مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے
فیاضی اور غریب پروری
1
حضرت عبید اللہ بن عباس آنحضرتﷺ کے زمانہ میں بہت کم سن تھے۔ جب جوان ہوئے تو فیاضی آپ کے اخلاق کا طرہ امتیاز تھا۔ روزانہ دسترخوان کے لیے ایک اونٹ ذبچ ہوتا جو حاجت مندوں کو کھلا دیتے۔ آپ کے بھائی نے اس کو اسراف قرار دیا اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا مگر آپ نے اس نیک عادت کو ترک کرنے کی بجائے دو اونٹ ذبح کرنے شروع کردئیے۔
2
حضرت ابو شریح نے فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کیا تھا۔ طبیعت بہت فیاض پائی تھی اور اعلان عام کر رکھا تھا کہ جو شخص میرا دودھ، گھی، برہ پائے۔ اسے عام اجازت ہے کہ اسے استعمال کرے۔ ہر شخص میری چیزوں کو بلاتکلف استعمال کرسکتا ہے۔
3
حضرت ابوقتادہ کی پیدائش ہجرت نبوی سے اٹھارہ سال قبل ہوئی تھی۔ اس لیے قبولِ اسلام کے وقت عالم جوانی تھا۔ ایک دفعہ آپ آنحضرتﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک انصاری کا جنازہ لایا گیا۔ آنحضرتﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس پر کوئی قرض تو نہیں لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ قرض ہے۔ حضور نے دریافت فرمایا کہ کوئی ترکہ بھی چھوڑا ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ کچھ نہیں۔ اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ جنازہ پڑھ لیں۔ حضرت ابو قتادہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر میں اس کا قرض ادا کردوں تو حضور نماز جنازہ پڑھائیں گے۔ آپ نے فرمایا ہاں چنانچہ ابوقتادہ اٹھے اور گھر سے روپیہ لاکر اپنے مرحوم بھائی کا تمام قرض بے باق کردیا۔
4
حضرت سعید بن العاص خاندان بنی امیہ کے ایک نوجوان رئیس تھے۔ جن کی دریادلی اور فیاضی مشہور عام تھی۔ آپ کا معمول تھاکہ ہفتہ میں ایک روز تمام بھائی بھتیجوں اور متعلقین کو جمع کر کے دعوت طعام دیتے۔ حاجت مندوں کی امداد، پارچات اور نقدی سے بھی کرتے۔ جمعہ کی ہر شب کو کوفہ کی مسجد میں دیناروں سے بھری ہوئی تھیلیاں نمازیوں میں تقسیم کراتے تھے۔ سوالی کو کبھی رد نہ کرتے تھے اور اس کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ کسی حاجت مند کے سوال پر اگر کچھ پاس نہ ہوتا تو اسے ایک تحریر دے دیتے کہ بعد میں آکر وصول کرلے۔
5
آپکے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے کہ آپ ایک روز مسجد سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ ایک شخص پیچھے پیچھے ہولیا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا کوئی کام ہے اس نے کہا نہیں یونہی آپ کو تن تنہا آتے دیکھا تو ساتھ ہولیا۔ آپ نے فرمایا کہ میرے فلاں غلام کو بلا لاؤ اورکاغذ قلم دوات بھی منگواؤ۔ اس نے تعمیل کی تو آپ نے اسے بیس ہزار کی ہنڈی تحریر کردی۔ اور کہا کہ میرے پاس اس وقت روپیہ نہیں پھر کبھی آکر یہ رقم وصول کرلینا۔ آپ کی وفات ہوئی تو دس ہزار اشرفی آپ پر قرض تھا۔ بیٹے نے پوچھا۔ یہ قرض کیونکرہوا تو کہا کہ کسی کی حاجت روائی کی اورکسی کو سوال سے پہلے دے دیا۔
6
حضرت معاذ بن جبل نے عین عالم جوانی یعنی 32 سال کی عمر میں وفات پائی تھی مگر طبیعت کی فیاضی اور غرباء سے ہمدردی کا یہ حال تھا کہ وفات کے وقت تمام جائیداد بیع ہو چکی تھی۔
7
حضرت سعد بن عبادہ کے پاس ایک مرتبہ ایک ضعیفہ آئی۔ اور کہا کہ میرے گھر میں چوہے نہیں ہیں جس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اناج وغیرہ کچھ نہیں۔ کیونکہ چوہے وہیں ہوتے ہیں جہاں اناج وغیرہ ہو۔ آپ نے اس کی یہ بات سن کر کہا کہ سوال کا طریقہ نہایت عمدہ ہے اچھا جاؤ اور اب تمہارے گھر میں چوہے ہی چوہے نظر آئںا گے۔ چنانچہ آپ نے اس کا گھر غلہ روغن اور دوسری خوردنی اشیاء سے بھر دیا۔
8
حضرت زبیر بن العوام نے صرف 16 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا لیکن اسلامی تعلیم کے رنگ میں بالکل رنگین تھے۔ آپ کے پاس قریباً ایک ہزار غلام تھے۔ جو روزانہ اجرت پر کام کرکے ایک معقول رقم لاتے تھے مگر آپ اس میں سے ایک حبہ بھی اپنے یا اپنے اہل و عیال کے لیے خرچ نہ کرتے تھے بلکہ سب کچھ صدقہ کر دیتے تھے۔
9
حضرت زبیرکی فیاضی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ باوجود اس قدر تمول کے بائیس لاکھ کے مقروض ہوگئے تھے۔
10
حضرت زبیر کا دروازہ فقراء اور مساکین کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ قیس بن ابی حازم کا بیان ہے کہ میں نے ان سے زیادہ بغیر غرض کے محض ہمدردی کے طور پر خرچ کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔
11
ایک مرتبہ حضرت طلحہ نے اپنی ایک جائداد سات لاکھ درہم میں فروخت کی۔ اور یہ رقم سب کی سب راہ خدا میں وقف کردی۔ آ پ کی بیوی سعدی بنت عوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنے شوہر کو غمگین دیکھا تو پوچھا کہ آپ ملول کیوں نظر آتے ہیں۔ کیا مجھ سے کوئی خطا سرزد ہوئی۔ آپ نے جواب دیا نہیں تم نہایت اچھی بیوی ہو۔ بات یہ ہے کہ میرے پاس ایک بڑی رقم جمع ہوگئی ہے۔ سوچ رہاہوں کہ اسے کیا کروں۔ میں نے کہا کہ اسے تقسیم کرادیجئے۔ چنانچہ اسی وقت لونڈی کو بلایا اور چار لاکھ کی رقم اپنی قوم میں تقسیم کردی۔
12
حضرت جعفر نے بھی جو حضرت علی کے بھائی تھے نوجوانی میں اسلام قبول کیا تھا۔ فیاضی اور غریب پروری آپ کا خاصہ تھا۔ مساکین اور غرباء کے ساتھ نہایت مشفقانہ سلوک کرتے تھے۔ ان کو اپنے گھر لے جاتے اور کھانا کھلاتے۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ میں نے جعفر کو مسکینوں کے حق میں سب سے بہتر پایا ہے۔ وہ اصحاب صفہ کو اپنے گھر لے جاتے تھے اور جو کچھ ہوتا سامنے لاکر رکھ دیتے تھے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات شہد اور گھی کا خالی مشکیزہ لاکر سامنے رکھ دیتے تھے اور اسے پھاڑ کر ہم لوگ چاٹ لیتے تھے۔
13
حضرت عبداللہ بن عمر کا یہ معمول تھا کہ عام طور پر کسی مسکین کو شامل کیے بغیر کھانا نہ کھاتے تھے۔ ایک بار بعض لوگوں نے ان کی بیوی سے کہا کہ تم اپنے خاوند کی اچھی طرح خدمت نہیں کرتیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں کیا کروں۔ ان کے لیے کھانا تیار کرتی ہوں۔ تو کسی نہ کسی مسکین کو شریک کرلیتے ہیں۔ ان کی بیوی نے فقراء سے کہلا بھیجا کہ ان کے رستہ میں اب نہ بیٹھا کرو۔ مگر وہ مسجد سے نکلے تو ان کو گھر سے بلوا بھیجا۔ آخر ان کی بیوی نے ان سے کہا کہ بلانے پر بھی نہ آیا کرو۔ چنانچہ ایک مرتبہ وہ نہ آئے تو اس رات آپ نے کھانا ہی تناول نہ فرمایا۔
14
حضرت سعد بن عبادہ کی فیاضی مشہور دور و نزدیک تھی۔ شام ہوتی تو ان کا ایک آدمی باآواز بلند پکارتا کہ جسے گوشت اور چربی کی خواہش ہو یہاں آئے۔ آپ اسی اسی اصحاب صفہ کو کھانا کھلاتے تھے۔
15
حضرت قیس بن سعد انصار کے علم بردار اور دریا دل آدمی تھے۔ ایک غزوہ میں جب سامان رسد کم تھا آپ قرض اٹھا اٹھا کر ساری فوج کو کھانا کھلاتے رہے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی اس غزوہ میں شامل تھے۔ انہوں نے مشورہ کیا کہ انہیں روکنا چاہیے ورنہ باپ دادا کا سرمایہ لٹا دیں گے۔ لیکن جب ان کے والد کو علم ہوا کہ حضرت ابوبکراور حضرت عمر ان کے لڑکے کو فیاضی سے روکنا چاہتے ہیں۔ تو آنحضرتﷺ سے شکایت کی اور کہا کہ مجھے ان دونوں سے کون بچائے گاجو میرے لڑکے کو بخیل کرنا چاہتے ہیں۔
16
حضرت قیس بن عبادہ اس قدر فیاض تھے کہ آپ جہاں بھی جاتے ایک آدمی گوشت اور مالیدہ کا پیالہ بھرا ہوا ساتھ لے کر چلتا۔ اور پکارتا جاتا کہ آؤ اور کھاؤ۔
17
ایک دفعہ حضرت امام حسن نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد میں بیٹھا ہوا خدا تعالیٰ سے دعا کر رہا ہے کہ خدایا مجھے د س ہزار درہم عنایت فرما۔ آپ گھر واپس تشریف لائے اور اسے اتنی رقم بھجوا دی جس کے ملنے کی و ہ دعا کر رہا تھا۔
18
ایک مرتبہ ایک شخص جو حضرت علی کا دشمن تھا۔ مدینہ میں آیا۔ لیکن اس کے پاس زادراہ اور سواری نہ تھی۔ لوگوں نے اسے کہا کہ حضرت امام حسن کے پاس جاؤ ان سے زیادہ فیاض کوئی نہیں۔ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے اسے دونوں چیزوں کا انتظام کر دیا۔ کسی شخص نے کہا کہ آپ نے ایسے شخص کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے جو آپ کا اور آپ کے والد دونوں کا دشمن ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا میں اپنی آبرو نہ بچاؤں۔
19
حضرت امام حسن ایک دفعہ کھجوروں کے ایک باغ میں سے گزرے تو دیکھا کہ ایک حبشی غلام روٹی کھا رہا ہے۔ لیکن اس طرح کہ ایک لقمہ خود کھاتا ہے اور دوسرا کتے کے آگے ڈال لیتا ہے۔ حتیٰ کہ اس نے آدھی روٹی کتے کو کھلا دی۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کتے کو دھتکار کیوں نہیں دیتے۔ اس نے کہا کہ مجھے شرم آتی ہے۔ آپ نے اس کے آقا کا نام دریافت کیا اور اس سے فرمایا کہ جب تک میں واپس نہ آؤں یہیں رہنا۔ وہ تو وہیں کام کرتا رہا اور آپ اس کے آقا کے پاس پہنچے اور باغ اور غلام دونوں چیزیں اس سے خرید کر واپس آئے۔ اور آکر غلام سے فرمایا کہ میں نے تمہیں معہ اس باغ کے تمہارے آقا سے خرید لیا ہے۔ اور تمہیں آزاد کرکے یہ باغ تمہارے نام ہبہ کرتا ہوں۔ غلام نے یہ بات سنی تو کہا کہ آپ نے جس خدا کے لیے مجھے آزاد کیا ہے اسی کی راہ میں یہ باغ صدقہ کرتا ہوں۔
سبحان اللہ ایک طرف رحم دلی اور نیک عادات کی قدر و قیمت دیکھیے۔ فیاضی پر نظر ڈالیے اور پھر دوسری طرف سیر چشمی اور بے نیازی ملاحظہ فرمائیے۔ کہتے ہیں کہ غلامی انسانی فطرت کو مسخ کر دیتی ہے۔ اسے انسانیت کے اعلی جوہر سے محروم کر دیتی ہے۔ بلند اخلاقی اور فراخ حوصلگی کو مٹا کر تنگ نظری اور تنگدلی پیدا کر دیتی ہے لیکن اسلام کے اندر کیا تاثیر تھی۔ اور رسول پاکﷺ کی پاک محبت کا کس قدر اثر تھا کہ مسلمانوں کے غلام بھی فیاضی اور بے نیازی میں بادشاہوں سے بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دنیا کی دولت اور اس کے مال نہ ان کو اپنی طرف مائل کرسکتے تھے اور نہ جسمانی غلامی اور ظاہری بے بسی ان کی روحانی بلند پروازوں کی راہ میں حائل ہوسکتی تھی۔ اسلام نے ان کے اندر وسعت قلب اور خیالات کی ایسی بلندی پیدا کر دی تھی کہ ان کو اپنی تنگدستی کا احساس تک باقی نہ رہا تھا۔
20
حضرت امام حسین بے حد فیاض تھے۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں کثرت کے ساتھ اموال خرچ کرتے تھے۔ کوئی سائل کبھی آپ کے دروازہ سے واپس نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک سائل آیا۔ آپ نماز میں مشغول تھے۔ سائل کی آواز سن کر آپ جلدی جلدی نماز سے فارغ ہوئے۔ اس پر نگاہ ڈالی تو چہرہ پرفقروفاقہ کے آثار دکھائی دئیے۔ آ پ نے اپنے خادم سے پوچھا کہ گھر میں کچھ ہے تو لاؤ اس نے کہا کہ آپ نے دو سو درہم جو اہل بیت میں تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے وہ ابھی تقسیم نہیں ہوئے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ لے آؤ۔ اب اہل بیت سے زیادہ مستحق ایک شخص آگیا ہے۔ چنانچہ وہ تھیلی اس سائل کے حوالہ کردی۔ اور اس وقت اس سے زیادہ نہ دے سکنے پر معذرت بھی کی۔
21
حضرت اسماء بنت ابوبکر کے متعلق کسی دوسری جگہ ذکر آچکا ہے کہ جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہرحضرت زبیر بالکل غریب تھے۔ اور اس لیے انہیں نہایت تنگی سے گزراوقات کرنی پڑتی تھی۔ مگر اس تنگی نے ان کی طبیعت میں کوئی تنگ دلی پیدا نہیں کی تھی۔ اور اسلامی تعلیم انسان کے اندر جو بلندی خیال پیدا کرتی ہے اس پر قطعاً اثر انداز نہیں ہوسکی تھی۔ ان کی بہن حضرت عائشہ کے ترکہ میں سے ان کے حصہ میں ایک جائداد آئی۔ جسے فروخت کرنے سے ایک لاکھ درہم وصول ہوئے۔ جس شخص نے مالی مشکلات کا سامنا کیا ہو اور تنگ دستی میں مبتلا رہ چکاہو۔ ہاتھ میں کوئی رقم آنے پر طبعاً وہ جزرسی کی طرف مائل ہوتا اور اسے سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے۔ لیکن انسانی فطرت کے بالکل برعکس حضرت اسماء نے یہ ساری رقم اپنے غریب اور محتاج اعزہ پر خرچ کردی۔
صحابہ کرام کی فیاضی اور سیر چشمی کی یہ چند مثالیں ہر ایک انصاف پسند اور حقیقت آگاہ کو اس امر کے اقرار پر مجبور کریں گی کہ دنیا کی تاریخ اور مختلف اقوام و ملل کے حالات اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ فیاضی سے کام لینے والے اور رفاہ عام پر اپنی دولت خرچ کرنے والے بے شک آج بھی بعض لوگ نظر آتے ہیں۔ لیکن صحابہ کرام کی فیاضی کے اندر جو بے نفسی، خدا ترسی اور ہمدردی نظر آتی ہے وہ کہیں اور دکھائی نہیں دے گی۔ افسو س ہے کہ میں اس موضوع پر تفصیلی بحث اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں۔ اس لیے صرف ایک اصولی فرق کی طرف اشارہ پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اس پر جتنا زیادہ غور کیا جائے۔ ہمارے خیال کی تصدیق ہوتی جائے گی۔
اس کے علاوہ اس ضمن میں ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ صحابہ کرام کی فیاضیوں کے دریا کی روانی صرف ان کے بھائی بندوں، رشتہ داروں، دوستوں اور بنی نوع انسان تک ہی محدود نہ تھی۔ بلکہ مندرجہ بالا امثلہ آپ پر یہ بھی واضح کریں گی کہ اس میں دوست دشمن بلکہ جنس و غیر جنس تک کی کوئی تمیز نہ تھی۔ فخرِ موجودات اور سرورِ کائنات ﷺ خود جس طرح رحمت للعالمین تھے، اسی طرح آپ کے فیض صحبت سے تربیت یافتہ مرد و عورت بھی اپنی رحمت اور فیاضی کے دائرہ کو ہر ممکن حد تک وسعت دینے کی کوشش کرتے تھے۔
اللھم صل علیٰ محمد وبارک وسلم
حوالہ جات
- (اسد الغابہ ج3 ص185)
- (استیعاب ج4 ص251)
- (مسند احمد ج6 ص403)
- (استیعاب ج2 ص184، 185)
- (استیعاب ج2 ص184، 185)
- (سیر انصار ج2 ص 164)
- (استیعاب ج2 ص184، 185)
- (اصابہ ج2 ص460)
- (بخاری کتاب الجہاد)
- (فتح الباری ج7 ص66) ؟
- (ابن سعد ج1 ص157)
- (بخاری کتاب المناقب)
- (ابن سعد ج4 ص166)
- (اصابہ ج3ص56)
- (اسد الغابہ ج4 ص119)
- (استیعاب ج2 ص184، 185)
- (ابن عساکر ج4 ص214)
- (ابن عساکر ج4 ص214)
- (ابن عساکر ج4 ص214)
- (ابن عساکر ج4 ص323)
- (بخاری کتاب الھبۃ)