روحانی خزائن جلد 21
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعویٰ سے قبل اسلام کی حقانیت قرآن کریم کے من جانب اللہ ہونے اور نبوتِ محمدیہ کی صداقت کے اثباب میں پچاس حصّوں پر مشتمل ایک کتاب لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا۔ چنانچہ اس کے پہلے چار حصّے ۱۸۸۰ء، ۱۸۸۲ء اور ۱۸۸۴ء میں شائع ہوئے اور مسلمانِ ہند کے عوام و خواص نے اسلام کے دفاع میں اسے ایک بے نظیر تصنیف قرار دیا۔ چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے یہاں تک لکھا کہ ’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعلان فرمایا تھا کہ اگر دشمنانِ اسلام براہین احمدیہ میں مذکور صداقتِ اسلام کے دلائل کے ایک تہائی یا ایک چوتھائی بلکہ پانچواں حصہ کاجواب بھی دے دیں تو انہیں مبلغ دس ہزار روپے انعام دیا جائے گا۔ لیکن کسی کو مقابلہ پر آنے کی جرات نہ ہوئی اور اگر کوئی مقابل پر آیا بھی تو وہ حضور کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالی کی قہری تجلّیوں کا نشانہ بن گیا۔
اِن چار حصوں کی اشاعت کے بعد اللہ تعالی کی حکمت، مصلحت اور مشیتِ خاص سے اس کتاب کے بقّیہ حصوں کی اشاعت لمبے عرصہ تک ملتوی رہی۔ البتہ اسلام کی صداقت اور نبوتِ محمدیہ کی حقانیت پر حضورؑ کی ۸۰ کے قریب تصانیف منظر عام پر آئیں۔
آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ کا پانچواں حصہ لکھنا شروع کیا۔ ۲۳ برس کے بعد اس طویل التواء کا باعث اللہ تعالی کی حکمتیں اور مصلحتیں تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’براہین احمدیہ کے ہر چہار حصّے کہ جو شائع ہو چکے تھے وہ ایسے امور پر مشتمل تھے کہ جب تک وہ امور ظہور میں نہ آجاتے تب تک براہین احمدیہ کے ہر چہار حصہ کے دلائل مخفی اور مستور رہتے اور ضرور تھا کہ براہین احمدیہ کا لکھنا اس وقت تک ملتوی رہے جب تک کہ امتداد زمانہ سے وہ سربستہ امور کھل جائیں اور جو دلائل اُن حصّوں میں درج ہیں وہ ظاہر ہو جائیں کیونکہ براہین احمدیہ کے ہر چہار حصّوں میں جو خدا کا کلام یعنی اس کا الہام جا بجا مستور ہے جو اس عاجز پر ہوا وہ اس بات کا محتاج تھا جو اس کی تشریح کی جائے اور نیز اس بات کا محتاج تھا کہ جو پیشگوئیاں اس میں درج ہیں ان کی سچائی لوگوں پر ظاہر ہو جائے۔ پس اس لیے خدائے حکیم و علیم نے اس وقت تک براہین احمدیہ کا چھپنا ملتوی رکھا کہ جب تک وہ تمام پیشگوئیاں ظہور میں آگئیں۔‘