پردہ

فہرست مضامین

لِبَاسُ التَّقْوٰی

سیدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشادِ ربّانی لِبَاسُ التَّقْوٰی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ لباسِ تقویٰ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سورۃ اعراف میں کہ:

یٰبَنِیٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا۔ وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ۔ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ۔ (الاعراف:27)

اے بنی آدم! یقیناً ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس تو وہ سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے کچھ ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ یہاں پھر اس بات کا ذکر ہے جو مَیں پہلے بھی کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں لباس دیا ہے۔ تمہارا ننگ ڈھانپنے کے لئے اور تمہاری خوبصورتی کے سامان کے لئے۔ یہ تو ظاہری سامان ہے جو ایک تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا۔ انسان کو دوسری مخلوق سے ممتاز کرنے کے لئے ایک لباس دیا ہے جس سے اس کی زینت بھی ظاہر ہو اور اس کا ننگ بھی ڈھانپے۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اصل لباس، لباسِ تقویٰ ہے۔

یہاں مَیں ایک اور بات کی بھی وضاحت کر دوں کہ ایک مومن کے اور ایک غیر مومن کے لباس کی زینت کا معیار مختلف ہوتا ہے اور کسی بھی شریف آدمی کے لباس کا، جو زینت کا معیار ہے وہ مختلف ہے۔ آج کل مغرب میں اور مشرق میں بھی فیشن ایبل(fashionable) اور دنیا دار طبقے میں لباس کی زینت اُس کو سمجھا جاتا ہے بلکہ مغرب میں تو ہر طبقہ میں سمجھا جاتا ہے جس میں لباس میں سے ننگ ظاہر ہو رہا ہو اور جسم کی نمائش ہو رہی ہو۔ مرد کے لئے تو کہتے ہیں کہ ڈھکا ہوا لباس زینت ہے۔ لیکن مرد ہی یہ بھی خواہش رکھ رہے ہوتے ہیں کہ عورت کا لباس ڈھکا ہوا نہ ہو اور عورت جو ہے، اکثر جگہ عورت بھی یہی چاہتی ہے۔ وہ عورت جسے اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا، اس کے پاس لباس تقویٰ نہیں ہے اور ایسے مرد بھی یہی چاہتے ہیں۔ ایک طبقہ جو ہے مَردوں کا وہ یہ چاہتا ہے کہ عورت جدید لباس سے آراستہ ہو بلکہ اپنی بیویوں کے لئے بھی وہی پسند کرتے ہیں تاکہ سوسائٹی میں ان کو اعلیٰ اور فیشن ایبل سمجھا جائے۔ چاہے اس لباس سے ننگ ڈھک رہا ہو یا نہ ڈھک رہاہو۔ لیکن ایک مومن اور وہ جسے اللہ تعالیٰ کا خوف ہےچاہے مرد ہو یا عورت وہ یہی چاہیں گے کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے وہ لباس پہنیں جو خد اکی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی بنے اور وہ لباس اس وقت ہو گا جب تقویٰ کے لباس کی تلاش ہو گی۔ جب ایک خاص احتیاط کے ساتھ اپنے ظاہری لباسوں کا بھی خیال رکھا جا رہا ہو گا۔ ‘‘

حضورانور ایدہ اللہ نے مزید فرمایا:

’’…پس یہ تقویٰ کا لباس ہے جو ظاہری لباس کے معیار بھی قائم کرتا ہے اور ایک دوسرے کی پردہ پوشی کے معیار بھی قائم کرتا ہے اور اس کا حصول اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ شیطان ہر وقت تاک میں ہوتا ہے کہ کس طرح موقع ملے اور میں بندوں سے اس تقویٰ کے لباس کوا تار دوں۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے بلکہ جو مَیں نے آیت پڑھی اس کی اگلی آیت میں کہ:

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ لَا یَفۡتِنَنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ کَمَاۤ اَخۡرَجَ اَبَوَیۡکُمۡ مِّنَ الۡجَنَّۃِ یَنۡزِعُ عَنۡہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوۡاٰتِہِمَا ؕ اِنَّہٗ یَرٰٮکُمۡ ہُوَ وَ قَبِیۡلُہٗ مِنۡ حَیۡثُ لَا تَرَوۡنَہُمۡ ؕ اِنَّا جَعَلۡنَا الشَّیٰطِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ لِلَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ۔ (الاعراف:28)

کہ اے بنی آدم! شیطان ہرگز تمہیں فتنہ میں نہ ڈالے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوا دیا تھا۔ اس نے ان سے اُن کے لباس چھین لئے تھے تاکہ اُن کی برائیاں ان کو دکھائے یقیناً وہ اور اس کے غول تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ یقیناً ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

پس جو ظاہری لباس کے ننگ کی مَیں نے بات کی ہے۔ ایک مومن کبھی ایسا لباس نہیں پہن سکتا جو خود زینت بننے کی بجائے جسم کی نمائش کر رہا ہو۔ یہاں بھی اور پاکستان میں بھی بعض رپورٹس آ تی ہیں کہ دنیا کی دیکھا دیکھی بعض احمدی بچیاں بھی نہ صرف پردہ اتارتی ہیں بلکہ لباس بھی نامناسب ہوتے ہیں اور یہ حرکت صرف وہی کر سکتا ہے جو تقویٰ کے لباس سے عاری ہو۔

پس ہر احمدی عورت اور مرد سے مَیں یہ کہتا ہوں کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بہترین لباس وہ ہے جو تقویٰ کا لباس ہے۔ اُسے پہننے کی کوشش کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی ستّاری ہمیشہ ہمیش ڈھانکے رکھے اور شیطان جو پردے اُتارنے کی کوشش کر رہا ہے جو انسان کو ننگا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو مومن نہیں ہے شیطان ان کا دوست ہے۔ اگر تو ایمان ہے اور زمانہ کے امام کو بھی مانا ہے تو پھر ہمیں ایک خاص کوشش سے شیطان سے بچنے کی کوشش کرنی ہو گی اور اپنے آپ کو ہمیشہ اس لباس سے ڈھانکنا ہو گا جو تقویٰ کا لباس ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کے بعد ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنی حالتوں کے بدلنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور زمانے کے بہاؤ میں بہنے والے نہ بنیں۔ بلکہ ہر روز ہمارا تعلق خداتعالیٰ سے مضبوط سے مضبوط تر ہو تا چلاجائے اور ہمیشہ لباس تقویٰ کی حقیقت کو ہم سمجھنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہـ:

’’ممکن ہے گزشتہ زندگی میں وہ کوئی صغائر یا کبائر رکھتا ہو۔ (یعنی کوئی بھی انسان چھوٹےبڑے گناہ کرتا ہو)لیکن جب اللہ تعالیٰ سے اس کا سچا تعلق ہو جاوے تو وہ کُل خطائیں بخش دیتا ہےاور پھر اس کو کبھی شرمندہ نہیں کرتا۔ نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ یہ کس قدر احسان اللہ تعالیٰ کا ہےکہ جب وہ ایک دفعہ در گزر کرتا اور عفو فرماتا ہے پھر اس کا کبھی ذکر ہی نہیں کرتا۔ اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے۔ پھر باوجود ایسے احسانوں اور فضلوں کے بھی اگر وہ منافقانہ زندگی بسر کرے تو پھر سخت بد قسمتی اور شامت ہے۔ ‘‘)ملفوظات جلد سوم صفحہ 596۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پھر فرمایا:

اس بارے میں خداتعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتا ہے کہ

اِنْ تَجْتَنِبُوْاکَبَآئِرَ مَاتُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْماً۔ (النساء :32)

اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو ہم تم سے تمہاری بدیاں دُور کردیں گے اور تمہیں ایک بڑی عزت کے مقام میں داخل کریں گے۔

اب یہاں فرمایا کہ بڑے گناہوں سے بچتے رہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بڑے گناہوں کی تلاش کی جائے، یا یہ دیکھا جائے کہ کون کون سے بڑے گناہ ہیں جن سے بچنا ہے۔ ایک حقیقی مومن وہ ہے جو ہر قسم کے گناہوں سے بچتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ستّاری تو ہر قسم کے گناہوں کے لئے ہے۔ اس لئے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بڑے گناہوں سے بچا جائے اور چھوٹے چھوٹے گناہ اگر کر بھی لئے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ بڑے گناہوں سے بچو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے گناہوں سے بچو کیونکہ قرآن کریم میں بڑے گناہوں اور چھوٹے گناہوں کی کوئی فہرست نہیں ہے، کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر وہ چیز جس کے نہ کرنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے اور سختی سے پابند کیا ہے کہ ایک مومن نہ کرے، اس کو کرنا گناہ ہے۔ پس ہر وہ غلط کام جس کے نہ کرنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کو چھوڑنے میں اگر کسی کو کوئی دقت پیش آ رہی ہے چاہے وہ چھوٹی سی بات ہے یا بڑی بات ہے تو وہ اس شخص کے لئے بڑا گناہ ہے۔ پس جب ایک مشکل چیزکو کر لو گے، اس پر قابو پا لو گے تو ایسی برائیاں جن کو چھوڑنا نسبتاً آسان ہے وہ بھی خود بخود چھُٹ جائیں گی۔

بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی بھی گناہ کی انتہا جو ہے وہ کبیرہ میں شمار ہوتی ہے۔ پس اگر اس انتہا ء پر پہنچنے سے پہلے اپنی اصلاح کی طرف مائل ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ نے جو اَب تک پردہ پوشی فرمائی ہے وہ پردہ پو شی فرمائے گا۔ اس کی شکرگزاری کرتے ہوئے نیکیوں کی طرف توجہ کر لو تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر ہے۔ پھروہ برائیاں ظاہر نہیں ہوں گی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے پھر جوصغائر یا کبائرہیں ان کا ذکر بھی نہیں فرماتا۔

ایک دوسری جگہ خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں کبائر کو بعض دوسرے گناہوں سے ملاکر یہ بھی کھول دیا کہ ہر گناہ جو ہے وہ کبیرہ بن سکتا ہے جیسا کہ سورۃ شوریٰ میں فرماتا ہے :

وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبَائِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَا مَاغَضِبُوْا ھُمْ یَغْفِرُوْن۔ (الشوریٰ: 38)

اور جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب وہ غضبناک ہوں تو بخشش سے کام لیتے ہیں۔ یعنی مومنوں کی یہ نشانی بتائی گئی ہے۔ تو یہاں مومنوں کے ذکرمیں فرمایا کہ وہ بڑے گناہوں سے بچتے ہیں، بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہیں۔ اب یہاں دونوں چیزیں اکٹھی ہیں۔ اور غصے سے بچتے ہیں، بلکہ تینوں چیزیں اکٹھی ہیں۔ یہاں ایک بات غور کرنے والی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے بڑے غور اور فکر کا مقام ہے جو فیشن اور دنیاداری کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اپنے لباسوں کو اتنا بے حیا کر لیا ہے کہ ننگ نظر آتا ہے اور حیا کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ تو ستّاری اور بخشش کرنا چاہتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس پڑھا، وہ توبندے کی طرف دوڑ کر آتا ہے اگر بندہ اس کی طرف جائے۔ لیکن بندہ اس سے پھر بھی فائدہ نہ اٹھائے تو کتنی بدقسمتی ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍اپریل2009 ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24اپریل 2009ء)

اسی طرح جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر بھی مستورات سے اپنے خطاب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لِبَاسُ التَّقْوٰی کےحوالےسے خطاب کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ اصل زینت کپڑوں اور زیورات سے نہیں ملتی بلکہ لِبَاسُ التَّقْوٰی ہی وہ اصل لباس ہے جو مَردوں اور خواتین، دونوں کے لئے حقیقی زینت مہیا کرسکتا ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ نے اس ضمن میں فرمایا:

’’کپڑے یا ظاہری حسن کوئی چیز نہیں ہے۔ اصل حسن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ عورت کو اپنے حسن اور زینت کا بڑا خیال رہتا ہے لیکن بہت سی ایسی ہیں جو اپنی اصل زینت سے بے خبر رہتی ہیں۔ میک اَپ کرنے سے، کپڑے پہننے سے، زیور پہننے سے زینت نہیں ملتی۔ اصل زینت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے۔ اُس حسن سے بے خبر رہتی ہیں جس سے اُن کا حسن و زینت کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور جو آزادی حاصل کر کے نہیں ملتی۔ اس معاشرے کی فضولیات میں گم ہو کر نہیں ملتی۔ جو حجاب ختم کر کے نہیں ملتی۔ جو سر ننگے کرنے سے نہیں ملتی۔ جو اپنے خاوندوں کے سامنے دنیاوی خواہشات پیش کرنے سے نہیں ملتی۔ یا مَردوں کے لئے بھی ایک زینت ہے، مَردوں کو وہ زینت، فیشن ایبل عورت سے رشتہ کرنے سے نہیں ملتی، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے سے ملتی ہے۔ آجکل مغرب کے زیرِ اثر ہو کر ہماری بعض عورتیں بھی اس قسم کا اظہار کر دیتی ہیں کہ شاید یہی زینت ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ زینت تقویٰ کا لباس پہننے سے ملتی ہے۔ اور لباسِ تقویٰ اُن کو میسر آتاہے جو اپنے ایمانی عہدوں اور امانتوں کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ مَرد ہوں یا عورتیں ہوں۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے 23 ؍جولائی 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍مئی 2012)

لباس کے دو مقاصد

سیدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے قرآنی ارشاد لِبَاسُ التَّقْوٰی کے حوالہ سے نصائح کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ کے آغاز میں سورۃالاعراف کی آیت 27 کی تلاوت فرمائی اور اس کے حوالہ سے لباس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’ اس(آیت27۔ الاعراف) میں خداتعالیٰ نے اس بات کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ انسان کو تقویٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہئے۔ خداتعالیٰ نے یہاں لباس کی مثال دی ہے کہ لباس کی دو خصوصیات ہیں۔ پہلی یہ کہ لباس تمہاری کمزوریوں کو ڈھانکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ زینت کے طورپر ہے۔ کمزوریوں کے ڈھانکنے میں جسمانی نقائص اور کمزوریاں بھی ہیں، بعض لوگوں کے ایسے لباس ہوتے ہیں جس سے ان کے بعض نقص چھپ جاتے ہیں۔ موسموں کی شدت کی وجہ سے جو انسان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ان سے بچاؤ بھی ہے اور پھر خوبصورت لباس اور اچھا لباس انسان کی شخصیت بھی اجا گر کرتا ہے۔ لیکن آج کل ان ملکوں میں خاص طور پر اس ملک میں بھی عموماً تو سارے یورپ میں ہی ہے لباس کے فیشن کو ان لوگوں نے اتنا بیہودہ اور لغو کر دیا ہے خاص طور پر عورتوں کے لباس کو کہ اس کے ذریعہ اپنا ننگ لوگوں پر ظاہر کرنا زینت سمجھا جاتا ہے اور گرمیوں میں تو یہ لباس بالکل ہی ننگا ہو جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لباس کے یہ دو مقاصد ہیں ان کو پورا کرو۔ اور پھر تقویٰ کے لباس کو بہترین قرار دے کر توجہ دلائی، اس طرف توجہ پھیری کہ ظاہری لباس تو ان دو مقاصد کے لئے ہیں۔ لیکن تقویٰ سے دُور چلے جانے کی وجہ سے یہ مقصد بھی تم پورے نہیں کرتے اس لئے دنیاوی لباسوں کو اس لباس سے مشروط ہونا چاہئے جو خداتعالیٰ کو پسند ہے اور خداتعالیٰ کے نزدیک بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 ؍اکتوبر 2008بمقام مسجد مبارک پیرس، فرانس۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 31؍اکتوبر 2008ء)

لفظ رِیْش کے معانی

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ کے آغاز میں سورۃ الاعراف کی آیت27 کی تلاوت فرمائی اور پھر اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لباس کی زینت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:

’’یہاں لفظ رِیْش استعمال ہوا ہے اس کے معنی ہیں پرندوں کے پَر جنہوں نے انہیں ڈھانک کر خوبصورت بنایا ہوتا ہے۔ وہی پرندہ جو اپنے اوپر پَروں کے ساتھ خوبصورت لگ رہاہوتا ہے اس کے پَر نوچ دیں یا کسی بیماری کی وجہ سے وہ پَر جھڑ جائیں تو وہ پرندہ انتہائی کراہت انگیز لگتا ہے۔

پھر اس کا مطلب لباس بھی ہے اور خوبصورت لباس ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج کل خوبصورت لباس کی تعریف ننگا لباس کی جانے لگ گئی ہے اور اس میں مَردوں کا زیادہ قصور ہے کہ انہوں نے عورت کو اس کی کھلی چھٹی دی ہوئی ہے اور عورتیں بھی اپنی حیا اور تقدّس کو بھول گئی ہیں اور ہماری بعض مسلمان عورتیں بھی اور احمدی بھی اِکّا دُکّا متاثر ہو جاتی ہیں۔ پردے اور حجاب جب اترتے ہیں تو اس کے بعدپھر اگلے قدم ننگے لباسوں میں آ جاتے ہیں۔ پس اپنے تقدّس کو ہر عورت کو قائم رکھنا چاہئے۔ کل ہی مجھ سے ایک نئے احمدی دوست نے سوال کیا کہ اس معاشرے میں جہاں ہم رہ رہے ہیں بہت ساری برائیاں بھی ہیں ننگے لباس بھی ہیں تو ہم کس طرح اپنی بیٹیوں کو معاشرے کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ؟تو مَیں نے انہیں یہی کہا تھا کہ بچپن سے ہی بچوں میں اپنی ذات کا تقدّس پیدا کریں انہیں احساس ہو کہ وہ کون ہیں ؟ خداتعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے؟ اور پھر بڑی عمر سے ہی نہیں بلکہ پانچ چھ سال کی عمر سے ہی انہیں لباس کے بارے میں بتائیں کہ تمہارے ارد گرد معاشرے میں جو چاہے لباس ہو لیکن تمہارے لباس اس لئے دوسروں سے مختلف ہونے چاہئیں کہ تم احمدی ہو اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کو وہی لباس پسند ہے جن سے ننگ ڈھکا ہو۔ ان کے اندر کی نیک فطرت کو ابھاریں کہ انہوں نے ہر کام خداتعالیٰ کی خاطر کرنا ہے۔ تو آہستہ آہستہ بڑے ہونے تک ان کے ذہنوں میں یہ بات پختہ اور راسخ ہو جائے گی۔

اسی طرح رِیْش کا مطلب دولت بھی ہے اور زندگی گزارنے کے وسائل بھی ہیں۔ یہاں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے لئے بھی تقویٰ ضروری ہے، زندگی کی سہولیات حاصل کرنے کے لئے کوئی غلط کام نہیں کرنا، غلط ذریعہ سے دولت نہیں کمانی۔ ناجائز کاروبار نہیں کرنا، حکومت کا ٹیکس چوری نہیں کرنا۔ اس طرح کی دولت سے تم اگر چوری کرتے ہو تو ظاہراًتو شاید عارضی طور پر خوبصورت گھر بنا لو لیکن تقویٰ سے دُور چلے جاؤ گے۔ اس لئے خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری کمزوریوں کو ڈھانکنے کے لئے اور تمہاری زینت کے لئے جو جائز اسباب تمہارے لئے میسر کئے ہیں ان کو استعمال میں لانا ضروری ہے۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھو کہ لباس تقویٰ ہی اصل چیزہے۔ اس کی طرف اگر تمہاری نظر رہے گی تو ظاہری لباس، رکھ رکھاؤ اور زینت کے لئے بھی تم اس طرح عمل کرو گے جس طرح خداتعالیٰ کا حکم ہے اور جس طرح تمہارے باپ آدم نے اپنے آپ کو ڈھانکنے کی کوشش کی تھی جب شیطان نے اسے بہکایا تھا۔ پس آدم کی اولاد کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف، اس کی خشیت اور تقویٰ ہر وقت پیش نظر رہے گا اور استغفار اور توبہ اور دعاؤں سے اس کی حفاظت کی کوشش کرتے رہو گے تو دنیا میں جو بے انتہا لغویات ہیں ان سے بھی بچ کر رہوگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے، چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوٰی قرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے۔ یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کار بند ہو جائے۔ ‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ210)

یعنی گہرے سے گہرے مطلب، باریک مطلب کو تلاش کرے اور پھر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 ؍اکتوبر 2008بمقام مسجد مبارک پیرس، فرانس۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 31؍اکتوبر 2008ء)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاحمدی خواتین کو لِبَاسُ التَّقْوٰی کے بارے میں توجہ مبذول کراتے ہوئےفرماتے ہیں :

’’ بہر حال عورت کی زینت کی بات ہو رہی ہے اور لِبَاسُ التَّقْوٰی کی بات ہورہی تھی کہ زینت جو ہے وہ تقویٰ کے لباس میں ہی ہے۔ یعنی اس کا ہر فعل خداتعالیٰ کے خوف اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہو۔ یہ نہ ہو کہ اپنی نفسانی خواہشات کو ترجیح دیتے ہوئے عمل ہو رہے ہوں۔ پس اگر ہر احمدی عورت اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہی ہوگی اور لِبَاسُ التَّقْوٰی کے لئے اس سے بڑھ کر تردّد کر رہی ہوگی جتنا کہ آپ اپنے ظاہری لباس کے لئے کرتی ہیں تو یہ لباس تقویٰ آپ کی چھوٹی موٹی روحانی اور اخلاقی بُرائیوں کو چھپانے والا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی نظر آپ پر ہوگی۔ اس وجہ سے کہ اللہ کا خوف ہے تقویٰ کو اپنا لباس بنانے کی کوشش کرتی ہیں خدا تعالیٰ کمزوریوں کو دُور کرنے کی بھی توفیق دیتا ہے اور دے گا اور ایمان میں ترقی کرنے کی بھی توفیق دے گا۔ کیونکہ اس توجہ کی وجہ سے جو آپ اپنے آپ کو لِبَاسُ التَّقْوٰی میں سمیٹنے کے لئے کریں گی آپ کو خداتعالیٰ کے آگے جھکنے کے بھی مواقع ملیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے آگے نیک نیتی سے جھکنے والوں کی دعاؤں کو قبول بھی کرتا ہے، ان کو ضائع نہیں کرتا۔ پھر اس سے مزید نیکیوں کی توفیق ملتی چلی جائے گی۔ وہ ایسے جھکنے والوں کی طرف اپنی مغفرت کی چادر پھیلاتا ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر تلے آجائے تو پھر انہیں راستوں پر چلتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے ہیں۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے 30؍جولائی 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍مئی 2007ء)

حیا دار لباس

لجنہ اماء اللہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کے موقع پر سیدناحضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خصوصی پیغام میں احمدی بچیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعثت کامقصد اپنی جماعت کو اسلامی تعلیمات پر قائم کرنا اور ایک مثالی معاشرے کا قیام ہے۔ ہماری بچیاں باقی بچیوں سے منفردنظرآنی چاہئیں۔ ان کی گفتگو سلجھی ہوئی اور پاکیزہ ہونی چاہئے۔ ان کی چال ڈھال، لباس اور حرکات اور سکنات سے اسلامی تعلیمات جھلکتی نظرآنی چاہئیں۔ دس گیارہ سال کی عمر سے ہی انہیں سرڈھانپنے اور پورااور مناسب لباس پہننے کی عادت ڈالیں۔ جو پردے کی عمر کو پہنچ چکی ہیں ان کے پردے کا خیال رکھیں۔ گھروں میں باربارکی نیک نصائح اور اپنے سے چھوٹی بچیوں کے لئے آپ کا نیک نمونہ آئندہ نسلوں کو دینی تعلیمات پر قائم کرتاچلاجائے گا۔ مَیں کئی بار لجنہ کے اجتماعات اور جلسوں کی تقاریرمیں بچیوں کی نیک تربیت کرنے اور پردے کی اہمیت کی طرف توجہ دلاچکاہوں۔ میری یہ نصائح باربار سنیں اور اپنی بچیوں کو بھی سنائیں تاکہ کوئی دنیوی آلائشیں آپ کو دینی تعلیمات سے دورنہ لے جاسکیں۔ ‘‘(پیغام برائے مجلس شوریٰ لجنہ اماءاللہ پاکستان2009ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍جنوری 2010ء)

احساسِ کمتری کے نتیجہ میں بےپردگی کا رحجان بڑھتا ہے اور اسلامی تعلیم پر عمل نہ کرنے سےایمان کے ضائع ہونے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ اس حوالہ سے متنبّہ کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:

’’ ابتدا میں ایک برائی بظاہر بہت چھوٹی سی لگتی ہے یا انسان سمجھتا ہے کہ اس برائی نے اسے یا معاشرے کو کیا نقصان پہنچانا ہے۔ لیکن جب یہ وسیع علاقے میں پھیل جاتی ہے یا بڑی تعداد میں لوگ اسے کرنے لگ جاتے ہیں یا اس برائی سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں یا معاشرے کے ڈر سے اس کو برائی کہنے سے ڈرتے ہیں یا احساس کمتری میں آکر کہ شاید اس کے خلاف اظہار ہمیں معاشرے کی نظر میں گرا نہ دے، وہ خاموش ہو جاتے ہیں یا عمل نہیں کرتے۔ اس معاشرے کی بہت ساری باتیں ہیں جو معاشرے میں آزادی کے نام پر ہوتی ہیں اور حکومتیں بھی اس کو تسلیم کرلیتی ہیں لیکن وہ برائیاں ہیں۔ مثلاً اس معاشرے میں ان لوگوں کی نظر میں بظاہر یہ ایک چھوٹی سی برائی ہے کہ پردہ سے عورت کے حقوق غضب ہوتے ہیں۔ اس معاشرے میں اس پردہ کے خلاف بہت کچھ کہا جاتا ہے اور ان کی نظر میں یہ کوئی برائی نہیں۔ اس لئے اس بارے میں یہ کہتے ہیں کہ شریعت کے حکم کی ضرورت نہیں تھی۔ بعض لڑکیاں احساس کمتری کا شکار ہو کر کہ لوگ کیا کہیں گے یا ان کے دوست اسے پسند نہیں کرتے یا سکول یا کالج میں اسٹوڈنٹ یا ٹیچر بعض دفعہ پردہ کا مذاق اڑا دیتے ہیں تو پردہ کرنے میں ڈھیلی ہو جاتی ہیں۔ شیطان کہتا ہے یہ تو معمولی سی چیز ہے۔ تم کون سا اس حکم کو چھوڑ کر اپنے تقدّس کو ختم کر رہی ہو۔ معاشرے کی باتوں سے بچنےکے لئے اپنے دوپٹے، سکارف، نقاب اتار دو۔ کچھ نہیں ہو گا۔ باقی کام تو تم اسلام کی تعلیم کے مطابق کر ہی رہی ہو۔ لیکن اس وقت پردہ اتارنے والی لڑکی اور عورت کو یہ خیال نہیں رہتا کہ یہ تو ایسا حکم ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے۔ عورت کی حیا اس کا حیادار لباس ہے۔ عورت کا تقدّس اس کے مَردوں سے بلا وجہ کے میل ملاقات سے بچنے میں ہے۔ اس معاشرہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی احمدی لڑکیاں بھی ہیں جو اُن کے پردہ پر مَردوں کی طرف سے اعتراض پر انہیں منہ توڑ کر جواب دیتی ہیں کہ ہمارا فعل ہے۔ ہم جو پسند کرتی ہیں ہم کر رہی ہیں۔ تم ہمیں پردے اتارنے پر مجبور کر کے ہماری آزادی کیوں چھین رہے ہو؟ ہمیں بھی حق ہے کہ اپنے لباس کو اپنے مطابق پہنیں اور اختیار کریں۔ لیکن بعض ایسی بھی ہیں جو باوجود احمدی ہونے کے یہ کہتی ہیں کہ اس معاشرے میں پردہ کرنا اور سکارف لینا بہت مشکل ہے، ہمیں شرم آتی ہے۔ ماں باپ کو بھی بچپن سے لڑکیوں میں یہ باتیں پیدا کرنی چاہئیں کہ شرم تمہیں اسلامی تعلیم پر عمل نہ کر کے آنی چاہئے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو مان کر۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍مئی 2016 ءبمقام مسجد ناصر، گوٹن برگ، سویڈن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون2016ء)

پھر ایک اَور خطبہ جمعہ میں حضورانور نے اسی حوالہ سے ارشاد فرمایا:

’’پس حیا دار لباس اور پردہ ہمارے ایمان کو بچانے کے لئے ضروری ہے۔ اگر ترقی یافتہ ملک آزادی اور ترقی کے نام پر اپنی حیا کو ختم کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دین سے بھی دُور ہٹ چکے ہیں۔ پس ایک احمدی بچی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے اس نے یہ عہد کیا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی۔ ایک احمدی بچے نے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے، ایک احمدی شخص نے، مرد نے، عورت نے مانا ہے، اس نے دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کا عہد کیا ہے اور یہ مقدّم رکھنا اُسی وقت ہوگا جب دین کی تعلیم کے مطابق عمل کریں گے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ؍جنوری2017 بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍فروری 2017ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خاص طور پر احمدی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئےاپنے اور اپنی نسلوں کےایمان کی حفاظت کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی پُردرد نصائح کرتے ہوئے فرمایا:

’’ پس ایک احمدی عورت جس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت اس لئے کی ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کی ناپاکیوں سے بچائے اور انجام بخیر ہو اور انجام بخیر کی طرف قدم بڑھائے، اس کو اس معاشرے میں بہت پھونک پھونک کے قدم رکھنا ہو گا۔ اپنے لباس کا بھی خیال رکھنا ہو گا اور اپنے پردے کا بھی خیال رکھنا ہو گا، اپنی حرکات کا بھی خیال رکھنا ہو گا، اپنی گفتگو کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔ ایک بچی نے مجھے پاکستان سے لکھا کہ اگر مَیں جینز کے ساتھ لمبی قمیص پہن لوں تو کیا حرج ہے۔ اثر ہو رہا ہے نا۔ تو مَیں تو یہ کہتا ہوں کہ جینز کے ساتھ قمیص لمبی پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی برائی نہیں ہے بشرطیکہ پردے کی تمام شرائط پوری ہوتی ہوں۔ لیکن مجھے یہ ڈر ہے، اس کو بھی مَیں نے یہی کہا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد یہ لمبی قمیص پھر چھوٹی قمیص میں اور پھر بلاؤز کی شکل میں نہ آ جائے کہیں۔ تو جو کام فیشن کے طور پر، یا دیکھا دیکھی کیا جاتا ہے ان میں پھر مزید زمانے کے مطابق ڈھلنے کی کوشش بھی شروع ہو جاتی ہے۔ اور پھر اور بھی قباحتیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر جب وقت آتا ہے محسوس ہوتی ہیں۔ اس لئے ان راستوں سے ہمیشہ بچنا چاہئے جہاں شیطان کے حملوں کا خطرہ ہو۔ آپ نے اور آپ کی نسلوں نے ایمان میں ترقی کرنی ہے اس لئے وہی راستے اختیار کریں جو زیادہ سے زیادہ خداتعالیٰ کی طرف لے جا نے والے ہوں۔ اور ذاکرات بننے کی کوشش کریں، عابدات بننے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ4؍ستمبر2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7 ؍جنوری 2005ء)

اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حقیقی نیکی کی پہچان بیان کرتے ہوئے احمدی خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عورت اپنے لباس کو حیا دار نہیں رکھتی۔ باہر نکلتے ہوئے پردے کا خیال نہیں رکھتی۔ باوجود احمدی مسلمان ہونے کے اور کہلانے کے ننگے سر، بغیر حجاب کے، بغیر سکارف کے یا چادر کے پھرتی ہے۔ لباس چُست اور جسم کی نمائش کرنے والا ہے۔ لیکن مالی قربانی کے لئے کہو، کسی چیریٹی میں چندے کے لئے کہو تو کھلا دل ہے، یا جھوٹ سے اُسے نفرت ہے اور برداشت نہیں کرتی کہ اُس کے سامنے کوئی جھوٹ بولے۔ تو اس کے لئے بڑی نیکی چندوں میں بڑھنا یا بڑی نیکی جھوٹ سے نفرت نہیں بلکہ بڑی نیکی قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرناہے کہ اپنے لباس کو حیا دار بناؤ اور پردے کا خیال رکھو۔ جس کو وہ چھوٹی نیکی سمجھ کر توجہ نہیں کر رہی یہی ایک وقت میں پھر اُس کو بڑی برائی کی طرف بھی دھکیل دے گی۔ غرض کہ ہر نیکی اور گناہ کا معیار ہر شخص کی حالت کے مطابق ہے اور مختلف حالتوں میں مختلف لوگوں کے عمل نیکی اور بدی کی تعریف اُس کے لئے بتلا دیتے ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ؍دسمبر 2013 بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 ؍جنوری 2014ء)

عربوں اور ترکوں میں برقع کارواج

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر احمدی خواتین اور بچیوں کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے پردے کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’حضرت مصلح موعودؓ نے مختلف صورتیں بیان کرنے کے بعد فرمایا تھا کہ آج کل عربوں یا ترکوں میں جورواج ہے برقع کا یہ بڑا اچھا ہے۔ لیکن وہی کہ کوٹ کھلا ہونا چاہئے۔ جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت ایسی خواتین کی ہے جو بعض قسم کے کوٹوں کو پسند نہیں کرتیں اور اگر کسی کا دیکھ لیں تو خط لکھتی رہتی ہیں اور بہت سوں نے ایک دفعہ سمجھانے کے بعد اپنی تبدیلیاں بھی کی ہیں۔ لیکن فکر اس لئے پیدا ہو تی ہے جب بعض بچیاں اسکولوں کالجوں میں جھینپ کر یا شرماکر اپنے برقعے اتار دیتی ہیں۔ وہ یاد رکھیں کہ کسی قسم کے کمپلیکس میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنے میں برکت ہے۔ تیسر ی دنیا کے ایسے ممالک افریقہ وغیرہ جو بہت پسماندہ ہیں وہاں تو جوں جوں تعلیم اور تربیت ہو رہی ہے اور لوگ جماعت میں شامل ہور ہے ہیں اپنے لباسوں کو ڈھکا ہو ابنا کر پردے کی طرف آرہے ہیں اور ان خاندانوں کی بعض بچیاں جہاں برقع کا رواج تھا برقع اتار کر اگر جینز، بلاؤز پہننا شروع کر دیں تو انتہائی قابل فکر بات ہے۔ ہم تو دنیا کی تربیت کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں۔ اپنوں میں اسلامی روایات اور احکامات کی پابندی نہ کرنے والوں کو دیکھ کر انتہائی دکھ ہو تا ہے ……۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ حقیقی معنوں میں تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور کبھی ایسی خواہشات کی تکمیل کے لئےجو صرف ذاتی خواہشات ہوں دین میں بگاڑ پیدا کرنے والے نہ ہوں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی عورت اور احمدی بچی کا ایک مقام ہے۔ آپ کو اﷲ اور اس کے رسول نے نیکیوں پر قائم رہنے کے طریق بتائے ہیں۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفصیل سے وہ ہمارے سامنے کھول کر رکھ دئیے ہیں۔ کسی بھی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہوئے بغیر ان راستوں پر چلیں اور ان حکموں پر عمل کریں۔ دنیا کو بتائیں اور کھول کر بتائیں کہ اگر عورتوں کے حقوق کی حفاظت کسی نے کی ہے تو اسلام نے کی ہے۔ معاشرے میں اگر عورت کی عزت قائم کی ہے تو اسلام نے کی ہے۔ تم اے دنیا کی چکاچوند میں پڑے رہنے والو! آج اگر معاشرے کو امن پسند بنانا چاہتے ہو تو اسلام کی تعلیم کواپناؤ۔ آپ کو یہ سبق ان کو دینا چاہئے نہ کہ ان کی باتوں اور کمپلیکس میں آئیں۔ ان کو بتائیں کہ آج اگر اپنی عزتوں کو قائم کرنا ہے تو اسلام کی طرف آؤ۔ آج اگر اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانا ہے تو ہمارے پیچھے چلو۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے31 ؍جولائی 2004مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍ ۱پریل 2015ء)

برقعے حیادار ہونے چاہئیں

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مشرق و مغرب کی مسلمان عورتوں کے مختلف النوع رائج برقعوں کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کی روشنی میں فرمایا:

’’آجکل برقعوں کے بھی عجیب عجیب رواج ہو گئے ہیں۔ بعض لوگ پیٹ تک بٹن بند کرتے ہیں اس کے بعد عجیب کاٹ سے برقعے کھلے ہو جاتے ہیں جس سے لباس کی زینت نظر آ رہی ہوتی ہے۔ ٹیڑھی کاٹ کے برقعے ہوتے ہیں۔ کپڑوں کی نمائش کروا رہی ہوتی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی برقعوں پہ اعتراض ہوتا تھا۔ آپ نے اس وقت بھی فرمایا کہ بعض برقعے ایسے ہیں جو سامنے سے کپڑوں کی نمائش کرتے ہیں نظر آتے ہیں۔ لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ بعض برقعے پیچھے سے تنگ ہیں۔ اُس زمانے میں بھی یہی باتیں تھیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ اعتراض مجھے لوگوں کی طرف سے پہنچ رہے ہیں کہ یا سامنے سے کھلے ہوتے ہیں یا پیچھے سے صحیح نہیں ہوتے تو اس وقت آپ نے لجنہ کو کہا تھا کہ تم لوگ خود اپنے ایسے حیادار برقعے ڈیزائن کرو۔ تم لوگ جانتی ہو کس طرح کرنا ہے کہ جس سے پردہ بھی ہو جائے اور تمہاری سہولت بھی قائم رہے۔ (ماخوذ از مستورات سے خطاب، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 560-561)

پس آج بھی اسی چیز کی ضرورت ہے کہ ایسے برقعے پہنیں جو پردے کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور آپ کو سہولت سے کام کرنے میں روک بھی نہ پڑے۔ اگر اپنے لباس کی زینتوں کو اسی طرح کھلے لباس کر کے دکھائیں گی تو پھر یہ امید نہ رکھیں کہ مَردوں کی نظریں نہیں پڑیں گی۔ مَردوں کی نظریں بھی پھر نیچے سے اوپر تک مکمل جائزہ لیں گی اور اس حوالے سے بعض مسائل بعض جوڑوں میں، بعض گھروں میں، بعض شادی شدہ لوگوں میں، میاں بیوی میں پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ اس لئے مَیں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی نمائش کر کے دنیا کی دوڑ میں شامل ہونے کی بجائے دین کی دوڑ میں شامل ہوں۔ اپنے اور اپنے بچوں کی کل کو سنواریں۔ اس دنیا کو بھی جنت بنائیں اور اگلی دنیا کو بھی جنت بنائیں۔ اور یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ ہر کام میں مقدم ہو۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے29 ؍جولائی 2017ء بمقام آلٹن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20؍اکتوبر 2017ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب فرماتے ہوئے ایک حدیث مبارکہ کی روشنی میں حیادار لباس کے حوالہ سے ارشاد فرمایا:

’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب امور الایمان حدیث 9)

’’پس ایک احمدی عورت کا لباس حیادار ہونا چاہئے۔ اسے اپنے تقدّس کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے۔ آہستہ آہستہ میں نے دیکھا ہے یہاں بھی، باقی ملکوں میں بھی اور پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہےکہ برقع کی جگہ گھٹنے کے اوپر یا زیادہ سے زیادہ گھٹنے تک کوٹ پہنے جاتے ہیں۔ اگر اس کی طرف ابھی توجہ نہ دی تو یہ اور بھی اوپر ہوجائیں گے اور پردے بھی ختم ہو جائیں گے۔ میں نے یوکے(UK) کے جلسے میں بھی کہا تھا کہ برقعوں کا پردہ ایسا ہونا چاہئے جو آگے اور پیچھے دونوں طرف سے عورت کے اعضاء کو ظاہر نہ کرے اور نہ اس کے لباس کی زینت کو ظاہر کرے۔ دونوں طرف سے ڈھکا ہونا چاہئے اور اس کے لئے اگر کوئی پسندیدہ برقع بنانا بھی ہے تو عورتیں سوچیں۔ شعبہ نمائش و دستکاری جو ہے وہ بھی ڈیزائن کر سکتے ہیں۔ لیکن اصل چیز پردہ اور حیا ہے، اس کو قائم رکھنا ہے۔ یہ نہ ہو کہ فیشن شروع ہو جائیں۔ عجیب عجیب کاٹ کی قسم کے برقعے آنے شروع ہو گئے ہیں جیسا کہ میں نے کہا۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ برقعے ہیں یا فیشن کا کوئی شو(show)ہے۔ اس سے ایک احمدی عورت کو بچنا چاہئے۔ بلکہ اب تو میں نے سنا ہے کہ پاکستان میں جو غیر از جماعت عورتیں ہیں ان کے پردے احمدی لڑکیوں اور عورتوں سے زیادہ بہتر ہو گئے ہیں۔ یہ ہمارے لئے قابل شرم ہے۔ بلکہ اب تو یہ بھی ہے کہ بعض اپنے لباس میں بھی حیا کا خیال نہیں رکھتیں۔ پردے تو ایک طرف رہے۔ پس کم از کم لباسوں میں حیا کا خیال رکھ لیں۔ اس طرف ہر احمدی عورت کو توجہ دینی چاہئے۔ جب آپ عہد کرتی ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گی تو پھر اس عہد کو پورا کرنے کے لئے معاشرے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کوشش بھی کرنی ہو گی۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ 26 ؍اگست 2017 بمقام کالسروے، جرمنی۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍نومبر 2017ء)

سوئمنگ کےلباس میں احتیاط

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حیادار لباس کے ضمن میں نصائح فرماتے ہوئے تیراکی(سوئمنگ) کے لباس کے حوالہ سے بھی رہنمائی فرمائی۔ حضورانور نے فرمایا:

’’سوئٹزرلینڈ میں ایک لڑکی نے مقدمہ کیا کہ مَیں لڑکوں کے ساتھ سوئمنگ کرنے میں حجاب محسوس کرتی ہوں مجھے ۱سکول پابند کرتا ہے کہ مِکس سوئمنگ ہو گی۔ مجھے اس کی اجازت دی جائے کہ علیحدہ لڑکیوں کے ساتھ مَیں سوئمنگ کروں۔ ہیومن رائٹس والے جو انسانی حقوق کے بڑے علمبردار بنے پھرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم یہ چاہتی ہو کہ علیحدہ کرو، یہ تمہارا ذاتی حق تو ہے لیکن یہ کوئی ایسا بڑا اِیشو(issue)نہیں ہے جس کے لئے تمہارے حق میں فیصلہ دیا جائے۔ جہاں اسلام کی تعلیم اور عورت کی حیا کا معاملہ آیا تو وہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بہانے بنانے لگ جاتی ہیں۔ پس ایسے حالات میں احمدیوں کو پہلے سے بڑھ کر زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔ اگر اسکولوں میں چھوٹے بچوں کے لئے بعض ملکوں میں سوئمنگ لازمی ہے تو پھر چھوٹے بچے بچیاں پورا لباس پہن کر یعنی جو سوئمنگ کا لباس پورا ہوتا ہے جسے آجکل برقینی(burkini) کہتے ہیں وہ پہن کر سوئمنگ کریں۔ تا کہ ان کو احساس پیدا ہو کہ ہم نے بھی حیادار لباس رکھنا ہے۔ ماں باپ بھی بچوں کو سمجھائیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی علیحدہ سوئمنگ ہونی چاہئے۔ اس کے لئے کوشش بھی کرنی چاہئے۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:

’’پس یہ ہے اسلام کی تعلیم مَردوں کے لئے کہ انہیں پہلے ہر طرح پابند کیا گیا ہے۔ پھر عورتوں کو حکم دیا ہے کہ ان احتیاطوں کے بعد بھی تم نے بھی اپنے پردہ کا خیال رکھنا ہے۔ اور ان ملکوں میں جہاں بالکل ہی بے حیائی ہے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ پردے کی ضرورت نہیں ہے۔ بے حجابی اور دوستیاں بہت سی قباحتیں پیدا کر رہی ہیں ان سے بچنے کی ہمیں بہت کوشش کرنی چاہئے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ اگر عورتوں کو مَردوں کے ساتھ سوئمنگ کی اجازت نہیں ہے تو مَردوں کو بھی نہیں ہے کہ عورتوں میں جا کر سوئمنگ کریں۔ پس یہ پابندیاں صرف عورت کے لئے نہیں بلکہ مَرد کے لئے بھی ہیں۔ مَردوں کو اپنی نظریں عورتوں کو دیکھ کر نیچے کرنے کا حکم دے کر عورت کی عزت قائم کی گئی ہے۔ پس اسلام کا ہر حکم حکمت سے پُر ہے اور برائیوں کے امکانات کو دُور کرتا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ؍جنوری2017 بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 ؍فروری 2017ء)

لڑکیوں کی سوئمنگ(تیراکی) کرنے کے بارہ میں نیشنل مجلس عاملہ لجنہ کی میٹنگ میں ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ نے یوں بھی رہنمائی فرمائی:

’’ صرف مخصوص اوقات میں جب صرف عورتوں کا ٹائم ہو تو ایسے سوئمنگ لباس(swimming suit)میں جوپورا جسم coverکرتاہو تو سوئمنگ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ‘‘(18 ؍ستمبر2010 میٹنگ مجلس عاملہ لجنہ آئرلینڈ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍اکتوبر 2010ء)

مغربی معاشرہ میں احمدی عورت کا لباس

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہر معاشرہ میں اور خصوصاً مغربی ممالک میں رہنے والی احمدی عورتوں کو اُن کےلباس میں حیا کےبنیادی پہلوؤں کو پیش نظر رکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنے ایک تفصیلی خطاب میں ارشاد فرمایا:

’’کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف دنیا کو مرعوب کرنا اور فیشن کرنا ہوتا ہے وہ اس بنیادی مقصد کی طرف کم توجہ دیتے ہیں۔ اس لئے یورپ میں دیکھ لیں کہ اس مقصد کو بھلانے کی وجہ سے کہ ننگ کو ڈھانپنا ہے اس کی بجائے یہاں آپ کوعجیب عجیب قسم کے بے ڈھنگے اور ننگے لباس نظر آتے ہیں۔ اور پھر ان ننگے لباس کے اشتہاروں وغیرہ کی فلم بھی اخباروں میں ٹی وی وغیرہ پر آتی ہے۔ تو بہرحال جن لوگوں میں کچھ شرافت ہے ان کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ اپنے ننگ کو چھپایا جائے اور پھر ٹھیک ہے ظاہری طور پر فیشن بھی تھوڑا بہت کرلیا جائے لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا ایک احمدی عورت کابنیادی مقصد یہی ہے اور یہی ہونا چاہئے کہ ننگ کو ڈھانپا جائے۔ عورت کی یہ فطرت ہے، جس طبقہ میں اور جس سوچ کی بھی ہو، ایک بات یہ ہے کہ اپنے ماحول میں دوسروں سے نمایاں نظر آنے کی خواہش ہوتی ہے۔ احمدی معاشرے میں اس نمایاں ہونے کے اظہار کا اپنا طریق ہے۔ شاید یہاں ایک آدھ مثال کہیں ملتی ہو جہاں حیا کو زینت نہ سمجھا جاتا ہو لیکن عموماً احمدی لڑکی اور احمدی عورت اپنے لباس میں حیا کے پہلو کو مدِ نظر رکھتی ہے۔ جبکہ مغرب میں جیسا کہ میں نے کہا یہاں معاشرے میں حیا کا تصورہی اٹھ گیا ہے اس لئے یہاں ان قوموں میں جو لباس ہے یہ یا تو موسم کی سختی سے بچنے کے لئے پہنتے ہیں یا فیشن کے لئے۔ اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں کو عقل دے اور خدا کا خوف ان میں پیدا ہو۔

بہر حال ہم جب بات کرتے ہیں احمدی معاشرہ کی عورت کی کرتے ہیں۔ لیکن اس معاشرے میں رہنے کی وجہ سے خطرہ ہے کہ کہیں اِکّا دُکّا کوئی احمدی لڑکی ان سے متاثر نہ ہوجائے۔ بہر حال مَیں ذکر کر رہا تھا کہ یہ خطرہ ہے کہ اس معاشرے کا اثر کہیں احمدیوں پر بھی نہ پڑ جائے۔ عموماً اب تک تو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہوا ہے شاید اِکّا دُکّا کوئی مثال ہواس کے علاوہ۔ لیکن یہ جو فکر ہے یہ مجھے اس لئے پیدا ہو رہی ہے کہ اس کی طرف پہلا قدم ہمیں اٹھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کیونکہ اس معاشرے میں آتے ہی جو پردے کی اہمیت ہے وہ نہیں رہی۔ وہ اہمیت پردے کو نہیں دی جاتی جس کا اسلام ہمیں حکم دیتا ہے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ احمدی عورت کو پردے کا خیال از خود رکھنا چاہئے۔ خود اس کے دل میں احساس پیدا ہونا چاہئے کہ ہم نے پردہ کرنا ہے، نہ یہ کہ اسے یاد کروایا جائے۔ احمدی عورت کو تو پردے کے معیار پرایسا قائم ہونا چاہئے کہ اس کا ایک نشان نظر آئے اور یہ پردے کے معیار جو ہیں ہر جگہ ایک ہونے چاہئیں۔ یہ نہیں کہ جلسہ پر یا اجلاسوں پر یا مسجد میں آئیں تو حجاب اور پردے میں ہوں، بازاروں میں پھر رہی ہوں تو بالکل اور شکل نظر آتی ہو۔ احمدی عورت نے اگر پردہ کرنا ہے تو اس لئے کرنا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور معاشرے کی بدنظر سے اپنے آپ کو بچانا ہے اس لئے اپنے معیاروں کو بالکل ایک رکھیں، دوہرے معیار نہ بنائیں یہاں کی پڑھی لکھی لڑکیاں یہاں کی پرورش پانے والی لڑکیاں ان میں ایک خوبی بہرحال ہے کہ ان میں ایک سچائی ہے، صداقت ہے، ان کو اپنا سچائی کا معیار بہر حال قائم رکھنا چاہئے۔ یہاں نوجوان نسل میں ایک خوبی ہے کہ انہیں برداشت نہیں کہ دوہرے معیار ہوں اس لئے اس معاملے میں بھی اپنے اندر یہ خوبی قائم رکھیں کہ دوہرے معیار نہ ہوں۔ اپنے لباس کو ایسا رکھیں جو ایک حیا والا لباس ہو۔ دوسرے جو پردے کی عمر کو پہنچ گئی ہیں وہ اپنے لباس کی خاص طور پر احتیاط کریں اور کوٹ اور حجاب وغیرہ کے ساتھ اور پردے کے ساتھ رہنے کی کوشش کریں۔ غیروں سے پردے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ دیا ہوا ہے۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ خاوندوں کے دوستوں یا بھائیوں کے دوستوں سے اگر وہ گھر میں آجائیں تو پردہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ یا بازار میں جانا ہے تو پردہ چھوڑنے کی اجازت ہے یا تفریح کے لئے پھرنا ہے تو پردہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ حیادار لباس بہرحال ہونا چاہئے اور جو پردے کی عمر میں ہے ان کو ایسا لباس پہنناچاہئے جس سے احمدی عورت پر یہ انگلی نہ اٹھے کہ یہ بے پردہ عورت ہے۔ کام پر اگر مجبوری ہے تو تب بھی پورا ڈھکا ہوا لباس ہونا چاہئے اور حجاب ہونا چاہئے۔ تو پردہ جس طرح جماعتی فنکشن پر ہونا ضروری ہے عام زندگی میں بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے 30 ؍جولائی 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11مئی؍2007ء)

سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پر احمدی خواتین سے خطاب فرماتے ہوئے اسلامی تاریخ کی روشنی میں باحیا اور باپردہ مسلمان خواتین کے حوالہ سے احمدی خواتین کو باپردہ زندگی گزارنے کی پُرحکمت نصائح کرتے ہوئےفرمایا:

’’پردے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عورت بند ہو جائے۔ آنحضرتﷺ کے زمانے میں عورتیں جنگوں میں بھی جایا کرتی تھیں۔ پانی وغیرہ پلایا کرتی تھیں۔ دوسرے کاموں میں بھی شامل ہوتی تھیں۔ پھر آنحضرتﷺ کی سیرت اور اسلام کے بہت سے احکام کی وضاحت اور تشریح ہمیں حضرت عائشہؓ کے ذریعہ سے ملی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے آدھا دین سکھایا ہے۔ اس لئے روشن خیالی، تعلیم حاصل کرنا، علم حاصل کرنا بھی بچیوں کے لئے ضروری ہے۔ اور ضرور کرنا چاہئے۔ نہ صرف اپنے لئے ضروری ہے بلکہ آئندہ ان بچوں کے لئے اور ان نسلوں کے لئے بھی ضروری ہے جو آپ کی گودوں میں پلنے اور بڑھنے اور جوان ہونے ہیں اور جنہوں نے احمدیت کی خدمت کرنی ہے۔

اگر مجبوری سے کسی کو کام کرنا پڑتا ہے، کسی جگہ ملازمت کرنی پڑتی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ان باتوں کا بہانہ بنا کر، ان ملازمتوں کا، نوکریوں کا یا تعلیم حاصل کرنے کا بہانہ بنا کر پردے نہیں اترنے چاہئیں۔ اور یہاں مقامی جیسے کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے ڈینش یا سویڈش شاید چند نارویجن بھی ہوں۔ مجھے ابھی کوئی ملی نہیں، وہ تو کم ہیں۔ اس طرح پاکستانی خواتین بھی ہیں جو پڑھتی بھی ہیں، کام بھی کرتی ہیں، لیکن پردے میں۔ تو جو پردے کی وجہ سے کام یا پڑھائی میں روک کا بہانہ کرتی ہیں ان کے صرف بہانے ہیں۔ نیک نیت ہو کر اگر کہیں اس وجہ سے روک بھی ہے تو اس کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ آپ جہاں ملازمت کرتی ہیں ان کو بتائیں تو کوئی پابندی نہیں لگاتا کہ حجاب اتارو یا سکارف اتارو یا برقع اتارو۔ اور پھر نیک نیتی سے کی گئی کوششوں میں اللہ تعالیٰ بھی مدد فرماتا ہے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ سویڈن17؍ستمبر 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15مئی؍2015ء)

جلسہ سالانہ کے موقع پر پردہ کا خیال رکھیں

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حدیقۃالمہدی یوکے میں ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر پردے کا خصوصی اہتمام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:

’’پھر خواتین گھومنے پھرنے کی بھی زیادہ شوقین ہوتی ہیں اس لیے وہ زیادہ احتیاط کریں۔ نہ اپنے علاقہ میں، نہ باہر پھریں۔ اگر اس علاقہ کو دیکھنے کی خواہش ہے، نیا علاقہ ہے، نئی جگہ ہے، بڑا وسیع رقبہ ہے، سیر کرنے اور پھرنے کو دل چاہتا ہے تو جلسہ کی کارروائی کے بعد جو وقت ہے اس میں بیشک پھریں، جلسے کے دوران نہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ اس دوران بھی جب باہر نکلیں تو پردے کا ضرور خیال رکھیں۔ سوائے اس کے جو احمدی نہیں، جو کسی احمدی کے ساتھ آئی غیراحمدی خواتین ہیں، ان کا تو پردہ نہیں ہوتا۔ احمدی خواتین بہرحال پردے کا خیال رکھیں۔ ان لوگوں کو میں نے بھی دیکھا ہے، غیروں کو بھی اگر اپنے ساتھ لانے والیاں اپنی روایت کے متعلق بتائیں تو وہ ضرور لحاظ رکھتی ہیں۔ اکثرمیں نے دیکھا ہے ہمارے فنکشنز میں سکارف، دوپٹہ یاشال وغیرہ اوڑھ کرآتی ہیں۔ تو یہ ان غیروں کی بھی بڑی خوبی ہے۔ صرف ان کو تھوڑاسا بتانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن بہرحال جیسا کہ میں نے کہا ہے احمدی خواتین بہرحال جب باہر نکلتی ہیں تو پردے میں ہونی چاہئیں اور اگر کسی وجہ سے پردہ نہیں کرسکتیں تو پھر ایسی خواتین میک اَپ وغیرہ بھی نہ کریں۔ سر بہرحال ڈھانپا ہونا چاہئے کیونکہ یہ خالص دینی ماحول ہے، اس میں حتی الوسع یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ان تمام باتوں پر عمل کریں جس کا ہم سے دین تقاضا کرتا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 28 ؍جولائی 2006 ء بمقام حدیقۃالمہدی۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18؍اگست2006ء)