پردہ
پردے کا شرعی حکم
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک خطبہ جمعہ میں پردہ کے قرآنی حکم کی تشریح، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں کرتے ہوئے، پردہ کے وسیع مفہوم کو بیان فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ نے تشہد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃالنور کی درج ذیل آیات کی تلاوت کے بعد ان آیات کریمہ کا ترجمہ اور تشریح بیان فرمائی:
قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ۔وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔ (النور 31-32:)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ:
’’ مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقیناً اللہ، جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے ازخود ظاہر ہو۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مَردوں کے لئے یا مَردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی(جنسی) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں۔ اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ(لوگوں پر) وہ ظاہر کردیا جائے جو(عورتیں عموماً) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں۔ اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ ‘‘
آج کی ان آیات سے جو مَیں نے تلاوت کی ہیں، سب کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کس چیز کے بارہ میں مَیں بیان کرنا چاہتاہوں۔ اس مضمون کو خلاصۃًدو تین مرتبہ پہلے بھی مختلف اوقات میں بیان کر چکاہوں۔ لیکن مَیں سمجھتاہوں کہ اس مضمون کو کھولنے کی مزید ضرورت ہے۔ کیونکہ بعض خطوط سے اندازہ ہوتاہے کہ ابھی بہت سے ایسے ہیں جو اس حکم کی اہمیت کو یعنی پردے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ کوئی کہہ دیتاہے کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے کیا صرف پردہ ہی ضروری ہے؟۔ کیااسلام کی ترقی کا انحصار صرف پردہ پر ہی ہے؟کئی لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ فرسودہ باتیں ہیں، پرانی باتیں ہیں۔ اور ان میں نہیں پڑنا چاہئے، زمانے کے ساتھ چلنا چاہئے۔ گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت معمولی ہے لیکن زمانے کی رَو میں بہنے کے خوف سے دل میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور اس معمولی چیز کو بھی معمولی نہیں سمجھناچاہئے۔
ایسے لوگوں کو میراایک جواب یہ ہے کہ جس کا م کوکرنے یا نہ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور اس کامل اور مکمل کتاب میں اس بارہ میں احکام آگئے ہیں اور جن اوامر و نواہی کے بارہ میں آنحضرتﷺ ہمیں بتا چکے ہیں کہ یہ صحیح اسلامی تعلیم ہے تو اب اسلام اور احمدیت کی ترقی اسی کے ساتھ وابستہ ہے۔ چاہے اسے چھوٹی سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ اور یہ آخری شرعی کتاب جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پراتاری ہے اس کی تعلیم کبھی فرسودہ اور پرانی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے جن کے دلوں میں ایسے خیالات آتے ہیں وہ اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور استغفار کریں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری 2004 ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)
مَردوں اور عورتوں کوغَضِّ بصر سے کام لینے کا حکم
غَضِّ بصر کا حکم مومن مَردوں اور عورتوں کے لئے یکساں ہے۔ چنانچہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’سب سے پہلے تو مَردوں کو حکم ہے کہ غَضِّ بصرسے کام لیں۔ یعنی اپنی آنکھ کو اس چیزکو دیکھنے سے روکے رکھیں جس کا دیکھنا منع ہے۔ یعنی بلا وجہ نامحرم عورتوں کو نہ دیکھیں۔ جب بھی نظر اٹھاکر پھریں گے تو پھر تجسس میں آنکھیں پیچھا کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے قرآن شریف کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کے چلو۔ اسی بیماری سے بچنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ نیم وا آنکھوں سے چلو۔ یعنی اَدھ کُھلی آنکھوں سے، راستوں پرپوری آنکھیں پھاڑ کر نہ چلو۔ بند بھی نہ ہوں کہ ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے پھرو۔ لیکن اتنی کھلی ہوں کہ کسی بھی قسم کا تجسس ظاہر نہ ہوتاہو کہ جس چیز پرایک دفعہ نظر پڑ جائے پھر اس کو دیکھتے ہی چلے جاناہے۔ نظرکس طرح ڈالنی چاہئے اس کی آگے حدیث سے وضاحت کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے علامہ طبری کا جو بیان ہے وہ پیش کرتاہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ:
’’غَضِّ بصر سے مراد اپنی نظر کو ہر اس چیز سے روکناہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔ ‘‘(تفسیرالطبری جلد 18 صفحہ 116۔ 117)
تومَردوں کے لئے تو پہلے ہی حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ اور اگر مرد اپنی نظریں نیچی رکھیں گے توبہت سی برائیوں کا تو یہیں خاتمہ ہوجاتاہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہر ایک پرہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھناچاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابانظر اُٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدّنی زندگی میں غَضِّ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خُلق کے رنگ میں آجائے گی۔ ‘‘(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ 102۔ 103 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد سوم صفحہ 444)
پھر مومن عورتوں کے لئے حکم ہے کہ غَضِّ بصرسے کام لیں اور آنکھیں نیچی رکھاکریں۔ اگر عورت اونچی نظر کرکے چلے گی تو ایسے مرد جن کے د لوں پر شیطان نے قبضہ کیا ہوا ہے وہ تو پھر ان عورتوں کے لئے مشکلات ہی پیدا کرتے رہیں گے۔ توہرعورت کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو بدنامی سے بچانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے غَضِّ بصر کا، اس پر عمل کریں تاکہ کسی بھی قسم کی بدنامی کا باعث نہ ہوں۔ کیونکہ اس قسم کے مرد جن کے دلوں میں کجی ہو، شرارت ہو تو وہ بعض دفعہ ذراسی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں اور پھر بلاوجہ کے تبصرے شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے آنحضرتﷺ نے اپنی بیویوں کو یہاں تک فرمایا تھا کہ اگر مخنّث آئے تو اس سے بھی پردہ کرو۔ ہوسکتاہے کہ یہ باہر جا کر دوسرے مَردوں سے باتیں کریں اور اس طرح اشاعتِ فحش کا موجب ہو۔
تو دیکھیں آنحضرتﷺ نے کس حد تک پابندی لگائی ہے۔ کجا یہ کہ جوان مرد جن کے دل میں کیا کچھ ہے ہمیں نہیں پتہ، ان سے نظر میں نظر ڈال کر بات کی جائے یادیکھا جائے۔ بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ کسی مجبوری کی وجہ سے کسی مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ایسا لہجہ ہونا چاہئے جس میں تھوڑی سی خفگی ہو، ترشی ہو تاکہ مرد کے دل میں کبھی کوئی برا خیال نہ پیداہو۔ تو اس حد تک سختی کا حکم ہے۔ ‘‘
پھر حضور انور نے خطبہ جمعہ جاری رکھتے ہوئے چند احادیث مبارکہ بھی پیش فرمائیں۔ حضورانور نے مزید فرمایا:
’’ابو ریحانہؓ روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک غزوہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ ایک رات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بیدار رہی اور آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے آنسو بہاتی ہے‘‘۔ پھر اس روایت میں یہ بھی ہے کہ آگ اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے۔ اور اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ عزّ و جل کی راہ میں پھوڑ دی گئی ہو۔ (سنن دارمی، کتاب الجہاد، باب فی الذی یسھر فی سبیل اللہ حارساً)
تو دیکھیں غَضِّ بصر کا کتنا بڑا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں اور اس کی راہ میں جہاد کرنے والوں، شہید ہونے والوں یا دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والی آنکھ کارتبہ ایسے لوگوں کوحاصل ہو رہاہے۔ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے، ہمیشہ عبادت بجالانے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے۔
حضرت ابوسعید خُدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا : راستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو۔ صحابہؓ نے عرض کی، یا رسول اللہ ہمیں رستوں میں مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر رستے کا حق ادا کرو۔ انہوں نے عرض کی کہ اس کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہر آنے جانے والے کے سلام کا جواب دو، غَضِّ بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی رہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور ناپسندیدہ باتوں سے روکو۔ (مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ61 مطبوعہ بیروت)
دیکھیں کس قدر تاکید ہے کہ اول اگر کام نہیں ہے تو کوئی بلاوجہ راستے میں نہ بیٹھے اور اگر مجبوری کی وجہ سے بیٹھنا ہی پڑے تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ بلاوجہ نظریں اٹھا کے نہ بیٹھے رہوبلکہ غَضِّ بصر سے کام لو، اپنی نظروں کو نیچا رکھو، کیونکہ یہ نہیں کہ ایک دفعہ نظر پڑ گئی تو پھر ایک سرے سے دیکھنا شروع کیا اور دیکھتے ہی چلے گئے۔
اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں آنحضرتﷺ کے پاس تھی اور میمونہؓ بھی ساتھ تھیں۔ توابن ام مکتومؓ آئے یہ پردہ کے حکم کے نزول سے بعد کی بات ہے۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس سے پردہ کرو۔ ہم نے عرض کی یارسول اللہ کیا وہ نابینا نہیں ؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی پہچان سکتا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو۔ اور تم اس کو دیکھ نہیں رہیں۔ (ترمذی کتاب الأدب عن رسول اللہ باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال)
دیکھیں کس قدرپابندی ہے پردہ کی کہ غَضِّ بصر کا حکم مَردوں کو تو ہے، ساتھ ہی عورتوں کے لئے بھی ہے کہ تم نے کسی دوسرے مرد کو بلاوجہ نہیں دیکھنا۔
حضرت جریر ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے ’’اچانک نظر پڑ جانے‘‘ کے بارہ میں دریافت کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’اِصْرِفْ بَصَرَکَ‘‘ اپنی نگاہ ہٹا لو۔ (ابو داؤد کتاب النکاح باب فی ما یؤمر بہ من غض البصر)
تو دیکھیں اسلامی پردہ کی خوبیاں۔ نظر پڑ جاتی ہے ٹھیک ہے، قدرتی بات ہے۔ ایک طرف تو یہ فرما دیا عورت کو کہ تمہیں باہر نکلنے کی اجازت اس صورت میں ہے کہ پردہ کرکے باہر نکلو۔ اور جو ظاہری نظر آنے والی چیزیں ہیں، خود ظاہرہونے والی ہیں ان کے علاوہ زینت ظاہر نہ کرو۔ اوردوسری طرف مَردوں کو یہ کہہ دیا کہ اپنی نظریں نیچی رکھو، بازار میں بیٹھو تو نظرنیچی رکھو اور اگر پڑ جائے تو فوراً نظر ہٹا لو تاکہ نیک معاشرے کا قیام عمل میں آتا رہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ فضل(بن عباس) رسول اللہﷺ کے پیچھے سوار تھے تو خَثْعَمْ قبیلہ کی ایک عورت آئی۔ فضل اسے دیکھنے لگ پڑے اور وہ فضل کو دیکھنے لگ گئی۔ تواس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا چہرہ دوسری طرف موڑدیا۔ (بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج و فضلہ)
حضرت ابو امامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کی کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ پڑتی ہے اور وہ غَضِّ بصر کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتا ہے جس کی حلاوت وہ محسوس کرتا ہے۔ (مسند أحمد مسند باقی الانصار باب حدیث أبی أمامۃ الباھلی الصدی بن عجلان)
تودیکھیں نظریں اس لئے نیچی کرنا کہ شیطان اس پر کہیں قبضہ نہ کرلے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کو نیکیوں کی توفیق دیتاہے اور عبادات کی توفیق دیتاہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفس ِانسانی پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچا رہے۔ کیونکہ ابتداء میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھانے پر۔ یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے…یہ ہے سِرّ اسلامی پردہ کا اور میں نے خصوصیت سے اسے ان مسلمانوں کے لئے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام اور حقیقت کی خبر نہیں۔ ‘‘(البدر جلد 3نمبر 33مورخہ 8ستمبر 1904ء صفحہ6 سے7 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ443)
پھر فرماتے ہیں :
’’ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مَردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پرشہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہوکر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں۔ یہ وہ تدبیر ہے کہ جس سے پابندی ٹھوکر سے بچاسکتی ہے۔ ‘‘(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ100 سے101 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ444)
پھرفرمایا:
’’مومن کو نہیں چاہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہرطرف اٹھائے پھرے، بلکہ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ۔ (النور:31) پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہئے اور بد نظری کے اسباب سے بچنا چاہئے۔ ‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ533 مطبوعہ ربوہ)(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری2004ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)
شرائط بیعت کے حوالہ سے ارشاد فرمودہ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسری شرطِ بیعت کے ضمن میں اخلاقی برائیوں سے بچنے کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاکیزہ ارشادات کی روشنی میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’دوسری شرط میں بہت ساری باتیں شامل ہیں۔ (فرمایا کہ) زنا کے قریب مت جاؤیعنی ایسی تقریبوں سے دُور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو۔ اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو۔ جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے‘‘۔ (آج کل جو ٹی وی پروگرام ہیں، بعض چینلز ہیں، بعض انٹر نیٹ پر آتے ہیں یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو ان برائیوں کی طرف لے جانے والی ہیں۔ نظر کا بھی ایک زنا ہے، اُس سے بھی بچنا چاہئے۔ ہرایسی چیز جو برائیوں کی طرف لے جانے والی ہےفرمایاکہ اُس سے بچو)’’زنا کی راہ بہت بُری ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کے لئے سخت خطرناک ہے۔ ‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ 342)(تمہاری منزل مقصودکیا ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ کی رضااور یہی آخری منزل ہے اور اس کے رستے میں یہ چیز روک بنتی ہے)۔ پھر اسی دوسری شرط کی جو دوسری باتیں ہیں، اُس میں مثلاً بدنظری ہے، اُس کے بارہ میں فرمایا : ’’قرآنِ شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدّنظر رکھ کر حسبِ حال تعلیم دیتا ہے، کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۔ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ(النور:31) کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔ یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا۔ فروج سے مراد صرف شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور ان میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے۔ پھر یاد رکھو کہ ہزار درہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اﷲتعالیٰ روکتا ہے آخرکار انسان کواُن سےرُکناہی پڑتاہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ 105۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پھر آپؑ مزید فرماتے ہیں :
’’اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مَردوں کے واسطے لازم کئے ہیں۔ پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے، مَردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے غَضِّ بصر کا۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج، حلال و حرام کا امتیاز، خداتعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں اپنی عادات، رسم و رواج کو ترک کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی پابندیاں ہیں جن سے اسلام کا دروازہ نہایت ہی تنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک شخص اس دروازے میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ‘‘(ملفوظات جلد 5صفحہ 614۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)(خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ؍مارچ 2012 ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍اپریل 2012ء)
مرد اپنی آنکھیں پاکیزہ رکھیں
حضور انورایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کے حوالہ سے مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے اجتماع میں پاکدامنی کے وصف کو اپنانے کے لئے جو اہم نصائح فرمائیں اُن میں فرمایا:
’’سورۃالمومنون آیت6 میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی ایک اور خوبی کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ۔ (المومنون: 6)
ترجمہ : اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اپنی عفّت وحیا کو قائم رکھنا صرف ایک عورت ہی کا کام نہیں ہےبلکہ مَردوں پر بھی فرض ہے۔ اپنی عفّت کی حفاظت کرنے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ ایک شخص شادی شدہ زندگی سے باہر ناجائز جنسی تعلقات سے بچتا رہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے ہمیں اس کا یہ مطلب سکھایا ہے کہ ایک مومن ہمیشہ اپنی آنکھیں اور اپنے کان ہر اُس چیز سےپاک رکھے جو نامناسب ہے اور اخلاقی طور پر بُری ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے ایک چیز جو انتہائی بیہودہ ہے وہ پورنوگرافی(pornography)ہے۔ اسے دیکھنا اپنی آنکھوں اور کانوں کی عفّت اور پاکیزگی کو کھو دینے کے مترادف ہے۔ یہ بات بھی پاکبازی اور حیا سے متعلق اسلامی تعلیمات کے منافی ہےکہ لڑکوں اور لڑکیوں کا آزادانہ طور پر آپس میں میل جول ہو اور ان میں باہم تعلقات اور نامناسب دوستیاں ہوں۔ ہم احمدی عورتوں کو کہتے ہیں کہ انہیں پردہ کرنا چاہئے۔ اور مَیں بھی احمدی عورتوں کو یہی کہتا ہوں کہ وہ پردہ کریں اور اپنی عفّت و پاکیزگی کی حفاظت کریں۔ لیکن یہ بات یاد رہےکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو پردہ کرنےکا حکم دینے سے پہلے مومن مَردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ غَضِّ بصر سے کام لیتے ہوئے اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنے دل ودماغ کو ناپاک خیالات اور برے ارادوں سے پاک رکھیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر سورۃ النور آیت31 میں فرمایا ہے:(قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ) مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقیناً اللہ، جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ جبکہ مَردوں کو ظاہری طور پر اس طرح پردہ کا حکم نہیں ہے جس طرح عورتوں کو ہےقرآن مجید واضح طور پر اس بات کاحکم دیتا ہےکہ مرد اپنی آنکھیں پاکیزہ رکھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کی طرف شہوت کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور اپنے دماغوں کو صاف رکھیں اور ہر ایسی بات سے دور رکھیں جن سے انسان برائی کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔
یہ وہ پردہ ہے جس کا مَردوں کو حکم ہےاور جس سےمعاشرہ برائی و بے حیائی اور خطرات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اسلام کی بیان فرمودہ کوئی بھی تعلیم سطحی اور بغیر حکمت کے نہیں۔ بلکہ اسلام کا ہر اصو ل انتہائی پُر حکمت اور مضبوط بنیادوں پر مشتمل ہے۔ چنانچہ مَردوں کےغَضِّ بصر سے کام لینے کے حکم سے اسلام ہمیں دراصل اپنے نفس پر قابو رکھنا سکھاتا ہے۔ کیونکہ عموماً نظر سے ہی مَردوں کے جذبات اور خواہشات ابھرتے ہیں۔ معاشرہ کو نامناسب باتوں اور برائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلام نے مَردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نظروں کو مخالف جنس کے سامنے جھکا کر رکھیں، یا ہر ایسی چیز سے اپنی نظروں کو بچا کر رکھیں جن سے ناجائز طور پر شہوانی خیالات پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ یاد رکھیں ! پاکبازی ایک خادم کالازمی اخلاقی وصف ہے اس لئے آپ کوہر ایسی چیز سے دُور رہنا ہے جو اسلام کی حیا سے متعلق تعلیمات کے منافی ہے۔ اگر آپ اس کام میں کامیاب ہوجائیں تو آپ حقیقت میں روحانی ترقیات حاصل کرسکتےہیں۔ ‘‘(خطاب برموقع نیشنل اجتماع خدام الاحمدیہ یوکے26؍ستمبر2016کنگزلے۔ مطبوعہ بدر قادیان 7؍ستمبر2017ء)
عورت اور مرد کی پاکدامنی
اسلام کی پاکدامنی کی پاکیزہ تعلیم کے حوالہ سے حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو تفصیلی نصائح کرتے ہوئے فرمایا:
’’اب یہ جو غَضِّ بصر کاحکم ہے، پردے کاحکم ہے اور توبہ کرنے کا بھی حکم ہے، یہ سب احکام ہمارے فائدے کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنا پیار، اپنا قرب عطا فرمائے گا کہ اس کے احکامات پر عمل کیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اس معاشرے میں، اس دنیا میں جہاں تم رہ رہے ہو، ان نیکیوں کی وجہ سے تمہاری پاکدامنی بھی ثابت ہو رہی ہوگی اور کوئی انگلی تم پریہ اشارہ کرتے ہوئے نہیں اٹھے گی کہ دیکھو یہ عورت یا مرد اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہے، ان سے بچ کر رہو۔ اور یہ کہتے پھریں لوگ کہ خود بھی بچو اور اپنے بچوں کو بھی ان سے بچاؤ۔ نہیں بلکہ ہرجگہ اس نیکی کی وجہ سے ہمیں عزت کا مقام ملے گا۔ دیکھیں جب ھرقل بادشاہ نے ابوسفیان سے آنحضرتﷺ کی تعلیم کے بارہ میں پوچھا کہ کیا ان کی تعلیم ہے اور کیا ان کے عمل ہیں۔ تو باوجود دشمنی کے ابوسفیان نے اور بہت ساری باتوں کے علاوہ یہی جواب دیاکہ وہ پاکدامنی کی تعلیم دیتے ہیں۔ توھرقل نے اس کو جواب دیا کہ یہی ایک نبی کی صفت ہے۔
پھرمحمد بن سیرین سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے درج ذیل امور کی وصیت کی پھر ایک لمبی روایت بیان کی جس میں سے ایک وصیت یہ ہےکہ عفّت(یعنی پاکدامنی) اور سچائی، زنا اور کذب بیانی کے مقابلہ میں بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ (سنن دارقطنی، کتاب الوصایا، باب مایستحب بالوصیۃ من التشھدوالکلام)
تو پاکدامنی ایسی چیز ہے جوہمیشہ رہنے والی ہے اور جس میں ہو، اُس کا طرّہ ٔامتیاز ہوگی اور ہمیشہ ہر انگلی اس پر اس کی نیکی کی طرف اشارہ کرتےہوئےاٹھےگی۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہوسکتی ہیں ‘‘۔ (اب اس میں ایسی عورتیں بھی ہیں جو پردہ میں نہیں ہوتیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو عورت پردے میں نہیں ہے اس کو دیکھنے کی اجازت ہے بلکہ ان کو بھی دیکھنے سے بچیں )۔ ’’ اور ایسے موقعوں پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں۔ ایسا ہی کانوں کو نامحرموں سے بچاویں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنے، ان کے حسن کے قصے نہ سنے۔ یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے۔ ‘‘(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ100۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلدسوم صفحہ440)
اب تو گانے وغیرہ سے بڑھ کر بیہودہ فلموں تک نوبت آ گئی ہے۔ اس بارے میں عورتوں اور مَردوں دونوں کو یکساں احتیاط کی ضرورت ہے، دونوں کواحتیاط کرنی چاہئے۔ دکانیں کھلی ہوئی ہیں، جاکے ویڈیو کیسٹ لے آئیں یا سیڈیز لے آئیں، اور پھر انتہائی بیہودہ اور لچر قسم کی فلمیں اور ڈرامے ان میں ہوتے ہیں۔ جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس بارہ میں نظررکھنی چاہئے اور اس کے نتائج سے لوگوں کو، بچوں کو آگاہ کرتے رہنا چاہئے، سمجھانا چاہئے۔ کیونکہ اس کا نتیجہ یہی نکلتاہے کہ یہ چیزیں بالآخر غلط راستوں پر لے جاتی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
خداتعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفّت کے حاصل کرنے کے لئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لئے پانچ علاج بھی بتلادئیے ہیں۔ یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا، کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا، نامحرموں کے قصے نہ سننا، اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بدفعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا۔ اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ۔
اس جگہ ہم بڑے دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذباتِ شہوت محل اور موقع پاکر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس لئے خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں۔ اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے۔ اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے، تا ٹھوکر نہ کھاویں۔ کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے۔ ‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد10 صفحہ343-344)
…پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گندے گناہوں سے ملوث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتاہے اور مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرأت سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کر سکتا اور اپنی پاک دامنی کا ثبوت نہیں دے سکتا۔ دنیوی معاملات میں ہی غور کر کے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذرا سی بھی خدا نے خوش حیثیتی عطا کی ہو اور اس کے حاسد نہ ہوں۔ ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرورہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں۔ یہی حال دینی امور کا ہے۔ شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ اپناحساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے۔ خدا کو راضی کرے پھر کسی سے خوف نہ کھائے او ر نہ کسی کی پروا کرے۔ ایسے معاملات سے پرہیز کرے جن سے خود ہی مورد عذاب ہو جاوے مگر یہ سب کچھ بھی تائید غیبی اور توفیق الٰہی کے سوا نہیں ہو سکتا۔ صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل شامل حال نہ ہو۔ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(النساء:29) انسان ناتواں ہے۔ غلطیوں سے پُر ہے۔ مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیدات غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنا دے۔ ‘‘(ملفوظات جلد پنجم، طبع جدید صفحہ 543، ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری 2004 بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)
فروج سے مراد اور اس کی حفاظت
قرآن کریم میں مومنوں کو اپنے فروج کی حفاظت کرنے کی خاص تعلیم دی گئی ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اِس اسلامی تعلیم کی پُرلطف تشریح بیان کرتے ہوئے احمدی خواتین کو خصوصیت سے چند نصائح فرمائیں۔ حضورانور نے فرمایا:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’قرآن شریف نے جوکہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدِنظر رکھ کر حسبِ حال تعلیم دیتاہے کیا عمدہ مسلک اختیارکیا ہے۔قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ (النور31:) کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔ یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا۔ ‘‘
فرمایا کہ:
’’ فروج سے مراد شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور ان میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سُنا جاوے۔ پھر یاد رکھو کہ ہزار در ہزار تجارب سے یہ بات شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے۔ …… اس لئے ضروری ہے کہ مرد اور عورت کے تعلقات میں حد درجہ کی آزادی وغیرہ کو ہرگز نہ دخل دیا جاوے۔ ‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ106-104 جدید ایڈیشن)(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 25 ؍جون 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍ مارچ 2007ء)
احمدی خواتین کے ایک اَور اجتماع کے موقع پر بھی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئےسیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالے سے گرانقدر نصائح فرمائیں۔ حضورانور نے فرمایا:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ(النور:31) یعنی مومنوں کو کہہ دے کہ کسی کے ستر کو آنکھ پھاڑ کر نہ دیکھیں اور باقی تمام فروج کی بھی حفاظت کریں۔ یعنی انسان پر لازم ہے کہ چشم خوابیدہ ہو‘‘ یعنی کہ پوری آنکھ نہ کھولے۔ بلکہ جھکی ہوئی نظر ہو ’’تاکہ کسی غیرمحرم عورت کو دیکھ کر فتنہ میں نہ پڑے۔ کان بھی فروج میں داخل ہیں جو قصص اور فحش باتیں سن کر فتنہ میں پڑجاتے ہیں ‘‘ یعنی کہ کان جو ہیں یہ بھی فروج میں داخل ہیں۔ جو قصے سن کر باتیں سن کر پھرفتنے میں پڑجاتے ہیں۔ کیونکہ جھگڑے کی باتیں جو ساری سنی جاتی ہیں جس طرح کہ پہلے مَیں نے کہا کہ کوئی بات اس سے سنی اور پھر جاکر لڑنے پہنچ گئے۔ تو یہ بھی اسی زمرہ میں آتا ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے عام طور پر فرمایا کہ ’’تمام موریوں (سوراخوں ) کو محفوظ رکھو اور فضولیات سے بالکل بند رکھو۔ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ(النور:31) یہ مومنوں لئے بہت ہی بہتر ہے اور یہ طریقِ تعلیم ایسی اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی اپنے اندر رکھتا ہے جس کے ہوتے ہوئے بدکاروں میں نہ ہوگے۔ ‘‘(ملفوظات جلد نمبر 1صفحہ55۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)(خطاب برموقع نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے19 ؍اکتوبر2003ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍اپریل 2015ء)
اسی حوالہ سے ایک اَور موقع پر حضور انور نے فرمایا:
’’ تو یہ جو فروج کی حفاظت کا حکم ہے اس کے لئے بھی پردہ انتہائی ضروری ہے اس لئے اس خدائی حکم کو بھی کوئی معمولی حکم نہ سمجھیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ پردے کے خلاف جو لوگ بولتے ہیں وہ پہلے مَردوں کی اصلاح تو کر لیں پھر اس بات کو چھیڑیں کہ آیا پردہ ضروری ہے یا نہیں۔ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ 21 ؍اگست 2004ءبمقام منہائم، جرمنی۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2015ء)