پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام
بیماری اور وفات
ڈاکٹر عبد السلام کے تحقیقی کیریئر (Career) کا آغاز 1949- 50ء میں ہوا تھا اور وہ 1993ء تک مسلسل تحقیقی کاوشیں کرتے رہے بہت کم لوگ ہیں جن کی تحقیق کا عرصہ اتنا طویل ہو۔ (خالد ڈاکٹر عبد السلام نمبر دسمبر1997ء صفحہ نمبر140 )
اس بات کا قوی امکان تھا کہ انہیں دوبارہ نوبیل انعام ملے لیکن ان کی صحت بہت خراب ہو گئی اور وہ پارکنسن سے ملتی جلتی ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہو گئے جس میں پٹھوں کی حرکت متاثر ہوتی ہے۔ جب تک ہمت رہی وہ ویل چیئرپر بھی اپنی سرگرمیوں میں لگے رہے۔ سفر بھی کرتے رہے اور مختلف ممالک کے دورے بھی کیے حتیٰ کہ چلنے پھرنے کے بالکل قابل نہ رہے۔ نہایت صبر اور حوصلے کے ساتھ انھوں نے بیماری کو برداشت کیا۔ انہیں یہ دکھ کھاتا رہا کہ پاکستان اور دنیا کے پسماندہ ملکوں سے جہالت اور غربت دور ہو اور دنیا میں امن اور انصاف اور خوشحالی کی فضا قائم ہو جائے۔ غریب ملک بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کرکے ترقی یافتہ ملکوں کے شانہ بشانہ چلنے کے قابل ہو جائیں اور اپنے وطن پاکستان کی محبت میں تو وہ اکثر آبدیدہ اور بے قابو ہو جاتے تھے۔ اپنی ساری استعدادیں بنی نوع انسان کی خدمت میں لگا کر یہ پہلا احمدی سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام بالآخر 21 نومبر 1996ء کو لندن میں صبح آٹھ بجے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً اکہتر (71) سال تھی۔
”یہ وہ ہے جو خدا کو مانتا ہے۔“
22 نومبر 1996ء کو جمعہ تھا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے بارے میں خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:۔
”۔۔۔ ڈاکٹر (عبد السلام) صاحب بھی دعاؤں ہی کا پھل تھے۔ ان کے والد بزرگوار چوہدری محمد حسین صاحب اور ان کی والدہ ہاجرہ بیگم۔۔۔ دونوں ہی بہت مقدس وجود تھے۔۔۔ انہوں (والدچوہدری محمدحسین صاحب) نے ڈاکٹر عبد السلام کی پیدائش سے پہلے رؤیا میں دیکھا کہ ان کو ایک خوبصورت پاک بیٹا عطا کیا جا رہا ہے اور اس کا نام عبد السلام بتایا گیا۔۔۔ ساری زندگی پھر اس نے اس رؤیا کی سچائی کو ظاہر کیا اور اپنے ماں باپ کے خلوص کی قبولیت کو ظاہر کیا۔۔۔ سائنس کی دنیامیں اتنے بلند مرتبہ تک پہنچنے کے باوجود کامل طور پر خدا تعالیٰ کی ہستی کے قائل۔ بلکہ ایک دفعہ مجھے کہہ رہے تھے کہ جب میں کسی سائنسی اجتماع میں جاتا ہوں تو بعض سرگوشیوں کی آواز آتی ہے۔
بہت سے پاک اور نیک انجام ہیں جن کی بنیادیں بعض دفعہ انسان کی پیدائش سے پہلے ڈال دی جاتی ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر عبد السلام صاحب بھی ان ہی وجودوں میں سے ایک وجود ہیں۔۔۔ ہر میدان میں ایسے ایسے انھوں نے میڈل بچپن سے حاصل کرنے شروع کیے ہیں، ریکارڈ پر ریکارڈ توڑتے چلے گئے اور بعض ایسے ریکارڈ جو پھر اور ہو ہی نہیں سکتے۔ جب سو فیصدی نمبر لے لو گے تو ریکارڈ کیسے ٹوٹے گا۔ اور پھر جب پاکستان میں ناقدری کی گئی تو انگلستان کی حکومت کی فراخ دلی ہے یا قدر شناسی کہنا چاہئے۔ فراخ دلی کا سوال نہیں، انھوں نے بڑی عزت کا سلوک کیا۔ امپیریل کالج کی پروفیسر شپ کی سیٹ عطا کی اور مسلسل ان کے ساتھ بہت ہی عزت اور احترام کا سلوک جاری رکھا ہے۔
پھر اٹلی نے آپ کی عزت افزائی کی۔ انھوں نے جو ایک تحریک کی کہ میرے نزدیک وہاں ٹریسٹ میں ایک سنٹر بننا چاہئے سائنس کے فروغ کا۔ تو حکومت اٹلی نے بڑا حصہ خرچ کا ادا کیا۔ پھر دوسرے اداروں نے بھی اس میں حصہ لیا اور خاص طور پر غریب ممالک کے بچوں کو تعلیمی سہولتیں دے کر ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان کو نقطہ عروج تک پہچانا یہ آپ کا مقصد تھا اور اس میں قطعاً مذہبی تعصب کا اشارہ تک بھی نہیں تھا۔ غیر احمدی، پاکستانی، غیر پاکستانی، پولینڈ کے لڑکے، عیسائی، دہریہ سب پر یہ فیض برابر تھا جو رحمانیت کا فیض ہے اور اللہ کے فضل سے اس کے ساتھ بنی نوع انسان کو بہت بڑا فائدہ پہنچا ہے۔
۔۔۔ اب یہ ہمارا بہت ہی پیارا، علموں کا خزانہ، دنیاوی علوم میں بھی، روحانی علوم میں بھی ترقی کرنے والا، ہمارا پیارا ساتھی اور بھائی ہم سے جدا ہوا۔ اللہ کے حوالے، اللہ کی پیار کی نگاہیں ان پر پڑیں اور ان کو سنبھال لیں اور اس کے علاوہ ان کی اولاد کے لیے بھی یہی دعا کریں کہ خدا ان سے ہمیشہ حسن سلوک رکھے شفقت اور رحمت کا سلوک رکھے اور ان کی دعاؤں کو آگے بھی ان کے خون میں، ان کی نسلوں میں جاری کر دے جو ان کے حق میں قبول ہوئیں۔“ ( الفضل انٹرنیشنل لندن 10 تا 16 جنوری 1997ء)