پردہ
چہرے کا پردہ کیوں ضروری ہے؟
پردے اور خصوصاً چہرے کے پردہ کے حوالہ سے ہمارے معاشرہ میں مختلف آراء ظاہر کی جاتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ’’چہرے کا پردہ کیوں ضروری ہے ‘‘ ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
’’زینت ظاہر نہ کرو۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جیسا کہ عورتوں کوحکم ہے میک اَپ وغیرہ کرکے باہر نہ پھریں۔ باقی قد کاٹھ، ہاتھ پیر، چلنا پھرنا، جب باہر نکلیں گے تو نظر آ ہی جائے گا۔ یہ زینت کے زمرے میں اس طرح نہیں آتے کیونکہ اسلام نے عورتوں کے لئےا س طرح کی قید نہیں رکھی۔ تو فرمایا کہ جو خود بخود ظاہر ہوتی ہواس کے علاوہ باقی چہرے کا پردہ ہونا چاہئے اور یہی اسلام کا حکم ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی ایک تشریح یہ فرمائی تھی کہ ماتھے سے لے کر ناک تک کا پردہ ہو۔ پھر چادر سامنے گرد ن سے نیچے آرہی ہو۔ اسی طرح بال بھی نظر نہیں آنے چاہئیں۔ سکارف یا چادر جو بھی چیز عورت اوڑھے وہ پیچھے سے بھی اتنی لمبی ہو کہ بال وغیرہ چھپ جاتے ہوں۔ {اِلَّامَاظَھَرَ مِنْھَا} یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو۔ اس کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ {اِلَّامَاظَھَرَ مِنْھَا} یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو۔ یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ جو چیز خود بخود ظاہر ہو شریعت نے صرف اس کوجائز رکھا ہے۔ یہ نہیں کہ جس مقام کو کوئی عورت آپ ظاہر کرنا چاہے اس کا ظاہر کرنا اس کے لئے جائز ہو۔ میرے نزدیک آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں دو ہیں یعنی قد اور جسم کی حرکات اور چال۔ لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا مجبوری کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پردے میں داخل نہیں۔ چنانچہ اسی اجازت کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے کیونکہ بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کردیا جائے۔ پھرفرمایاکہ: اگر کسی گھرانے کے مشاغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں میں یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو اُن کے لئے آنکھوں سے لے کر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا۔ اور پردہ ٹوٹا ہوا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کرسکتیں اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریاتِ معیشت کے لئے کھولنا پڑتا ہے اس کا کھولنا پردے کے حکم میں ہی شامل ہے۔ … لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اُس پر اس اجازت کا اطلاق نہ ہوگا۔ غرض اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا کے ماتحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ ننگا کرنا پڑے ننگا کیا جاسکتا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ298-299)
تو اس تفصیل سے پردے کی حد کی بھی کافی حد تک وضاحت ہوگئی کہ کیا حد ہے۔ چہرہ چھپانے کا بہرحال حکم ہے۔ اس حد تک چہر ہ چھپایا جائے کہ بے شک ناک ننگا ہو اور آنکھیں ننگی ہوں تاکہ دیکھ بھی سکے اور سانس بھی لے سکے۔ ‘‘
حضورانور ایدہ اللہ نے اس حوالہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت اور احادیث سے مثالیں دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ:
’’ اس بارہ میں حضرت مصلح موعود ؓ نے احادیث سے یہ دلیل دی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے ایک صحابی کواس لڑکی کی شکل دیکھنے کے لئے بھیجا جس کا رشتہ آیا تھا۔ اس کی شکل دیکھنے کے لئے بھیجا تاکہ دیکھ کر آئیں۔ اگر چہرہ کا پردہ نہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ پھر تو ہر ایک نے شکل دیکھی ہوتی۔
پھر دوسری مرتبہ یہ واقعہ حدیث میں بیان ہوتاہے کہ جب ایک لڑکے کو آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ تم فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ تم نے اس کو دیکھا ہے ؟ اگر نہیں دیکھا تو جا کر دیکھ آؤ۔ کیونکہ پردے کا حکم تھا بہرحال دیکھا نہیں ہوگا۔ تو جب وہ اس کے گھرگیا اور لڑکی کو دیکھنے کی خواہش کی تو اس کے باپ نے کہا کہ نہیں اسلام میں پردے کا حکم ہے اور مَیں تمہیں لڑکی نہیں دکھا سکتا۔ پھر اس نے آنحضرتﷺ کا حوالہ دیا تب بھی وہ نہ مانا۔ بہرحال ہر ایک کی اپنی ایمان کی حالت ہوتی ہے۔ اسلام کے اس حکم پر اس کی زیادہ سختی تھی بجائے اس کے کہ آنحضرتﷺ کے حکم کو موقعہ محل کے مطابق تسلیم کرتا اور مانتا۔ تو لڑکی جواندر بیٹھی یہ باتیں سن رہی تھی وہ باہر نکل آئی کہ اگر آنحضرتﷺ کا حکم ہے تو پھر ٹھیک ہے میرا چہرہ دیکھ لو۔ تو اگر چہرہ کے پردہ کا حکم نہیں تھاتو حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ پھرآنحضرتﷺ نے یہ کیوں فرمایا۔ ہر ایک کو پتہ ہوتاکہ فلاں لڑکی کی یہ شکل ہے اور فلاں کی فلاں شکل۔
اسی طرح ایک موقع پر آنحضرتﷺ اعتکاف میں تھے۔ رات کو حضرت صفیہ کو چھوڑنے جا رہے تھے تو سامنے سے دو آدمی آرہے تھے۔ ان کو دیکھ کر آنحضرتﷺ نے فرمایا گھونگھٹ اٹھا ؤ اور فرمایا دیکھ لو یہ میری بیوی صفیہ ہی ہے۔ کوئی شیطان تم پرحملہ نہ کرے اور غلط الزام لگانا نہ شروع کردو۔ تو چہرے کا پردہ بہرحال ہے۔
پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم توکہتا ہے کہ زینت چھپاؤ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بے شک ہم اس حد تک قائل ہیں کہ چہر ے کو اس طرح چھپایا جائے کہ اس کاصحت پر کوئی برا اثر نہ پڑے مثلاً باریک کپڑا ڈال لیا جائے یا عرب عورتوں کی طرز کا نقاب بنا لیا جائے جس میں آنکھیں اور ناک کا نتھنا آزاد رہتا ہے۔ مگر چہرے کو پردہ سے باہر نہیں رکھا جاسکتا۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ301)
پھر فرمایا کہ جو جو عورتیں بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہوجائیں اور نکاح کے قابل نہ رہیں وہ اگر معروف پردہ چھوڑ دیں تو جائز ہے ہاں خواہ مخواہ زیور پہن کر اور بناؤ سنگھار کرکے باہر نہ نکلیں یعنی پردہ ایک عمر تک ہے اس کے بعد پردہ کے احکام ساقط ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک نے پردہ کے احکام کو ایسی بری طرح استعمال کیا ہے کہ جوان عورتیں پردہ چھوڑ رہی ہیں اور بوڑھی عورتوں کوجبراً گھروں میں بٹھایا جارہا ہے۔ عورت کا چہرہ پردہ میں شامل ہے ورنہ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ کے یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ مونہہ اور ہاتھ تو پہلے ہی ننگے تھے اب سینہ اور بازو بھی بلکہ سارا بدن بھی ننگا کرنا جائز ہوگیا حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ396-397)
ہوتا یہی ہے کہ اگر پردہ کی خود تشریح کرنی شروع کردیں اور ہر کوئی پردے کی اپنی پسند کی تشریح کرنی شروع کردے تو پردے کا تقدّس کبھی قائم نہیں رہ سکتا۔ اس لئے ماں باپ دونوں کو اپنی اولاد کے پردے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور یہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)
حیا ایمان کا حصہ ہے
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ ماریشس کے موقع پراحمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئےایک احمدی خاتون کی ذمہ داریوں کے مختلف پہلوؤں کو بیان فرمایا۔ اس ضمن میں اسلامی پردہ کی اہمیت کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ نے ارشاد فرمایا:
’’قرآن کریم کے حکموں میں سے ایک حکم عورت کی حیا اور اس کا پردہ کرنا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری زینت نامحرموں پر ظاہر نہ ہو۔ یعنی ایسے لوگ جو تمہارے قریبی رشتہ دار نہیں ہیں ان کے سامنے بے حجاب نہ جاؤ۔ جب باہر نکلو توتمہارا سر اور چہرہ ڈھکا ہونا چاہئے، تمہارا لباس حیادار ہونا چاہئے اس سے کسی قسم کا ایسا اظہار نہیں ہونا چاہئے جو غیر کے لئے کشش کا باعث ہو۔ بعض لڑکیاں کام کا بہانہ کرتی ہیں کہ کام میں ایسا لباس پہننا پڑتا ہے جو کہ اسلامی لباس نہیں ہے۔ توایسے کام ہی نہ کرو جس میں ایسا لباس پہننا پڑے جس سے ننگ ظاہر ہو۔ بلکہ یہاں تک حکم ہے کہ اپنی چال بھی ایسی نہ بناؤ جس سے لوگوں کو تمہاری طرف توجہ پیدا ہو۔
پس احمدی عورتوں کو قرآن کریم کے اس حکم پر چلتے ہوئے اپنے لباسوں کی اور اپنے پردے کی بھی حفاظت کرنی ہے اور اب جیسا کہ میں نے کہا باہر سے لوگوں کا یہاں آنا پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ پھرٹیلی وژن وغیرہ کے ذریعہ سے بعض برائیاں اور ننگ اور بے حیائیاں گھروں کے اندر داخل ہوگئی ہیں۔ ایک احمدی ماں اور ایک احمدی بچی کا پہلے سے زیادہ فرض بنتا ہے کہ اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچائے۔ فیشن میں اتنا آگے نہ بڑھیں کہ اپنا مقام بھول جائیں ایسی حالت نہ بنائیں کہ دوسروں کی لالچی نظریں آپ پر پڑنے لگیں۔ یہاں کیونکہ مختلف مذاہب اور کلچر کے لوگ آباد ہیں اور چھوٹی سی جگہ ہے اس لئے آپس میں گھلنے ملنے کی وجہ سے بعض باتوں کا خیال نہیں رہتا۔ لیکن احمدی خواتین کو اور خاص طور پر احمدی بچیوں کو اور ان بچیوں کو جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں اپنی انفرادیت قائم رکھنی ہے۔ ان میں اور دوسروں میں فرق ہونا چاہئے، ان کے لباس اور حالت ایسی ہونی چاہئے کہ غیرمَردوں اور لڑکوں کو ان پر بری نظر ڈالنے کی جرأت نہ ہو۔ روشن خیالی کے نام پر احمدی بچی کی حالت ایسی نہ ہو کہ ایک احمدی اور غیراحمدی میں فرق نظر ہی نہ آئے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ ماریشس3؍دسمبر2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29 ؍مئی 2015ء)
حیا کے ایمان کا حصہ ہونے سے متعلق اسلامی تعلیمات کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی خواتین کو یہ واضح ہدایت فرمائی ہوئی ہے کہ نامناسب لباس میں کام کرنے کی مجبوری ہو تو دین کو دنیا پر مقدّم رکھتے ہوئے ایسے کام کو ردّ کردینا چاہئے۔ چنانچہ ایک موقع پر حضورانور نے فرمایا:
’’ اب پردہ بھی ایک اسلامی حکم ہے قرآنِ کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔ نیک عورتوں کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ حیادار اور حیا پر قائم رہنے والی ہوتی ہیں، حیا کو قائم رکھنے والی ہوتی ہیں۔ اگر کام کی وجہ سے آپ اپنی حیا کے لباس اُتارتی ہیں تو قرآنِ کریم کے حکم کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ اگر کسی جگہ کسی ملازمت میں یہ مجبوری ہے کہ جینز اور بلاؤز پہن کر سکارف کے بغیر ٹوپی پہن کر کام کرنا ہے تو احمدی عورت کو یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔ جس لباس سے آپ کے ایمان پر زد آتی ہو اُس کام کو آپ کو لعنت بھیجتے ہوئے ردّ کر دینا چاہئے کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ اگر آپ پیسے کمانے کے لئے ایسا لباس پہن کر کام کریں جس سے آپ کے پردے پر حرف آتا ہو تو یہ کام اللہ تعالیٰ کو آپ کا متولّی بننے سے روک رہا ہے۔ یہ کام جو ہے اللہ تعالیٰ کو آپ کا دوست بننے سے، آپ کی ضروریات پوری کرنے سے روک رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ایمان والوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، تقویٰ پر چلنے والوں کی ضروریات پوری کرتاہے۔ کوئی بھی صالح عورت یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کاننگ ظاہر ہو یا جسم کے اُن حصوں کی نمائش ہو جن کو چھپانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 25 ؍جون 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍ مارچ 2007ء)
اسی طرح سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حیا کو ایمان کا جزو قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ پھر اپنے آپ کو باحیا بنانا ہے۔ کیونکہ یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جس طرح اپنے آپ کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے اس طرح احتیاط سے ڈھانپ کر رکھنا چاہئے۔ زینت ظاہر نہ ہو۔ حیا کا تصور ہرقوم میں اور ہر مذہب میں پایا جاتا ہے۔ آج مغرب میں جو بے حیائی پھیل رہی ہے اس سے کسی احمدی لڑکی کو کسی احمدی بچی کو کبھی متأثر نہیں ہونا چاہئے۔ آزادی کے نام پر بے حیا ئیا ں ہیں، لباس، فیشن کے نام پر بے حیائیاں ہیں۔ اسلام عورت کو باہر پھرنے اور کام کرنے سے نہیں روکتا اُس کو اجازت ہے لیکن بعض شرائط کے ساتھ کہ تمہاری زینت ظاہر نہ ہو۔ بے حجابی نہ ہو۔ مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب رہنا چاہئے۔ دیکھیں قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں بیان فرمایا ہے کہ جب وہ اُس جگہ پہنچے جہاں ایک کنویں میں تالاب کے کنارے بہت سے چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلارہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف دو لڑکیاں بھی اپنے جانور لے کے بیٹھی ہیں تو انہوں نے جب اُن سے پوچھا کہ تمہارا کیامعاملہ ہے تو لڑکیوں نے جواب دیا کیونکہ یہ سب مرد ہیں اس لئے ہم انتظار کر رہی ہیں کہ یہ فارغ ہوں تو پھرہم اپنے جانوروں کو پانی پلائیں۔ تو دیکھیں یہ حجاب اور حیا ہی تھی جس کی وجہ سے اُن لڑکیوں نے اُن مَردوں میں جانا پسند نہیں کیا۔ اس لئے یہ کہنا کہ مَردوں میں mix upہونے میں کوئی حرج نہیں ہے یا اکٹھی gatheringکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ علیحدگی فضول چیزیں ہیں۔ عورت اور مرد کا یہ ایک تصور ہمیشہ سے چلاآرہا ہے۔ عورت کی فطرت میں جو اللہ تعالیٰ نے حیا رکھی ہے ایک احمدی عورت کو اُسے اور چمکانا چاہئے، اُسے اور نکھارنا چاہئے، پہلے سے بڑھ کر باحیا ہونا چاہئے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے تعلیم بھی بڑی واضح دے دی ہے اس لئے بغیر کسی شرم کے اپنی حیااور حجاب کی طرف ہر احمدی عورت کو ہر احمدی بچی کو ہر احمدی لڑکی کو توجہ دینی چاہئے۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے20؍نومبر 2005۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22 ؍مئی 2015ء)
شرم و حیا کو ملحوظ رکھتے ہوئے پردے کے قرآنی حکم کو اختیار کرنا ہی ایک احمدی عورت کے شایانِ شان ہے۔ اس اہم ذمہ داری کی طرف حضورانور ایدہ اللہ نے احباب جماعت کو بارہا توجہ دلائی ہے۔ ایک خطبہ جمعہ میں حضورانور نے ارشاد فرمایا:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ یہ حکم سات سوہیں۔ پس ایک احمدی کو احمدیت قبول کرنے کے بعد ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارنی چاہئے کہ کہیں کسی حکم کی نافرمانی نہ ہو جائے۔ اب مثلاً ایک حکم ہے حیا کا، عورت کو خاص طور پر پردے کا حکم ہے۔ مَردوں کو بھی حکم ہے کہ غَضِّ بصر سے کام لیں، حیا دکھائیں۔ عورت کے لئے اس لئے بھی پردے کا حکم ہے کہ معاشرے کی نظروں سے بھی محفوظ رہے اور اس کی حیا بھی قائم رہے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ اب آج کل کی دنیا میں، معاشرے میں، ہر جگہ ہر ملک میں بہت زیادہ کھل ہو گئی ہے۔ عورت مرد کو حدود کا احساس مٹ گیا ہے۔ mix gatheringsہوتی ہیں یا مغرب کی نقل میں بدن پوری طرح ڈھکا ہوا نہیں ہوتا، یہ ساری اس زمانے کی ایسی بے ہو دگیاں ہیں جو ہر ملک میں ہر معاشرے میں راہ پا رہی ہیں۔ یہی حیا کی کمی آہستہ آہستہ پھرمکمل طور پر انسان کے دل سے، پکے مسلمان کے دل سے، حیا کا احساس ختم کر دیتی ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے ایک چھوٹے سے حکم کو چھوڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ حجاب ختم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھربڑے حکموں سے بھی دُوری ہوتی چلی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بھی دُوری بھی ہو جاتی ہے۔ اور پھر انسان اسی طرح آخر کار اپنے مقصد پیدائش کو بھلا بیٹھتا ہے۔ اس لئے اس زمانے میں خاص طور پر نوجوان نسل کو بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ ہر وقت دل میں یہ احساس رکھنا چاہئے کہ ہم اس شخص کی جماعت میں شمار ہوتے ہیں جو آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق بندے کو خدا کے قریب کرنے کاذریعہ بن کر آیا تھا۔
پس اگر اُس سے منسوب ہونا ہے تو پھر اُس کی تعلیم پر بھی عمل کرنا ہو گا اور وہ تعلیم ہے کہ قرآن کریم کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کی بھی تعمیل کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ اس پر عمل کرنے والا بن جائے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍اپریل 2006ء بمقا م مسجد طٰہٰ۔ سنگاپور۔ مطبوعہ الفضل 28 ؍اپریل 2006ء)
عورت کا تقدّس زینت چھپانے میں ہے
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی مسلمان عورت کو اپنا تقدّس قائم رکھنے کی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’پھر ایک مومن عورت کو اللہ تعالیٰ کا ایک بہت اہم حکم ہے اپنی زینت چھپانے کا اور پردے کا۔ اس مغربی معاشرے میں بعض پڑھی لکھی بچیاں اور عورتیں معاشرے کے زیرِاثر یا خوف کی وجہ سے کہ آج کل پر دے کے خلاف بڑی رو چل رہی ہے، پردے کا خیال نہیں رکھتیں۔ ان کے لباس فیشن کی طرف زیادہ جارہے ہیں۔ مسجد میں بھی اگر جانا ہو یا سینٹر میں آنا ہو تو اس کے لئے تو پردے کے ساتھ یا اچھے لباس کے ساتھ آجاتی ہیں لیکن بعض یہ شکایتیں ہو تی ہیں کہ بازاروں میں اپنے لباس کا خیال نہیں رکھتیں۔ ایک بات یاد رکھیں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے اور حیا عورت کا ایک خزانہ ہے اس لئے ہمیشہ حیادار لباس پہنیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی عورت کا، ایک احمدی بچی کاایک تقدّس ہے اس کو قائم رکھنا ہے آپ نے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پردے کا حکم دیا ہے تو یقیناً اس کی کوئی اہمیت ہے۔ اُن مغرب زدہ لوگوں کی طرح نہ بنیں جو یہ کہتے ہیں کہ پردے کا حکم تو پرانا ہو گیا ہے یا خاص حالات میں تھا۔ قرآن کریم کا کوئی حکم بھی کبھی پرانا نہیں ہوتا اور کبھی بدلا نہیں جاتا۔ اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ ایک زمانہ میں ایسی سوچ پیدا ہو گی اس لئے یہ مستقل حکم اتاراہے کہ منہ سے کہنے سے اللہ کی بندیاں نہیں بنو گی تم لوگ بلکہ جو نصائح کی جاتی ہیں، جو احکامات قرآن کریم میں دیئے گئے ہیں ان پر عمل کر کے حقیقی مومن کہلاؤ گی۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی یکم؍ ستمبر 2007ء بمقام منہائم۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍دسمبر2016ء)
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطاب میں احمدی مسلمان عورتوں اور بچیوں کو حقیقی رنگ میں حیا اور عصمت کی حفاظت کرنے کے اہمیت کے بارہ میں نہایت احسن رنگ میں یوں توجہ دلائی:
’’بعض لڑکیاں کہہ دیتی ہیں کہ ہم نے سرڈھانک لیا ہے اور یہ کافی ہے لیکن سر اس طرح نہیں ڈھانکا ہوتا جس طرح اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ بال صاف نظر آرہے ہوتے ہیں آدھا سر ڈھکا ہوتا ہے آدھا ننگا ہوتا ہے، گریبان تک نظر آرہا ہوتا ہے۔ کوٹ اگرپہنا ہوا ہے تو کہنیوں تک بازو ننگے ہوتے ہیں۔ گھٹنوں سے اوپر کوٹ ہوتے ہیں۔ یہ نہ ہی ایک احمدی لڑکی اور عورت کی حیا ہے اور نہ ہی یہ ایک احمدی عورت کی آزادی کی حد ہے بلکہ اس ذریعہ سے اس طرح کی حرکتیں کرکے وہ اپنی حیا پر الزام لارہی ہوتی ہیں اور بحیثیت احمدی اپنی آزادی کی حدود کو بھی توڑ رہی ہوتی ہیں۔ پس ہمیشہ ایک احمدی عورت کو جس کا ایک تقدّس ہے یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کی حدود کا ایک دائرہ ہے اس حدود کے دائرے سے تجاوزکرنا آپ کے تقدّس کو مجروح کرتا ہے۔ ۔ ۔ پس ہمیشہ ایک احمدی لڑکی ایک احمدی عورت کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا ایک تقدّس ہے، اس کا ایک مقام ہے جس کو قائم رکھنا ہر دوسری خواہش سے زیادہ ضروری ہے۔ اپنی عزت کی حفاظت اور اپنے خاندان کی عزت کی حفاظت ایک احمدی عورت اور لڑکی کے لئے سب سے زیادہ اہم چیز ہے اور ہونی چاہئے۔ ایک احمدی عورت اور بچی کی عصمت کی قیمت ہزاروں لاکھوں جواہرات سے زیادہ قیمتی ہے۔ پس اس کی حفاظت کرنا اور اس کی حفاظت کے طریق جاننا ایک احمدی عورت اور لڑکی کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے بلکہ فرض ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی لڑکی اور ایک احمدی عورت نے اپنی حیا کی حفاظت کرنی ہے، اپنی عصمت کی حفاظت کرنی ہے، اپنے تقدّس کو قائم رکھنا ہےاور یہ پاکستانی کلچر نہیں ہے بلکہ اسلام کی تعلیم ہے۔ اس لئے چاہے وہ جرمن قوم سے تعلق رکھنے والی احمدی عورت ہے یا کسی بھی دوسرے یورپین ملک سے تعلق رکھنے والی احمدی عورت ہے یا پاکستان اور ایشیا سے تعلق رکھنے والی احمدی عورت ہے یا افریقہ سے تعلق رکھنے والی احمدی عورت ہے، ایک بات ہر عورت میں قدر مشترک ہونی چاہئے کہ اُس نے تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی ہے اور اپنی حیا اور عصمت کی حفاظت کرنی ہے تبھی وہ حقیقی احمدی مسلمان کہلا سکتی ہے اور پاکستان سے آئی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں کو خاص طور پر اپنے آپ کو نمونہ بنانا چاہئے۔ ‘‘
مزید فرمایا:’’پھر اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ایک عورت جو خداتعالیٰ کا قرب چاہتی ہے جو اپنے ایمان کو کامل کرنا چاہتی ہے اسے اپنے تقدّس کا بھی خاص طور سے خیال رکھنا چاہئے اور ایک احمدی عورت جس نے اِس زمانے کے امام کو مانتے ہوئے یہ عہد کیا ہے کہ اپنے آپ کو تمام برائیوں سے بچائے رکھوں گی اُسے تو اپنی عزت، عصمت اور تقدّس کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ اس کا لباس اُسکی چال ڈھال، اُسکی بات چیت کا انداز ددسروں سے مختلف ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ آزادی کے نام پر لڑکے لڑکیوں کی مِکس(mix) پارٹیوں میں حصہ لے یا لباس ایسے ہوں جو ایک احمدی عورت کے تقدّس کی نفی کرتے ہوں، پردے اور حجاب کا بالکل خیال نہ ہو۔ ‘‘
مزید فرمایا:’’تو بہرحال جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ جوانی میں جب لڑکیاں قدم رکھتی ہیں تو ان کے کوٹ گھٹنوں سے نیچے ہونے چاہئیں۔ ایسے کوٹ پہننے چاہئیں جو ان کاپورا جسم ڈھانکنے والے ہوں نہ کہ فیشن۔ اور بازو لمبے ہونے چاہئیں۔ ایک احمدی عورت ایک احمدی لڑکی کی پہچان یہ ہونی چاہئے کہ اس کا لباس حیادار ہو۔ پس اپنے لباسوں کا خاص طور پر خیال کریں کیونکہ یہ بھی ایک احمدی عورت کے تقدّس کے لئے بہت ضروری ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہو گی اگر نئی شامل ہونے والی تو اس بات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے لباس میں حیا کا پہلو مدنظر رکھیں اور پرانی احمدی اس معاشرہ کے بداثرات کی وجہ سے اپنے حیادار لباس سے بے پرواہ ہو جائیں۔ پس ان باتوں کا ہمیشہ خیال رکھیں اور اپنے جائزے لیتی رہیں ورنہ شیطان کے حملے، جیسا کہ میں نے کہا، میڈیا کے ذریعہ سے اتنے شدت سے ہو رہے ہیں کہ ان سے بچنا محال ہے…۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی23؍اگست2008ء بمقام منہائم۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4 ؍نومبر 2011ء)
روزمرہ زندگی میں نوجوان احمدی بچیوں کو پردہ کا خیال رکھنے کے ضمن میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے توجہ دلاتے ہوئے اپنے ایک خطاب میں یوں فرمایا:
’’اسکولوں اور کالجوں میں بھی لڑکیاں جاتی ہیں اگر کلاس روم میں پردہ، سکارف لینے کی اجازت نہیں بھی ہے تو کلاس روم سے باہر نکل کر فوراً لینا چاہئے۔ یہ دو عملی نہیں ہے اور نہ ہی یہ منافقت ہے۔ اس سے آپ کے ذہن میں یہ احساس رہے گا کہ مَیں نے پردہ کرنا ہے اور آئندہ زندگی میں پھر آپ کو یہ عادت ہو جائے گی۔ اور اگر چھوڑ دیا تو پھر چھوٹ بڑھتی چلی جائے گی اور پھر کسی بھی وقت پابندی نہیں ہو گی۔ پھر وہ جو حیا ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔
پھر اپنے عزیز رشتہ داروں کے درمیان بھی جب کسی فنکشن میں یا شادی بیاہ وغیرہ میں آئیں تو ایسا لباس نہ ہو جس میں جسم اٹریکٹ(attract) کرتا ہو یا اچھا لگتا ہو یا جسم نظر آتا ہو۔ آپ کا تقدّس اسی میں ہے کہ اسلامی روایات کی پابندی کریں اور دنیا کی نظروں سے بچیں۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اور انہوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا۔ یعنی اِدھر اُدھر ہونے کی کوشش کی اور فرمایا: اے اسماء! عورت جب بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو یہ مناسب نہیں کہ اس کے منہ اور ہاتھ کے علاوہ کچھ نظر آئے۔ اور آپﷺ نے اپنے منہ اور ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے یہ بتایا۔ ‘‘(ابوداؤد کتاب اللباس باب فیما تبدی المرأۃ من زینتھا)(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا3 ؍ جولائی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍ستمبر2005ء)
عورتوں کے لئے اپنی زینت چھپانے کے قرآنی حکم کو بجا لانے کی اہمیت تو ہر احمدی عورت پر عیاں ہے۔ اس ذمہ داری کو بہترین رنگ میں ادا کرنے کےلئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی عورتوں کو لباس کے ضمن میں مناسب رویّے اپنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’پھر اﷲ تعالیٰ نے عبادتوں کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ اپنی زینتوں کو چھپاؤ۔ اپنے سروں اور چہروں کوڈھانکو۔ اپنے تقدّس کو قائم رکھو۔ ہر عورت کا ایک تقدّس ہے اور احمدی عورت کا تقدّس تو بہت زیادہ ہے۔ … بعض شکایتیں ایسی بھی بعضوں کی مل جاتی ہیں کہ مسجد میں آتی ہیں تو لباس صحیح نہیں ہوتے۔ جینز پہنی ہوئی، اور قمیص چھوٹی ہوتی ہے، جینز پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مَیں نے اجازت دی تھی لیکن اس کے ساتھ لمبی قمیص ہونی چاہئے۔ اُن کو روکا گیا تو ماؤں نے عہدیداروں سے لڑنا شروع کر دیا کہ تم ہماری بچیوں کو روکنے ٹوکنے والی کون ہوتی ہو۔ ایک تو آپ مسجد کے تقدّس کو خراب کر رہی ہیں کہ وہاں وہ لباس پہن کر نہیں آ رہیں جو اُن کے لئے موزو ں لباس ہے۔ دوسرے ایک نظام کی لڑی میں پروئے ہونے کے باوجود اُس نظام کو توڑ رہی ہیں اور عہدیداروں سے لڑ رہی ہیں۔ تو ان حرکتوں سے باز آ نے کی ضرورت ہے۔ ‘‘(خطاب برموقع نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے 2 ؍نومبر 2008ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جولائی2015ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حیا اور غَضِّ بصر کی عادت اپنانے کے ساتھ ساتھ عورتوں کو اپنی خوبصورتی کو ظاہر نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ:
’’ اﷲ تعالیٰ کے احکامات میں تو یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ نظریں نیچی رکھو، بے محابا عورت اور مرد آپس میں ایک دوسرے سے نظریں نہ ٹکرائیں۔ ایک حیا اُن میں ہونی چاہئے۔ دوسرے اپنی زینت چھپا ؤ۔ ایسا لباس ہو جس سے جسم کی نمائش نہ ہوتی ہو اور تیسرے یہ کہ اپنی زینت چھپانے کے لئے اپنے گریبانوں، سر، گردن اور سامنے کے حصوں کو ڈھانپ کر رکھو۔ جو برقع پہننا ہے وہ ڈھیلا ڈھالا ہو۔ جو میک اَپ کر کے چہرہ ننگا کر کے پھرتی ہیں وہ بھی زینت ظاہر کرنے کے زمرے میں آتی ہیں۔ اسی طرح بالوں کی نمائش جو کرتی ہیں وہ بھی زینت ظاہر کرنے کے زمرے میں آتی ہیں کیونکہ وہ خود اپنے بالوں کی نمائش اِ سی لئے کر رہی ہوتی ہیں کہ یہ ہماری زینت ہے۔ خود سمجھ رہی ہوتی ہیں کہ اِس سے ہماری خوبصورتی ظاہر ہو رہی ہے۔ اس لئے سر ڈھانکنا، چہرے کو کم از کم اِس حد تک ڈھانکناکہ چہرے کی نمائش نہ ہو رہی ہو اور لباس کو مناسب پہننا یہ کم از کم پردہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِ س کی تلقین فرمائی ہے کہ کم از کم یہ معیار ہونا چاہئے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے30 ؍ جولائی 2010ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍مارچ 2011ء)