ابتلاء کے بجائے ازدیاد ایمان کا موجب ہوتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور اس کے جلال کو یاد کر کے اکثررویا کرتے تھے۔ ایک دفعہ تمام دن روزہ سے رہے۔ شام کے وقت کھانا آیا تو اسے دیکھ کر روپڑے اور فرمایا۔ مصعب بن عمیر مجھ سے بہتر تھے مگروہ شہید ہوئے تو کفن میں صرف ایک چادر تھی۔ جس سے سر چھپاتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے تھے اور پاؤں چھپاتے تو سرننگا ہوجاتا۔ اسی طرح حضرت حمزہ شہید ہوئے تو یہی حالت تھی۔ مگر اب دنیا ہمارے لیے فراخ ہوگئی ہے اور اس کی نعمتیں ہمیں بکثرت حاصل ہوگئی ہیں۔ اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ہماری نیکیوں کا صلہ ہمیں یہیں نہ مل جائے اور اس قدر رقت طاری ہوئی کہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔
آپ نمازیں نہایت خشوع سے ادا فرماتے تھے۔ خصوصاً ظہر کے فرض ادا کرنے سے قبل بہت دیرتک نوافل میں مشغول رہتے تھے۔
12
صحابہ کرام ہمیشہ تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزنی کی کوشش کرتے تھے۔ اور اس بات کی نہایت احتیاط کرتے تھے کہ ان کا کوئی قدم غلط نہ اٹھ سکے۔ اسکی ایک دلچسپ مثال سنئے۔ ایک سفر میں چند صحابہ کو ایک گاؤں میں قیام کا اتفاق ہوا۔ وہاں کے رئیس کو سانپ نے ڈس لیا تھا اہلِقریہ نے صحابہ کی شکل و صورت سے مذہبیت کا اندازہ کر کے ان سے درخواست کی کہ مریض کے لیے کوئی چارہ کریں۔ صحابہ نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ تندرست ہوگیا۔ اس کے عوض ان لوگوں نے صحابہ کو کوئی ہدیہ دیا۔ جب اس کی تقسیم کا سوال پیداہوا تو بعض نے کہا کہ آنحضرتﷺ نے جھاڑ پھونک کی ممانعت کی ہوئی ہے۔ اس لیے اس تقسیم سے قبل آپ سے دریافت کرلینا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ اس معاوضہ کا استعمال ناجائز ہو اور ہم خواہ مخواہ گنہگار ہوں۔ چنانچہ واپسی پر آپ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ کوئی جھاڑ پھونک نہیں۔ معاوضہ تقسیم کرلو۔
13
حد درجہ کیجری اور بہادر ہونے کے باجود صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہر وقت لرزاں رہتے تھے۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ عہد نبوت میں اگر کبھی تیز ہوا بھی چلتی تھی تو مسلمان خوف الٰہی سے کانپتے ہوئے مسجد کی طرف بھاگ اٹھتے تھے۔
14
حضرت عثمان کے دل پر اللہ تعالیٰ کا خوف اس قدرطاری رہتا تھا کہ جب کوئی جنازہ سامنے سے گزرتا توبے اختیار آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔ قبرستان سے گزر ہوتا تو روتے روتے ریش مبارک تر ہوجاتی تھی۔
15
باوجود یہ کہ حضرت علی کی عمر قبول اسلام کے وقت بہت چھوٹی تھی لیکن آپ نہایت عابد و زاہد تھے۔ اس کی تفاصیل میں جانے کے بجائے صرف اس قدرکہہ دینا کافی ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کان ماعلمت صائماً قواماً یعنی جہاں تک مجھے علم ہے وہ بہت روزہ دار اور عبادت گار تھے۔
16
زبیر بن سعید کی روایت ہے کہ لم ارھاشمیا قط کاناعبداللّٰہ منہ یعنی میں نے کسی ہاشمی کو ان سے زیادہ عبادت گزار نہیں دیکھا۔
17
حضرت عبداللہ بن زبیر آنحضرتﷺ کے زمانہ میں بہت کم سن تھے۔ تاہم بے حد عبادت گزار تھے۔ نماز اس قدر استغراق سے پڑھتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا ایک بے جان ستون کھڑا ہے۔ رکوع اتنا لمبا کرتے کہ اتنے عرصہ میں ساری سورۃ بقرہ ختم کی جاسکے۔ سجدہ میں گرتے تو اس قدر محویت طاری ہوتی تھی کہ چڑیاں آکر پیٹھ پر بیٹھ جاتی تھیں۔
18
مردوں کے علاوہ مسلم خواتین کو بھی عبادت گزاری اور قرب الہی کے حصول کا بے حد شوق رہتاتھا۔ اور وہ یہ گواراہ نہیں کرسکتی تھیں کہ تقویٰ اللہ میں وہ مردوں سے پیچھے رہیں۔ چنانچہ حضرت اسماء بنت یزید جب چند اورعورتوں کے ہمراہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں بغرض بیعت حاضر ہوئیں تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں مسلمان عورتوں کی طرف سے کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں۔ حضور نے اجازت دی تو عرض کیا کہ ہم بھی حضور کے دست حق پرست پرایمان لائی ہیں۔ مگر ہماری حالت مردوں سے مختلف ہے۔ مرد نماز باجماعت اور نماز جمعہ میں شریک ہوتے ہیں، نماز جنازہ پڑھتے ہیں، مریضوں کی عیادت کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہیں مگر ہم پردہ نشین ہیں۔ اور ان نیکیوں میں حصہ نہیں لے سکتیں۔ گھروں میں بیٹھ کر اولاد کی پرورش کرتی ہیں اور مردوں کے مال و اسباب کی حفاظت کرتی ہیں تو کیا اس صورت میں ہم کو بھی ثواب ملے گا۔ آنحضرتﷺ نے صحابہ سے فرمایا کیا تم لوگوں نے کبھی کسی عورت سے ایسی برجستہ گفتگو سنی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ نہیں۔ آپ نے حضرت اسماء کو فرمایا کہ اگر عورتیں فرائض زوجیت ادا کرتیں، اور شوہر کی اطاعت کرتی ہیں تو جس جس قدر ثواب مرد کو ملتا ہے اسی قدر عورتوں کو بھی ملتا ہے۔
حوالہ جات
- (ترمذی ابواب الزہد)
- (حلیۃ الاولیاء زیر لفظ حرام بن ملحان ) ؟
- (تہذیب التہذیب ج5 ص330)(بخاری کتاب الصلو ۃ)
- (اسد الغابہ ج3 ص566 )(حلیۃ الاولیاء زیر لفظ عکرمہ) ؟(دارمی ص207)
- (مستدرک حاکم ج3 ص374)
- (حلیۃ الاولیاء زیر لفظ ابو سفیان بن حارث ) ؟
- (اسد الغابہ ج2 ص373 )
- (سیر انصار ج2 ص63)
- (مسند احمد ج5 ص45)
- (اسد الغابہ ج3 ص451)
- (بخاری کتاب المغازی)
- (بخاری کتاب الطب)
- (ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
- (مسند احمد ج1 ص102)
- (ترمذی کتاب المناقب)
- (مستدرک حاکم ج3 ص108)
- (اسد الغابہ ج3 ص134)
- (اسد الغابہ ج6 ص18)