جس کہانی کے اَوراق اس وقت میرے سامنے بکھرے ہوئے ہیں وہ لذت آفریں کے بجائے درد انگیز ۔ اور دلربا سے کہیں زیادہ دل دوز و دل سوز ہے۔ یہ ستم ضریفی بھی کس قدر سوہانِ روح ہے۔ کہ جس گل پوش وادی کا ذکر کرتے وقت اس کے نام سے پہلے ’’جنت نظیر‘‘ کا اضافہ کرنے کے بعد بھی اُس کے جمالیاتی تعارف کا حق ادا نہیں ہوتا اُسی وادی کے باشندوں کا ماضی اور حال دونوں اس قدر کرب آفریں ہیں کہ انہیں مظلوم و مقہور کہہ کر بھی اُن کی بے بسی و کم پرسی کی صحیح کیفیت بیان نہیں ہو پاتی بلکہ اگر میں یہ بھی کہہ دوں تو خلاف واقعہ اور نامناسب نہ ہوگا کہ قیام پاکستان اور ریاست (جموں و کشمیر) کے ایک حصہ پر بھارت کے بالجبر قبضے کے بعد وادی کشمیر کے جو رہنما یا سیاسی کارکن پاکستان آئے ان میں سے بعض نے اس سلسلہ میں جو کچھ لکھا یا کہا اُن تحریروں یا تقریروں نے بھی نہ اُس بے کسی کی صحیح تصویر کھینچی ہے۔ جس کے خونی شکنجے میں مسلمانانِ کشمیر صدیوں سے جکڑے چلے آرہے ہیں اور نہ اُس بربریت و بہیمیت کا اصل خاکہ نگاہوں کے سامنےآتا ہے جس کا وہ ایک زمانے سے نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔۔۔
وہ کون لوگ تھے جو صرف اور صرف انسانیت دوستی کے جذبے سے سرشار اِس مہم میں کُودے اور وہ کون نمک خواران ریاست تھے جنہوں نے مارِ آستین کا رول ادا کرتے ہوئے عین وقت پر ہر پُرخلوص جدوجہد کو سبوتاژ کرکے اسیروں کی رُستگاری کو برسوں پیچھے ڈال دیا۔
آج و تمام مراحل، وہ تمام مساعی، وہ تمام پُرخلوص سرگرمیاں ’’کشمیر کی کہانی‘‘ کے رُوپ میں ہمارے سامنے ہیں۔ جن کی روشنی میں ہر غیرجانب دار اور نیک نیت قاری بآسانی آغازِ جدوجہد آزادی کشمیر کے مالہ و ما علیہ سے آگہی حاصل کرسکتا ہے۔ کہ اس ایوان حریت پسندی کی نیوکس نے رکھی؟ ۔۔۔ اس کی بنیادوں میں سب سے پہلے کس فرد۔ جماعت یا ادارے کی بے لوث قربانیوں اور جاں نثاریوں کا چُونا گارا کھپا؟ اور آج جس جدوجہد کا ہر پہلو عالمی بلکہ تاریخی حیثیت حاصل کئے ہوئے ہے۔ اس کی شریانوں میں دوڑنے والے خون کی آب و تاب کن دردمند انسانیت دوستوں کے حُسن و ایثار و عمل کے مرہونِ منت ہے۔
ثاقب زیرویؔ