روحانی خزائن جلد 20
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ لیکچر ہے جو ۲؍نومبر۱۹۰۴ء سیالکوٹ کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ایک کثیر مجمع میں پڑھا گیا۔ یہ ’’لیکچر سیالکوٹ‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔
اِس لیکچر میں حضور علیہ السلام نے اسلام اور دوسرے مذاہب کا موازنہ کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت اور زندگی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تمام مذاہب ابتداء میں اللہ تعالی کی طرف سے ہی تھے لیکن اسلام کے ظہور کے بعد اللہ تعالی نے باقی تمام مذاہب کی نگہداشت چھوڑ دی ہے جبکہ اسلام میں مجددین و مصلحین کا سِلسلہ برابر جاری ہے۔ چنانچہ اِسی سلسلہ میں اللہ تعالی نے چودھویں صدی میں بھی دینِ اسلام کی تجدید کے لیے ایک مامور کو مبعوث فرمایا ہے۔
حضور علیہ السلام نے اس لیکچر میں پہلی مرتبہ ہندوؤں کے لیے کرشن ہونے کا دعوی پیش فرمایا ہے۔ اور راجہ کرشن کا ذکر ان الفاظ میں حضورؑ فرماتے ہیں:۔
’’راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کا کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا جس پر خدا کی طرف سے روح القدس اترتا تھا۔‘‘
پھر آپ نے بحیثیت کرشن آریہ صاحبان کو ان کی چند بنیادی غلطیوں کی طرف توجہ دلائی ہے جن میں سے سب سے پہلی یہ ہے کہ وہ ارواح اور مادہ کے ذرّات کو ازلی اور غیر مخلوق مانتے ہیں۔ حضور فرماتے ہیں کہ ایسا ماننے سے خدا تعالی کے وجود کی کوئی عقلی دلیل ہاتھ میں نہیں رہتی کیونکہ اگر روح اور مادہ غیر مخلوق ہیں تو ان کا باہم اتصال اور انفصال بھی خود بخود ممکن ہے پھر کسی خدا کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ آریوں نے نجات کو عارضی اور تناسخ کو دائمی قرار دیا ہے۔ یہ امور خدا تعالی کی صفات قدرت، رحم و عدل کے سراسر خلاف ہیں۔
آخر میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دعوی کی صداقت کے چند دلائل بیان فرمائے ہیں جن میں سب سے پہلے وہ علامات ذکر فرمائی ہیں جو قرآن کریم اور احادیث میں مسیح موعود کے ظہور کے لیے مقدّر تھیں اور پھر اپنے الہامات اور پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا ہے جو انتہائی مخالف حالات میں دنیا کے سامنے پیش کی گئی اور آج وہ سب پوری ہو گئی ہیں۔
اس تقریر کے آخر میں حضورؑ لکھتے ہیں: ’’ہم جنابِ الہی میں دعا کرتے ہیں کہ اس تقریر کو بہتوں کے لیے موجب ہدایت کرے۔‘‘