پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام
شاندار کامیابیوں کا راز
ڈاکٹر عبد السلام کی کامیابیوں کا ایک راز ہے جس کا ذکر انھوں نے جلسہ سالانہ 1979ء کے موقع پر اپنی مختصر تقریر میں یوں کیا ” آج سے تقریباً پندرہ سال پیشتر حضرت والد صاحب چوہدری محمد حسین مرحوم۔۔۔ نے اپنی ڈائری میں مندرجہ ذیل سطور رقم فرمائی تھیں:
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے مرحوم نے بندہ کو بمقام لندن ایک خط لکھا جس میں درج تھا کہ میں آپ کے عزیز فرزند کے متعلق دور افق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھتا ہوں۔
الفاظ پیشگوئی ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں :۔
” میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے۔۔۔ سو اے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا۔“ (تجلیات الہٰیہ روحانی خزائن جلدنمبر20صفحہ نمبر409،410)
میں اس پاک ذات کی حمد و ستائش سے لبریز ہوں کہ اس نے امام و قت کی، میرے والدین کی اور جماعت کے دوستوں کی مسلسل اور متواتر دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا اور عالم اسلام اور پاکستان کے لیے خوشی کا سامان پیدا کیا۔ پاکستان زندہ باد۔۔۔“ (الفضل 31دسمبر1979ء)
ڈاکٹر عبد السلام نے اپنی زندگی کو صحیح دینی اصولوں کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو امام وقت، والدین، بزرگوں، استادوں، غریبوں اور دکھی انسانوں کی دعاؤں کا مستحق بنایا اور خدا تعالیٰ نے ان کے بابرکت وجود کے ذریعے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیشگوئی پوری فرمائی۔ انھوں نے دین کو دنیا پر ہمیشہ مقدم رکھا اور سائنسدانوں اور بڑے بڑے لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ شاہ سویڈن کو نوبیل انعام حاصل کرنے کے دنوں میں قرآن کریم اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اقتباسات کا انگریزی ترجمہ پہنچا کر آئے۔ اسی طرح شاہ حسن کو مراکش میں لٹریچر دے کر آئے۔ اُن کے بہنوئی عبدالشکور صاحب کا بیان ہے کہ وہ جہاں جاتے اپنی خیریت کا خط پاکستان لکھتے رہتے اور واپسی پر ہمیشہ لکھتے کہ پیغام حق پہنچانے کی بھی توفیق ملی، الحمدللہ۔
دراصل ان کی کامیابیوں کا راز یہی ہے کہ وہ دین کی خدمت کرنے والے اور اللہ کے بندوں کے بہت ہمدرد تھے۔ ماں باپ کی بے انتہا خدمت کی انہیں توفیق ملی اور انھوں نے ماں باپ کی بہت دعائیں لیں۔ ان کی ایک بہن کہتی ہیں :۔
”۔۔۔ ابا جان اور محترمہ والدہ صاحبہ سے بہت ادب اور احترام کے ساتھ بات کرتے تھے۔ یہ عادت ان کی شروع دن سے تھی کہ ہر بات اور ہر کام میں ان کے مشورے پر چلنا۔۔۔ ابا جان کے ساتھ کہیں جانا ہوتا تھا تو ہمیشہ ابا جان کو اپنے سے پہلے رکھا۔ لوگ دیکھ کررشک کرتے تھے۔۔۔ والدہ صاحبہ مرحومہ بتایا کرتی تھیں کہ جب بھائی جان انہیں لندن کے سفر پر لے جاتے اور لے آتے تھے تو راستہ میں ان کے ساتھ ایسا حال ہوتا تھا جیسا کہ ایک ماں اپنے معصوم بچے سے کرتی ہے۔ ہر لمحہ ان کے آرام کا دھیان۔ ائیر ہوسٹس بیٹے کے اس سلوک پر اماں جی کو کہا کرتی تھیں آپ نے اپنے بیٹے کو کیسے پالا تھا۔ اماں جی مسکرا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی تھیں۔“ (خط بنام خاکسار21مارچ1982ء)
جناب بشیر احمدرفیق صاحب مربی سلسلہ انگلستان لکھتے ہیں ” جب کبھی آپ نے کسی کو مدعو کیا خواہ وہ دنیوی لحاظ سے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ان کے والد ضرور اس میں شامل ہوتے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ ڈیوک آف ایڈنبرا اور شاہی افراد سے ملاقات تھی تو اپنے والد محترم کو بھی ساتھ لے گئے“۔ (اقتباس ازمضمون ”ا س صدی کا عظیم (۔۔۔ ) سائنسدان“ بحوالہ خالدنومبر1979ء)
ڈاکٹر عبد السلام اپنی تحقیق کی بنیاد ہمیشہ قرآن کریم پر رکھتے تھے اور احادیث نبویؐ اور کتب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے مدد لیتے تھے۔ ہمیشہ دعاؤں سے کام لیتے تھے۔ بہت بڑھ چڑھ کر مالی قربانی اور غریبوں کی امداد کرتے تھے۔ اتنی عزت کے باوجود بہت سادہ انسان تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ فرمایا:۔
”ڈاکٹر سلام کی عزت اور مرتبہ کا یہ مقام ہے کہ اگر کوئی کانفرنس ہو رہی ہو اور اس میں روس، امریکہ اور دیگر ممالک کے چوٹی کے سائنسدان شریک ہوں اور یہ بعد میں کانفرنس ہال میں داخل ہوں تو جونہی یہ داخل ہوتے ہیں سارے لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن ان کی اپنی یہ حالت ہے کہ جسے انگریزی میں Unassumingکہتے ہیں۔ کسی کی پروا نہیں، کوئی خیال نہیں کہ میں اتنا بڑا انسان ہوں۔ نہ آرام کا خیال نہ کپڑوں کا خیال۔ آپ ان سے ملیں تو عام انسانوں جیسا۔۔۔ وہ بالکل نہیں جانتے کہ میں اتنا بڑا سائنسدان ہوں اور دوسروں میں اور مجھ میں کوئی فرق ہے۔“ (خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ مرکزیہ 20اکتوبر1979ء)
ڈاکٹر عبد السلام کی یہ عادت تھی کہ ہر کام میں خلیفۂ وقت سے مشورہ لیتے اور مسلسل دعاؤں کے لیے لکھتے رہتے۔ خلفائے سلسلہ بھی ان سے خصوصی شفقت کاسلوک فرماتے رہے۔ نوبیل انعام ملنے کے بعد 1979ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے تعلیمی منصوبہ کے سلسلہ میں ذہین بچوں کو ہر سال سوا لاکھ روپے کے وظائف کے لیے جو کمیٹی بنائی عزت افزائی کے طور پر ڈاکٹر عبد السلام صاحب کو اس کمیٹی کا صدر بنا دیا۔ (الفضل3جنوری1980ء)
میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اس اعزاز کو اپنے تمام عالمی اعزازات سے بھی زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے۔
ڈاکٹر سلام کی کامیابیوں کا ایک راز یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا قول اور سائنس کو خدا تعالیٰ کا فعل سمجھتے تھے اور سائنس پر تحقیق کو عبادت سمجھتے تھے اور ہمیشہ اپنی تقریروں میں قرآن کریم کے ان حکموں کو پیش کرتے تھے جن میں سائنسی علوم حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صحیح نتائج پر اتنی جلدی پہنچ جاتے رہے جن تک پہنچنے کے لیے باقی سائنسدان کئی کئی سال لیتے تھے۔