پردہ
احمدی عورت کی ذمہ داریاں
احمدی مائیں اپنی بچیوں میں پردہ کا احساس پیدا کریں
احمدی بچیوں کی تربیت میں ماؤں کے کردار کی اہمیت کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ماؤں کو بچیوں میں چھوٹی عمر سے ہی حیا کا احساس دلانے کی طرف توجہ دلائی ہے تاکہ اس کے نتیجہ میں بڑےہوکر وہ حیادار لباس کی طرف مائل رہیں۔ چنانچہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اس معاشرے میں ہمیں اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو حجاب اور پردے اور حیا کا تصوّر پیدا کروانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حیا دار حجاب کی جھجک اگر کسی بچی میں ہے تو ماؤں کو اسے دُور کرنا چاہئے بلکہ اسے خود اپنے آپ بھی دُور کرنا چاہئے اگر اس کی عمر ایسی ہے۔ مائیں اگر گیارہ بارہ سال کی عمر تک بچیوں کو حیا کا احساس نہیں دلائیں گی تو پھر بڑے ہو کر ان کو کوئی احساس نہیں ہو گا۔
پس اس معاشرے میں جہاں ہر ننگ اور ہر بیہودہ بات کو اسکول میں پڑھایا جاتا ہے پہلے سے بڑھ کر احمدی ماؤں کو اسلام کی تعلیم کی روشنی میں، قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اپنے بچوں کو بتانا ہو گا۔ حیا کی اہمیت کا احساس شروع سے ہی اپنے بچوں میں پیدا کرنا ہو گا۔ پانچ چھ سات سال کی عمر سے ہی پیدا کرنا شروع کرنا چاہئے۔ پس یہاں تو ان ملکوں میں چوتھی اور پانچویں کلاس میں ہی ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں کہ بچے پریشان ہوتے ہیں جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ اسی عمر میں حیا کا مادہ بچیوں کے دماغوں میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بعض عورتوں کے اور لڑکیوں کے دل میں شاید خیال آئے کہ اسلام کے اور بھی تو حکم ہیں۔ کیا اسی سے اسلام پر عمل ہو گا اور اسی سے اسلام کی فتح ہونی ہے۔ یاد رکھیں کہ کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا8 ؍اکتوبر 2016 ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17 ؍مارچ 2017ء)
اپنے دورۂ جرمنی کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء اللہ جرمنی کی نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں تربیت اور پردہ کے حوالے سے نہایت اہم ہدایات ارشاد فرمائیں۔ حضورانور نے فرمایا:
’’ امریکہ میں مَیں نے ذکر کیاتھا کہ کس طرح 12سال کی لڑکیوں کو حجاب کی طرف مائل کریں۔ مَیں نے انہیں بتایاتھا کہ بچے کی تربیت تو اس کی پیدائش سے شروع ہو جاتی ہے۔ پیدائش کے بعد کانوں میں اذان دی جاتی ہے۔ پھر تین سال کی عمرسے بچے کوایسا لباس پہنائیں کہ احساس ہو کہ ڈھکا ہوا لباس ہے۔ تو پھر یہی لباس عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ آگے چلے گا اور بچیا ں بڑی عمر میں جاکر بھی ایسا ہی لباس پہنیں گی جو سارے جسم کو ڈھانپ رہاہوگا۔ کیونکہ بچپن سے اس کی عادت آپ نے ڈالی ہوگی۔ لیکن اگر چھوٹی عمر میں ایسا لباس پہنایا ہے جس سے جسم ڈھکا ہوانہیں ہے اور پھر بعد میں بھی بچی اسی طرح کا لباس پہنتی رہے گی جس سے جسم پوری طرح ڈھکاہوانہیں ہوگا تو پھر12-11سال کی عمر میں کہے گی کہ یہی میرا لباس ہے‘‘۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’جینز کے بارہ میں مجھ سے سوال کیاجاتاہے۔ میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ جین پہننا منع نہیں ہے بشرطیکہ قمیص اتنی لمبی ہو کہ ننگ ڈھانپا ہواہو۔ جین کے ساتھ چھوٹی قمیص پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ ‘‘
پھر فرمایا: اتنی شرم و حیا ہونی چاہئے کہ لباس مکمل ہو اور ننگ نہ ہو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ کا ذکر فرمایا جس کا بیان قرآن کریم کی سورۃ القصص میں ہواہے کہ جب آپ مدین کے پانی کے گھاٹ پر پہنچے اور دو عورتوں کے جانوروں کو پانی پلایاتو بعدمیں ان میں سے ایک ’’تَمْشِیْ عَلَی اِسْتَحْیَآءٍ‘‘حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس حیا سے لجاتی ہوئی آئی۔
حضور انور نے فرمایا: ’’اصل حیاہی ہے۔ یہ ماؤں کا فر ض ہے کہ بچیوں کی تربیت کریں اور ان کے ذہنوں میں ڈالیں اور ان کو بتائیں کہ یہ نقصانات ہیں اور یہ فوائد ہیں۔ ‘‘(میٹنگ نیشنل مجلس ِعاملہ لجنہ اماء اللہ جرمنی 18 ؍دسمبر 2009 ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29 ؍جنوری 2010ء)
سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی ماؤں کو تربیت اولاد کی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو پردہ کرنے کی تربیت دیں۔ حضورانور نے ارشاد فرمایا:
’’جو مائیں بچپن سے ہی اپنے بچوں کے لباس کا خیال نہیں رکھیں گی وہ بڑے ہو کر بھی ان کو سنبھال نہیں سکیں گی۔ بعض بچیوں کی اُٹھان ایسی ہوتی ہے کہ دس گیارہ سال کی عمر کی بچی بھی چودہ پندرہ سال کی لگ رہی ہوتی ہے۔ ان کو اگر حیا اور لباس کا تقدّس نہیں سکھائیں گی تو پھر بڑے ہو کر بھی ان میں یہ تقدّس کبھی پیدا نہیں ہوگا۔ بلکہ چاہے بچی بڑی نہ بھی نظر آرہی ہو، چھوٹی عمر سے ہی اگر بچیوں میں حیا کا یہ مادہ پیدا نہیں کریں گی اور اس طرح نہیں سمجھائیں گی کہ دیکھو تم احمدی ہو، تم یہاں کے لوگوں کے ننگے لباس کی طرف نہ جاؤ تم نے دنیا کی رہنمائی کرنی ہے، تم نے اس تعلیم پر عمل کرنا ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اس لئے تنگ جینز اور اس کے اوپر چھوٹے بلاؤز جو ہیں ایک احمدی بچی کو زیب نہیں دیتے۔ تو آہستہ آہستہ بچپن سے ذہنوں میں ڈالی ہوئی بات اثر کرتی جائے گی اور بلوغت کو پہنچ کر حجاب یا سکارف اور لمبا کوٹ پہننے کی طرف خود بخود توجہ پیدا ہو جائے گی۔ ورنہ پھر ان کی یہی حالت ہوگی جس طرح بعض بچیوں کی ہوتی ہے۔ مجھے شکایتیں ملتی رہتی ہیں دنیا سے اور یہاں سے بھی کہ مسجد میں آتے ہوئے، جماعتی فنکشن پر آتے ہوئے تو سر ڈھکا ہواہوتا ہے، لباس بڑا اچھا پہنا ہواہوتا ہے اور باہر پھرتے ہوئے سر پر دوپٹہ بھی نہیں ہوتا بلکہ دوپٹہ سرے سے غائب ہوتا ہے، سکارف کا تو سوال ہی نہیں۔ پس مائیں اگر اپنے عمل سے بھی اور نصائح سے بھی بچیوں کو توجہ دلاتی رہیں گی، یہ احساس دلاتی رہیں گی کہ ہمارے لباس حیا دار ہونے چاہئیں اور ہمارا ایک تقدّس ہے تو بہت سی قباحتوں سے وہ خود بھی بچ جائیں گی اور ان کی بچیاں بھی بچ جائیں گی۔ اگر ہم اپنے جذبات کی چھوٹی چھوٹی قربانیوں کے لئے تیار نہیں ہوں گے تو بڑی بڑی قربانیاں کس طرح دے سکتے ہیں۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 28؍جون2008ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15 ؍جولائی 2011ء)
حدیث مبارکہ میں ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت کی بشارت دیئے جانے کے انعام کا ذکر ہے لیکن اس حوالہ سے ماؤں پر بچوں کی عمدہ تربیت کی ذمہ داری بھی عائد کی گئی ہے۔ چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ احمدی ماؤں کا بھی یہ کام ہے کہ اپنے بچوں کی اِس رنگ میں تربیت کریں کہ اﷲ تعالیٰ پر کامل ایمان اور اُس کو راضی کرنے کے لئے ہر کوشش اُس کی اوّلین ترجیح ہو اور یہ اُ س وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک احمدی مائیں بھی اپنے آپ کو ایمان کے اعلیٰ معیار تک لے جانے کی کوشش نہیں کریں گی۔ ماؤں کے قدموں میں جو جنت رکھی گئی ہے وہ اس لئے ہے کہ جہاں اُن کا اپنا ایمان اور خشیّت اﷲ بلندیوں پر ہو وہاں اُن کی نیک تربیت سے اُن کے بچوں کے ایمان بھی ترقی پذیر ہوں ورنہ ہر ماں تو جنّت کی خوشخبریاں دینے والی نہیں ہے۔ پس ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فقرے کو یاد کریں کہ میں ایمانوں کو مضبوط کرنے آیا ہوں۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے 25؍جولائی2009ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21؍جون 2013ء)
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے ایک خطاب میں فیشن اور بے حیائی کے باہمی تعلق کے منفی پہلوؤں پرروشنی ڈالتے ہوئے والدین کو بچیوں میں حیا پیدا کرنے اور پردہ کروانے کے حوالہ سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ لباس کے ننگ کے ساتھ ہی ہر قسم کی بے ہودگی اور ننگ کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ ماں باپ کہہ دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں بچیاں ہیں۔ فیشن کرنے کا شوق ہے، کرلیں کیا حرج ہے۔ ٹھیک ہے فیشن کریں لیکن فیشن میں جب لباس ننگے پن کی طرف جارہا ہو تو وہاں بہرحال روکنا چاہئے۔ فیشن میں برقع کے طور پر جو کوٹ پہنا جاتا ہے وہ بھی اس قدر تنگ ہو کہ مَردوں کے سامنے جانے کے قابل نہ ہو تو وہ فیشن بھی منع ہے۔ یہ فیشن نہیں ہوگا پھر وہ بے حیائی بن جائے گی۔ پھر آہستہ آہستہ سارے حجاب اُٹھ جائیں گے اور اسلام حیا کا حکم دیتا ہے۔ پس اپنی حیا اور حجاب کا خیال رکھیں اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے جو فیشن کرنا ہے کریں۔ فیشن سے منع نہیں کیا جاتا لیکن فیشن کی بھی کوئی حدود ہوتی ہیں ان کا بھی خیال رکھیں۔ فیشن کا اظہار اپنے گھروالوں اور عورتوں کی مجلسوں میں کریں۔ بازار میں اور باہر اور ایسی جگہوں پر جہاں مَردوں کا سامنا ہو وہاں فیشن کے یہ اظہار ایسے نہیں ہونے چاہئیں جس سے بلا وجہ کی برائیاں پیدا ہونے کا امکان ہوسکے۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ جرمنی 11؍جون2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍جون 2015ء)
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ احکامات پر عمل کرنا ہی اپنی آئندہ نسلوں کو دنیا کی لغویات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’پس یہ احمدی ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں، انہیں پیار سے سمجھاتی رہیں اور بچپن سے ہی ان میں یہ احساس پیدا کریں کہ تم احمدی بچی یا بچہ ہو جس کا کام اس زمانے میں ہر برائی کے خلاف جہاد کرنا ہے اور احمدی بچیاں بھی جو اپنی ہوش کی عمر کو پہنچ گئی ہیں اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت سے منسوب ہوتی ہیں جنہوں نے اسلام کی حقیقی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں رائج کرنا ہے۔ اگر آپ اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر چل رہی ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ ورنہ حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت میں شامل رہنے کا کیا فائدہ۔ آج کی بچیاں کل کی مائیں ہیں۔ اگر ان بچیوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگیا تو احمدیت کی آئندہ نسلیں بھی محفوظ ہوتی چلی جائیں گی۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ ماریشس3؍دسمبر2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29 ؍مئی 2015ء)
لڑکیوں اور لڑکوں کے بے حجابانہ میل جول کے نتیجہ میں کئی قسم کی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اس حوالہ سے ماؤں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ایک عمر کے بعد بچیاں اپنے کلاس فیلو اور اسکول فیلو لڑکوں سے بھی ایک حجاب پیدا کریں۔ جب بھی ضرورت ہو ایک حجاب کے اندر رہتے ہوئے بات ہونی چاہئے۔ لڑکیاں خود بھی اس بات کا خیال رکھیں اور ماں باپ بھی خاص طور پر مائیں اس بات کی نگرانی کریں کہ ایک عمر کے بعد لڑکی اگر دوسرے گھر میں جاتی ہے تو محرم رشتوں کے ساتھ جائے اور خاص طور پر جس گھر میں کسی سہیلی کے بھائی موجود ہوں کسی وقت، تو خاص طور پر ان اوقات میں ان گھروں میں نہیں جانا چاہئے۔ پھر بعض جگہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی احساس نہیں دلایا جاتا تو جو کلاس فیلو لڑکے ہوتے ہیں گھروں میں بڑی عمر تک آتے چلے جاتے ہیں۔ اللہ کا فضل ہے کہ احمدی معاشرے میں ایسی برائیاں بہت اِکّا دُکّاشاذ ہی کہیں ہوتی ہیں۔ اکثر بچ رہے ہیں لیکن اگر اس کو کھلی چھٹی دیتے چلے گئے تویہ برائیاں بڑھنے کے امکانات ہیں۔ رشتے برباد ہونے کے امکانات ہیں۔ لڑکیوں نے اگر اس معاشرے میں تفریح کرنی ہے تو ہر جگہ پر اس کا سامان کرنا لجنہ کا کام ہے۔ پھر مسجد کے ساتھ یا نماز سینٹرز کے ساتھ کوئی انتظام کریں جہاں احمدی بچیاں جمع ہوں اور اپنے پروگرام کریں۔ اگر بچپن سے ہی بچیوں کے ذہن میں یہ بات ڈالنی شروع کردیں گی کہ تمہارا ایک تقدّس ہے اور اس معاشرے میں جنسی بے راہ روی بہت زیادہ ہے تم اب شعور کی عمر کو پہنچ گئی ہو تو اس لئے خود اپنی طبیعت میں حجاب پیدا کرو جو تمہارے اور تمہارے خاندان کے اور جماعت کے لئے نیک نامی کا باعث بنے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِلا ماشاء اللہ تمام بچیاں اس بات کو سمجھتےہوئے نیکی کی راہ پر قدم مارنے والی ہوں گی۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ جرمنی 11؍جون 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍جون 2015ء)
اسی طرح موجودہ زمانے میں حیا کے گرتے ہوئے معیار کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ نے احمدی بچوں اور بچیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’آجکل کے معاشرے میں جو برائیاں ہمیں نظر آ رہی ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ایک لفظ کی تصدیق کرتی ہیں۔ پس ہر احمدی لڑکی، لڑکے اور مرد اور عورت کو اپنی حیا کے معیار اونچے کرتے ہوئے معاشرے کے گند سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ یہ سوال یا اس بات پر احساس کمتری کا خیال کہ پردہ کیوں ضروری ہے؟ کیوں ہم ٹائٹ جینز اور بلاؤز نہیں پہن سکتیں ؟ یہ والدین اور خاص طور پر ماؤں کا کام ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو اسلامی تعلیم اور معاشرے کی برائیوں کے بارے میں بتائیں تبھی ہماری نسلیں دین پر قائم رہ سکیں گی اور نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کے زہر سے محفوظ رہ سکیں گی۔ ان ممالک میں رہ کر والدین کو بچوں کو دین سے جوڑنے اور حیا کی حفاظت کے لئے بہت زیادہ جہاد کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اپنے نمونے بھی دکھانے ہوں گے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ؍جنوری2017 بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 ؍فروری 2017ء)
احمدی بچی کی آزادی کی حدود اور پردہ کا معیار
اسلام نے عورت کو دین و دنیا میں ترقیات کے لئے اُن کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے یکساں مواقع فراہم کئے ہیں۔ چنانچہ پردہ کی پابندی اور حیادار لباس کے استعمال کے ساتھ ایک احمدی بچی کو ملنے والی آزادی کی وضاحت کرتے ہوئے سیّدناحضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’ اسی طرح جو جوان بچیاں ہیں اُن سے بھی مَیں کہوں گا کہ اگر بعض بچیوں کے دل میں یہ خیال آتاہے کہ ہم کیوں بعض معاملات میں آزاد نہیں ہیں ؟ تو وہ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ آپ آزاد ہیں لیکن اپنی آزادی کو اُن حدود کے اندر رکھیں جو خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے مقرر کی ہیں۔ اگر آزادی یہاں کے معاشرے کی بے حجابی کا نام ہے تو یقیناً ایک احمدی بچی آزاد نہیں ہے اور نہ ہی اسے ایسی آزادی کے پیچھے جانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں اُن کے اندر رہتے ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے ظاہر ہے آپ کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پاتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب الحیاء من الایمان حدیث نمبر24)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارا ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں جزا پاتا ہے بشرطیکہ تم مومن ہو، تمہارے میں ایمان ہو۔ پس ہر احمدی بچی کو اگر وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتی ہے اور اپنے عملوں کی نیک جزا چاہتی ہے تو اپنی حیا کی بھی حفاظت کرنی ہوگی۔ ایک احمدی بچی کا لباس بھی حیا دار ہونا چاہئے نہ کہ ایسا کہ لوگوں کی آپ کی طرف توجہ ہو۔ ایسے فیشن نہ ہوں جو غیروں کو، غیر مَردوں کو آپ کی طرف متوجہ کریں۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض عورتوں نے ایسے برقعے بھی پہنے ہوتے ہیں، بعضوں نے شروع کر دئیے ہیں جس پر بڑی خوبصورت کڑھائی ہوئی ہوتی ہے اور پھر پیٹھ پر، back میں کچھ الفاظ بھی لکھے ہوتے ہیں۔ اب بتائیں یہ کونسی قسم کا پردہ ہے۔ پردے کا مقصد دوسروں کی توجہ اپنے سے ہٹانا ہے۔ یہ احساس دلانا ہے کہ ہم حیا دار ہیں لیکن اگر برقعوں پر گوٹے کناری لگے ہوئے ہوں اور توجہ دلانے والے الفاظ لکھے ہوئے ہوں تو یہ پردہ نہیں ہے، نہ ایسے برقعوں کا کوئی فائدہ ہے۔
پھر جہاں تک میک اَپ کا سوال ہے اگر میک اَپ کرنا ہے تو پھر جب باہر نکلیں چہرہ کو بھی مکمل طور پر پھر ڈھانکیں۔ پھر یہ صرف ماتھے کا اور ٹھوڑی کا حجاب نہیں۔ پھر پورا نقاب ہونا چاہئے۔ کوٹ گھٹنوں سے نیچے ہونے چاہئیں۔ یہ بھی حیا کا حصہ ہے۔ اگر آپ نے ٹراؤزر(trouser) یا جین(jean) پہننی ہے تو قمیص لمبی ہونی چاہئے۔ بعض لڑکیاں سمجھ لیتی ہیں کہ گھر میں جِین کے اوپر ٹی شرٹ پہن لیا یا چھوٹا بلاؤز پہن لیا تو ایسا کوئی فرق نہیں پڑتا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے لمبا کوٹ پہن لیا۔ جبکہ گھر میں اپنے باپ بھائیوں کے سامنے بھی ایسا لباس پہننا چاہئے جو حیادار ہو، مناسب ہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے اُن سے پردہ نہ کرنے کا کہا ہے لیکن حیا کو بہر حال ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ پھر گھر میں کسی وقت بھی کوئی عزیز رشتے دار بھی بعض دفعہ آ جاتا ہے، اپنے باپ بھائیوں کے سامنے بھی اچانک کوئی آ جاتا ہے تو سامنے ہونا پڑتا ہے اور ایسا لباس پھر اُن کے سامنے مناسب نہیں ہوتا۔ اس لئے گھر میں بھی اپنا لباس جو ہے حیادار رکھنا چاہئے۔ بیشک حجاب کی ضرورت نہیں ہے، سر ننگا پھر سکتی ہیں۔ لیکن تب بھی لباس ایسا ہوناچاہئے جو بہر حال حیادار ہو۔ اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ نے اپنی حیا کی حفاظت کرنی ہے تا کہ ایمان کی حفاظت ہو اور پھر اس دعویٰ کی سچائی بھی ثابت ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مومن کی نشانی بتائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اُس کے احکام پر عمل ہو اور حیادار لباس گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی پہنیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے۔ حیا کے تقاضے پورے کرنے کے بعد آپ کو کوئی نہیں روکتا کہ آپ ڈاکٹر بنیں، یا انجینئر بنیں یا ٹیچر بنیں یا کسی بھی ایسے پیشے میں جائیں جو انسانیت کے لئے فائدہ مند پیشہ ہے۔ آپ اس کے ساتھ بالکل آزاد ہیں۔
پس ہر احمدی بچی کا ایک تقدّس ہے، اُس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ یہ اپنے تقدّس کا خیال اور حیا کا اظہار ہی ہے جو آپ کو نیکیوں کی تلقین کرنے والا اور برائیوں سے روکنے والا بنائے گا۔ آپ کے اپنے نمونے آپ کو دوسروں کے لئے، اپنی سہیلیوں کے لئے توجہ کا باعث بنائیں گے۔ جس سے آپ کے لئے تبلیغ کے راستے کھلیں گے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی 2؍جون 2012ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍اکتوبر 2012ء)
اسی ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی خواتین کومعاشرتی خوف کے نتیجہ میں ایمانی کمزوری کے اظہار اور قرآنی احکامات پر عمل نہ کرنے پر اجر اور ثواب سے محروم رہ جانے والے پہلوؤں کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’ پس ان لوگوں (اس معاشرہ) کی باتوں سے کبھی کوئی نوجوان بچی خوفزدہ نہ ہو۔ نہ ہی کسی قسم کی شرم کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم ایک کامِل کتاب ہے اور اس کا ہر حکم فطرت کے عین مطابق ہے۔ اور اس کا اب تک اصلی حالت میں رہنا اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا ایک ثبوت ہے۔ … لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اس لئے نہیں بجا لارہی کہ لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں، پردے اس لئے اتر رہے ہیں کہ لوگ ہمیں گھورتے ہیں یا تنگ کرتے ہیں تو پھر یہ نہ ہی اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے اور نہ ہی اس کا خوف ہے، نہ اللہ تعالیٰ سے محبت ہے۔ اگر بعض فیشن آپ اس لئے کر رہی ہیں کہ یہاں کا معاشرہ یہ پسند کرتا ہے کہ گھٹنوں سے اونچے اونچے اوٹنگے کوٹ جو ہیں وہ پہن لئے یا تنگ کوٹ پہن لئے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اُس سے بے پردگی ہوتی ہے اور اس سے آپ کے جسموں کی نمائش ہو رہی ہے تو یہ ایمان کی کمزوری ہے اور یہ اللہ تعالیٰ سے محبت میں کمی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے کو ہر نیکی کے بدلے میں دس گُنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب پہنچانا چاہتا ہے۔ اور ہم دنیا کے خوف یا دنیا کی محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکامات نہ بجا لا کر اس ثواب سے محروم ہو رہے ہیں اور اب یہ صورتحال ہے تو پھر دیکھیں یہ کس قدر گھاٹے کا سودا ہے۔ پس اگر جائزہ لیں تو انسان ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کا انکار کرکے ان اجروں سے محروم ہورہا ہے جو خدا تعالیٰ ہمیں دینا چاہتا ہے اور مغربی سوچ کے زیرِاثر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی 15 ؍اگست 2009 ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍مئی2014ء)
خواتین احساسِ کمتری کے بجائے جرأت سے کام لیں
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےاحمدی عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے اُنہیں احساسِ کمتری کو ترک کرتے ہوئے جرأت کے ساتھ پردہ جیسے اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اب یہاں یہ بہانے بنائے جاتے ہیں کہ یورپ میں پردہ کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ ایک طرح کاcomplex ہے اور عورتوں کے ساتھ مَردوں کو بھی ہے۔ تم اپنی تعلیم چھوڑ کر خد اتعالیٰ کو خوش کرنے کی بجائے معاشرے کو خوش کرنے کے بہانے تلاش کر رہے ہو۔ بلکہ اس معاشرے میں بھی سینکڑوں، ہزاروں عورتیں ہیں جو پردہ کرتی ہیں، ان کو زیادہ عزت اور احترام سے دیکھا جاتا ہے بہ نسبت پردہ نہ کرنے والیوں کے۔ اور معاشرتی برائیاں بھی ان میں اور ان کی اولادوں میں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں جو پردہ نہیں کرتیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے۔ بعض دفعہ بہت ہی بھیانک صورت حال سامنے آجاتی ہے۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے19 ؍اکتوبر2003ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍اپریل 2015ء)
اسی ضمن میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خصوصاً پاکستان اور بھارت سے حال ہی میں مغربی ممالک میں آنے والی احمدی مستورات کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ وہ ہر قسم کے احساسِ کمتری سے نجات حاصل کرکے اپنے پردوں کی حفاظت کریں۔ چنانچہ فرمایا:
’’آج کل میں نے دیکھا ہے کہ پاکستان سے جو اسائلم حاصل کرکے یہاں آنے والی، بعض جلسے پر آنے والی عورتیں بھی میں نے دیکھا ہے پتہ نہیں کس احساس کمتری کے تحت ائرپورٹ سے نکلتے ہی نقاب اتار دیتی ہیں اور جو دوپٹے اور سکارف لیتی ہیں وہ بہرحال اس قابل نہیں ہوتے اس سے صحیح طور پر پردہ ہوسکے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہ سر سے ڈھلک رہا ہوتا ہے۔ پھر میک اَپ بھی کیا ہوتا ہے اگر ایک عورت مثلاً ڈاکٹر یا کسی اور پیشے میں ہے اور اپنے پیشے کے لحاظ سے ہروقت نقاب سامنے رکھنا مشکل ہے تو وہ تو ایسا سکارف لے سکتی ہے جس سے چہرے کا زیادہ سے زیادہ پردہ ہوسکے اور اس کے کام میں بھی روک نہ پڑے لیکن ایسی صورت میں پھر بھرپور میک اپ بھی چہرے کا نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن ایک عورت جو خانہ دار خاتون ہے پاکستان سے پردہ کرتی یہاں آئی ہے یہاں آکر نقاب اتار دیں اور میک اپ بھی کریں تو یہ عمل کسی طرح بھی صالح عمل نہیں کہلا سکتا۔ ایسی عورت کے بارے میں یہی سوچا جاسکتا ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے بجائے دنیا کو دین پر مقدم کر رہی ہے۔ ماحول سے متاثر زیادہ ہورہی ہے بلکہ بعض دفعہ شرم آتی ہے یہ دیکھ کر کہ یہاں یورپ کے ماحول میں پلی بچیاں جو ہیں عورتیں جو ہیں وہ ان پاکستان سے آنے والی عورتوں سے زیادہ بہتر پردہ کر رہی ہوتی ہیں۔ ان لوگوں سے جو پاکستان سے یا ہندوستان سے آئی ہیں ان کے لباس اکثر کے بہتر ہوتے ہیں وہاں جو برقع پہن رہی ہوتی ہیں اگر تو وہ مَردوں کے حکم پر اتار رہی ہوتی ہیں تب بھی غلط کرتی ہیں اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کے خلاف مَردوں کے کسی حکم کو ماننے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر یہ عورتیں خود ایسا کر رہی ہیں تو مَردوں کے لئے بھی قابل شرم بات ہے ان کو تو انہیں کہنا چاہئے تھاکہ تمہارا ایک احمدی عورت کا تقدّس ہے اس کی حفاظت کرونہ کہ اس کے پردے اترواؤ۔
پس ہر قسم کے کمپلیکس سے آزاد ہوکر مَردوں اور عورتوں دونوں کو پاک ہوکر یہ عمل کرنا چاہئے اور اپنے پردوں کی حفاظت کریں۔ ایسی عورتیں اور ایسے مَردوں کو اس بات سے ہی نمونہ پکڑنا چاہئے کہ غیر مذاہب سے احمدیت میں داخل ہونے والی عورتیں تو اپنے لباس کو حیادار بنارہی ہیں۔ جن کے لباس اترے ہوئے ہیں وہ اپنے ڈھکے ہوئے لباس پہن رہی ہیں اور احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور آپ اس حیادار لباس کو اتار کر ہلکے لباس کی طرف آرہی ہیں۔ جو آہستہ آہستہ بالکل بے پردہ کردے گا۔ بجائے اس کے دین کے علم کے آنے کے ساتھ ساتھ روحانیت میں ترقی ہو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پہلے سے بڑھ کر پابندی ہواس سے دور ہٹناسوائے اس کے دوبارہ جہالت کے گڑھے میں گرادے اور کچھ نہیں ہوگا۔ پھر ایک حکم کے بعد دوسرے حکم پر عمل کرنے میں سستی پیدا ہوگی پھر نسلوں میں دین سے دوری پیدا ہوگی جیسا کہ پہلے ہی میں بتا آیا ہوں اور پھر اس طرح آہستہ آہستہ نسلیں بالکل دین سے دور ہٹ جاتی ہیں اور برباد ہورہی ہوتی ہیں۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے29؍جولائی2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍جون 2015ء)
اسی حوالہ سے ایک اور موقع پر احمدی خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’یہ جو پردہ چھوڑنے والی ہیں ان میں ایک طرح کا احساسِ کمتری ہے۔ احمدی عورت کو تو ہر طرح کے احساسِ کمتری سے پاک ہونا چاہئے۔ کسی قسم کا complex نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی پوچھتا بھی ہے تو کھُل کر کہیں کہ ہمارے لئے پردہ اور حیا کا اظہار ایک بنیادی شرعی حکم ہے۔ اور مَیں نے دیکھا ہے کہ جن عورتوں کو کوئی complexنہیں ہوتا، جو پردہ کرنے والی عورتیں ہیں اس مغربی ماحول میں بھی اسی پردے کی وجہ سے اُن کا نیک اثر پڑ رہا ہوتا ہے، اُن کو اچھا سمجھا جارہا ہوتا ہے۔ اس لئے یہ احساسِ کمتری اپنے دل سے نکال دیں کہ پردے کی وجہ سے کوئی آپ پر اُنگلی اُٹھا رہا ہے۔ اپنی ایک پہچان رکھیں۔ افریقہ میں مَیں نے دیکھا ہے جہاں لباس نہیں تھا اُنہوں نے لباس پہنا اور پورا ڈھکا ہوا لباس پہنا اور بعض پردہ کرنے والی بھی ہیں، نقاب کا پردہ بھی بعضوں نے شروع کردیا ہے۔ یہاں بھی ہماری ایفرو امریکن بہنیں جو بہت ساری امریکہ سے آئی ہوئی ہیں اُن میں سے بعض کا ایسا اعلیٰ پردہ تھا کہ قابل تقلید تھا، ایک نمونہ تھا بلکہ کل ملاقات میں مَیں نے اُن کو کہا بھی کہ لگتا ہے کہ اب تم لوگ جو ہو تم پاکستانیوں کے لئے پردے کی مثالیں قائم کروگے یا جو انڈیا سے آنے والے ہیں اُن کے لئے پردے کی مثالیں قائم کروگے۔ اس پر جس طرح انہوں نے ہنس کر جواب دیا تھا کہ یقیناً ایسا ہی ہوگا تو اس پر مجھے اور فکر پیدا ہوئی کہ پُرانے احمدیوں کے بے پردگی کے جو یہ نمونے ہیں یقیناً نئی آنے والیاں وہ دیکھ رہی ہیں جبھی تو یہ جواب تھا۔ … اور یہ بھی بتا دوں کہ بچیاں اس وقت تک پردے نہیں کریں گی جب تک آپ اپنے نمونے اُن کے سامنے قائم نہیں کریں گی، مائیں ان کے سامنے اپنے نمونے قائم نہیں کریں گی۔ پس اگر آپ نے جماعت کا بہترین مال بننا ہے خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے خود بھی اور اپنی اولادوں کو بھی اُس کی پناہ میں لانا ہے، اُس کو اپنا ولی اور دوست بنانا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھناہے، اپنے بچوں اور بچیوں کو اس معاشرے کے گند سے بچانا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بھی تعمیل کرنی ہوگی اس پر بھی عمل کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے اور آپ لوگ ہر معاملے میں وہ نمونے قائم کرنے والی بن جائیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 25 ؍جون 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍ مارچ 2007ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حیا کے احساس کو قائم رکھنے کے اہم پہلو پرروشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’عورتوں کے لئے بھی مَیں ایک مثال دوں گا۔ پردہ اور حیا کی حالت ہے۔ اگر ایک دفعہ یہ ختم ہو جائے تو پھر بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے۔ آسٹریلیا میں مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض بڑی عمر کی عورتوں نے جو پاکستان سے وہاں آسٹریلیا میں اپنے بچوں کے پاس نئی نئی گئی تھیں، اپنی بچیوں کو یہ دیکھ کر کہ پردہ نہیں کرتیں اُنہیں پردے کا کہا کہ کم از کم حیا دار لباس پہنو، سکارف لو تواُن کی لڑکیوں میں سے بعض جوایسی ہیں کہ پردہ نہ کرنے والی ہیں، انہوں نے یہ کہا کہ یہاں پردہ کرنا بہت بڑا جرم ہے اور آپ بھی چھوڑ دیں تو مجبوراً ان عورتوں نے بھی جو پردہ کا کہنے والی تھیں، جن کو ساری عمر پردے کی عادت تھی اس خوف کی وجہ سے کہ جرم ہے، خود بھی پردہ چھوڑ دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کوئی ایسا قانون نہیں ہے، نہ جرم ہے۔ کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس طرف توجہ دیتا ہے۔ صرف فیشن کی خاطر چند نوجوان عورتوں اور بچیوں نے پردے چھوڑ دئیے ہیں۔ پاکستان سے شادی ہو کروہاں آنے والی ایک بچی نے مجھے لکھا کہ مجھے بھی زبردستی پردہ چھڑوا دیا گیا تھا۔ یا ماحول کی وجہ سے مَیں بھی کچھ اس دام میں آ گئی اور پردہ چھوڑ دیا۔ اب مَیں جب وہاں دورے پر گیا ہوں تو اُس نے لکھا کہ آپ نے جلسہ میں جو تقریر عورتوں میں کی اور پردے کے بارے میں کہا تو اُس وقت مَیں نے برقع پہنا ہوا تھا، تو اُس وقت سے مَیں نے برقع پہنے رکھا ہے اور اب مَیں اُس پر قائم ہوں اور کوشش بھی کر رہی ہوں اور دعا بھی کر رہی ہوں کہ اس پر قائم رہوں۔ اُس نے دعا کے لئے بھی لکھا۔ تو پردے اس لئے چُھٹ رہے ہیں کہ اس حکم کی جو قرآنی حکم ہے، بار بار ذہن میں جگالی نہیں کی جاتی۔ نہ ہی گھروں میں اس کے ذکر ہوتے ہیں۔ پس عملی اصلاح کے لئے بار بار برائی کا ذکر ہونا اور نیکی کا ذکر ہونا ضروری ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍ دسمبر 2013 ءمسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جنوری 2014ء)
اپنے خطابات اور خطبات کے علاوہ اپنے پیغامات میں بھی حضورانور ایدہ اللہ نے پردے کی روح کو قائم کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کوحاصل کرنے کی جانب خواتین کو توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر تحریر فرمایا:
’’اگر کوئی عورت پردے کی پرواہ نہیں کرتی اور یورپ کی نقالی میں ان سے مشابہت والا لباس پہن کر اور ان جیسا فیشن اختیار کر کے خود کو روشن خیال اور ترقی پسند ظاہر کرتی ہے تو یہ غلط سوچ ہے۔ یاد رکھیں اسلام آپ کی خیر خواہی اور تحفظ کا حقیقی ضامن ہے۔ اس نے پردہ کی تعلیم عورتوں کو کسی مشکل میں ڈالنے یا احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لئے نہیں دی۔ وہ اس کے ذریعہ عورت کی عفّت اور عزت قائم کرنا چاہتا ہے۔ پس اسے اپنے لئے بوجھ نہ سمجھیں۔ یہ نہ سوچیں کہ اس سے لوگ آپ کو جاہل سمجھیں گے۔ آپ نے اللہ کو خوش کرنا ہے۔ دنیا کے فیشن کو نہ دیکھیں اور پردے کا اس کی شرائط کے مطابق خیال رکھیں۔ ‘‘(پیغام برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 2017 ء۔ مطبوعہ سالانہ رپورٹ 2016-2017ء لجنہ اماء اللہ جرمنی)
ہدایت پر قائم رہنے کے لئے دعا کی تلقین
ہر قسم کے شیطانی اثرات سے بچنے اور نیکی کی راہ پر قائم رہتے ہوئے زندگی گزارنے کے لئے دعا بہت اہمیت رکھتی ہے۔ چنانچہ احمدی خواتین سے ایک موقع پر خطاب فرماتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ نے دعا کی مدد سے خداتعالیٰ کے احکامات کی پابندی اختیار کرنے کا مضمون بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ دعاؤں کو بھی سنتا ہے اور دلوں کا حال بھی جانتا ہے۔ اس لئے نیک نیتی کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور ہر احمدی کو، عورت مرد کو یہ حکم ہے کہ دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے تو اس پر قائم بھی رکھے اور شیطانی خیالات کو اللہ تعالیٰ مجھ پر حاوی نہ ہونے دے۔ اگر یہ سب کچھ ہو گا تو دنیا کی جو لذات ہیں، دنیا کے فیشن ہیں یا یہ احساسِ کمتری کہ اگر ہم دنیا کے مطابق نہ چلے تو ہمیں دنیا کیا کہے گی، یہ سب چیزیں بے حیثیت ہو جائیں گی۔ دین اور جماعت مقدّم ہو جائے گی۔ ایک احمدی لڑکی اپنی حیا کی حفاظت کرنے والی ہو جائے گی۔ اُس کو یہ خیال نہیں آئیں گے کہ کیا حرج ہے اگر میری تصویر رسالوں میں چھپ جائے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا جو پردہ کا حکم ہے اُسے اس بات سے روکے رکھے گا کہ یہ حرکت نہیں کرنی۔ یہ خیال پیدا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے اور یہ حکم بھی پردہ کااور اپنی حیا کا قرآنِ کریم کے حکموں میں سے ایک حکم ہے۔ اس لئے میں نے بہرحال اپنی حیا اور اپنے پردہ کی حفاظت کرنی ہے۔ تمام اُن باتوں پر عمل کرنا ہے یا کرنے کی کوشش کرنی ہے جن کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اُن راستوں پر چلنے کی دعا مانگنی ہے جو اُس کی پسند کے راستے ہوں۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے ملنے والے ہر حکم کی تعمیل کر کے اپنے عہد کو پورا کرنا ہے کہ جو بھی معروف فیصلہ وہ کریں گے اُس کی پابندی ضروری سمجھوں گا اور یہ پابندی قرآنِ کریم میں ہے۔ جب اس سوچ کے ساتھ ہر عورت زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے گی، ہر مرد زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر یہ کڑا جس پر اُس نے ہاتھ ڈالا ہے اُسے شیطانی اور دنیاوی خیالات سے بچانے کی ضمانت بن جائے گا۔ اس کی وضاحت بھی جو پہلے میں نے آیت تلاوت کی اُن میں سے اگلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمادی ہے کہ: اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا(البقرۃ:258)کہ اللہ تعالیٰ اُن کا دوست ہے جو ایمان لائے۔ پس اس بات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ جس کا دوست ہو جائے، شیطان وہاں آ سکے۔ ‘‘(خطاب ازمستورات جلسہ سالانہ یوکے 8 ؍ستمبر 2012 ءبمقام حدیقۃ المہدی۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 30؍نومبر 2012ء)
نئی احمدی خواتین نمونے قائم کریں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر جماعت احمدیہ میں نئی شامل ہونے والی خواتین کو خاص طور پر مخاطب کرتےہوئے اُنہیں دوسروں کے لئے نیک نمونے پیش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ نئی آنے والی احمدی بہنوں سے میں کہتا ہوں کہ آپ نے احمدیت اور اسلام کی تعلیم کو سمجھ کر قبول کیا ہے۔ آپ یہ نہ دیکھیں کہ آپ کے خاوند کیسے احمدی ہیں یا دوسری خواتین کیسی احمدی ہیں۔ آپ اپنے نمونے بنائیں۔ اسلامی تعلیمات کی خالص مثال قائم کریں۔ اپنے خاوندوں کو بھی دین پر عمل کرنے والا بنائیں۔ اپنے بچوں کو بھی اسلام کی تعلیم کے مطابق تربیت دیں اور دوسری پرانی پیدائشی احمدی بہنوں کو بھی، اپنے نمونے قائم کرکے ان کے لئے بھی تربیت کے نمونے قائم کریں۔ ان کے لئے بھی آپ مثال بنیں۔ بعض دفعہ بعد میں آنے والی نیکی اور تقویٰ میں پہلوں سے آگے نکل جاتی ہیں۔ افریقہ میں بھی میں نے دیکھا ہے پردہ کی پابندی اور اسلامی تعلیم پر عمل کرنے والی کئی خواتین ہیں جو مثال بن سکتی ہیں۔ امریکہ میں بھی وہاں کی مقامی کئی ایسی خواتین ہیں جو احمدی ہوئیں اور مثال بن گئیں۔ جرمنی میں بھی کئی خواتین ایسی ہیں جنہوں نے بیعت کی اور مثال بن گئیں۔ یہاں آپ کے ملکوں میں بھی ایسی خواتین ہیں۔ ان ملکوں میں بھی کئیوں کی پردے کی بڑی اچھی مثالیں ہیں اور دوسرے احکامات پر عمل کرنے کی بھی مثالیں ہیں۔ تو نئی بیعت کرنے والیاں ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر کسی پاکستانی عورت میں کوئی برائی دیکھیں تو ٹھوکر نہ کھائیں۔ چند اگر بُری ہیں توبہت بڑی اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی بھی ہیں۔ پھر آپ نے کسی مرد یا عورت کی بیعت نہیں کی بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کو مانا ہے۔ اپنے نمونے قائم کرکے جیسا کہ میں نے کہا پرانی احمدیوں کے لئے بھی تربیت کے سامان پیدا کریں۔ اس سے آپ کو دوہرا ثواب ہوگا آپ دوہرے ثواب کما رہی ہوں گی۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ سویڈن 17 ؍ستمبر 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی2015ء)
تعلیمی اداروں میں پردہ کا معیار قائم رکھیں
دورۂ جرمنی کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی طالبات کے ساتھ ایک نشست میں اُن کے سوالات کے جواب بھی عطا فرمائے۔ ایک طالبہ نے سوال کیا کہ بعض اوقات انگلینڈ وغیرہ سیر کے لئے جانے کا پروگرام بنتاہے۔ اگر ہم اپنی بچیوں کو نہ بھیجیں توکہا جاتا ہے کہ پھر اسکول بدل لیں۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ حضور انور نے فرمایا کہ :
’’اگر اضطراری حالت ہے تو اُنہیں کہیں کہ بچیوں کے ساتھ parents کوبھی جانے دیں۔ وہ نہ مانیں تواسکول بدل لیں۔ فرمایا : اصل میں بچیوں کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ اُنہیں خود کہیں کہ ہم ماں باپ کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارا اپنا ماحول ایساہے کہ ہم اس طرح جانا اچھا نہیں سمجھتیں۔ جب بچی جوان ہوجاتی ہے تو پھر اس کا خیال رکھنا ماحول کاکام ہے۔ اسلام کا توحج کے بارہ میں بھی یہ حکم ہے کہ عورت اکیلی نہ جائے بلکہ اپنے محرم کو ساتھ لے کرجائے۔ …عموماً پرائیویٹ اسکول زیادہ زور نہیں دیتے لیکن وہ مہنگے ہوتے ہیں۔ بہرحال بچیوں کو realise کرائیں کہ فلاں فلاں باتیں برائیاں ہیں اور ان سے آپ نے بچناہے۔ ‘‘(کلاس طالبات جرمنی 10؍جون 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍جولائی2006ء)
اسی طرح لڑکیوں کے دوسرے شہروں میں جاکر تعلیم حاصل کرنے کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر ماں باپ اجازت دیں تو پھر سوچا جاسکتا ہے کہ جہاں جانا ہے وہاں کس کے پاس رہنا ہے۔ لڑکیوں کا علیحدہ ہوسٹل ہونا چاہئے۔ اگر علیحدہ ہے تو ٹھیک ہے۔ پھر وہاں پڑھتے ہوئے اپنے تقدّس کا، پاکیزگی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ ربوہ کی لڑکیاں جب باہر پڑھنے جاتی تھیں تو ہرلڑکی نظارت تعلیم کے ذریعہ مجھ سے اجازت لیتی تھی۔ co-education کی صورت میں بھی مجھ سے اجازت حاصل کرتی ہیں۔ پھر لکھ کر دیتی ہیں کہ پردے میں رہ کر پڑھائی کریں گی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بچیوں سے فرمایا کہ ’’ اگر والدین کو تسلّی نہیں ہے تو پھر بہتر ہے کہ اپنے علاقہ میں رہو اور یہیں پڑھائی کرو۔ ‘‘(کلاس واقفات ِنو جرمنی 8اکتوبر 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍جنوری 2012ء)
ایک دوسری مجلس میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں یہ سوال پیش کیا گیا کہ کیا اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی اور ملک میں جا کر تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے؟ اس کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
’’ اگر آپ higher ایجوکیشن کے لئے باہر جانا چاہتی ہیں اور اپنے ملک میں اس کا انتظام نہیں ہے تو والدین کی اجازت لے کر جائیں۔ لیکن اپنے تقدّس اور حرمت کا بھی خیال رکھناچاہئے۔ اپنی پاکیزگی کا بھی خیا ل رکھنا چاہئے اور پھر وہاں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔ اسی طرح وہاں آپ نے دوستیاں بنانے سے پرہیز کرناہے اور اپنی پڑھائی سے تعلق رکھناہے۔ ‘‘(کلاس طالبات جرمنی 10؍جون 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍جولائی2006ء)
سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورۂ کینیڈا کے دوران منعقد ہونے والی ایک نشست میں طالبات نے حضور انور ایدہ اللہ کی اجازت سے سوالات دریافت کئے۔ ایک طالبہ نے سوال کیا کہ ہم اپنے غیرمذہب والے دوستوں کو کس طرح سمجھائیں کہ پردہ کیوں ضروری ہے؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’ ایک تو یہ بتاؤ کہ ہم نے ایک عہد کیا ہے کہ ہم اس دین پر عمل کرنے والے ہیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم دیا ہے کہ تم پردہ کرو تاکہ تمہاری جو ایک sanctity ہے وہ قائم رہے اور تمہیں یہ احساس رہے کہ مَیں نے سوسائٹی میں لڑکوں میں زیادہ mixup نہیں ہونا اور اپنے درمیان اور لڑکوں کے درمیان ایک barrier رکھنا ہے‘‘۔
حضور انور ایدہ اللہ نے مزید فرمایا کہ : یونیورسٹی میں لڑکے اور لڑکیاں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اس میں بعض دفعہ interaction ہو جاتا ہے، لیکن اس میں صرف جہاں تک تمہاری پڑھائی کا تعلق ہے کوئی بات سمجھنی ہے، کرنی ہے صرف اس حد تک ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ کوئی free relationship قائم نہیں ہونا چاہئے۔ دوستی نہیں ہونی چاہئے۔ لڑکیاں دوستی صرف لڑکیوں کے ساتھ کریں ‘‘۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پردہ کے احکامات کے حوالہ سے فرمایا کہ :
’’پردہ کے جو احکامات ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بارہ میں جو ارشادات ہیں۔ اس کی background ہے۔ پرانے زمانے میں جب پردہ اتنا زیادہ نہیں تھا تو اس وقت ایک مسلمان عورت کسی یہودی کی دکان پر کام کروانے گئی۔ اس وقت باقاعدہ ایسے لباس نہیں ہوتے تھے کہ undergarments بھی پہنے ہوں۔ اس یہودی نے شرارت سے اس کا کپڑا باندھ دیا تو جب وہ کھڑی ہوئی تو وہ کپڑا اتر گیا۔ اس کے بعد وہاں لڑائی شروع ہوگئی۔ بلکہ قتل بھی ہوگیا۔ تو پھر پردے کے بارہ میں حکم ہوا کہ مسلمان عورت اپنی sanctity اور chastity کی حفاظت کرے پس سب سے بہتر یہ ہے کہ تمہارے اور دوسرے لڑکوں کے درمیان ایک فاصلہ ہونا چاہئے۔
دوسرے قرآن کریم میں جہاں حکم آیا ہے کہ پردہ کرو، وہاں پہلے مَردوں کو حکم ہے کہ تم اپنی نظریں نیچی رکھو اور عورتوں کو گھور گھور کر نہ دیکھا کرو۔ اس کے بعد عورتوں کو حکم آیا کہ تم بھی اپنی نظریں نیچی رکھو اور نہ دیکھو لیکن مَردوں کا پھر بھی اعتبار نہیں اس لئے اپنے آپ کو ڈھانپ کر رکھو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اگر تم مجھے یہ گارنٹی دلوادو کہ مرد جو ہیں اُن کے دماغ اور ذہن بالکل پاک ہوگئے ہیں تو مَیں کہوں گا کہ اتنی سختی پردے میں نہ کرو۔ لیکن نہیں ہوا۔ گو ہر مرد ایسا نہیں ہوتا لیکن بہت سے لوگ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ جب سوسائٹی میں majority یا ایک خاص تعداد ایسی ہو جس سے نقص پیدا ہوتے ہوں تو بہتر ہے کہ اس سے بچنے کے سامان کئے جائیں تو اس لئے پردہ ہونا ضروری ہے تاکہ آزادانہ تعلقات قائم نہ ہوں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا :
’’ہر مذہب میں پردے کا کہا گیا ہے۔ پرانے زمانے میں عیسائیوں میں جو اچھے خاندان تھے ان میں پردے ہوتے تھے۔ ان کے پرانے لباس دیکھ لو، لمبی maxi ہوتی تھیں اور بازو کلائیوں تک ہوتے تھے اور سر کے اوپر سکارف ہوتا تھا۔ بائبل میں تو یہ ہے کہ کسی عورت کا سر نظر آجائے تو اس کے بال ہی کاٹ دو، منڈوا دو، اس طرح کی سختیاں ہیں جبکہ اسلام نے تو اس طرح کی سختیاں نہیں کیں۔ لیکن اسلام نے عورت کی حیا کو بہرحال قائم رکھا ہوا ہے اور حیا کا تصور ہرجگہ ہے اور ہر قوم میں ہے‘‘۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’قرآن کریم میں تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ قصہ پڑھتی ہو کہ جب مدین میں دو لڑکیاں اپنے جانوروں کو پانی پلانا چاہتی تھیں۔ وہاں مرد پانی پلارہے تھے تو وہ پیچھے ہٹ گئیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ direct interaction مَردوں کے ساتھ ہو۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ کیا قصہ ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس طرح ہے۔ انہوں نے ساری بات بیان کی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے جانوروں کو پانی پلایا۔ اس کے بعد قرآن کریم یہ ذکر کرتا ہے کہ جب وہ چلی گئیں تو پھر اُن میں سے ایک واپس آئی اور بڑی حیا سے اپنے آپ کو سنبھالتی ہوئی آئی، کھلی open ہو کے نہیں آگئی تھی کہ میرا باپ تمہیں بلاتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ سارا قصہ لکھا ہوا ہے تم اسے پڑھو۔ چنانچہ حضرت موسیٰ جب گئے تو باپ بھی بڑا ہوشیار تھا۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ میری جوان بچیاں بھی گھر میں ہیں تو مَیں ایک لڑکا گھر میں رکھ لوں کیونکہ یہاں پھر عورت کی sanctity کا سوال آجاتا ہے۔ اس لئے اس نے کہا کہ تمہیں گھر میں رکھ تو لیتا ہوں اور تمہارے پاس گھر میں رہنے کی جگہ بھی نہیں ہے۔ اس لئے تم میری دو بیٹیوں میں سے ایک بیٹی سے شادی کرلو تاکہ تمہارے رہنے کا کوئی جواز بن جائے۔
پس اصل چیز یہ ہے کہ پردے میں عورت کی حفاظت کی گئی ہے اور اس کے لئے مرد کو بھی روکا گیا ہے لیکن پھر بھی مرد کی بے اعتباری کی وجہ سے عورت کوکہا گیا ہے کہ تم اپنے آپ کو زیادہ سنبھالو۔ ‘‘(کلاس طالبات کینیڈا 14؍جولائی 2012ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍ اکتوبر 2012ء)
ملازمت کی راہ میں پردہ روک نہیں ہے
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورۂ ہالینڈ کے دوران طالبات کے ساتھ ایک نشست ہوئی جس میں بچیوں نے حضور انور سے بعض سوالات بھی کئے۔ ایک طالبہ نے سوال کیاکہ عورت کو اپنا کیرئیر بنانے کی کس حد تک اجازت ہے؟
اس پرحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: ہروہ کیرئیر بنانے کی اجازت ہے جس میں عورت کی حیاپر حرف نہ آئے۔ اَلْحَیَآءُ مِنَ الْاِیْمَانِ۔ ہمیشہ مدّنظر رہنا چاہئے۔
حضور انور نے فرمایاکہ اگر KLMمیں ائر ہوسٹس بننا ہے، اسکرٹ پہنتی ہے اور سر پر چھوٹی سی ٹوپی رکھنی ہے تواس کی تواسلام اجازت نہیں دیتا اور نہ کسی احمدی بچی کواس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ آپ ڈاکٹر، ٹیچر، انجینئر، سائنٹسٹ، پروفیسر، وکیل وغیرہ تو بن سکتی ہیں بشرطیکہ آپ کالباس ٹھیک ہواورآپ کا حجاب نہیں اتر نا چاہئے۔ آپ کالباس حیا والاہوتوٹھیک ہے۔ وکالت کے حوالہ سے حضورانور نے فرمایاکہ جوکریمینل کیسز ہیں ان میں نہیں جانا۔ (کلاس طالبات ہالینڈ 16؍مئی 2012ء بمقام بیت النور، نن سپیٹ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15 ؍جون 2012ء)
حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں لڑکیوں کے ملازمت کرنے اور پردے کے حوالے سے رہنمائی کرتے ہوئے تفصیلاً فرمایا:
’’ ایک بچی نے پچھلے دنوں مجھے خط لکھا کہ میں بہت پڑھ لکھ گئی ہوں اور مجھے بینک میں اچھا کام ملنے کی امید ہے۔ مَیں پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر وہاں حجاب لینے اور پردہ کرنے پر پابندی ہو، کوٹ بھی نہ پہن سکتی ہوں تو کیا مَیں یہ کام کر سکتی ہوں ؟ کام سے باہر نکلوں گی تو حجاب لے لوں گی۔ کہتی ہے کہ مَیں نے سنا تھا کہ آپ نے کہا تھا کہ کام والی لڑکیاں اپنے کام کی جگہ پر اپنا برقع، حجاب اتار کر کام کر سکتی ہیں۔ اس بچی میں کم از کم اتنی سعادت ہے کہ اس نے پھر ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ آپ منع کریں گے تو کام نہیں کروں گی۔ یہ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ یہ ایک نہیں کئی لڑکیوں کے سوال ہیں، تو پہلی بات یہ ہے کہ مَیں نے اگر کہا تھا تو ڈاکٹرز کو بعض حالات میں مجبوری ہوتی ہے۔ وہاں روایتی برقع یا حجاب پہن کر کام نہیں ہو سکتا۔ مثلاً آپریشن کرتے ہوئے۔ ان کا لباس وہاں ایسا ہوتا ہے کہ سر پر بھی ٹوپی ہوتی ہے، ماسک بھی ہوتا ہے، ڈھیلا ڈھالا لباس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تو ڈاکٹر بھی پردے میں کام کر سکتی ہیں۔ ربوہ میں ہماری ڈاکٹرز تھیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ کو ہمیشہ ہم نے پردہ میں دیکھا ہے۔ ڈاکٹر نصرت جہاں تھیں بڑا پکّا پردہ کرتی تھیں۔ یہاں سے بھی انہوں نے تعلیم حاصل کی اور ہر سال اپنی قابلیت کو نئی ریسرچ کے مطابق ڈھالنے کے لئے، اس کے مطابق کرنے کے لئے یہاں لندن بھی آتی تھیں لیکن ہمیشہ پردہ میں رہیں بلکہ وہ پردہ کی ضرورت سے زیادہ پابند تھیں۔ ان پر یہاں کے کسی شخص نے اعتراض کیا، نہ کام پر اعتراض ہوا، نہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت میں اس سے کوئی اثر پڑا۔ آپریشن بھی انہوں نے بہت بڑے بڑے کئے تو اگرنیت ہو تو دین کی تعلیم پر چلنے کے راستے نکل آتے ہیں۔ اسی طرح مَیں نے ریسرچ کرنے والیوں کو کہا تھا کہ کوئی بچی اگر اتنی لائق ہے کہ ریسرچ کر رہی ہے اور وہاں لیبارٹری میں ان کا خاص لباس پہننا پڑتا ہے تو وہ وہاں اس ماحول کا لباس پہن سکتی ہیں بیشک حجاب نہ لیں۔ وہاں بھی انہوں نے ٹوپی وغیرہ پہنی ہوتی ہے لیکن باہر نکلتے ہی وہ پردہ ہونا چاہئے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے۔
بینک کی نوکری کوئی ایسی نوکری نہیں ہے کہ جس سے انسانیت کی خدمت ہورہی ہو۔ اس لئے عام نوکریوں کے لئے حجاب اتارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جبکہ نوکری بھی ایسی جس میں لڑکی روزمرّہ کے لباس اور میک اَپ میں ہو، کوئی خاص لباس وہاں نہیں پہنا جانا۔
پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حیا کے لئے حیادار لباس ضروری ہے اور پردہ کا اس وقت رائج طریق حیادار لباس کا ہی ایک حصہ ہے۔ اگر پردہ میں نرمی کریں گے تو پھر اپنے حیا دار لباس میں بھی کئی عذر کر کے تبدیلیاں پیدا کر لیں گی اور پھر اس معاشرے میں رنگین ہو جائیں گی جہاں پہلے ہی بے حیائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا تو پہلے ہی اس بات کے پیچھے پڑی ہوئی ہے کہ کس طرح وہ لوگ جو اپنے مذہب کی تعلیمات پر چلنے والے ہیں اور خاص طور پر مسلمان ہیں انہیں کس طرح مذہب سے دُور کیا جائے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ؍جنوری2017 بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 ؍فروری 2017ء)
ایک لجنہ ممبرکے سوال پرکہ آیا عورتیں بھی پولیس کی نوکری کرسکتی ہیں ؟ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا:
’’میرے نزدیک کچھ ایسے پروفیشن ہیں جو ایک مذہبی خاتون کو جو پردہ، حجاب پہنتی ہو، اس کو نہیں اختیار کرنے چاہئیں۔ کیونکہ وہاں آپ کو پولیس کی وردی پہننی پڑے گی اور پولیس کی وردی میں حجاب نہیں پہنا جاسکتا ہے۔ بلکہ آپ کو ٹراؤزر اور ٹی شرٹس اور جیکٹ پہننی پڑتی ہیں۔ بعض دفعہ صرف پی کیپ کا استعمال کرتے ہیں۔ سو احمدی خواتین کو پولیس سروس میں نہیں جانا چاہئے۔ اس کو مَردوں کے لئے ہی رہنے دینا چاہئے۔ میرے نزدیک کئی اور پروفیشن ہیں جو ایک احمدی خاتون اختیار کرسکتی ہے۔ ‘‘
اسی لجنہ ممبرکے ایک سوال پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ آپ سوشل ورکر بن سکتی ہیں۔ کیونکہ اس میں آپ محروم اور ضرورتمند لوگوں کی خدمت کرتی ہیں۔ آپ ہیومینیٹی فرسٹ میں شامل ہوسکتی ہیں۔ ہمیں ایسی لڑکیوں کی ضرورت ہے جو افریقہ کے کچھ علاقوں میں بسنے والے غرباء کی مدد کریں۔ ‘‘(کلاس طالبات جرمنی 2؍جون 2012ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍ اگست 2012ء)
ایک لڑکی نے سوال کیا کہ اگر یہاں قانون نکل آئے کہ عورتیں صرف بغیر پردے کے ہی کام کرسکتی ہیں تو اس سلسلہ میں بھی حضور کچھ ارشاد فرمائیں۔ حضورانورنے فرمایا : ’’ اوّل تو دعا کریں۔ انشاء اللہ ایسا قانون نہیں نکلے گا اور اگر نکل آیا تودین پہلے اور دنیا بعد میں۔ ‘‘(کلاس طالبات جرمنی10؍جون2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍جولائی 2006ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک طرف احمدی خواتین میں اسلامی پردہ کی ترویج کے لئے سعی فرمائی اور دوسری طرف غیرمسلموں کی طرف سے پردہ پر ہونے والے حملوں کا بھی کامیاب دفاع فرمایا۔ چنانچہ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور نے اِس حوالہ سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اس کے ساتھ ہی مَیں ان احمدی لڑکیوں کو بھی کہتا ہوں جو کسی قسم کے complexمیں مبتلا ہیں کہ اگر دنیا کی باتوں سے گھبرا کر یا فیشن کی رَو میں بہہ کر انہوں نے اپنے حجاب اور پردے اتار دئیے تو پھر آپ کی عزتوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہو گی۔ آپ کی عزت دین کی عزت کے ساتھ ہے۔
میں پہلے بھی ایک مرتبہ ایک واقعہ کا ذکر کر چکا ہوں۔ اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ ایک احمدی بچی کو اس کے باس(boss)نے نوٹس دیا کہ اگر تم حجاب لے کر دفتر آئی تو تمہیں کام سے فارغ کر دیا جائے گا اور ایک مہینہ کا نوٹس ہے۔ اس بچی نے دعا کی کہ اے اللہ! میں تو تیرے حکم کے مطابق یہ کام کر رہی ہوں اور تیرے دین پر عمل کرتے ہوئے یہ پردہ کر رہی ہوں۔ کوئی صورت نکال۔ اور اگر ملازمت میرے لئے اچھی نہیں تو ٹھیک ہے پھر کوئی اور بہتر انتظام کر دے۔ تو بہرحال ایک مہینہ تک وہ افسر اس بچی کو تنگ کرتا رہا کہ بس اتنے دن رہ گئے ہیں اس کے بعد تمہیں فارغ کر دیا جائے گا اور یہ بچی دعا کرتی رہی۔ آخر ایک ماہ کے بعد یہ بچی تو اپنے کام پر قائم رہی لیکن اس افسر کو اس کے بالا افسر نے اس کی کسی غلطی کی وجہ سے فارغ کر دیا یا دوسری جگہ بھجوا دیا اور اس طرح اس کی جان چھوٹی۔ اگر نیت نیک ہو تو اللہ تعالیٰ اسباب پیدا فرما دیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو خداتعالیٰ ایسے طریق سے مدد فرماتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کے الفاظ دل سے نکلتے ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ اپریل2010ءبمقام سوئٹزر لینڈ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14؍مئی 2010ء)
پردہ تبلیغ کے لئے عملی نمونہ
تبلیغ کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی بچیوں کو اپنے عملی نمونے پیش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ :
’’تبلیغ کے لئے راستے آپ کو تلاش کرنے پڑیں گے۔ تبلیغ کے لئے خود مواقع پیدا کرو۔ اگر آپ پڑھائی میں ہوشیار ہیں۔ آپ کا حلیہ، رویہ، کردار اچھا ہے۔ سکارف ٹھیک ہے اور پردہ ہے۔ دوستیاں بڑھانے کی طرف توجہ نہیں ہے تو دوسری لڑکیاں آپ کی طرف متوجہ ہوں گی اور پوچھیں گی کہ کون ہو؟ تو تم بتاؤ کہ مَیں احمدی ہوں۔ پھر بتاؤ کہ امام مہدیؑ کو مانا ہے۔ اس طرح بات آگے بڑھے گی اور تبلیغ کا راستہ کھلے گا۔ ‘‘(کلاس واقفاتِ نو8؍ اکتوبر 2011 ء بمقام مسجد بیت الرشید، جرمنی۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍جنوری2012ء)
اپنے دورۂ جرمنی کے دوران نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تبلیغی سرگرمیوں کے حوالہ سے جو نصائح فرمائیں ان میں سے بعض پردہ سے متعلق تھیں۔ رپورٹ کے مطابق:
’’حضور انور نے تبلیغی نشستوں کے انعقاد کے حوالہ سے فرمایا کہ ضرور منعقد کریں اور بہتر تو یہ ہے کہ ایسی مجالس منعقد ہوں جن میں مرد مَردوں کو بلائیں اور عورتیں عورتوں کو۔ اگر کسی جگہ کوئی لجنہ اپنے ساتھ مہمان لائی ہوں اور مَردوں والے حصہ میں بیٹھنا ناگزیر ہو تو صرف وہی مہمان لانے والی خاتون ہی بیٹھ سکتی ہے باقی عورتیں نہیں اور مہمان لانے والی خواتین بھی کھانا مَردوں کے ساتھ بہرحال نہیں کھائیں گی۔ خواتین پردے میں رہیں۔ حضور نے اس ضمن میں ہالینڈ کی ملکہ کے مسجدمبارک، ہیگ ہالینڈکا دورہ کرنے کاذکر فرمایا جنہوں نے گذشتہ دنوں جب جماعت کی مسجد کا دورہ کیا تواسلامی روایات کا لحاظ رکھا۔ فرمایا آپ اپنی روایات پر قائم رہیں اور پردے کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہ کیا کریں۔ حضور انور نے فرمایا کہ اس موقعہ پر انہیں ایک ایڈریس پیش کرنا تھا اس کے لیے میں نے خصوصی اجازت دی تھی کہ بے شک کوئی لجنہ یہ پیش کر دے لیکن اس میں بھی انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ یہ اجازت ہر مجلس کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اسی ایک تقریب کے لئے ہے۔ ‘‘(میٹنگ نیشنل مجلسِ عاملہ جرمنی 7؍ جون 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍جولائی 2006ء)
اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی طالبات کو تبلیغ کے میدان میں اسلامی حکم پردہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کام کرنے کا ارشاد یوں فرمایا:
’’ یونیورسٹی کی احمدی طالبات سے کہیں کہ اگر انہیں ان کی زبانیں نہیں آتیں تو ان زبانوں میں لٹریچر حاصل کر لیں۔ فرمایا : انٹر نیٹ پر اگر تبلیغی رابطے کرنے ہوں تو عورتوں کا تبلیغی رابطہ صرف عورتوں سے ہونا چاہئے۔ حضور انور نے پردے کی اہمیت بھی واضح فرمائی۔ فرمایا اگر کہیں مَردوں سے رابطہ ہو جائے تو انہیں پھر مَردوں کے پتے دے دیں۔ اپنے فورم میں صرف عورتوں کو لے کر آئیں۔ اور اگرکسی جگہ عورتیں پوری طرح جواب نہ دے سکتی ہوں اور کوئی مکس گیدرنگ(mix gathering) ہو تو اپنے ساتھ لائی ہوئی مہمان خاتون کو لے کرایک سائیڈ میں بیٹھیں اور پردے کا خیال رکھیں لیکن جب کھانے پینے کاوقت آئے تو اس وقت مکس گیدرنگ میں نہیں بیٹھنابلکہ علیحدہ انکلوژر(en-closure) میں چلی جائیں اور جو عورتیں اکٹھی مجالس میں ملیں ان کے پتے حاصل کر کے ان کو صر ف عورتوں کی مجالس میں بلائیں۔ اس صورت میں ان کے ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھیں گے کہ آپ مکس مجالس میں کیوں نہیں آتیں ؟ اس پر آپ اسلامی پردہ کے متعلق وہاں ان کی غلط فہمیاں بھی دور کر سکتی ہیں۔ (یہاں پر حضور انور نے دریافت فرمایا کہ یہ مکس گیدرنگ وہی ہیں نا جن کو آپopen day کہتی ہیں ؟حضور کو بتایا گیا۔ جی) حضور نے فرمایا کہ یونیورسٹی کی طالبات کے جن سے روابط ہوں ان کی علیحدہ gatheringہو سکتی ہیں۔ ‘‘(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ جرمنی 9؍جون 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍جولائی 2006ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ جرمنی کے ساتھ میٹنگ میں کئی اہم ہدایات سے نوازا جن میں سے بعض کا تعلق پردہ سے بھی ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا:
’’پڑھی لکھی لڑکیوں کو شامل کر کے پردہ کے موضوع پر ایم ٹی اے کے لئے گفتگو کا پروگرام بنائیں، جس میں اس اسلامی حکم کا مقصد بیان کریں۔ اس موضوع پر بائبل کے حوالہ جات سے بات کریں اور بتائیں کہ عیسائیت نے عورت کو کمتر سمجھتے ہوئے پردہ کا حکم دیا ہے جبکہ اسلام نے عورت کے تقدّس اور اس کے مقام کو بلند کرنے کے لئے یہ حکم دیا ہے۔ پھر پردہ کی مخالفت کرنے والے لوگوں کو بتائیں کہ تم نے اپنے مذہب کو اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ وہ پریکٹیکل مذہب نہیں تھا اور آجکل کے حالات میں چل نہیں سکتا تھا لیکن اسلام ایک پریکٹیکل مذہب ہے اور ہم حجاب اور پردہ کے ساتھ ہر کام کر سکتی ہیں۔ ایسے پروگرام بنا کر ایم ٹی اے کے لئے بھجوائیں۔ ایم ٹی اے پر لجنہ اماء اللہ کے جو پروگرام آتے ہیں وہ میری ہدایات اور نگرانی میں بنتے ہیں، اگرچہ وہ ساری دنیا کے لئے ہوتے ہیں لیکن یہاں کے ماحول کے لحاظ سے خاص طور پریورپ کے ممالک کے لئے ہوتے ہیں۔ حضورانور نے مزید فرمایا کہ جو احمدی بچیاں پردہ وغیرہ پر اعتراض کرتی ہیں، جیسا کہ میں نے لجنہ اماءاللہ یو کے کے اجتماع میں کہا تھا، انہیں بتائیں کہ آپ جب کوئی کلب جوائن کرتی ہیں تو اس کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں، اگر ان اصول و ضوابط کی پابندی نہ کی جائے تو اس کلب کی ممبر شپ منسوخ ہو جاتی ہے۔ پس اسلام نے بھی کچھ اصول بنائے ہیں اس میں نمازپڑھنی، قرآن پڑھنا اور اس کے تمام حکموں پر عمل کرناشامل ہے۔ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے آپ نے یہ عہد کیا ہے کہ آپ جو کہیں گے وہ کروں گی۔ ان باتوں کے پیش نظر خود دیکھ لو کہ تم کس مقام پر ہو۔ پھر ان سے پوچھیں کہ کیا تم خود کو احمدی سمجھتی ہو؟ اگر سمجھتی ہو تو کیا اسلام کے بنیادی حکموں پر یقین رکھتی ہو؟ اگر رکھتی ہو تو کیا اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہو؟ اگر کرتی ہو تو اس میں ایک حکم پردہ کا بھی ہے۔ اس طریق پر سمجھاتے ہوئے ان سے پوچھیں کہ اب بتاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتی ہو، منافقت کے ساتھ جماعت میں دکھاوے کے لئے رہنا چاہتی ہو یا اپنے آپ کو بدل کر نیک ارادہ کے ساتھ خود کو ٹھیک کرنا چاہتی ہو؟(میٹنگ نیشنل مجلسِ عاملہ لجنہ اماءاللہ جرمنی 25 ؍ دسمبر 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍جنوری 2007ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء اللہ جرمنی کی نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ میٹنگ میں پردہ کے حوالے سے جو ہدایات بیان فرمائیں اُن میں فرمایا :
’’جرمنی کی خواتین نے اور افریقن خواتین نے پردہ میں ترقی کی ہے اور آپ پیچھے جارہی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ایک جرمن لڑکی ملاقات میں آئی تھی۔ اس کا بڑا اچھا پردہ تھا۔ ایک انگریز لڑکی یوکے میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں Ph.D. کررہی ہے، اس کا اتنا اچھا پردہ ہے، اس کو تو شرم نہیں آتی‘‘۔
حضور انور نے فرمایا :
’’یونیورسٹیوں میں احمدی لڑکیاں یہ خیال رکھیں کہ لڑکوں کے ساتھ علیحدہ بیٹھ کر گپ شپ نہ لگائیں۔ اس سے دوستیاں بڑھتی ہیں اور پھر اِدھر اُھر بازاروں میں جانا شروع ہو جاتاہے۔ یونیورسٹی میں اپنی پڑھائی کے سلسلہ میں اگر کسی طالبعلم سے کوئی مدد لینی ہے تو اس میں روک نہیں۔ جہاں تک یونیورسٹی میں انفرادی تبلیغ کا تعلق ہے اس بارہ میں پہلے ہی ہدایت دی ہوئی ہے کہ لڑکیاں لڑکیوں کو تبلیغ کریں اور لڑکے لڑکوں کو تبلیغ کریں۔ ‘‘(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ جرمنی 18؍دسمبر 2009ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29؍جنوری 2010ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطاب میں احمدی عورتوں کو اپنے پردے ٹھیک کرنے اور دعوتِ الی اللہ کے حوالہ سے دوسروں کے لئے نمونہ بننے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’یہ پردہ تو قرآن کا بنیادی حکم ہے۔ مختلف قوموں نے یعنی مسلمان ملکوں کی قومیں جو ہیں انہوں نے اس کے مختلف طریقے اپنی سہولت کے لئے بنائے ہوئے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کہا کرتے تھے کہ ترکی عورت کا پردہ سب سے اچھا ہے۔ برقعہ اور نقاب۔ اس میں عورت محفوظ بھی رہتی ہے کام بھی کر سکتی ہے۔ آزادی سے پھر بھی سکتی ہے اور پردے کا پردہ ہوتا ہے۔ ایک مبلغ نے مجھے بتایا وہ ترکوں میں تبلیغ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں جب میں تبلیغ کرتا ہوں تو ترک کہتے ہیں کہ ہم کونسا اسلام قبول کریں۔ تم ہمیں صحیح اسلام کی دعوت دے رہے ہو وہ اسلام قبول کریں یاجو تمہاری عورتیں ظاہر کرتی ہیں۔ اسلام میں تو حکم ہے کہ پردہ کرو اور پردہ نہیں کر رہی ہوتیں۔ کئی عورتیں ہماری واقف ہیں جو پردہ نہیں کرتیں۔ ایک دفعہ مَیں نے کہا تھا کہ دعوت الی اللہ کے لئے اپنا نمونہ دکھانا بھی ضروری ہے اور یہ اپنا نمونہ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ تو دیکھیں آپ کے نمونہ کی وجہ سے یہ جو مثال سامنےآئی ہے دوسروں کو اعتراض کرنے کا موقعہ مل گیا ہے۔ اس سے نہ صرف اللہ تعالیٰ کے ایک حکم پر عمل نہ کرکے ایسی عورتیں اس حکم عدولی کی وجہ سے گناہگار ہو رہی ہیں بلکہ اس نمونے کی وجہ سے دوسرے لوگوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ اور اس طرح دوہرا گناہ سہیڑ رہی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت(سورۃالاحزاب:38) میں فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرکے تم گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گی۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 4 ؍ستمبر 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7 ؍جنوری 2005ء)
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی عورتوں کو نصیحت فرمائی:
’’بعض عرب عورتیں مجھے یہ کہتی ہیں کہ ہم مسجد میں گئے یوکے میں بھی، اور جگہوں میں بھی، وہاں احمدی عورتوں کے پردے ٹھیک نہیں تھے۔ عرب جو ہیں وہ خاص طور پر اپنے بالوں کے پردے کی طرف بہت توجہ دیتی ہیں۔ انہوں نے سر ڈھانکا ہوتا ہے۔ اس لئے اُن کو بڑا عجیب لگتا ہے کہ احمدی عورتیں پردہ نہیں کر رہی ہوتیں۔ ہلکا سا ایک دوپٹہ، چُنّی سر پر ڈالی ہوتی ہے۔ اس طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آپ کی وجہ سے کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے۔‘‘ (خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 17؍ستمبر 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍نومبر 2012ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء اللہ جرمنی کی نیشنل عاملہ کی میٹنگ میں اُن کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ کے حوالہ سے فرمایا:
’’آپ کے رسالہ میں ایک تصویر چھپی تھی جس میں عورتیں اور مرد اکٹھے بیٹھے ہیں۔ یہ مناسب نہیں۔ حضور نے رسالے کے لیے ایڈیٹوریل بورڈ بنانے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا کہ وہ بورڈ پالیسی بنائے کہ رسالہ کا معیار کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے۔
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر پردے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات ڈالیں کہ آپ نے پردہ اس لئے کرنا ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے۔ اگر جماعتی روایات پر قائم رہیں گی تو کوئی کمپلیکس نہیں ہو گا اور اسی سے پھر تبلیغ کے راستے کھلیں گے۔
بعض بچیاں پاکستان سے شادی کروا کر یہاں آتی ہیں۔ وہاں وہ برقع پہنتی ہیں لیکن یہاں آتے ہی اتر جاتے ہیں۔ یہ بے حیائی ہے۔ یہ ذاتی کمپلیکس کی بِنا پر بھی ہو سکتاہے اور خاوند کے کہنے پربھی۔ اگر جرمن عورت احمدی ہونے کے بعد اچھے لباس میں آسکتی ہے تو انہیں پورا پردہ کرنے میں کیا حرج ہے؟ فرمایا آج کل ٹیکسٹ میسیجز(text messages) کا رواج چل نکلا ہے۔ یہ بھی سوائے جاننے والوں کے کہیں نہیں ہونا چاہئے۔ بعض اوقات سہیلیاں آگے نمبر دے دیتی ہیں۔ اس لیے اس امر کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ ‘‘(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ جرمنی 9؍جون 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍جولائی 2006ء)