پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام
ابتدائی تعلیم اور شاندار کا میابیاں
عبد السلام نے اپنی تعلیم گھر میں ہی شروع کی۔ ان کی والدہ نے اللہ کا نام لے کر انہیں الف ب شروع کروائی اور جلدہی وہ لکھنے پڑھنے کے قابل ہوگئے۔ بہت چھوٹی عمر میں انہوں نے قرآن کریم پڑھ لیااوراس کا ترجمہ بھی سیکھا۔
بچپن میں ان کے والد انہیں آسان اخلاقی کہانیوں کی کتابیں اور رسالے لاکر دیتے جنہیں وہ بڑی دلچسپی سے پڑھتے۔ ان کے والد انہیں نئی نئی اور دلچسپ کہانیاں سُناتے اور پھر ان سے وہی کہانی سنتے۔ اس طرح ان کا حافظہ بڑھتا گیا اور پڑھائی کا شوق پیدا ہوتارہا۔ جب وہ ساڑھے چھ سال کے ہوئے تو ان کے والد انہیں سکول داخل کروانے کے لیے لے گئے۔ ہیڈماسٹر نے بچے کی قابلیت دیکھ کر انہیں سیدھا تیسری جماعت میں داخل کیا۔
تھوڑی سی محنت کے ساتھ جلد ہی انھوں نے چالیس تک پہاڑے یاد کرلیے اور بہت ساری ضرب الامثال اور لمبے لمبے پَیراگراف زبانی یاد کرلئے۔ ان کی ذہنی صلاحیّتوں کو نشوونما دینے کے لیے ان کے والد انہیں مختلف مشینوں کے انجن، موٹرکار، سائیکل، دریا کا پُل اور دریاکا بند دکھانے کے لیے باہر لے جاتے اور ان کے استادوں سے مل کربھی ان کی تعلیم کی طرف خاص توجہ دیتے اور انہیں سکول کے رسالہ کے لیے مضمون لکھنے کو کہتے۔ اس طرح عبد السلام کو بچپن سے ہی علم سے محبت پیدا ہوگئی اور وہ بڑی توجہ اور محنت سے پڑھنے لگ گئے۔ اُن کی ایک بہن کہتی ہیں :۔
”بھائی جان بچپن سے ہی اپنی تعلیم میں ایسے مصروف رہتے تھے کہ کبھی انہیں بیکار گپ شپ یا کھیل کود میں وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا۔“
مطالعہ کی انہیں اتنی عادت تھی کہ کھانے کے دوران بھی پڑھتے رہتے۔ ان کی بہن کہتی ہیں :۔
”کھانا کھارہے ہیں چَوکی پر روٹی سالن پڑا ہے اور خود پیڑھی پر بیٹھے کھاتے ہوئے کوئی رسالہ بھی پڑھ رہے ہیں۔ مرغی پلیٹ میں سے بوٹی نکال کر لے گئی ہے انہیں کچھ علم نہیں۔ بعد میں علم ہوا کہ بوٹی تو مرغی لے گئی ہے۔“
1934ء میں عبد السلام نے جھنگ سنٹر سے چوتھی کا امتحان دیا اور اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اس وقت عبد السلام کی عمر صرف آٹھ سال کی تھی۔
مارچ1934ء کی ایک نمائش میں انھوں نے ڈپٹی کمشنر جھنگ سے خوشخطی میں اوّل انعام حاصل کیا۔ اسی طرح مارچ1937ء کی ایک نمائش میں بھی انھوں نے نقشہ نویسی اور خوشخطی میں پہلا انعام جیتا۔
(Biographic Sketch of Prof. Abdus Salam by Dr.A Ghani)
عبد السلام کی بچپن سے یہ عادت تھی کہ جو سبق اگلے روز سکول میں پڑھنا ہوتا وہ اسے گھر سے پڑھ کر جاتے اور بڑی توجہ اور محنت سے پڑھتے۔ ان کی محنت کا پھل انہیں شروع ہی سے اول آنے کی شکل میں ملتارہا۔ 1938ء میں انھوں نے مڈل پاس کیا اور ضلع بھر میں اوّل آئے اور چھ روپے ماہوار وظیفہ حاصل کیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف بارہ سال کی تھی۔ انہی دنوں جھنگ میں ایک تقریب میں ڈپٹی کمشنر کی صدارت میں سلام نے ایک مضمون پڑھا۔ مضمون سُن کر ڈی سی نے ان کے والد کو پیغام بھیجا کہ اس لڑکے کی تعلیم کی طرف خاص توجہ دیں۔
مڈل کے بعد وہ گورنمنٹ انٹرکالج جھنگ میں داخل ہوئے اور سائنس اور ریاضی کے مضمون رکھے۔ ان کی قابلیت کی وجہ سے انہیں کلاس کی لائبریری کا انچارج بنادیا گیا جہاں انھوں نے بہت سی کتابیں پڑھیں۔ ان کا مقابلہ کچھ غیرمسلم طالب علموں سے رہتا تھا لیکن سلام نے کبھی انہیں آگے بڑھنے نہیں دیا۔ ان کے والد ان کی تعلیمی کارکردگی کاجائزہ لیتے رہتے۔ 1940ء میں سلام نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں نہ صرف اوّل آئے بلکہ ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف چودہ برس کی تھی۔ گورنمنٹ کی طرف سے سلام کو بیس روپے وظیفہ ملا اور کالج کی طرف سے انہیں خالص سونے کا میڈل دیا گیا۔
میٹرک کا نتیجہ نکلنے سے پہلے سلام کے والد صاحب کو خواب میں شربت پلایا گیا جس کی تعبیر سلام کی اعلیٰ کامیابی کی شکل میں ظاہر ہوئی۔
بچپن میں سلام نہ صرف پڑھائی میں لائق تھے بلکہ اَور بھی بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔ چھوٹی عمر سے ہی نمازوں کے پابند تھے اور وقت بالکل ضائع نہیں کرتے تھے۔ گالی گلوچ سے پرہیز کرتے تھے اوراپنے ماں باپ، استادوں اور سب بزرگوں کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کی ایک بہن محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ ان کے بچپن کے بارہ میں بیان کرتی ہیں :۔
”بھائی جان کو کبھی اونچی آواز میں بات کرتے یا کسی سے گالی گلوچ کرتے نہیں دیکھا۔ والدین اور بزرگوں کا بے حد احترام کرتے۔ ابّاجان کے ایک لا ولد چچا تھے۔ بھائی جان نے ان سے بہت دعائیں لیں۔
بھائی جان کا پسندیدہ کام یہ تھا کہ جمعہ کے دن بیت احمدیہ میں صفائی کرنی اور ہمیشہ مغرب سے پہلے بیت الذکر جا کر اذان دینی۔
سادگی بچپن سے ہی طبیعت میں بھری ہوئی تھی۔ بچپن میں گھر کے دھلے ہوئے کپڑے پہنتے۔ کبھی انہیں اس فیشن میں نہیں دیکھا کہ جب تک اچھے کپڑے نہ ہوں باہر نہیں جانا۔ جو ملا پہن لیا۔
خوراک کے معاملہ میں والدین کو ہم سب کا بہت خیال رہتا تھا۔ اناپ شناپ یا ریڑھی چھابوں وغیرہ سے کبھی کوئی چیز لے کر کھانے کی عادت نہ ڈالی تھی۔ ابّاجان نے بازاری چیزوں سے ہمیں ایسا پرہیز بتایا ہوا تھا کہ کوئی بھی کبھی باہر سے لاکر کچھ نہ کھاتا تھا اور نمونہ ہمارے بھائی جان تھے۔“ (خط بنام خاکسار مرقومہ26 مارچ1982ء)
اس کے علاوہ عبد السلام میں بچپن سے حسد کی عادت بالکل نہ تھی یہی وجہ ہے کہ ان کا حافظہ بہت اچھا رہا۔ وہ اپنی صحت کابھی خیال رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ بچپن میں انھوں نے اعلیٰ صحت پر ایک جلسہ میں ڈپٹی کمشنر جھنگ سے چاندی کا پیالہ بطور انعام حاصل کیا۔ (سرگذشت)
سلام اپنی چیزوں اور کتابوں کو ہمیشہ احتیاط اور ترتیب سے رکھتے تھے۔ سکول باقاعدگی سے جاتے تھے کبھی ناغہ نہ کرتے تھے۔ اگلے ڈیسک پر بیٹھ کر توجہ سے سبق سُنتے اور گھر آکر ضرور دہراتے اور کتابوں کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کرتے۔ ایف۔ اے میں بھی سلام نے ریاضی اور سائنس کے مضامین رکھے اور برابر محنت کرتے رہے۔ بارھویں میں اپنے کالج کے رسالہ ”چناب“ کے ایڈیٹر رہے۔ انہیں مضمون لکھنے کا بہت شوق تھا اور ان کے والد ان کی اس بارہ میں رہنمائی کرتے، ان کے بعض مضمون جھنگ کے علمی حلقہ میں ماہرین کو دکھاتے اور ان سے مشورہ لیتے اور ان کے پرنسپل کو بھی مشورہ دینے کے لیے کہتے۔
عبد السلام بڑے محنتی اور ذمہ دار طالب علم تھے۔ ان کی والدہ بیان کرتی ہیں :۔
”سلام جب سائنس کی تعلیم حاصل کررہا تھا تو روز رات کو کہتا کہ امّی مجھے پڑھنا ہے۔ آپ صبح سویرے چار بجے ضرور اُٹھادیں اور مَیں چار بجے ساڑھے چار بجے اسے اُٹھانے کے لیے جاتی تو وہ پہلے ہی سے جاگ گیا ہوتا اور اپنی پڑھائی میں مصروف نظرآتا تھا۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ وہ مجھے سویرے سوتے ہوئے ملا ہو اور مجھے اسے جگانا پڑا ہو۔ نہ معلوم وہ کب اور کتنے اندھیرے سے اُٹھ بیٹھتا تھا۔ اسے بچپن ہی سے علم سے محبت تھی اور ہمیشہ پڑھائی میں اوّل آتا رہا۔“ ( ”مشرق“ لاہور 19 اکتوبر1979ء )
1942ء میں عبد السلام نے ایف۔ اے کیا۔ 85فیصد نمبر لے کر صوبے بھر میں اوّل آئے اور 30روپے ماہوار وظیفہ حاصل کیا۔ کالج کی طرف سے انہیں خالص سونے کا میڈل بطور انعام دیا گیا۔
سلام نے یہ سب کامیابیاں ایک ایسے گھر میں رہ کر حاصل کیں جو کہ بہت چھوٹا تھا۔ اس میں بجلی بھی نہ تھی، چھوٹے بہن بھائی بھی کافی تھے، گھر میں شور بھی ہوتا ہوگا لیکن سلام ان حالات میں نہ صرف خود اعلیٰ کامیابیاں حاصل کرتے رہے بلکہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی بھی تعلیم میں مدد کرتے اور خود رات کی خاموشی میں دِیا جَلا کر محنت کرتے۔ ان کی چھوٹی بہن کا بیان ہے:۔
”گھر میں بجلی نہ تھی، شام کو اُن کے گلوب میں مٹی کا تیل بھرنا اور ایک بوتل بھر کر اُن کی چارپائی کے نیچے رکھنا میری ڈیوٹی ہوتی تھی۔ رات کو اکثر تین بجے پڑھنے کے لیے اُٹھ جاتے تھے۔ اس وقت انھوں نے دوبارہ تیل بھر کر پڑھائی شروع کرنی اور صبح ہمارے اُٹھنے سے پہلے آرام کے لیے لیٹ جانا۔ اکثر وہ رات کی خاموشی میں پڑھتے تھے۔“ (خط بنام خاکسار 26 مارچ 1982ء)
اسی طرح ان کی بہن کہتی ہیں ”چھوٹے بہن بھائیوں سے پیار سے بولنا، تعلیم میں ان کی مدد کرنی لیکن اس رنگ میں نہیں کہ انہیں کام کرکے دے دینا۔ کہنا خود کرکے لے آؤ جو سمجھ نہ آئے مَیں بتادوں گا۔“ (خط بنام خاکسار 26 مارچ 1982 ء )
1942ء میں ایف۔ اے کرنے کے بعد سلام گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ اس وقت وہ سولہ سال کے تھے۔ اُن دنوں اُن کے والد محکمہ تعلیم میں ملتان ہوتے تھے، اِس لیے انہیں لاہور ہوسٹل میں رہنا پڑا جہاں انہیں شطرنج کھیلنے کی عادت پڑگئی۔ ان کے دوستوں کو ڈر پیدا ہوا کہ کھیل میں وقت ضائع کرنے کی وجہ سے سلام کہیں لڑکوں سے پیچھے نہ رہ جائے اِ س لیے انھوں نے ان کے والد کو ملتان خط لکھا اور سلام کی شکایت کی۔ سلام کے والد ناراض ہوئے اور بیٹے کو شطرنج میں وقت ضائع کرنے سے منع کیا۔ چنانچہ سلام فوراً رُک گئے اور زیادہ محنت سے پڑھنے لگے۔ وہ اپنے کمرے میں اپنے آپ کو بند کرلیتے اور باہر دروازے پر تالا لگوا دیتے اور چودہ چودہ گھنٹے مسلسل پڑھتے رہتے۔ کتابیں ترتیب سے رکھتے۔ ان کی بہن کہتی ہیں کہ جب لاہور چلے گئے تو وہاں سے لکھ دیتے فلاں الماری میں فلاں حصّہ میں یہ کتاب رکھی ہے بھجوا دیں۔ (خاکسار کے نام خط مرقومہ مارچ1982ء )
1944ء میں سلام نے بی۔ اے آنرز کیا اور ہر مضمون میں اوّل آئے اور 90.5فیصد نمبر لے کر نیا ریکارڈ قائم کیا اور سونے اورچاندی کے میڈل حاصل کئے۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں وہ کالج کے رسالے کے چیف ایڈیٹر اور کالج یونین کے صدر رہے۔ 1942ء میں انھوں نے ریاضی پر تحقیقی مقالہ بھی لکھا۔
1946ء میں سلام نے اسی کالج سے ریاضی میں ایم۔ اے کیا اور 95.5فیصد نمبر لے کر یونیورسٹی میں اوّل آئے۔
غرض عبد السلام سکول سے ایم۔ اے تک ہر امتحان میں اوّل آتے رہے اور اس دَوران کُل سات میڈل حاصل کیے۔
سکول اور کالج کی پڑھائی کے دَوران وہ باقاعدہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے، حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں پڑھتے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کتابوں کا مطالعہ کرتے۔ ریاضی کے علاوہ انہیں تاریخِ اسلام، فلاسفی، اکنامکس اور پولیٹیکل سائنس سے بھی دلچسپی تھی اور کئی کتابیں پڑھ کر انھوں نے ان علوم میں مہارت پیدا کی۔