مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

غیرت ایمانی

1

حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے ابتداء میں جو فتنہ ارتداد اٹھا تھا جب وہ فرو ہوا اور باغی مقتل میں لائے گئے تو ایک نوجوان حضرت امرء القیس کے ایک چچا بھی ان میں تھے۔ آپ خود ان کو قتل کرنے کے لیے آگے بڑھے تو اس نے کہا کہ کیا تمہارا ہاتھ اپنے چچا پر اٹھ سکتا ہے اور تمہاری تلوار اپنے باپ کے بھائی کی گردن پر چل سکتی ہے۔ تم مجھے قتل کرو گے۔ آپ نے جواب دیا کہ بے شک آپ میرے چچا ہیں مگر اللہ عزوجل جس کے لیے میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں میرارب ہے۔

2

غزوہ مصطلق سے جب آنحضرتﷺ واپس آرہے تھے تو راستہ میں مریسیع کے مقام پر پڑاؤ کیا۔ اس جگہ منافقین نے جو ہمیشہ مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردینے اور اس طرح نخل اسلام کو اس کی ابتدائی حالت میں ہی نفاق و اختلاف کی زہر میں ملی ہوا سے مرجھا دینا چاہتے تھے۔ ایک نہایت خطرناک فتنہ کھڑا کرنا چاہا۔ جس سے قریب تھا کہ مسلمانوں میں کشت و خون تک نوبت پہنچتی عصبیت کو مٹا کر اسلام نے ان کے اندر جو اخوت پیدا کی تھی اس کا خاتمہ ہوجاتا اورخانہ جنگی شروع ہوجاتی۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت عمر کا ایک ملازم جھجاہ نام چشمہ پر پانی لینے گیا۔ انصارمیں سے بھی ایک شخص سنان پانی کے لیے وہاں گیا۔ دونوں کم علم اور معمولی عقل و سمجھ کے آدمی تھے۔ پانی بھرتے بھرتے دونوں میں تکرار ہوگئی اور جھجاہ نے سنان کے ایک ضرب لگا دی۔ سنان نے دہائی مچادی اور انصار کو مدد کے لیے پکارا۔ جھجاہ نے مہاجرین کو آواز دی اور چشم زدن میں وہاں ایک اچھا خاصہ مجمع ہوگیا اور قریب تھا کہ تلواریں نکل آئیں اور مسلمان اپنے ہی بھائیوں کے خون سے اپنے ہاتھ آلودہ کرلیتے۔ مگر بعض سنجیدہ بزرگوں نے معاملہ رفع دفع کرادیا۔ اور اس طرح یہ فتنہ رک گیا لیکن فتنہ و فساد پیدا کرنے کا ایک زریں موقعہ ضائع ہوجانے کی اطلاع جب منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی بن سلول کو ہوئی تو اس نے پھر اس فتنہ کی آگ کو ہوا دینا چاہی۔ اپنے ساتھیوں کو بہت اکسایا اور کہا لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعزمنھا الاذل یعنی ہمیں مدینہ پہنچنے دو عزت والا شخص یا گروہ، ذلیل شخص یا گروہ کو وہاں سے نکال دے گا۔ یہ سن کر مخلصین کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اوران کی تلواریں عبداللہ کے قتل کے لیے بے قرار ہو رہی تھیں کہ عبداللہ کے لڑکے حضرت حباب کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی۔ وہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: یا رسول اللہ میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے شرارت کی ہے اور آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے۔ اگر میری اطلاع درست ہے تو آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کا سر کاٹ کر حاضر کروں۔ کیونکہ اگر آپ نے یہ کام کسی اور کے سپرد کیا تو ممکن ہے کسی وقت میری رگ جاہلیت جوش مارے اور میں اس مسلمان کو اپنے باپ کا قاتل سمجھ کر کوئی نقصان پہنچا بیٹھوں۔ اور اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالوں۔ مگر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ نہیں ہمارا ہرگز یہ ارادہ نہیں۔

3

اپنے باپ کی اس گستاخی پرحضرت حباب کو اس قدر طیش تھا کہ جب لشکر نے کوچ کیا تو انہوں نے باپ کا راستہ روک لیا اور کہا کہ خدا کی قسم میں تمہیں ہرگز واپس نہ جانے دوں گا، جب تک تم یہ اقرار نہ کرو کہ معزز ترین وجود آنحضرتﷺ ہیں اور ذلیل ترین تم ہو۔ اور اس مطالبہ پر اس قدر اصرار کیا کہ مجبور ہو کرعبداللہ کو یہ الفاظ کہنے پڑے۔

4

ستر قاریوں کے ایک وفد کے، ایک قبیلہ کی درخواست پر، تعلیم دین کے لیے بھیجنے کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔ بیئر معونہ کے مقام پر کفار نے ان کو گھیرا اور سوائے حضرت منذر بن عمرو کے جو اس وفد کے امیر تھے سب شہید ہوگئے۔ حضرت منذر سے کفار نے کہا کہ اگر تم درخواست کرو تو تم کو امان دی جاسکتی ہے۔ مگر آپ کی غیرت نے یہ بے حمیتی گوارا نہ کی کہ اپنی جان بچانے کے لیے کفار سے درخواست کریں۔ اور بے غیرتی کی اس زندگی پر موت کو ترجیح دی۔ زندگی کتنی پیاری چیز ہے۔ اس سوال کا جواب ہر شخص کا دل دے سکتا ہے۔ اور جب یہ پیاری جان محض منہ سے کہہ دینے سے بچائی جاسکتی ہو اور نہ بچائی جائے تو ایمانی غیرت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ چنانچہ مردانہ وار لڑے اور شہادت پائی۔

5

جنگ بدر میں جو کفار قید ہوئے ان میں ایک ولید بن ولید مشہوراسلامی جرنیل حضرت خالد بن ولید کے بھائی بھی تھے۔ ان سے چار ہزار درہم فدیہ طلب کیا گیا۔ جو ان کے بھائیوں نے ادا کردیا چنانچہ وہ رہا ہو کر مکہ آگئے۔ اور یہاں پہنچتے ہی مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔ اس پر ان کے بھائی بہت جز بز ہوئے اور کہا کہ اگر تم نے مسلمان ہی ہونا تھا تو پھر یہ فدیہ ادا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ آ پ نے جواب دیا کہ ایسا میں نے اس لیے کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ فدیہ سے بچنے کے لیے مسلمان ہوگیا۔ اللہ اللہ کس قدر غیرت ہے۔ دل واقعی اسلام قبول کرچکا ہے۔ ایمان گھر کر چکا ہے۔ ایسے وقت میں ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے سے خاندان کو ایک بہت بڑی مالی سزا سے بھی محفوظ رکھا جاسکتاہے لیکن غیرت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ کوئی شخص ایمان پر طعنہ زنی کرے۔ اور اسے مالی بوجھ سے بچنے کا نتیجہ قرار دے۔ مکہ والوں نے آپ کو قید کردیا اور سخت ایذائیں دیں۔ مگر توحید کا نشہ اترنے والا نہ تھا۔ آپ بالکل ثابت قدم رہے اور موقعہ پاکر مدینہ بھاگ گئے۔

6

حضرت عمیر بن سعد کے والد کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ آپ کی والدہ نے ایک شخص جلاس نامی سے نکاح کر لیا جو منافق طبع تھا۔ اور وہی آپ کی پرورش کرتا تھا۔ حضرت عمیر بچپن میں ہی مسلمان ہوگئے تھے۔ اور غزوہ تبوک میں باوجود خوردسالی کے شریک ہوئے۔ ایک موقعہ پر جلاس نے کہا کہ اگر محمد ﷺاپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم گدھوں سے بھی بدتر ہیں۔ آپ نے یہ بات سنی تو یارائے ضبط نہ رہا اور فوراً جواب دیا۔ کہ آنحضرتﷺ ضرور سچے ہیں۔ اور تم لوگ واقعی گدھوں سے بدتر ہو۔ ظاہر ہے کہ جلاس کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ اس کا ربیب اس طرح اس کے سامنے گستاخانہ جواب دے۔ اور حضرت عمیر بھی اس صاف گوئی کے انجام سے بے خبر نہ ہوسکتے تھے۔ اور اچھی طرح جانتے تھے کہ جس شخص سے آپ یہ بات کر رہے ہیں وہی آپکا کفیل ہے اور اگر ا س نے کفالت سے ہاتھ کھینچ لیا تو کس قدر مشکلات کا سامنا ہوگا۔ لیکن غیرت ایمانی نے ان تمام خیالات کو نزدیک نہ آنے دیا۔ اور برملا وہ بات کہہ دی جو ایمانی غیرت کا تقاضا تھا۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی جلا س نے کہا کہ آئندہ میں ہرگزتمہاری کفالت نہ کروں گا۔ مگر آپ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور فوراً دربار نبوی میں رپورٹ پہنچائی۔ آنحضرتﷺ نے جلاس کو بلوا کر دریافت کیا تو اس نے صاف انکار کردیا۔ مگر وحی الٰہی سے حضرت عمیر کی بات کی تصدیق ہوگئی۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے ان کا کان پکڑ کر فرمایا۔ لڑکے تیرے کانوں نے ٹھیک سنا تھا۔

7

بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ جماعت کے اندر فتنہ پیدا کرنے والی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ایسی باتیں بالخصوص وہ جو امراء اور خلفاء کے بارہ میں ہوں تو نہایت خطرناک ہوتی ہیں۔ صحابہ کی مجالس میں اگر کوئی شخص ایسی بات کرتاتو ان کی غیرت ایمانی ہرگز اس کی متحمل نہ ہوسکتی تھی۔ حضرت عمار بن یاسر کا ذکر پہلے آچکاہے کہ آپ نے بچپن میں اسلام قبول کیا تھا۔ ایک مسلمان مطرف نام بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں کوفہ میں گیا اور اپنے ایک دوست کے پاس ٹھہرا۔ اس کے مکان پر ایک اور شخص بھی بیٹھا ہوا اپنے چرمی لباس کو پیوند لگا رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست کے ساتھ حضرت علی کے متعلق بعض ایسی باتیں شروع کیں جو ایک قسم کی نکتہ چینی کا رنگ رکھتی تھیں۔ اس پر اس شخص نے سخت برہم ہو کر مجھے کہا کہ اے فاسق کیا امیر المومنین کی مذمت کر رہاہے۔ میرے دوست نے عذر خواہی کی اور کہا کہ جانے دیں میرا مہمان ہے اور اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ وہ شخص عمار بن یاسر تھے۔

افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں اس قسم کی ایمانی غیرت کے اظہار کو تہذیب کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اور بعض لوگ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے اس قسم کی فتنہ انگیزی کی باتیں سن کر ان پر پردہ ڈالتے بلکہ ان کی ہاں میں ہاں ملانا دوستی اوررشتہ داری کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ اور اگر کبھی ان پر گرفت ہو تو پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ عقوبت سے محفوظ رہ سکیں۔

8

حضرت سعد بن ابی وقاص نے جوانی کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا اور اس زمانہ میں چونکہ مسلمانوں کے لیے مکہ میں امن نہ تھا۔ اس لیے دوسرے مسلمانوں کی طرح یہ بھی چھپ چھپ کر سنسان گھاٹیوں میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ بعض کفار نے ان کو دیکھ لیا۔ تو اسلام پر تمسخر کرنے لگے۔ حضرت سعد باوجود یکہ مسلمانوں کی بے بسی اور کفار کی طاقت اور ان کی ستم رانیوں سے بخوبی واقف تھے۔ اس استہزاء کو برداشت نہ کرسکے اور اونٹ کی ہڈی اٹھا کر اس زور سے ماری کہ کافر کا سر پھٹ گیا۔ کہا جاتاہے کہ اسلام کی راہ میں یہ پہلی خونریزی تھی۔

9

حضرت عثمان بن مظعون بہت ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ اور یہ وہ زمانہ تھا جب قریش مکہ ان معدودے چند اور کمزور حاملان توحید کو طرح طرح کے مظالم کا تختہ مشق بنا رہے تھے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح اسلام کو مٹانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ آخر ان مظالم سے تنگ آکر یہ بھی بعض دوسرے صحابہ کے ساتھ حبشہ چلے گئے۔ لیکن ایک غلط افواہ کی بناء پر کہ قریش نے اسلام قبول کرلیا ہے واپس آئے۔ مکہ کے قریب پہنچ کر اس غلطی کاعلم ہوا لیکن ا ب نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ تھا۔ اور یہ امر مجبوری ایک مشرک ولید بن مغیرہ کی پیشکش پر اس کی پناہ حاصل کر کے مکہ میں واپس آگئے۔

ولید کے اثر کی وجہ سے یہ تو کفار کے مظالم سے محفوظ تھے لیکن دوسرے صحابہ کو برابر اذیتیں پہنچائی جا رہی تھیں۔ جسے دیکھ کر آپ کی غیرت ایمانی جوش میں آئی اور دل میں کہا کہ تف ہے مجھ پر میرے بھائی تو مصائب اٹھا رہے ہیں اور میں ایک مشرک کی پناہ میں آرام سے بیٹھا ہوں۔ ان خیالات نے بے قرار کردیااور اسی وقت ولید بن مغیرہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ میں تمہاری پناہ سے آزاد ہوتا ہوں۔ اب تم پر میری کوئی ذمہ داری نہیں میرے لیے رسولِ خداﷺ کااور آپ کے صحابہ کا نمونہ کافی ہے۔ اور اب میں خدا و رسول کی حمایت میں رہنا چاہتاہوں۔ تم ابھی میرے ساتھ خانہ کعبہ میں چلو اور جس طرح میری حمایت کا اعلان کیا تھا اسی طرح دستبرداری کا اعلان کردو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔

حضرت عثمان ا س اعلان کے بعدقریش کی ایک مجلس میں پہنچے جہاں شعر گوئی ہو رہی تھی۔ اور اس زمانہ کا ایک مشہور شاعر لبید قصیدہ پڑھ رہا تھا۔ جس کے ایک مصرعہ کا یہ مطلب تھا کہ تمام نعمتیں زائل ہو نے والی ہیں۔ یہ سن کر آپ بے اختیار بول اٹھے کہ نعماء جنت زائل نہ ہوں گی۔ لبید نے یہ مصرعہ پھر پڑھا۔ اور آپ نے پھر اس کی تردید کی۔ اس پر اس نے قریش کو جوش دلایا کہ تمہاری مجالس میں اس قدربدتمیزی عجیب بات ہے۔ اور ایک بدکردار نے بڑھ کر آپ کے منہ پر ایسا طمانچہ مارا کہ آنکھ زرد پڑ گئی۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ جب تک تم ولید کی پناہ میں تھے کسی کو یہ جرات تو نہ ہوسکتی تھی۔ ولید نے کہا کہ اب بھی چاہو تو میں پناہ دے سکتا ہوں مگر آپ کی غیرت نے گوارا نہ کیا۔

10

صحابہ کرام دین کے معاملے میں اس قدر غیور واقع ہوئے تھے کہ انتہائی خطرات کے وقت بھی غیرت ایمانی کا وصف ان کی زندگیوں میں نمایاں نظر آتا ہے۔ پہلے یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت ابوفکیہ کو، جو ایک غلام تھے ان کا آقا صفوان بن امیہ طرح طرح کی تکالیف پہنچاتا تھا۔ ان کے پاؤں میں رسی باندھ کرگلیوں میں گرم زمین پر گھسیٹتا جاتا تھا۔ ایک دن اسی حالت میں ان کو گھسیٹ کر لے جارہا تھا کہ راہ میں ایک گبریلا نظر آیا۔ صفوان نے ان کی دل آزاری کے لیے کہا کہ تیرا خدا یہی تو نہیں۔ ظاہر ہے اس قدر بے چارگی اور بے بسی کی حالت میں ایک بااختیار آقا کے سامنے اس کے غلام کا جواب دینا اور اس کی تردید کرنا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ آپ اگرچاہتے تو اس تمسخر پر خاموش رہ سکتے تھے۔ اور دل میں ہی برا منانے پراکتفا کرسکتے تھے لیکن آپ کی غیرت ایمانی نے ا س بات کو پسند نہیں کیا۔ یہ کلمہ سنتے ہوئے آپ کو اپنی تمام تکالیف بھول گئیں۔ اپنی بے چارگی و بے بسی کا احساس جاتا رہا اور آپ نے فوراً جواب دیا کہ میرا اور تیرا دونوں کا خدا اللہ تعالیٰ ہے۔ اس پر صفوان کو سخت طیش آیا اور اس نے اس زور کے ساتھ آپ کا گلا گھونٹا کہ آپ نیم مردہ نظر آنے لگے۔ آپکا ایک بھائی بھی اس ایذا دہی کے وقت پاس تھا مگر وہ بجائے آپ کے ساتھ کسی ہمدردی کے اظہار کے الٹا صفوان کو ایذا میں اضافہ کرنے پر ابھار رہا تھا۔

11

عتبہ اسلام اور آنحضرتﷺ کے معاندین کی صف اول میں تھا۔ جنگ بدر کے موقعہ پر جب وہ شمشیر بکف میدان میں نکلا تو اس کے مقابلہ کے لیے اس کے فرزند حضرت ابو حذیفہ جو اسلام قبول کر چکے تھے آئے۔ چنانچہ ان کی بہن ہندہ نے یہ دیکھ کر ان کی ہجو میں شعر پڑھے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تو بہت ناشکرا ہے۔ کہ جس باپ نے تجھے پال پوس کر جوان کیا آج اس سے نبردآزما ہو رہا ہے مگر آپ نے ان باتوں کی مطلقاً کوئی پرواہ نہ کی اور غیرت کے تقاضہ کو پورا کیا۔

12

صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب معاہدہ تحریر کیا جارہاتھا تو کفار کے نمائندہ نے اصرار کیا کہ آنحضرتﷺ کے نام کے ساتھ “رسول اللہ” کا لفظ نہ لکھا جائے اور آپ نے اس شرط کو منظور کرتے ہوئے حضرت علی کو حکم دیا کہ یہ جملہ مٹا دیا جائے۔ باوجود یکہ صحابہ کرام آنحضرتﷺ کے ہر ارشاد کی تعمیل اپنے لیے ذریعہ سعادت دارین سمجھتے تھے مگر آپ کی غیرت ایمانی نے اس بات کو برداشت نہ کیا کہ اپنے ہاتھ سے اسے قلمزن کریں۔ اور خود آنحضرتﷺ نے اپنے دست مبارک سے یہ جملہ کاٹ دیا۔

13

حضرت خبیب کو جب مشرک شہید کرنے لگے تو آپ نے نہایت اطمینان کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی۔ اور ان سے کہا کہ میرا ارادہ تو نماز کو بہت طول دینے کا تھا مگر اس خیال سے کہ تم لوگ یہ خیال نہ کرو کہ موت سے ڈرتا ہوں اسے مختصر کر دیا ہے اور پھر بعض شعر پڑھنے لگے۔ جن کا مطلب یہ ہے کہ جب میں مسلمان ہو کر مرتا ہوں تو اس کا کیا خوف کہ میرا دھڑ کس طرف گرتا ہے اور سر کس طرف۔ یہ مرنا خدا کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو میرے بریدہ اعضاء پر برکت نازل کرسکتا ہے۔

14

قریش کی ستم رانیاں صرف غریب اور بے کس مسلمانوں تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ صاحب اثر و رسوخ مسلمان بھی اس سے بچے ہوئے نہ تھے۔ حتی کہ حضرت ابوبکربھی ان کے مظالم سے محفوظ نہ تھے۔ جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو حضرت ابوبکر بھی ہجرت کے ارادہ سے نکلے لیکن مکہ سے تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ ایک مشرک ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے دریافت کیا کہ کہاں کا ارادہ ہے۔ آ پنے فرمایا کہ میری قوم نے مجھے جلاوطن کر دیا ہے۔ اس نے کہا کہ تم مفلس لوگوں کی دستگیری کرتے ہو۔ قرابت داری کا خیال رکھتے ہو۔ مہمان نوازی کرتے ہو۔ مصیبت زدگان کی امداد کرتے ہو۔ تمہارے جیسا آدمی جلاوطن نہیں کیا جاسکتا۔ تم واپس چلو اور میری امان میں رہو۔ چنانچہ آپ اس کے ساتھ واپس آگئے۔ ابن الدغنہ نے اعلان کر دیا کہ میں نے ابوبکر کو امان دی ہے۔ اور قریش نے اسے تسلیم کرلیا۔ اور کہا کہ ابوبکر کو اپنے گھر میں نمازو قرآن پڑھنے کی اجازت ہے۔ حضرت ابوبکر اپنے مکان کے صحن میں نماز ادا کرتے اور بآواز بلند تلاوت قرآن کریم کرتے تھے۔ قریش کو اس پر اعتراض ہوا کیونکہ آپ کی آواز میں ا س قدر رقت تھی اور تلاوت ایسے درد اور سوز کے ساتھ کرتے تھے کہ سننے والوں کے دل میں آپ کی پرسوز آواز اترتی جاتی تھی۔ اور قریش کو خطرہ تھا کہ ارد گرد کے گھروں میں رہنے والی عورتیں اور بچے اس سے متاثر ہو جائیں گے۔ اس لیے انہوں نے ابن الدغنہ کے پاس شکایت کی کہ ابوبکر بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہیں۔ جس سے ہمیں اپنی عورتوں اور بچوں کے متعلق خطرہ ہے کہ وہ متاثر نہ ہوجائیں۔ ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ یا تو ایسا نہ کرو او ر یا پھر مجھے اپنی حمایت سے بری الذمہ سمجھو۔ حضرت ابوبکرؓ کی غیرت ایمانی نے کسی مداہنت کو گوارا نہ کیا اور نہایت استغناء کے ساتھ اسے کہہ دیا کہ مجھے تمہاری پناہ کی حاجت نہیں۔ میرے لیے اللہ و رسول کی پناہ کافی ہے۔

15

حضرت عمر نے 33 سال کی عمر یعنی جوانی میں اسلام قبول کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان نہایت بے بسی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ حضرت عمر ایمان لائے تو مشرکین کو جمع کر کے اعلان کیا کہ اس پر قریش کا بگڑنا ایک لازمی بات تھی۔ لیکن آپ کے رشتہ کے ماموں عاص بن وائل نے آپ کو اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا۔ مگر آپ کی غیرت ایمانی نے اس آسرے کو پسند نہ کیا۔ اور صاف کہہ دیا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ درآنحالیکہ دوسرے مسلمان مشرکوں کے مظالم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں۔ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ کسی کی پناہ کے باعث آرام کی زندگی بسرکروں۔ آپ نہایت جوانمردی کے ساتھ مشرکین کے مظالم کا مقابلہ کرتے رہے حتی کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ میں جاکرنماز ادا کی۔

16

دینی غیرت نہ صرف مسلمان مردوں بلکہ عورتوں میں بھی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ ایمان اور اسلام کے لیے اپنی جانیں اور اپنی عزیز اولادوں کو نہایت جوش کے ساتھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتی تھیں۔ حضرت ابوبکر کے عہد میں جب مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ یمامہ پیش آئی تو حضرت ام عمارہ اس مردود کے فتنہ سے اسلام کو پاک دیکھنے کے لیے اس قدر بے تاب ہوئیں کہ اپنے نوجوان لڑکے کو ساتھ لے کر حضرت خالد کے لشکر میں شامل ہوئیں اور اس کے مقابلہ کے لیے میدان جنگ میں گئیں۔ اس جنگ میں حضرت حبیب کو شہادت نصیب ہوئی۔

ہمارے زمانہ کی مستورات غور کریں کہ ایسے وقت میں کہ ان کا نوجوان لڑکا موت کی نیند سو رہا ہو ان کی کیا حالت ہوگی۔ وہ یقینا جزع فزع اور نالہ و شیون سے آسمان سر پر اٹھالیں گی۔ اور اپنے حواس بھی کھو دیں گی۔ لیکن اس زندہ جاوید خاتون کی ایمانی غیرت ملاحظہ ہو کہ اپنے فرزند کی لاش کو دیکھ کر کہا کہ اس جنگ میں یا تو مسیلمہ قتل ہوگا اوریا پھرمیں بھی اپنی جان دے دوں گی۔ یہ کہا اورتلوار کھینچ کر میدان جنگ میں کود پڑیں۔ اور ایسی داد شجاعت دی کہ بارہ زخم کھائے۔ ایک ہاتھ بھی کٹ گیا۔ مگر پیچھے نہ ہٹیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی غیرت کو دیکھتے ہوئے ان کے منہ سے نکلی ہو ئی بات کو پورا کردیا۔ چنانچہ مسیلمہ اسی جنگ میں مارا گیا۔

موجودہ زمانہ کے لحاظ سے ایک ضروری سبق

صحابہ کرام کے نوجوان طبقہ کی ایمانی غیرت کی جو چند امثلہ بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں ان میں ہمارے موجودہ زمانہ کے لحاظ سے بہت سے اسباق ہیں۔ ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دین کے معاملہ میں وہ نازک سے نازک تعلقات کو بھی فوراً فراموش کر دیتے تھے۔ جب مذہب اور دین کا سوال درمیان میں آجاتا تو باپ کو بیٹے کی، اور بیٹے کو باپ کی، بیوی کو خاوند کی، اور خاوند کو بیوی کی پروانہ نہ رہتی تھی۔ اور صرف یہ مدنظر ہوتا تھا کہ دین کے اقتضاء کو باحسن صورت پورا کیا جائے۔ اسے پورا کرنے میں کوئی تعلق ان کی راہ میں حائل نہ ہوتا تھا۔ دین کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی صورت میں بیٹا خود تلوار ہاتھ میں لے کر باپ کی گردن اڑا دینے کے عزم کا اعلان کردیتا تھا۔ اور باپ تمام پدری شفقت کو بالائے طاق رکھ کر بیٹے کی گردن پرچھری پھیر دینے کو تیار ہو جاتا تھا۔ ابتدائی ایام میں اسلام جس قدر کمزور تھا۔ صحابہ میں اگر ایمانی غیرت اس قدر زبردست نہ ہوتی اور وہ چند مسلمان بھی رشتہ داریوں اورتعلقات کا لحاظ کرتے اور مقابلہ کے وقت یہ سوچنے لگتے کہ مدمقابل ان کا عزیز ہے یا اندرونی طور پر اسلام کونقصان پہنچانے والوں کو اپنے قریبی سمجھ کر سزا سے بچانے کی کوشش شروع کردیتے تو اسلامی ترقی فوراً رک جاتی۔

آج ہمارے زمانہ میں گو لڑائیاں تو ممنوع ہیں اور میدان جنگ سے ہم لوگ بہت دور ہیں۔ اس لیے تلوار کے ساتھ اعزہ کے مقابلہ کا سوال تو درکنار دشمن کے ساتھ بھی اس کا کوئی موقعہ نہیں۔ لیکن تہذیب جدید کے ساتھ جو خطرناک امراض ہمارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں ان میں سے ایک جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے قومی زندگی کے لیے سخت مہلک ہے بے جا ظاہر داری، مصنوعی ہمدردی، بناوٹی اخلاص اور بعض اس کے مفروضہ تقاضے ہیں۔ ایک طرف اگر درپردہ فتنہ انگیزی کی عادت زیادہ پائی جاتی ہے تو دوسری طرف اس کی بے جا حمایت ہے۔ بعض لوگ اپنی عادت سے مجبور ہو کر دین کی حقیقت سے غافل ہونے کی وجہ سے اور یا پھر دشمنوں کا آلہ کار بن کر جماعت کے اندر ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں جن کے نتیجہ میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہو کر وحدت قومی کو نقصان پہنچے۔ اور ایسے لوگوں کے خلاف نوٹس لینے اور ان کے پھیلائے ہوئے زہر سے دوسروں کو محفوظ رکھنے میں ایک بہت بڑی روک یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ لوگ اپنے اعزہ و اقارب کی ایسی باتوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا یہ مرض ظاہر نہ ہو۔ اور وہ کسی گرفت کے نیچے نہ آسکیں۔ بلکہ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اگر ایسی باتیں خودبخود ظاہر ہو جائیں تو تب بھی ان کی ایمانی غیرت میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی کہ اپنی شہادت پیش کر کے ہی اس فتنہ کے سدباب میں ممد ہوں اور ثواب حاصل کریں۔

مذکورہ بالا واقعات سے آ پ پر ثابت ہو گا کہ صحابہ اس مرض سے بالکل پاک تھے۔ حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی اس ضمن میں اپنے فرائض کا پوری طرح احساس تھا۔ اور اگر وہ کوئی فتنہ انگیزی پیدا کرنے والی ایسی بات سن پاتے تو خواہ وہ ان کے کسی عزیز ترین رشتہ دار کی طرف سے ہوتی اور اس کا اظہار ان کے لیے سخت سے سخت مشکلات پیدا کرنے کا موجب ہوسکتا۔ وہ خود بخود آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ قومی اور ملی مفاد کو ذاتی مفاد اور اپنے آرام و آسائش پر مقدم کرتے اورعواقب سے آنکھیں بند کر کے حضور کو صحیح واقعات سے آگاہ کردیتے تھے۔ بلکہ اپنے ہاتھ سے تلوار کے ساتھ فتنہ کے اس دروازہ کو بند کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کردیتے تھے۔ اگر ہمارے نوجوان بھی ان مثالوں کو مشعلِ راہ بنائیں اور موجودہ زمانہ کے لحاظ سے اس قسم کے فتن کے سدباب کے لیے ہر ممکن اور جائز ذریعہ کو استعمال میں لائیں تو استحکام دین میں اس سے بہت مدد مل سکتی ہے۔ اور دشمنوں کی نقصان رسانی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. (استیعاب ج1 ص194)
  2. (سیرۃ ابن ھشام ص430)
  3. (استیعاب ج3ص71، 72)
  4. (ابن سعد ج2 ص36، 37)
  5. (اسد الغابہ ج4 ص654)
  6. (سیر انصار ج3 ص107تا109)
  7. عمار بن یاسر ؟
  8. (ابن سعد ج3ص 182)
  9. (اسد الغابہ ج3 ص493)
  10. (اسد الغابہ ج5 ص249)
  11. (اسد الغابہ زیر لفظ ابو حذیفہ)
  12. (مسلم کتاب الجہاد)
  13. (بخاری کتاب الجہاد)
  14. (بخاری کتاب المناقب)
  15. (ابن سعد ج1 ص193)
  16. (سیرۃ الصحابیات ص 130)