پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام
عبد السلام کی پیدائش اور ابتدائی حالات
پہلی بیوی کی وفات کے تین سال بعد چوہدری محمدحسین صاحب کا رشتہ حضرت حافظ نبی بخش صاحب پٹواری کی بیٹی محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ سے طَے ہوا۔ اس رشتہ کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اجازت عطافرمائی اور بیت المبارک قادیان میں خود یہ نکاح پڑھا اور بہت لمبی دُعا کروائی۔ 12 مئی1925ء کو شادی ہوئی اور شادی کے ایک ہفتہ بعد دُلہن اپنے والدین کے پاس سنتوکھ داس ضلع ساہیوال چلی گئیں جہاں ان کے والد صاحب ملازم تھے۔
3 جون1925ء کو انگلستان کے بادشاہ کا یومِ پیدائش تھا۔ چوہدری محمدحسین صاحب مغرب کی نماز پڑھنے کے لیے بیت احمدیہ جھنگ گئے۔ مغرب کی سُنتیں ادا کرتے ہوئے قیام کی حالت میں وہ قرآن کریم کی یہ دعا کررہے تھے:۔
رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔ (الفرقان:75)
یعنی اے ہمارے ربّ! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔
اس دوران اُن پر کشفی حالت طاری ہوئی اور ایک فرشتہ ظاہر ہوا۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں ایک معصوم بچہ تھا۔ فرشتے نے وہ بچہ چوہدری محمدحسین صاحب کو پکڑایا اور کہا کہ اللہ کریم نے آپ کو بیٹا عطا فرمایا ہے۔ انھوں نے اس بچے کا نام پوچھا تو آوازآئی ”عبد السلام“
یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے زبردست بشارت تھی۔ چوہدری صاحب نے خدا کا شکر ادا کیا اور ایک خط لکھ کر اپنی بیوی کو اس کشف سے آگاہ کیا۔
خدائی بشارتوں کے مطابق یہ بچہ29 جنوری 1926ء جمعہ کے روز سنتوکھ داس میں پیدا ہوا۔ بچے کی پیدائش پر چوہدری محمدحسین صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو نام رکھنے کے لیے خط لکھا تو حضور نے فرمایا:
”جب خدا تعالیٰ نے خود نام رکھ دیا ہے تو ہم کیسے دخل دیں۔“ (سرگذشت)
چنانچہ اس بچے کا نام عبد السلام ہی رکھا گیا۔
عبد السلام کے والدین بڑے سمجھدار اور دعائیں کرنے والے تھے۔ انھوں نے خدائی بشارتوں کے ماتحت پیدا ہونے والے اس بچے کی اچھی طرح پرورش کی۔ بچے کی صحت کا خیال رکھا اور اس کے لیے بہت دعائیں کیں۔
جوں جوں عبد السلام بڑے ہورہے تھے باپ کی دعائیں بیٹے کے حق میں پوری ہو رہی تھیں اور خدا تعالیٰ ان کے مستقبل کے بارے میں خبریں دے رہا تھا۔ چوہدری محمدحسین صاحب لکھتے ہیں :۔
”ایک روز عزیز سخت بیمار ہوگیا جان کا بھی خطرہ محسوس ہوا۔ بہت دعاکی تو خواب میں عزیز ایک اچھے خاصے قد والا جوان دکھایا گیا۔“ (سرگذشت)
گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے والد صاحب کو ان کی صحت اور لمبی عمرپانے کی خبر دی۔ ان بشارتوں سے ان کے والدین جہاں خوش ہوکر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے وہاں اپنے بیٹے کی صحت اور پرورش پر زیادہ توجہ دیتے۔ دعائیں کرتے اور حضرت خلیفۃ المسیح کو بھی دعاؤں کے لیے لکھتے رہتے۔
عام طور پر بچے جس عمر میں بولنا شروع کرتے ہیں عبد السلام اس عمر کو پہنچ گئے لیکن ابھی بولتے نہ تھے۔ اُن کے والدین نے ایک احمدی بزرگ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی سے دعا کروائی اور وہ بولنے لگ گئے۔ چنانچہ ان کے والد صاحب بیان کرتے ہیں :
”ایک مرتبہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی چندروز ہمارے گھر پر جھنگ شہر میں مہمان رہے۔ عزیز عبد السلام کی عمر اس وقت چھوٹی تھی اور وہ بولتا نہ تھا جس کا اس کی ماں کو سخت احساس تھا۔ حضرت مولوی صاحب کے پاس عزیز سلام سلّمہ کو لے جا کر شکایت کی کہ یہ بولتا نہیں، دعا فرماویں۔ مولوی صاحب نے بڑی محبت کے لہجے میں عزیز سے خطاب کیا اور کہا
”او گونگو! کیوں نہیں بولتا“
اور فرمانے لگے کہ ”انشاء اللہ یہ اتنا بولے گا کہ دنیا سنے گی۔“ (سرگذشت)
ان کے والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”لُطف یہ ہے کہ جوان ہو کر عزیزنے ریڈیو پر ایک ایسی تقریر کی کہ ساری دنیا میں سُنائی گئی۔“ (سرگذشت)
غرض دعاؤں کی برکت سے عبد السلام نے بولنا شروع کردیا۔