پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام
ابتدائیہ
15 اکتوبر1979ء کا دن تھا۔ سویڈن کے شہر سٹاک ہوم سے اعلان ہوا کہ اس سال فزکس کا سب بڑا عالمی انعام دو امریکی سائنسدانوں کے ساتھ پہلے مسلمان سائنسدان کو دیا جاتا ہے۔ اس صدی کے پہلے مسلمان سائنسدان نے یہ خبر لندن میں سنی۔ ان کا سر خدا کی حمد میں جھک گیا۔ اُن کے قدم خدا کے گھر کی طرف بڑھے۔ وہ سیدھے بیت الفضل لندن پہنچے اور خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدے میں گِر گئے۔ ان کے وجود سے بانی جماعتِ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی تھی جیسا کہ اس واقعہ سے اسّی سال پہلے آپؑ نے خدا سے خبر پا کر اعلان کیا تھا کہ
”میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اورمعرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اوراپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کردیں گے۔“ ( تجلّیاتِ الہیّہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 409 )
پھرآپؑ نے فرمایا
”یہ خدا کاکلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا۔“ ( تجلیات الہیّہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ نمبر 410)
بچو! سب سے بڑا انعام یعنی نوبیل انعام حاصل کرنے والے اس پہلے مسلمان سائنسدان کا نام عبد السلام ہے۔ وہ جھنگ (پاکستان) کے ایک ایسے گھرانے میں پیداہوئے جو روپیہ پیسہ کم ہونے کی وجہ سے تو غریب تھا لیکن اس گھرانے کے افراد کے دل ایمان کی دولت سے بھرے ہوئے تھے۔
جھنگ کے چھوٹے سے مکا ن میں پلنے والا عبد السلام ایک ایسالڑکا تھا جس نے بچپن سے کبھی وقت ضائع نہیں کیا تھا۔ اسے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ سلام نے سکول میں عام لڑکوں کی طرح ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنا شروع کیا اور پرائمری کے امتحان سے اوّل آنا شروع کیا اور ایم۔ اے تک مسلسل اوّل آتا رہا اور پرانے سارے ریکارڈ توڑ کر نئے ریکارڈ قائم کرتا رہا۔ پھر وظیفہ حاصل کرکے انگلستان جا کر ریاضی اور فزکس میں پی ایچ ڈی کی اور وہاں بھی نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس احمدی لڑکے کی کامیابیوں نے اپنے زمانے کے قابل ترین لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔
پڑھائی کے زمانے میں ہی انھوں نے ریاضی اور فزکس میں بڑے بڑے انعام حاصل کیے۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی وہ دنیا کی ایک بڑی شخصیت بن گئے۔ انھوں نے ایٹم کے ذرّات کی تحقیق میں نمایاں کام کیے اور سائنس کی دنیا میں انقلاب پیدا کیا اور دنیا کے مشہور سائنسدانوں میں آگئے۔
وہ انگلستان میں سائنس کے سب سے بڑے کالج میں پروفیسر رہے اور اٹلی میں فزکس کے ایک عالمی ادارے کو چلایا جس کو انھوں نے خود ہی شروع کیا وہ دنیا کی بڑی بڑی سائنسی کانفرنسوں کی صدارت کرتے رہے اور حکومتیں ان سے مشورے لیتی تھیں۔
دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں انہیں اعزازی ڈگریاں دینے میں فخر محسوس کرتی تھیں۔ دنیا بھر کی حکومتیں اور بڑے بڑے عالمی ادارے انہیں انعام دیتے رہے اور ان کی خدمات کو مانتے رہے۔ انھوں نے کئی درجن عالمی اعزازات اور انعامات اور دنیا کے پانچوں براعظموں کی بے شمار یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریاں حاصل کیں۔ یہ سب کچھ انہیں علم کی برکت سے حاصل ہوا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ایک غریب باپ کا بیٹا عبد السلام ایک دن علم کی روشنی کا مینار بن جائے گا۔
انھیں غریبوں سے پیار تھا۔ وہ سائنس کی مدد سے دنیا سے بھوک دور کرنے کے لیے عالمی اداروں کی رہنمائی کرتے رہے اور غریب ملکوں میں علمی ترقی کے لیے کوشش کرتے رہے۔ وہ اپنے انعاموں کا اکثر حصہ غریب طالب علموں پر خرچ کرتے تھے۔
اُن کے دل میں اسلام کی خدمت کا بے پناہ جذبہ تھا۔ وہ سائنس کواسلام کا گمشدہ مال سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان علمی دنیا میں اپنی کھوئی ہوئی عزّت حاصل کریں اور اپنی قابلیت کا ایک بار پھر سکّہ منوائیں۔ پچھلے آٹھ سَوسالوں میں وہ اکیلے مسلمان سائنسدان تھے جنھوں نے سائنس کی دنیا میں نام پیدا کیا۔ انھوں نے خدا کے بندوں کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہوئی تھی۔ وہ امامِ وقت حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ بڑی محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے ماں باپ کی خدمت میں بھی نام پیدا کیا۔ وہ اپنے بزرگوں اور استادوں کی بہت عزّت کرتے تھے اور اپنے ملک سے بہت پیار کرتے تھے اور پاکستانی ہونے میں فخر محسوس کرتے تھے۔
وہ اپنی سائنسی تحقیق کے لیے ہمیشہ قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرتے اور سائنسی اصولوں کی قرآن کریم سے وضاحت کرتے تھے۔ وہ ہر کام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اسلام کا پیغام بھی دنیا بھر میں پہنچاتے رہتے تھے۔
بچپن سے ہی سادگی ان کی طبیعت میں بھری ہوئی تھی۔ خدا نے انہیں جتنی عزّت دی اتنی ہی ان کے اندر عاجزی اور انکساری پیدا ہوئی۔ وہ ہمیشہ خوش رہتے، دنیا کی اچھی چیزوں سے محبت کرتے اور ان کی سائنس پر غور کرتے۔ وہ ایک ایسے انسان تھے جن کی طبیعت درویشوں کی طرح، دل شاعروں کی طرح اور دماغ سائنسدانوں کی طرح تھا۔
آؤ بچو! آپ کو گذشتہ صدی کے اس بڑے اور مسلمان سائنسدان کی کہانی سنائیں۔