پردہ
سوشل میڈیا اور پردہ
سوشل میڈیا کا بے پردگی میں کردار
آجکل موبائل فون اور دیگر ذرائع سے پیغامات کا تبادلہ اتنی تیزرفتاری سے ہورہا ہوتا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا کوئی پیغام یا تصویر اسلامی اور اخلاقی قدروں کے بھی منافی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ حضورانور ایدہ اللہ اس حوالہ سےلجنہ اماء اللہ کے نام اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں :
’’پھر آجکل سوشل میڈیا پر بہت سی بُرائیاں جنم لے رہی ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ماں باپ کے سامنے خاموشی سے چَیٹنگ کررہے ہوتے ہیں۔ پیغامات کا اور تصاویر کا تبادلہ ہورہا ہوتا ہے۔ نئے نئے پروگراموں میں اکاؤنٹ بنالئے جاتے ہیں اور سارا سارا دن فون، آئی پیڈ اور کمپیوٹر وغیرہ پر بیٹھ کر وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ اس سے اخلاق بگڑتے ہیں، مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہونے لگتا ہے اور بچے دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ ان ساری باتوں پر نظر رکھنے اور انہیں محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے آپ کو ان کے لئے متبادل مصروفیات بھی سوچنا ہوں گی۔ انہیں گھریلو کاموں میں مصروف کریں۔ جماعتی خدمات میں شامل کریں اور ایسی مصروفیات بنائیں جو ان کے لئے اور معاشرہ کے لئے مثبت اور مفید ہوں۔ یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے جسے احمدی مستورات نے بجا لانا ہے۔ ‘‘(پیغام برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 10؍جولائی 2016ء)
حضور انور ایدہ اللہ نے احمدیوں کو سوشل میڈیا پر تصاویر ڈالنے اور پھر تصاویر پر اپنی آراء اور تبصروں کابرملا اظہار کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
’’آج انٹرنیٹ یا کمپیوٹر پر آپس کے تعارف کا ایک نیا ذریعہ نکلا ہے جسے facebookکہتے ہیں۔ گو اتنا نیا بھی نہیں لیکن بہرحال یہ بعدکی چند سالوں کی پیداوار ہے۔ اس طریقے سے میں نے ایک دفعہ منع بھی کیا ہے، خطبہ میں بھی کہا کہ یہ بےحیائیوں کی ترغیب دیتا ہےجو آپس کے حجاب ہیں، ایک دوسرے کا حجاب ہے، اپنے راز ہیں بندے کے۔ وہ اُن حجابوں کو توڑتا ہے، اُن رازوں کو فاش کرتا ہے اور بے حیائیوں کی دعوت دیتا ہے۔ اس سائٹ کو بنانے والا جو ہے اُس نے خود یہ کہا ہے کہ میں نے اسے اس لئے بنایا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ انسان جو کچھ ہے وہ ظاہر و باہر ہوکر دوسرے کے سامنے آجائے اور اُس کے نزدیک ظاہر و باہر ہوجانا یہ ہے کہ اگر ننگی تصویر بھی کوئی اپنی ڈالتا ہے تو بیشک ڈال دے اور اس پر دوسروں کو تبصرہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔ اِنَّا لِلہ۔ اسی طرح دوسرے بھی جو کچھ دیکھیں کسی کے بارے میں اس میں ڈال دیں۔ یہ اخلاقی پستی اور گراوٹ کی انتہا نہیں تو اَور کیا ہے؟ اس اخلاقی پستی اور گراوٹ کی حالت میں ایک احمدی ہی ہے جس نے دنیا کو اخلاق اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار بتانے ہیں۔ ‘‘(اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 26 ؍جون 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍ جولائی 2015ء)
ایک بچی نے سوال و جواب کی ایک نشست میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سےدریافت کیا کہ facebook کے بارہ میں حضور انورنے فرمایا تھا کہ یہ اچھی نہیں ہے۔ اس سے منع کیا تھا۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :
’’مَیں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو نہ چھوڑوگے تو گنہگار بن جاؤ گے۔ بلکہ مَیں نے بتایا کہ اس کے نقصان زیادہ ہیں اور فائدہ بہت کم ہے۔ آجکل جن کے پاس facebook ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں ایسی جگہ پر چلے جاتے ہیں جہاں برائیاں پھیلنی شروع ہوجاتی ہیں۔ لڑکے تعلق بناتے ہیں۔ بعض جگہ لڑکیاں trap ہوجاتی ہیں اور facebook پر اپنی بے پردہ تصاویر ڈال دیتی ہیں۔ گھر میں، عام ماحول میں، آپ نے اپنی سہیلی کو تصویر بھیجی، اُس نے آگے اپنی فیس بُک پر ڈال دی اور پھر پھیلتے پھیلتے ہمبرگ سے نکل کر نیویارک(امریکہ) اور آسٹریلیا پہنچی ہوتی ہے اور پھر وہاں سے رابطے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور پھر گروپس بنتے ہیں مَردوں کے، عورتوں کے اور تصویروں کو بگاڑ کر آگے بلیک میل کرتے ہیں۔ اس طرح برائیاں زیادہ پھیلتی ہیں۔ اس لئے یہی بہتر ہے کہ برائیوں میں جایا ہی نہ جائے۔ ‘‘(کلاس واقفاتِ نو8؍ اکتوبر 2011ءجرمنی۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍ جنوری 2012ء)
اسی طرح ایک موقع پر حضور انور ایدہ اللہ نے لڑکیوں اور لڑکوں کے سوشل میڈیا پر بےحجابانہ روابط اور بے جا آزادی کے بدنتائج سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان فواحش کے قریب بھی نہ جاؤ۔ یعنی ایسی تمام باتیں جو فحشاء کی طرف مائل کرتی ہیں اُن سے رُکو۔ اس زمانے میں تو اس کے مختلف قسم کے ذریعے نکل آئے ہیں۔ اس زمانے میں انٹرنیٹ ہے، اس پر بیہودہ فلمیں آ جاتی ہیں۔ ویب سائٹس پر، ٹی وی پر بیہودہ فلمیں ہیں۔ بیہودہ اور لغو قسم کے رسالے ہیں، ان بیہودہ رسالوں کے بارہ میں جو پورنوگرافی(pornography) وغیرہ کہلاتے ہیں اب یہاں بھی آواز اُٹھنے لگ گئی ہے کہ ایسے رسالوں کو سٹالوں اور دکانوں پر کھلے عام نہ رکھا جائے کیونکہ بچوں کے اخلاق پر بھی بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ ان کو تو آج یہ خیال آیا ہے لیکن قرآنِ کریم نے چودہ سو سال پہلے یہ حکم دیا کہ یہ سب بے حیائیاں ہیں، ان کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ یہ تمہیں بے حیا بنا دیں گی۔ تمہیں خدا سے دُور کر دیں گی، دین سے دُور کر دیں گی بلکہ قانون توڑنے والا بھی بنا دیں گی۔ اسلام صرف ظاہری بے حیائیوں سے نہیں روکتا بلکہ چھپی ہوئی بے حیائیوں سے بھی روکتا ہے۔ اور پردے کا جو حکم ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ پردے اور حیا دار لباس کی وجہ سے ایک کھلے عام تعلق اور بے تکلفی میں جو لڑکے اور لڑکی میں پیدا ہو جاتی ہے، ایک روک پیدا ہو گی۔ اسلام بائبل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ تم عورت کو بری نظر سے نہ دیکھو بلکہ کہتا ہے کہ نظریں پڑیں گی تو قربت بھی ہو گی اور پھر بے حیائی بھی پیدا ہوگی۔ اچھے برے کی تمیز ختم ہو گی۔ اور پھر ایسے کھلے عام میل جول سے جب اس طرح لڑکا اور لڑکی، مرد اور عورت بیٹھے ہوں گے تو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے حکم کے مطابق تیسرا تم میں شیطان ہو گا۔ (سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیبات حدیث نمبر 117)
یہ جو انٹرنیٹ وغیرہ کی میں نے مثال دی ہے، اس میں فیس بُک(facebook) اور سکائپ(skype) وغیرہ سے جو چَیٹ(chat) وغیرہ کرتے ہیں، یہ شامل ہے۔ کئی گھر اس سے میں نے ٹوٹتے دیکھے ہیں۔ بڑے افسوس سے مَیں کہوں گا کہ ہمارے احمدیوں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔ پس خداتعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ فحشاء کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کیونکہ شیطان پھر تمہیں اپنے قبضے میں کر لے گا۔
پس یہ قرآنِ کریم کے حکم کی خوبصورتی ہے کہ یہ نہیں کہ نظر اُٹھا کے نہیں دیکھنا، اور نہ نظریں ملانی ہیں بلکہ نظروں کو ہمیشہ نیچے رکھنا ہے اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ اور پھر جب نظریں نیچی ہوں گی تو پھر ظاہر ہے یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ جو آزادانہ میل جول ہے اُس میں بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ فحشاء کو نہیں دیکھنا، تو جو بیہودہ اور لغو اور فحش فلمیں ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں اُن سے بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں میں نہیں اُٹھنا بیٹھنا جو آزادی کے نام پر اس قسم کی باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے قصے اور کہانیاں سناتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس طرف راغب کر رہے ہوتے ہیں۔ نہ ہی سکائپ(skype) اور فیس بُک (facebook) وغیرہ پر مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنی ہے، ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنی ہیں، نہ ہی ان چیزوں کو ایک دوسرے سے تعلقات کا ذریعہ بنانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب ظاہر یا چھپی ہوئی فحشاء ہیں جن کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم اپنے جذبات کی رَو میں زیادہ بہہ جاؤ گے، تمہاری عقل اور سوچ ختم ہو جائے گی اور انجام کار اللہ تعالیٰ کے حکم کو توڑ کر اُس کی ناراضگی کا موجب بن جاؤ گے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 2 ؍اگست 2013ءمسجدبیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23 ؍اگست 2013ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعدّد خطابات میں معاشرہ میں بے حیائی کی بڑھتی ہوئی روش کو انسانی اخلاقیات کے لئے انتہائی خطرناک قرار دیا ہے نیز اِس سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے غَضِّ بصر یعنی نظروں کے نیچا کرلینے کی اسلامی تعلیم کی روشنی میں نصائح بھی فرمائی ہیں۔ چنانچہ اپنے ایک خطاب میں فرمایا:
’’جیسا کہ مَیں نے کہا لباس بے حیائی والا لباس ہوتا چلا جارہا ہے۔ پھر بڑے بڑے اشتہاری بورڈ کے ذریعہ سے، ٹی وی پر اشتہارات کے ذریعہ سے، انٹرنیٹ پر اشتہارات کے ذریعہ سے بلکہ اخباروں کے ذریعہ سے بھی اشتہار دئیے جاتے ہیں کہ شریف آدمی کی نظر اس پر پڑجاتی تو شرم سے نظر جھک جاتی ہے اور جھکنی چاہئے۔ یہ سب کچھ ماڈرن سوسائٹی کے نام پر، روشن خیالی کے نام پر ہوتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا یہ زینت اب بے حیائی بن چکی ہے یعنی زینت کے نام پربے حیائی کی اشتہار بازی ہے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی29 ؍جون 2013 ءبمقام کالسروئے۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18؍اکتوبر 2013ء)
سوشل میڈیا کا مثبت استعمال
نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ آئرلینڈ کے اجلاس میں بچوں کی تربیت میں والدین کی ذمہ داری کے حوالے سے کئے جانے والے ایک سوال کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا:
’’جہاں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں تعلیم کے حصول میں تو کوئی حر ج نہیں بشرطیکہ لڑکے لڑکیوں سے د وستی نہ کریں اور ایک دوسرے سے صرف ضرورت کے تحت ہی بات کریں sms، facebook، chat اور فون کالز(phone calls)سے اجتناب کریں۔ ماں باپ کو ہدایت کریں کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں۔ ہر وقت کمپیوٹر اور موبائل فون ہاتھ میں رکھنا مناسب نہیں۔ جومائیں کمپیوٹر نہیں جانتیں وہ سیکھ لیں تاکہ بچوں پر نظر رہے ‘‘۔ (میٹنگ نیشنل مجلسِ عاملہ لجنہ اماء اللہ آئرلینڈ18؍ستمبر 2010ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍اکتوبر 2010ء)
سوشل میڈیا کی بے حیائیوں سے بچاتے ہوئے اپنے بچوں کی عمدہ تربیت کرنے کے حوالہ سے احمدی ماؤں اور احمدی بچیوں کو نصیحت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’پھر لغو باتیں ہیں۔ ان لغو باتوں کے لئے مَیں خاص طور پر بچوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لغو باتیں صرف وہ باتیں ہی نہیں جو بڑی بوڑھیاں بیٹھ کر کرتی ہیں۔ وہ تو کرتی ہیں اُن کو اس سے روکنا ہی ہے، لیکن دس بارہ سال کی عمر کی لڑکیوں سے لے کے نوجوان لڑکیوں تک کےلئے جو ٹی وی اور انٹر نیٹ ہے یہ آج کل لغویات میں شامل ہو چکا ہے۔ اگر آپ لوگ سارا دن ایسے پروگرام دیکھ رہی ہیں جس میں کوئی تربیت نہیں ہے تو یہ لغویات ہے۔ انٹرنیٹ جوہے، اُس میں بعض دفعہ ایسی جگہوں پر چلی جاتی ہیں جہاں سے پھر آپ واپس نہیں آ سکتیں اور بے حیائی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ بعض دفعہ ایسے معاملات آ جاتے ہیں کہ غلط قسم کے گروہوں میں لڑکوں نے لڑکیوں کو کسی جال میں پھنسا لیا اور پھر اُن کو گھر چھوڑنے پڑے اور اپنے خاندان کے لئے بھی، جماعت کے لئے بھی بدنامی کا باعث ہوئیں۔ اس لئے انٹرنیٹ وغیرہ سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھی ذہنوں کو زہریلا کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر بہت سارے پروگرام ہیں۔ ٹی وی پر بے حیائی کے بہت سارے پروگرام ہیں۔ ایسے چینل والدین کو بھی بلاک(block) کر کے رکھنے چاہئیں جو بچوں کے ذہنوں پر گندے اثر ڈالتے ہوں۔ ایسے مستقل لاک(lock) ہونے چاہئیں اور جب بچے ایک دو گھنٹے جتنا بھی ٹی وی دیکھنا ہے دیکھ رہے ہیں توبیشک دیکھیں لیکن پاک صاف ڈرامے یا کارٹون۔ اگر غلط پروگرام دیکھے جا رہے ہیں تو یہ ماں باپ کی بھی ذمہ واری ہے اور بارہ تیرہ سال کی عمر کی جو بچیاں ہیں اُن کی بھی ہوش کی عمر ہوتی ہے، اُن کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس سے بچیں۔ آپ احمدی ہیں اور احمدی کا کردار ایسا ہونا چاہئے جو ایک نرالا اور انوکھا کردار ہو۔ پتہ لگے کہ ایک احمدی بچی ہے ‘‘۔ (خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ جرمنی 17 ؍ستمبر 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍نومبر 2012ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ کی ممبرات کوتبلیغ کے حوالے سے جو نصائح فرمائیں اُن میں بھی پردے کی روح کو قائم رکھنے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ حضورانور نے ایک موقع پر فرمایا:
’’لجنہ کے تبلیغ کے شعبہ کو چاہئے کہ ایسی عورتوں اور بچیوں کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو تبلیغ کے لئے استعمال کریں۔ لیکن ایک بات واضح طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں یا عورتوں سے ہونے چاہئیں۔ بعض لوگوں کے انٹرنیٹ کے ذریعے سے تبلیغ کے رابطے ہوتے ہیں اور انٹر نیٹ کے تبلیغی رابطے بھی صرف لڑکیوں اور عورتوں سے رکھیں۔ مَردوں کا جو تبلیغ کا حصہ ہے وہ مَردوں کے حصے رہنے دیں کیونکہ اس میں بعض دفعہ بعض قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ کہا تویہی جا رہا ہوتا ہے کہ ہم تبلیغ کر رہے ہیں لیکن پھر عموماً دیکھنے میں آیا ہے، تجربہ میں آیا ہے کہ انٹرنیٹ کے بعض ایسے نتائج ظاہر ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی ایک احمدی بچی اور عورت کے مناسب حال نہیں ہوتے۔
پھر جو بچیاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں وہ بغیر کسی جھجک کے، شرم کے یا احساس کمتری کا شکار ہوئے، اپنے بارے میں، اسلام کے بارے میں اپنی طالبات سے بات چیت کریں۔ اپنے بار ے میں بتادیں کہ ہم کون ہیں پھر اس طرح اسلام کا تعارف ہوگا‘‘۔ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ آسٹریلیا15 ؍اپریل 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون 2015ء)
احمدی والدین اور بچوں کو چاہئے کہ میڈیا کے بداثرات کو قبول کرنے کی بجائے اس کے مثبت اور نیک اثرات سے فائدہ اٹھاکر خداتعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔ اس حوالہ سے نصیحت کرتے ہوئے حضورانور نے فرمایا:
’’ پس جس دَور میں سے ہم گزر رہے ہیں اور کسی ایک ملک کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا کا یہ حال ہے۔ میڈیا نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے اور بدقسمتی سے نیکیوں میں قریب کرنے کی بجائے شیطان کے پیچھے چلنے میں زیادہ قریب کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں ایک احمدی کو بہت زیادہ بڑھ کر اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے عطا فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں جماعت کے روحانی، علمی پروگراموں کے لئے ویب سائٹ بھی عطا فرمائی ہے۔ اگر ہم اپنی زیادہ توجہ اس طرف کریں تو پھر ہی ہماری توجہ اس طرف رہے گی جس سے ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے والے ہوں گے اور شیطان سے بچنے والے ہوں گے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ20 ؍مئی2016 ءمسجد ناصر، گوٹن برگ، سویڈن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون 2016ء)
اسی طرح جماعتِ احمدیہ برطانیہ کی ایک مجلس شوریٰ کے اختتامی خطاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اراکینِ شوریٰ کو ’’ایم ٹی اے‘‘ سے زیادہ سے زیادہ مستفیذ ہونے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ایک اور بات جس کی طرف مَیں عہدیداران اور نمائندگان مجلسِ شوریٰ کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ انہیں اور ان کے افرادِ خانہ کو، جتنا زیادہ سے زیادہ ممکن ہوسکے، ایم ٹی اےسے استفادہ کرنا چاہئے۔ بلکہ آپ لوگ دیگر دوستوں کو بھی ایم ٹی اے سے فائدہ اٹھانے کی تلقین کریں۔ ابتدائی طور پر آپ ایسا کرسکتے ہیں کہ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت ایم ٹی اےپر اپنی دلچسپی کے پروگرامز دیکھنے کے لئے مخصوص کرلیں۔ مثلاً ایسے دوست جو انگریزی پروگرام سننا پسند کرتے ہیں ان کے لئے بعض بہت عمدہ انگریزی پروگرامز ہیں جو روزانہ کی بنیادوں پر ایم ٹی اے سے نشر کئے جاتے ہیں۔ انہیں وہ پروگرامز باقاعدگی سے دیکھنے چاہئیں۔ سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ لوگ ہر جمعہ کو نشر ہونے والا خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنیں۔ اور دیگر ایسے پروگرامز بھی دیکھیں جن میں میری شمولیت ہوتی ہے جیسا کہ غیر مسلموں سے خطابات ہیں، جلسہ پر کی جانے والی میری تقریریں ہیں یا دیگر مجالس وغیرہ۔ ان پروگرامز کو دیکھناانشاء اللہ آپ لوگوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا اور اسی مقصد سے آپ لوگوں کو یہ پروگرامز دیکھنے چاہئیں۔ ‘‘(اردو ترجمہ اختتامی خطاب مجلسِ شوریٰ یوکے 2013 ءبمقام لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25 ؍اکتوبر 2013ء)