اللہ تعالیٰ کی صفت سمیع اور دعائیں
خطبہ جمعہ 6؍ جون 2003ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھدوتعوذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعددرج ذیل آیت تلاوت فرمائی
{وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ } (سورۃ البقرہ :۱۲۸)
آج سے اللہ تعالیٰ کی صفت سمیع سے خطبات شروع ہوں گے۔ جو آیت مَیں نے ابھی تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے : اور جب ابراہیم اُس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی (یہ دعا کرتے ہوئے) کہ اے ہمارے ربّ! ہماری طرف سے قبول کر لے۔ یقینا تو ہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
علامہ راغب نے اللہ تعالیٰ کے بارہ میں جب سمیع کا لفظ استعمال ہواہے۔ اس کے بارہ میں لکھاہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اَلسَّمْعُ کا لفظ منسوب کرتے ہیں تو اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا سنائی جانے والی اشیاء کے بارے میں علم ہونا اور ان کے بارہ میں جزا دینے کا ارادہ کرنا ہوتاہے۔جیساکہ اس تعریف سے ظاہر ہے بعض دفعہ لوگ بعض جلد باز یہ دھوکہ کھا جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بہت پکارا،بہت دعا کی لیکن ہماری دعا سنی نہیں گئی۔ ہماری پکار سے یا ہماری دعا سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم ہے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے۔یا جو چیز ہم مانگ رہے ہیں ،جس چیز کے لئے ہم دعا کررہے ہیں اس کی اس حالت میں ضرورت ہے بھی یا نہیں ۔اگر حقیقت میں ہمارا شمار اللہ تعالیٰ کی پیارے بندوں میں ہو، خدا کرے کہ ہو، تو وہ بہتر جانتاہے کہ اس وقت کس رنگ میں ہماری کیا ضرورت ہے۔تو یہ بات دعا کرتے ہوئے ہروقت مدنظر رہنی چا ہئے کہ جہاں وہ سمیع ہے،علیم بھی ہے۔ہمارا کام صرف مانگناہے اور اکثر جب ہماری فریادوں کو اللہ تعالیٰ سنتاہے وہاں اگر اپنے بندے کی کسی دعا کو اس صورت میں جس میں کہ بندہ مانگ رہاہے ردّ بھی کر دیتاہے تو اسے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ وہ واقعہ بڑا مشہور اکثر آپ نے سناہے کہ جو بزرگ تیس سال تک دعا مانگتے رہے اور روز ان کو یہی جوا ب ملتاتھا کہ نہیں منظور۔اور صرف تین دن ان کے ا یک مرید نے ان کے پاس بیٹھ کر جو بے صبری کا مظاہرہ کیا تو وہ رو پڑے کہ مَیں تو اتنے عرصہ سے یہ دعا مانگ رہاہوں اور مجھے یہی جوا ب مل رہا ہے۔اور میرا کام تو مانگنا ہے مانگتا چلا جاؤں گا۔اس بات پر وہی کیفیت دوبارہ طاری ہوئی اور وہ نظارہ مرید نے بھی دیکھاکہ اللہ تعالیٰ کا جواب تھا کہ اس عرصہ میں جتنی دعائیں ہیں سب قبول ہوئیں ۔
تو بڑی بنیادی چیز دعا مانگنے کے لئے صبر ہے اور یہ سوچ لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ بہتر جانتاہے کہ کیا ہمارے لئے ضرور ی ہے۔ اس بارہ میں ایک حدیث ہے۔ اس آیت کی تشریح میں حضرت ابن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ:حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا : اے اسماعیل !اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک خاص حکم دیاہے۔ حضر ت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیا :آپؑ کے رب نے آپ کو جو حکم دیاہے ا س پرعمل کیجئے۔ آپ نے کہا :تو کیاتم میری اس بارے میں مدد کروگے؟حضر ت اسماعیلؑ نے جو اب دیا :ہاں کروں گا۔ حضر ت ابراہیم ؑنے فرمایا :تو پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں اپنا ایک گھر بنانے کا حکم دیاہے اور آ پ نے ایک ٹیلہ نما جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس پر ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھانی شروع کیں ۔ حضرت اسماعیل ؑپتھر لاتے جاتے اور حضرت ابراہیم ؑ (دیوار) بناتے جاتے۔ جب عمارت ذرا بڑی ہو گئی تو آپ یہ پتھر (یعنی حجر اسود) لائے اور آپؑ کے لئے اُسے نیچے رکھا۔ چنانچہ آپؑ اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرتے جاتے تھے جبکہ حضر ت اسماعیل ؑآ پ ؑکو پتھر پکڑاتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ آپ دونوں یہ دعا بھی پڑھتے جاتے تھے : اے ہمارے رب !ہماری طرف سے قبول فرما،یقینا تُو ہی بہت سننے والا اوربہت صاحب علم ہے۔ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ واتخذا للہ ابراہیم …)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’{رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ} یہ انبیا ء ہی کی شان ہے کہ وہ کام کے ساتھ ساتھ دُعائیں بھی کرتے چلے جاتے ہیں ۔ لوگ تھوڑاسا کام کرتے ہیں توفخر کرنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں ۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھو کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ پھر وہ بڑا ہوتا ہے تو اُسے ایک ایسے جنگل میں چھوڑ آتے ہیں جہاں نہ کھانے کا کوئی سامان تھا نہ پینے کا۔ اور پھر خانہ کعبہ کی عمارت بناکر اُن کی دائمی موت کو قبول کر لیتے ہیں ۔ دائمی موت کے الفاظ مَیں نے اس لئے استعمال کئے ہیں کہ ممکن تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واپس آجانے کے بعد وہ وہاں سے نکل کر کسی اَور جگہ چلے جاتے۔ مگر بیت اللہ کی تعمیر کے ساتھ وہ خانہ کعبہ کے ساتھ باندھ دیئے گئے گویا خانہ کعبہ کی ہر اینٹ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو بزبان حال کہہ رہی تھی کہ تم نے اب اسی جنگل میں اپنی تمام عمر گزارنا ہے۔ یہ کتنی بڑی قربانی تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے کی۔ مگر ا س کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے اور کہتے ہیں کہ {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا} اے اللہ! ہم ایک حقیر ہدیہ تیرے حضور لائے ہیں ، تُو اپنے فضل سے چشم پوشی فرما کر اسے قبول فرمالے۔ اور پھر کتنے تکلّف سے قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں ۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : تَقَبَّلْ باب تفعّل سے ہے اور تفعّل میں تکلّف کے معنے پائے جاتے ہیں ۔ پس وہ کہتے ہیں کہ تُو خود ہی رحم کرکے اس قربانی کو قبول فرمالے۔ حالانکہ یہ اتنی بڑی قربانی تھی کہ اس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو قربان کر رہا تھا اور خانہ کعبہ کی ہر اینٹ اُن کو بے آب و گیاہ جنگل کے ساتھ مقید کر رہی تھی۔ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام اُس کی ایک ایک اینٹ کے ساتھ اُن کے جذبات و احساسات کو دفن کر رہے تھے۔ مگر دُعا یہ کرتے ہیں کہ الٰہی یہ چیز تیرے حضور پیش کرنے کے قابل تو نہیں مگر تُو ہی اسے قبول فرمالے۔یہ کتنا بڑا تذلّل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اختیار فرمایا۔ اور درحقیقت قلب کی یہی کیفیت ہے جو انسان کو اونچا کرتی ہے۔ورنہ اینٹیں تو ہر شخص لگا سکتا ہے۔ مگر ابراہیمی دل ہو تب وہ نعمت میسر آتی ہے جو خدا تعالیٰ نے اُنہیں عطا فرمائی۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ} کہے۔ لیکن افسوس ہے کہ لوگ {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا} کہنے کی بجائے یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہماری قدر نہیں کی جاتی۔ حالانکہ وہ جو کچھ کرتے ہیں دوسروں کی نقل میں کرتے ہیں ۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کسی کی نقل میں قربانی نہیں کی۔ بلکہ اِدھر خدا نے حکم دیا اور اُدھر وہ قربانی کے لئے تیار ہوگئے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا کے ستون ہوتے ہیں اور جن کا بابرکت وجود مصائب کے لئے تعویذ کا کام دے رہا ہوتا ہے۔ وہ قربانیاں بھی کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ کہتے جاتے ہیں کہ اے خدا! ہماری قربانی اس قابل نہیں کہ تیرے حضور پیش کی جاسکے۔ تیری ہستی نہایت اعلیٰ وارفع ہے۔ ہاں ہم امید رکھتے ہیں کہ تو چشم پوشی سے کام لیتے ہوئے اسے قبول فرمالے گا۔ تیرا نام سمیع ہے اورتُو دعاؤں کو سننے والا ہے۔ ہماری یہ قربانی قبول کرنے کے لائق تو نہیں مگر تُو جانتا ہے کہ ہمارے پاس اس سے زیادہ اور کچھ چیز نہیں جو تیرے سامنے پیش کریں ۔ ایک طرف تیرا سمیع ؔ ہونا چاہتا ہے کہ تُو ہم پر رحم کرے اور دوسری طرف تیرا علیم ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ تُو جانتا ہے کہ ہمارے جیسے نے کیا قربانی کرنی ہے۔ اسی روح کا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے مظاہر ہ کیا۔ اور جب وہ دونوں مل کر بیت اللہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتے جاتے تھے کہ {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا} اے ہمارے رب ہم نے خالص تیری توحید اور محبت کے لئے یہ گھر بنایا ہے۔ تُو اپنے فضل سے اسے قبول کرلے اور اس کو ہمیشہ اپنے ذکر اور برکت کی جگہ بنادے۔{اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ} تُو ہماری دردمندانہ دُعاؤں کو سننے والا اور ہمارے حالات کو خوب جاننے والا ہے۔ تُو اگر فیصلہ کردے کہ یہ گھر ہمیشہ تیرے ذکر کے لئے مخصوص رہے گا تو اسے کون بدل سکتا ہے۔ (تفسیر کبیر۔ جلد نمبر ۲ صفحہ ۱۷۷ تا ۱۸۰)
حضرت مصلح موعود ؓ مزید فرماتے ہیں :
’’اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیت اللہ بنانے کے درحقیقت دو حصے ہیں ۔ ایک حصہ بندے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور دوسرا حصہ خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔جس مکان کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں وہ اینٹوں سے بنتا ہے، چونے سے بنتا ہے، گارے سے بنتا ہے۔ اور یہ کام خدا نہیں کرتا بلکہ انسان کرتا ہے۔ مگر کیا انسان کے بنانے سے کوئی مکان بیت اللہ بن سکتا ہے۔ انسان تو صرف ڈھانچہ بناتا ہے۔ روح اُس میں خداتعالیٰ ڈالتا ہے۔ اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ڈھانچہ تو مَیں نے اور اسمٰعیل ؑ نے بنا دیا ہے۔ مگر ہمارے بنانے سے کیا بنتا ہے۔ کئی مسجدیں ایسی ہیں جو بادشاہوں اور شہزادوں نے بنائیں مگر آج وہ ویران پڑی ہیں ۔ اس لئے کہ انسان نے تو مسجدیں بنائیں مگر خدا نے انہیں قبول نہ کیا۔ پس حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ کہتے ہیں کہ اے خدا! ہم نے تیرا گھر بنایاہے اِسے تُو قبول فرما۔ اور تُو سچ مچ اس میں رَہ پڑ۔ اور جب خدا کسی جگہ بس جائے تو وہ کیسے اُجڑ سکتا ہے!۔ گاؤں اُجڑجائیں تو اُجڑجائیں شہر اُجڑ جائیں تو اُجڑجائیں ۔ مگر وہ مقام کبھی اُجڑ نہیں سکتا جس جگہ خدا بَس گیا ہو۔ (تفسیر کبیر۔ جلد نمبر ۲ صفحہ۱۸۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ اس ضمن میں فرماتے ہیں :
’’{ اَلسَّمِیْعُ الْعَلِیْم}:دعائیں سنتاہوں ۔دلوں کے بھیدوں ،ضرورتوں ،اخلاص کو جانتاہے۔ (حقائق الفرقان جلد ۱صفحہ ۲۲۸ مطبوعہ ربوہ )
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’یہ ایک دعا ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جناب ربّ العزّت اور ربّ العالمین اللہ جلّ شانہٗ کے حضور مانگی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اِس دنیا میں اِسلام کے آنے اور اس کے ثمرات کے ظہور کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت ابراہیمؑ کے ذریعہ ایک دعا کی تقریب پیدا کردی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تُو ہمارا ربّ اور مربی اور محسن ہے۔ تیری عالمگیر ربوبیّت سے جیسے جسم کے قویٰ کی پرورش ہوتی ہے۔ عمدہ اور اعلیٰ اخلاق سے انسان مزیّن ہوتا ہے ویسے ہی ہمارے روح کی بھی پرورش فرما اور اعتقادات کے اعلیٰ مدارج پر پہنچا۔ اے اللہ! اپنی ربوبیت کے شان سے ایک رسول ان میں بھیجیؤ جو کہ مِنْھُمْ یعنی انہی میں سے ہو اور اس کا کام یہ ہو کہ وہ صرف تیری(اپنی نہیں ) باتیں پڑھے، اور پڑھائے اور صرف یہی نہیں بلکہ ان کو سمجھا اور سکھلا بھی دے۔ پھر اِس پر بس نہ کیجیؤ بلکہ ایسی طاقت، جذب اور کشش بھی اسے دیجیؤ جس سے لوگ اس تعلیم پر کاربند ہوکر مزکی اور مطہر بن جاویں ۔ تیرے نام کی اس سے عزت ہوتی ہے کیونکہ تُو عزیز ہے اور تیری باتیں حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہوتی ہیں ۔ اس دعا کی قبولیت کس طرح سے ہوئی وہ تم لوگ جانتے ہو اور یہ صرف اس دعا ہی کے ثمرات ہیں جس سے ہم فائدے اٹھاتے ہیں ۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد ۱ صفحہ ۲۳۳،۲۳۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں :کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اِس مسجد (خانہ کعبہ) کی تعمیر کے وقت سات دعائیں کی ہیں :- اوّل:{رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا}۔دوم:{رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنْا اُمَّۃً مُسْلِمَۃً لَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا} یعنی اے ہمارے ربّ! اپنا ہی ہمیں فرمانبردار بنادے اور ہماری اولاد سے ایک گروہ مُعَلِّمُ الْخَیْر تیرا فرمانبردار ہو اور دکھا ہمیں اپنی عبادت گاہیں اور طریق عبادت۔سوم:{وَاجْنُبْنِی وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَالْاَصْنَام} (ابراھیم : ۳۶)۔ بچا لے مجھے اور میری اولاد کو کہ بُت پرستی کریں ۔چہارم یہ کہ:{ وَارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرَاتِ} اور رزق دے مکہ والوں کو پھلوں سے۔پنجم:{فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّن النَّاسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِمْ} (ابراہیم :۳۹) کچھ لوگوں کے دل اس شہر کی طرف جھکا دے۔ششم: {وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا} ان میں عظیم الشان رسول بھیج۔ہفتم : {اِجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا} (ابراھیم : ۳۶) اِس شہر کو امن والا بنا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ فرماتے ہیں کہ :’’ قرآن کریم میں ان دعاؤں کے قبول ہونے کا ذکر آیاتِ ذیل میں ہے جو سات ہیں :اوّل جو دعا کی اس کے جواب میں :{جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ} (المائدۃ : ۹۸) اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو عزت والا اور حرمت والا بنایا۔ دوم:{وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا وَاِنَّہٗ فِی الْاٰ خِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ } (البقرۃ : ۱۳۱) اور بے ریب برگزیدہ کیا ہم نے اسے اسی دنیا میں اور بے ریب آخرت میں سنوار والوں سے ہے۔ سوم:{طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ} (البقرۃ:۱۲۶) یعنی ستھرا رکھو اس میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اِعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے۔ اور فرمایا {وَھُدًی لِّلنَّاسِ} ہدایت کا مقام ہے لوگوں کے لئے۔چہارم:{ اَطْعَمَھُمْ مِنْ جُوْعٍ } (قریش:۵) کھانا دیا ان کو بھوک کے بعد۔
اب دیکھیں تو مکہ جس علاقہ میں ہے وہاں نہ کوئی ایسی کھیتی باڑی ہے جہاں سے مختلف قسم کی خوراکیں آتی ہوں لیکن اس قبولیت کے نتیجہ میں آج بلکہ اس زمانہ میں بھی تجارتی قافلے آتے تھے ہر چیز لے کے آتے تھے کھانے کی۔اور آج بھی ہر چیز وہاں میسر ہے۔
پنجم :{وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِلنَّاسِ} (البقرۃ:۱۲۶)۔ بیت اللہ کو لوگوں کیلئے جُھنڈ در جُھنڈ آنے کی جگہ بنایا۔ اب دیکھیں حج کے موقع پر لاکھوں آدمی ہر سال وہاں اکٹھے ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی سارا سال لوگ عمرہ کے لئے جاتے رہتے ہیں ۔ ششم:{ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّینَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ} (الجمعۃ:۳) اللہ وہ ہے جس نے بھیجا مکہ والوں میں رسول، انہی میں سے۔ پڑھتا ہے ان پر اللہ کی آیتیں ۔ پاک کرتا ہے انہیں اور سکھاتا ہے ان کو کتا ب و حکمت۔یعنی نبی کریم ﷺ۔ہفتم:{وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا} (اٰل عمران: ۹۸) اور جو داخل ہؤا مکہ میں ، ہؤا امن پانے والا۔
تو حضور فرماتے ہیں کہ:’’ سات دعائیں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰ ۃ والسلام وبرکاتہ نے مانگیں اور ساتوں قبول ہوئیں ‘‘۔(نور الدین صفحہ۲۴۹۔۲۵۰)
اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’دعاؤں سے کبھی گھبرانا نہیں چاہا۔ ان کے نتائج عرصہ دراز کے بعد بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں لیکن مومن کبھی تھکتا نہیں ۔ قرآن شریف میں دعاؤں کے نمونے موجود ہیں ۔ ان میں سے ایک ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے وہ اپنی اولاد کیلئے کیا خواہش کرتے ہیں : {رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ}۔ اِس دعا پر غور کرو حضرت ابراہیم ؑ کی دعا روحانی خواہشوں اور خداتعالیٰ کے ساتھ آپ کے تعلقات، بنی نوع انسان کی بھلائی کے جذبات کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے۔ وہ دعا مانگ سکتے تھے کہ میری اولاد کو بھی بادشاہ بنا دے مگر وہ کیا کہتے ہیں :اے ہمارے رَبّ! میری اولاد میں انہیں میں کا ایک رسول معبوث فرما۔ اس کا کام کیا ہو؟ وہ ان پر تیری آیا ت تلاوت کرے اور اس قدر قوتِ قدسی رکھتا ہو کہ وہ ان کو پاک و مطہر کرے اور ان کو کتاب اللہ کے حقائق و حِکم سے آگاہ کرے۔ اسرارِ شریعت ان پر کھولے۔
پس یہ ایسی عظیم الشان دُعا ہے کہ کوئی دعا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اورا بتدائے آفرینش سے جن لوگوں کے حالاتِ زندگی ہمیں مل سکتے ہیں ۔کسی کی زندگی میں یہ دعا پائی نہیں جاتی۔ حضرت ابراہیم ؑ کی عالی ہمتی کا اس سے خوب پتہ چلتا ہے۔
پھر اس دعاکا نتیجہ کیا ہوااور کب ہوا۔عرصہ دراز کے بعد اس دعا کے نتیجہ میں آنحضرت ﷺجیسا انسان پیدا ہوا اور وہ دُنیا کے لئے ہادی اور مصلح ٹھہرا۔ قیامت تک رسول ہوا اور پھر وہ کتاب لایا جس کا نام قرآن ہے اور جس سے بڑھ کر کوئی رُشد، نُور اور شفا نہیں ہے۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد ۱۔صفحہ ۲۳۳)
حضر ت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ابراہیم علیہ السلام چونکہ صادق اور خدا تعالیٰ کا وفادار بندہ تھا اس لئے ہرایک ابتلا کے وقت خدا نے ا س کی مدد کی جبکہ وہ ظلم سے آگ میں ڈالا گیا۔ خدا نے آگ کو اس کے لئے سرد کردیا …پھر جبکہ ابراہیم نے خدا کے حکم سے اپنے پیارے بیٹے کو جو اسماعیل تھا ایسی پہاڑیوں میں ڈال دیا جن میں نہ پانی نہ دانہ تھا تو خدا نے غیب سے اُس کے لئے پانی اور سامانِ خوراک پیدا کر دیا‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۵۲)
پھر آپ ؑ فرماتے ہیں :
’’ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بہت برکتیں دی تھیں اور وہ ہمیشہ دشمنوں کے حملوں سے سلامت رہا۔ پس میرا نام ابراہیم ؑ رکھ کر خدا تعالیٰ یہ اشارہ کرتاہے کہ ایسا ہی اس ابراہیم ؑ کو برکتیں دی جائیں گی اور مخالف اس کو کچھ ضرر نہیں پہنچا سکیں گے …ابراہیم ؑ سے خدا کی محبت ایسی صاف تھی جو اُس نے اُس کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے کام دکھلائے اور غم کے وقت اُس نے ابراہیم ؑ کو خود تسلّی دی‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۱۴۔۱۱۵)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ:
’’جس طرح حضرت ابراہیم ؑ خانہ کعبہ کے بانی تھے۔ایسا ہی ہمارے نبی ﷺ خانہ کعبہ کی طرف تمام دنیا کوجھکانے والے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کی طرف جھکنے کی بنیاد ڈالی تھی۔ لیکن ہمارے نبی ﷺنے ا س بنیاد کوپورا کیا۔ آپ نے خدا کے فضل اور کرم پرایسا توکّل کیا کہ ہر ایک طالبِ حق کوچاہئے کہ خدا پر بھروسہ کرنا آنجناب سے سیکھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اُس قوم میں پیدا ہوئے تھے جن میں توحید کا نام ونشان نہ تھا اور کوئی کتاب نہ تھی۔ اسی طرح ہمارے نبی ﷺ اُس قوم میں پیدا ہوئے جو جاہلیت میں غرق تھی۔ اور کوئی رباّنی کتاب اُن کونہیں پہنچی تھی۔ اور ایک یہ مشابہت ہے کہ خدا نے ابراہیم ؑ کے دل کوخوب دھویا اور صاف کیا تھا یہاں تک وہ خویش اور اقارب سے بھی خدا کے لئے بیزار ہوگیا اور دنیا میں بجز خدا کے اس کا کوئی بھی نہ رہا۔ ایسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر ہمارے نبی ﷺپر واقعات گزرے۔اور باوجودیکہ مکّہ میں کوئی ایسا گھر نہ تھا جس سے آنحضرت ﷺ کو کوئی شعبہ قرابت نہ تھا۔مگر خالص خدا کی طرف بلانے سے سب کے سب دشمن ہوگئے اور بجز خدا کے ایک بھی ساتھ نہ رہا۔ پھر خدا نے جس طرح ابراہیم کو اکیلا پاکر اِس قدر اولاد دی جو آسمان کے ستاروں کی طرح بے شمار ہوگئی۔اسی طرح آنحضرت ﷺ کو اکیلا پاکر بے شمار عنایت کی۔ اوروہ صحابہ آپ کی رفاقت میں دئے جونُجُوم السَّمَآء کی طرح نہ صرف کثیر تھے بلکہ اُن کے دل توحید کی روشنی سے چمک اٹھے تھے‘‘۔ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن۔ جلد ۱۵ صفحہ۴۷۶۔۴۷۷ حاشیہ)
صفت السمیع کے بارے میں مزید چند احادیث اور اقتباسات پیش کرتاہوں ۔
حضر ت ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم ایک وادی کے قریب پہنچے تو لَااِلٰـہَ اِلَّااللّٰہ اور اللّہ اکبر کا ذکر بلند آواز میں کرنے لگے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو ! دھیماپن اختیار کرو کیونکہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ ’’اِنَّہٗ مَعَکُمْ وَاِنَّہٗ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ‘‘ وہ تو تمہارے ساتھ ہے اور وہ بہت سننے والا اور قریب ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد باب ما یکرہ من رفع الصوت فی التکبیر)
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺرات کو جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور پھرکہتے ’’اے اللہ توُ اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے اورتیرا نام برکت والاہے اور تیری شان بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘۔ اس کے بعد آپ تین دفعہ’لَااِلٰـہَ اِلَّااللّٰہ ‘کہتے اور پھر تین دفعہ’ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا‘کہتے اور پھریہ دعا کرتے’’مَیں دھتکارے ہوئے شیطان کے وساوس اور اس کے شکوک و شبہات ڈالنے سے سَمِیْع اورعَلِیْم خدا کی پناہ میں آتاہوں ۔ (ابوداؤد کتاب ا لصلاۃ باب من رای الاستفتاح بسبحانک اللھم وبحمدک)
حضرت ا نس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ انس آپ کا خادم ہے۔ آپ ﷺ اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو آپ ﷺ نے اَللّٰہُمَّ اکْثِرْ مَالَہٗ وَوَلَدَہٗ وَبَارِکْ لَہٗ فِیْ مَا أَعْطَیْتَہٗ کی دعا کی یعنی اے اللہ توُ اس کے اموال و اولاد کو پھیلا دے اور جو کچھ تُونے اسے دیا ہے اس میں برکت دے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الدعوات باب دعوۃ النبی ﷺ لخادمہ بطول العمروبکثرۃ مالہ)
اس حدیث کی شرح میں ابن حجرؒ بیان کرتے ہیں کہ صحیح مسلم میں حضرت انس ؓ کی اپنی روایت ہے کہ خدا کی قسم ! آج میرے پاس بہت مال ودولت ہے اور میری اولاد اور میری اولاد کی اولاد سو کے عدد سے تجاوز کر چکی ہے۔ (فتح الباری،کتاب الدعوات باب دعوۃ النبی ﷺ لخادمہ بطول العمروبکثرۃ مالہ)
پھر حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے لئے ایک دعا آنحضرت ﷺنے کی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد عبداللہ مقروض ہونے کی حالت میں وفات پا گئے۔ اس پرمَیں نبی ﷺ کے پاس گیا اورعرض کی کہ میرے والد مقروض تھے اور میرے پاس ان کی کھجوروں کی آمد کے علاوہ (قرض اتارنے کے لئے ) کچھ نہیں اور جو قرض ان پر تھا وہ کئی سال تک مَیں ادا کرتا رہوں گا۔ پس آپ ؐمیرے ساتھ تشریف لے چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ سے بُرا سلوک نہ کریں ۔چنانچہ آنحضور ﷺنے کھجوروں کے ایک ڈھیر کے گرد دُ عا کرتے ہوئے چکر لگایا۔پھر دوسرے ڈھیر کے گرد دعا کرتے ہوئے چکرلگایا اوراس کے بعد اس پربیٹھ گئے اور فرمایا :’’اسے ماپو‘‘۔ پھر ان قرض خواہوں کو جو ان کا حصہ تھا پورا ادا کر دیا اور جتنی کھجوریں آپ نے دی تھیں (آپ کی دعا کی قبولیت کی برکت سے ) اتنی ہی کھجوریں باقی رہ گئیں ۔ (بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام )
ایک اور روایت ہے یہ طائف کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ مجھے عروہ ؓ نے بتایا کہ امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺسے عرض کی کہ کیا آپ پر یوم ِاُحُد سے سخت دن بھی آیا ہے؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے تیری قوم سے بڑی تکالیف پہنچی ہیں ۔اوران تکالیف میں سے شدید ترین عقبہ والے دن پہنچی تھی۔ (یعنی طائف کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے ) جب مَیں نے اپنے آپ کو عَبْدِ یَا لِیْل بِن عَبْدِ کُلَال کے سامنے پیش کیا اور اس نے اس بات کا جواب نہ دیا۔ جس کا مَیں نے ارادہ کیا تھا۔مَیں غم زدہ ہونے کی حالت میں لوٹ رہاتھا کہ مَیں ’قَرْنُ الثَّعَالِب ‘چوٹی پر پہنچا۔ مَیں نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا توایک بادل مجھ پرسایہ کررہا تھا۔ مَیں نے دیکھا تو اس میں جبریل تھے۔ انہوں نے مجھے مخاطب کر کے پکارا اور کہا ’’اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کی تیرے بارہ میں رائے سن لی ہے اور اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے فرشتے کوآپ کے پاس بھیجا ہے تا کہ آپ اسے اس کام کا حکم دیں جو آپ اپنی قوم کے بارہ میں چاہتے ہیں ‘‘۔ پس مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے پکارا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور کہا :اے محمد! ﷺا ب فیصلہ آ پ کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر آپ چاہیں تو مَیں دونوں پہاڑوں کوان پر اُلٹا دوں ۔ اس پر نبی ﷺنے فرمایا :’’مَیں تو یہ خواہش رکھتاہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی صلب سے ایسی نسل پیدا کرے جوخدائے واحد کی عباد ت کرے اور اس کا کسی کو بھی شریک نہ قرار دے‘‘۔ (بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ)
چنانچہ ان دعاؤں کے نتیجہ میں بنوثقیف یعنی اہل طائف کو اسلام قبول کرنے کی سعادت ملی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبولیت دعا کے چند نمونے پیش ہیں ۔
آپ فرماتے ہیں کہ سردار نواب محمد علی خان صاحب،رئیس مالیر کوٹلہ کا لڑکا عبدالرحیم خان ایک شدید محرکہ تپ کی بیماری سے بیمار ہوگیا اور کوئی صورت جانبری کی دکھائی نہیں دیتی تھی گویا مردے کے حکم میں تھا۔ اُس وقت مَیں نے اُس کے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے۔تب مَیں نے جناب الٰہی میں عرض کی کہ یا الٰہی مَیں اس کے لئے شفاعت کرتاہوں ۔ اس کے جواب میں خداتعالیٰ نے فرمایا {مَنْ ذَاالَّذِیٓ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ }یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی کے کسی کی شفاعت کر سکے۔ تب مَیں خاموش ہوگیا۔بعد اس کے بغیرتوقف کے یہ الہام ہوا ’’اِنَّکَ اَنْتَ الْمَجَاز‘‘یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی۔ تب مَیں نے بہت تضرع اور ابتہال سے دعا کرنی شروع کی توخدا تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور لڑکاگویا قبر میں سے نکل کر باہر آیا۔اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغرہو گیاتھاکہ مدت دراز کے بعد وہ اپنے اصلی بدن پر آیا اور تندرست ہو گیا اور زندہ موجود ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۲۹،۲۳۰)
اور ان کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی لمبی عمر ہوئی بعد میں ۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’ شیخ مہر علی ہوشیارپوری کی نسبت پیشگوئی۔یعنی خواب میں مَیں نے دیکھا کہ اس کے گھر میں آ گ لگ گئی اور پھر مَیں نے اس کو بجھایا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر میری دعا سے رہائی ہوگی۔ یہ تمام پیشگوئی مَیں نے خط لکھ کر شیخ مہر علی کو اس سے اطلاع دی۔بعدا سکے پیشگوئی کے مطابق اس پر قید کی مصیبت آئی اور پھر قید کے بعد پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے مطابق اس نے رہائی پائی‘‘۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۳۳)
پھر آپ ؑ فرماتے ہیں کہ’’ سردار خان برادر حکیم شاہ نواز خان جو ساکن راولپنڈی ہیں میری طرف لکھتے ہیں کہ ایک مقدمہ میں ان کے بھائی شاہ نواز خان کی مع ایک فریق مخالف کے عدالت میں ضمانت لی گئی تھی جس میں حضرت صاحب سے یعنی مجھ سے بعد اپیل دعا کرائی گئی تھی۔ اور ہر دو فریق نے اپیل کیاتھا۔ چنانچہ دعا کی برکت سے شاہ نوازکااپیل منظور ہوگیا اور فریق ثانی کی اپیل خارج ہو گئی۔ قانون دان لوگ کہتے تھے کہ اپیل کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ بالمقابل ضمانتیں ہیں ۔یہ دعا کااثر تھا کہ دشمن کی ضمانت قائم رہی اور شاہنواز ضمانت سے بری کیا گیا ‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۳۷)
پھر آپ اپنے ایک بیٹے کے بارہ میں قبولیت دعا کے ضمن میں فرماتے ہیں :
’’بشیر احمد میرا لڑکا آنکھوں کی بیماری سے ایسا بیمار ہو گیاتھا کہ کوئی دوا فائدہ نہیں کر سکتی تھی اور بینائی جاتے رہنے کااندیشہ تھا۔ جب شدت مرض انتہا تک پہنچ گئی تب مَیں نے دعا کی تو الہام ہوا ’’بَرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْر ‘‘یعنی میرا لڑکا بشیر دیکھنے لگا۔ تب اسی دن یا دوسرے دن وہ شفایاب ہوگیا۔ یہ واقعہ بھی قریباً سو آدمی کو معلوم ہوگا‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۰)
پھر آپ ؑ کے کچھ الہامات ہیں :
۱۸۸۳ ء کا ایک ہے۔ ’’سَلَامٌ عَلَیْکَ جُعِلْتَ مُبَارَکًا سَمِعَ اللّٰہُ اِنَّہٗ سَمِیْعُ الدُّعَآئِ‘‘۔ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۶۲۰)
تجھ پر سلام۔تومبارک کیا گیا۔ خدا نے دعا سن لی۔ وہ دعاؤں کو سنتاہے۔ (تذکرہ صفحہ ۹۶)
فرماتے ہیں :مجھے بارہا خداتعالیٰ مخاطب کرکے فرما چکاہے کہ ’’جب توُ دعا کرے تو مَیں تیری سنوں گا ‘‘۔ (الحکم جلد ۸ نمبر ۱۷۔ مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۴ ء صفحہ ۴۔تذکرہ صفحہ ۵۱۵ مطبوعہ ۱۹۶۹ ء)
پھر الہام ہے:’’ قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ اُجِیْبَتْ دَعْوَتُکَ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْاوَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْن‘‘ (تذکرہ صفحہ ۶۷۳ ایڈیشن ۱۹۶۹)۔اللہ تعالیٰ نے تیری دعا سن لی۔تیری دعا قبول کی گئی۔اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نیکی کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی مقبول دعاؤں کی توفیق دے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں ۔ اور سب سے بڑھ کر جو دعا ہماری ہونی چاہئے وہ غلبہ اسلام کے لئے کہ اللہ تعالیٰ جلد دنیا پر آنحضرت ﷺکا جھنڈا لہرائے۔
آخر پر ایک اور تھوڑی سی بات کرنا چاہتاہوں ۔ ایڈیشنل وکیل المال صاحب نے توجہ دلائی کہ یہ مہینہ مالی سال کا آخری مہینہ ہے تو اس میں چندہ عام اور چندہ جلسہ سالانہ کی طرف احباب کو توجہ دلائی جائے۔ مجموعی طورپر تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی ایسی فکر کی بات نہیں ۔ جہاں ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے سلوک کیاہے وہ آئندہ بھی انشاء اللہ ہم سے وہی سلوک کرے گااور خود ہمارا کفیل ہوگا۔اور ہماری ہر ضرورت کو پورا کرنے والا ہوگا۔ اس بارہ میں تو ذرّہ بھی کوئی شک نہیں۔ لیکن بعض انفرادی لوگوں کو توجہ دلانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس ضمن میں یہ مَیں عرض کرنا چاہتاہوں کہ اس کی تین صورتیں ہوتی ہیں کہ شروع میں بعض لوگ تشخیص صحیح نہیں کرواتے۔کس وجہ سے ؟وہ بہتر جانتے ہیں ۔ کسی پر مَیں بدظنی نہیں کرتا۔ اس صورت میں ان سے درخواست ہے کہ وہ اب اس سال کے آخری مہینہ میں بھی اپنی صحیح آمد کے مطابق اپنا بجٹ بنوائیں ۔
دوسرے صحیح بجٹ توبنواتے ہیں لیکن بعض حالات ایسے آگئے،کسی ایسے کرائسس میں آگئے کہ چندوں کی ادائیگی نہیں کر سکے اور باوجود بہت کوشش کے، نیک نیتی کے، بہت مشکل میں گرفتار ہیں ۔تو ایسے لوگوں سے درخواست ہے کہ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا تھا کہ آپ درخواست دیں نظام جماعت کو،خلیفہ ٔ وقت کو۔ تو جو ایسی صورت میں ہیں ان کو جس شرح سے بھی وہ دینا چاہتے ہیں اس کے مطابق دیا جائے گا۔یا اگر معاف کروانا چاہتے ہیں تومعاف ہو جائے گا۔ لیکن قول سدید سے کام لینا چاہئے۔ اور اب مَیں بھی یہی کہتاہوں کہ جو بھی درخواستیں آئیں گی انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی خواہش کے مطابق،حالات کے مطابق ان کو اسی طرح (Treat) کیا جائے گا۔
تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر شروع میں بجٹ جو بھی بنا اور اس کے بعد اگر حالات بہتر ہوئے توبجائے اس کے کہ صرف بجٹ کے مطابق ادائیگی ہو جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوئے ان کے مطابق اپنی ادائیگی کرنے کی طرف توجہ کریں ۔کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ سے ہمارے سودے صاف ہوں گے تو وہ سمیع اور علیم خدا ہے، ہمارے حالات سے باخبر ہے۔ہماری نیک نیتی کو دیکھتے ہوئے ہماری دعاؤں کو زیادہ سنے گا اور سب سے زیادہ اگر ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہے اس وقت، اس زمانہ میں اور اپنی ذات کے لئے بھی تو وہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے اور اس کے حضور عاجزانہ دعائیں ہیں جو اس کے حضور قبولیت کا شرف پائیں ۔تو میری یہ درخواست ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کے لئے بھی یہ بہت ضروری ہے کہ اپنے ہر قسم کے معاملات خدا تعالیٰ سـے صاف رکھیں ۔
دعا کے لئے بنیادی چیز صبر ہے۔ اللہ تعالیٰ سمیع و علیم ہے۔
٭…اللہ تعالیٰ کی صفت ’’سمیع‘‘ کے متعلق ایمان افروز تشریحات
٭…کاموں کے ساتھ ساتھ دعا کرنا۔ سنتِ انبیاء
٭…تعمیر بیت اللہ اور اس کی اہمیت و حکمت اور دعائے ابراہیمی
٭…دعاؤں سے کبھی گھبرانا نہیں چاہئے۔ مومن کبھی تھکتا نہیں
٭…نبی اکرم ﷺ کا اعلیٰ وارفع مقام
٭…آنحضرت ﷺ اور سفرِ طائف
٭…چندوں کی ادائیگی اور بجٹ بناتے ہوئے
٭…قول سدید سے کام لیں
۶؍جون ۲۰۰۳ء مطابق ۶؍احسان۱۳۸۲ ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن(برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔