اسلام امن اور بھائی چارے کی تعلیم دینے والا مذہب
خطبہ جمعہ 20؍ جون 2003ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھدوتعوذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعددرج ذیل آیت تلاوت فرمائی
{لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ} (سور ۃ البقرہ :۲۵۷)۔
آ ج کل تمام مغربی دنیا اکٹھی ہوکر عالم اسلام پر یہ الزام لگا رہی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے اور اس بنیادی تشددکی تعلیم کی وجہ سے مسلمانوں میں جہادی تنظیمیں قائم ہیں ۔یہ انتہائی جھوٹا ا ور گھناؤنا الزام اسلام کی تعلیم پر لگایا جا رہا ہے۔ ہر احمدی اس سے بخوبی واقف ہے۔اسلام تو امن،پیار، محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دینے والا مذہب ہے اورجتنی انسانیت کے حقوق کا پاس اسلامی تعلیمات میں ملتاہے اس کی مثال، اس کی نظیر اور کسی تعلیم میں نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی ساتھ مَیں ، بدقسمتی،کہوں گا کہ بعض تشدّد پسند گروہوں نے جن کا اسلامی تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں اپنی انا کی تسکین کے لئے،اپنی ذات کوابھار کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے اسلام کی تعلیم کو اس طرح جہاد ی تنظیموں کے تصورکے ساتھ منسلک کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس کی وجہ سے اسلام کی جو خوبصورت تعلیم تھی اس کا ایک بڑا بھیانک تصور قائم ہو جاتاہے۔ اور یہ کوئی اسلام کی خدمت نہیں ہے بلکہ اسلام کو بدنام کرنے کے مترادف ہے۔ ابھی جو آیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعا لیٰ فرماتاہے۔ترجمہ یہ ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ۔ یقیناہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہوچکی۔ پس جو کوئی شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقینا اس نے ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں ۔ اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں :
’’یہ عجیب بات ہے کہ اسلام پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ وہ جبر سے دین پھیلانے کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اسلام اگر ایک طرف جہاد کے لئے مسلمانوں کو تیار کرتا ہے جیسا کہ اس سورۃ میں وہ فرماچکا ہے کہ {قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِینْ َیُقٰتِلُوْنَکُمْ} (بقرہ:۱۹۱) یعنی تم اللہ کی راہ میں ، ان لوگوں سے جنگ کرو، جو تم سے جنگ کرتے ہیں ۔ تو دوسری طرف وہ یہ بھی فرماتاہے کہ{ لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْن} یعنی جنگ کا جو حکم تمہیں دیا گیا ہے، اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ لوگوں کو مسلمان بنانے کے لئے جبر کرنا جائز ہوگیا ہے، بلکہ جنگ کا یہ حکم محض دشمن کے شر سے بچنے اور اس کے مفاسد کو دُور کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔ اگر اسلام میں جبر جائز ہوتا تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ قرآن کریم ایک طرف تو مسلمانوں کو لڑائی کا حکم دیتا اور دوسری طرف اسی سورۃ میں یہ فرما دیتا کہ دین کے لئے جبر نہ کرو۔ کیا اس کا واضح الفاظ میں یہ مطلب نہیں کہ اسلام دین کے معاملے میں دوسروں پر جبر کرنا کسی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیتا۔ پس یہ آیت دین کے معاملے میں ہر قسم کے جبر کو نہ صرف ناجائز قرار دیتی ہے بلکہ جس مقام پر یہ آیت واقع ہے، اس سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام جبر کے بالکل خلاف ہے۔ پس عیسائی مستشرقین کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ غیرمذاہب والوں کو اسلام میں داخل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہی وہ سب سے پہلا مذہب ہے جس نے دنیا کے سامنے یہ تعلیم پیش کی کہ مذہب کے معاملے میں ہر شخص کو آزادی حاصل ہے اور دین کے بارے میں کسی پر کوئی جبر نہیں ۔‘‘ (تفسیر کبیر۔ جلد دوم۔ صفحہ ۵۸۵ تا ۵۸۶)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں :
’’{لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ}ایک انبیاء کی راہ ہوتی ہے،ایک بادشاہوں کی۔ انبیاء کا یہ قاعدہ نہیں ہوتاکہ وہ ظلم و جَور و تعدّی سے کام لیں ۔ ہاں بادشاہ جبرو اِکراہ سے کام لیتے ہیں ۔پولیس اُس وقت گرفت کرسکتی ہے جب کوئی گناہ کا ارتکاب کردے مگر مذہب گناہ کے ارادے کوبھی روکتاہے۔ پس جب مذہب کی حکومت کو آدمی مان لیتاہے تو پولیس کی حکومت اس کی پرہیزگاری کے لئے ضروری نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جبر واکراہ کا تعلق مذہب سے نہیں ۔پس کسی کو جبر سے مت داخل کرو کیونکہ جو دل سے مومن نہیں ہوا وہ ضرور منافق ہے۔شریعت نے منافق اور کافر کو ایک ہی رسّی میں جکڑا ہے۔ غلطی سے ایسی کہانیاں مشہور ہو گئی ہیں کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا یا گیاہے‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’ عالمگیر کو بھی الزام دیتے ہیں کہ وہ ظالم تھا اور بالجبر مسلمان کرتا (تھا)۔یہ کیسی بیہودہ بات ہے۔ اس کی فوج کے سپہ سالار ایک ہندو تھے۔ بڑا حصہ اس کی عمر کا اپنے بھائیوں سے لڑتے گزرا۔ اس کی موت بھی تاناشاہ کے مقابل میں ہوئی ‘‘۔ پھرآپ فرماتے ہیں کہ’’ اِسلام بادشاہوں کے افعال کا ذمہ دار نہیں ہے۔ مسلمانوں نے یہی غلطی کی کہ معترضین کے مفتریات کو تسلیم کر لیا حالانکہ اسلام دِلی محبت واخلاق سے حق بات ماننے کا نام ہے۔ اسی لئے اسلام میں جبر نہیں ‘‘۔ (حقائق الفرقان جلد اول صفحہ ۳۹۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ مزید فرماتے ہیں :
’’ہمیں کتاب مغازیؔ میں (خواہ کیسی ہی ناقابل وثوق کیوں نہ ہوں ) کوئی ایک بھی مثال نظر نہیں آتی کہ آنحضرت ﷺنے کسی شخص، کسی خاندان،کسی قبیلے کو بزور شمشیر وا ِجبار مسلمان کیا ہو۔سرولیم میور صاحب کافقرہ کیسا صاف صاف بتاتاہے کہ شہر مدینہ کے ہزاروں مسلمانوں میں سے کوئی ایک شخص بھی بزورواِکراہ اسلام میں داخل نہیں کیا گیا اور مکّہ میں بھی آنحضرت ﷺکا یہی رویّہ اور سلوک رہا بلکہ ان سلاطین عظام (محمود غزنوی،سلطان صلاح الدین، اورنگ زیب)کی محقّقانہ اور صحیح تواریخ میں کوئی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ کسی شخص کو انہوں نے بالجبر مسلمان کیا ہو۔ ہاں ہم اِن کے وقت میں غیر قوموں کو بڑے بڑے عہدوں اور مناصب پر ممتاز وسرفراز پاتے ہیں ۔ پس کیسا بڑا ثبوت ہے کہ اہل اسلام نے قطع نظر مقاصدِملکی کے اشاعت ِاسلام کے لئے کبھی تلوار نہیں اٹھائی‘‘۔
پھر فرمایا :’’قوانینِ اسلام کے موافق ہر قسم کی آزادی مذہبی اور مذہب والوں کو بخشی گئی جو سلطنتِ اسلام کی مطیع و محکوم تھے۔{لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ}دین میں کوئی اِجبار نہیں ۔ یہ آیت کھلی دلیل اس امر کی ہے کہ اسلام میں اَور اہلِ مذاہب کوآزادی بخشنے اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم ہے‘‘۔ (فصل الخطاب۔ جلد اول صفحہ ۹۸،۹۹)
پس آج جماعت احمدیہ کا یہ کام ہے کہ ایک مہم کی صورت میں دنیا کے سامنے اسلام کی امن اور آشتی کی جو حسین اور خوبصورت تعلیم ہے وہ پیش کریں ۔اور دنیا کے سامنے کھولیں کہ اسلام تو انصاف اور امن کی تعلیم کا علمبردار ہے۔ جس کی مثال آج کے چودہ سو سال پہلے کے واقعات میں ملتی ہے۔ وہ واقعہ جب بنونضیر مدینہ سے جلاوطن کئے گئے تو ان میں سے وہ لوگ بھی تھے جو انصار کی اولاد تھے۔ انصار نے ان کو روک لینا چاہا مگر آنحضر ت ﷺنے ا س تعلیم کے ماتحت کہ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ان کو اس سے منع فرمایا۔اور یہ انصار کی اولاد اس طرح یہودیوں کے پاس تھی کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی کے نرینہ اولاد یا لڑکا نہیں ہوتاتھا تو وہ منت مانا کرتے تھے کہ اگر میرا لڑکا ہوگاتو مَیں اسے یہودی بنا دوں گا۔ تو اس طرح لڑکے کی پیدائش پر اپنے بچے یہودیوں کے سپرد کر دیا کرتے تھے۔تو یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم کہ تم اپنے لخت جگر کو بھی جب ایک دفعہ کسی کو دے دیتے ہو اور جب و ہ اسے اپنے مذہب پر قائم کر لیتاہے تو پھر زبردستی اس کو بھی واپس نہیں لے سکتے۔
پھر ایک ایسی مثال جو دنیا میں کہیں نظر نہیں آئے گی کہ صلح حدیبیہ کے وقت کیا ہوا۔ جب قریش کی سخت اور کڑی شرطوں پر مسلمان اپنی ذلت محسوس کرنے لگے اور بعض نے ان شرطوں کو نہ ماننے کا اظہار بھی کیا۔ لیکن آنحضرت ﷺنے جو اس کامل یقین پر قائم تھے کہ فتح انشاء اللہ مسلمانوں کی ہے۔ اور یہ اس سمیع وعلیم خدا کا وعدہ ہے کہ فتح یقینا اے محمد ﷺتیری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تیری دعاؤں کو سناہے اور ان کی قبولیت کا وقت قریب آرہاہے ان تمام شرائط کو قبول کیا اور صحابہ کو بھی یہ تعلیم دی کہ اسلام کی فتح جنگوں سے نہیں بلکہ صلح صفائی اور خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے ہوگی۔
اس زمانہ میں بھی اب انشاء ا للہ اسی طرح ہوگا لیکن یہ بات مسلمانوں کو بھی سمجھنی چاہئے کہ اسلام کی فتح تو ضرور ہوگی لیکن زورِبازو سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے فضل اور اس کے احکامات پر عمل کرنے سے ہوگی،جیساکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اگر تم گمراہی کو چھوڑ کرایمان لائے ہو تو گویا تم نے ایک مضبوط کڑے کو پکڑ لیاہے جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں لیکن صرف منہ سے کہہ دیناکہ ہم ایمان لے آئے کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور آنحضرت ﷺکے حکموں کو مضبوط کڑے کی طرح پکڑو گے تو کامیاب ہوگے اور آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ میں مسیح موعود ہی وہ مضبوط کڑا ہے جو احکام ا لٰہی کی صحیح تشریح کرتاہے۔اور آنحضرت ﷺکی تعلیم کو جس طرح پیش کرتاہے وہ صحیح تعلیم ہے۔تو اگر اس پر عمل کروگے تو تم کامیاب ہو جاؤ گے۔
ایک مدت سے مسلمان اپنی زبوں حالی کی وجہ سے بڑے پریشان رہے اور یہ انتظار کرتے رہے کہ مسیح اور مہدی جلد ظاہر ہو تاکہ ہم اس کے ساتھ چمٹ کر اسلام کی ترقی کے نظارے دیکھیں اور اسلام کا درد رکھنے والے دعائیں بھی کررہے تھے لیکن جب اس موعود کا ظہور ہوا تو کیا ہوا، ایک بہت بڑی تعداد انکار ی ہوگئی صرف اس لئے کہ وہ امن وآشتی اور صلح کا پیغام لے کر آیا تھا۔
پھر اس آیت کی مزید تشریح کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ:
’’اقرار اور ایمان سے اس آیت میں یہی مراد ہے کہ وہ شیطان کی باتوں کو ردّ کرتا اور خدا تعالیٰ کی باتوں کو مانتا ہے۔ ایسے شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ{فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی}۔ عروہؔ کے معنے دستے کے بھی ہوتے ہیں جس سے کسی چیز کو پکڑا جاتا ہے اور عروہ ؔاس چیز کو بھی کہتے ہیں جس پر اعتبار کیا جائے اور عروہؔ کے معنے ایسی چیز کے بھی ہوتے ہیں جس کی طرف انسان ضرورت کے وقت رجوع کرے، اور عروہؔ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ہمیشہ قائم رہے اور کبھی ضائع نہ ہو۔ اور عروہؔ بہترین مال کو بھی کہتے ہیں ۔
فرمایا : اگر عروہؔ کے معنے دستے کے لئے جائیں تو اس آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ دین کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسی لطیف چیز قرار دیا ہے جو کسی برتن میں پڑی ہوئی ہو اور محفوظ ہو اور انسان نے اس برتن کا دستہ پکڑ کر اسے اپنے قبضہ میں کر لیا ہو۔
پھر عروہؔ کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دین ایک ایسی چیز ہے جس کا انسان سہارا لے لیتا ہے تاکہ اسے گرنے کا ڈر نہ رہے، جیسے سیڑھیوں پر چڑھنے کے لئے انسان کو رسّہ کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ اسے پکڑ لیتا ہے۔ اسی طرح دین بھی اس رسّہ کی طرح ایک سہارا ہے، اسے مضبوط پکڑ لینے سے گرنے کا ڈر نہیں رہتا۔
پھر فرماتے ہیں کہ عرو ہؔ کہہ کر یہ بھی بتایا کہ اگر انسان اسے مضبوطی سے پکڑلے تو وہ ہر مصیبت کے وقت اس کے کام آتا ہے۔
پھرعروہؔ میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ صرف دین ہی انسان کے کام آنے والی چیز ہے، اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ باقی تمام تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور مصیبت کے آنے پر ایک ایک کرکے کٹ جاتے ہیں ۔ بے شک انسان اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی اپنا بہترین رفیق قرار دیتا ہے لیکن بسا اوقات ان سے کمزوری یا بے وفائی ظاہر ہو جاتی ہے اور اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ حقیقی تعلقات وہی ہیں جن کی بنیادیں دین اور مذہب پر استوار کی جائیں اور انہی میں برکت ہوتی ہے۔ ‘‘ (تفسیر کبیر جلد دوم۔ صفحہ ۵۸۸)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مسلمانوں کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :
’’جس کام کے لئے آپ لوگوں کے عقیدوں کے موافق مسیح ابن مریم آسمان سے آئے گا یعنی یہ کہ مہدی سے مل کر لوگوں کو جبراً مسلمان کرنے کے لئے جنگ کرے گا یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو اسلام کو بدنام کرتاہے۔ قرآن شریف میں کہاں لکھاہے کہ مذہب کے لئے جبر درست ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن شریف میں فرماتاہے {لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ } یعنی دین میں جبر نہیں ہے۔پھر مسیح ابن مریم کو جبر کا اختیار کیونکر دیا جائے گا یہاں تک کہ بجز اسلام یا قتل کے جزیہ بھی قبول نہ کرے گا۔ یہ تعلیم قرآن شریف کے کس مقام، اور کس سیپارہ اور کس سورہ میں ہے۔ سارا قرآن باربار کہہ رہا ہے کہ دین میں جبر نہیں اور صاف طورپر ظاہر کر رہاہے کہ جن لوگوں سے آنحضرت ﷺ کے وقت لڑائیاں کی گئی تھیں وہ لڑائیاں دین کو جبراً شائع کرنے کے لئے نہیں تھیں بلکہ یا تو بطورسزا تھیں یعنی ان لوگوں کو سزا دینا منظور تھا جنہوں نے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کو قتل کر دیا اور بعض کو وطن سے نکال دیا تھااورنہایت سخت ظلم کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے {اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ}۔یعنی ان مسلمانوں کو جن سے کفار جنگ کررہے ہیں بسبب مظلوم ہونے کے مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے کہ جو ان کی مدد کرے۔ اور یا وہ لڑائیاں ہیں جو بطورمدافعت تھیں یعنی جو لوگ اسلام کے نابود کرنے کے لئے پیش قدمی کرتے تھے یا اپنے ملک میں اسلا م کو شائع ہونے سے جبر اً روکتے تھے ان سے بطور حفاظت خود اختیاری یا ملک میں آزادی پیدا کرنے کے لئے لڑائی کی جاتی تھی۔ بجز ان تین صورتوں کے آنحضرت ﷺ اور آپ کے مقدس خلیفوں نے کوئی لڑائی نہیں کی بلکہ اسلام نے غیر قوموں کے ظلم کی ا س قدر برداشت کی ہے جو اس کی دوسری قوموں میں نظیر نہیں ملتی۔
پھریہ عیسیٰ مسیح اور مہدی صاحب کیسے ہوں گے جو آتے ہی لوگوں کو قتل کرنا شروع کردیں گے یہاں تک کہ کسی ا ہل کتاب سے بھی جزیہ قبول نہیں کریں گے اور آیت {حَتّٰی یُعْطُوْا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صٰغِرُوْنَ}کو بھی منسوخ کردیں گے۔ یہ دین اسلام کے کیسے حامی ہوں گے کہ آ تے ہی قرآن کریم کی ان آیتوں کوبھی منسوخ کردیں گے جو آنحضرت ﷺ کے وقت میں بھی منسوخ نہیں ہوئیں اور اِس قدر انقلاب سے پھر بھی ختم نبوت میں حرج نہیں آئے گا۔ اس زمانہ میں جو تیرہ سو برس عہد نبوت کو گزر گئے اور خود اسلام اندرونی طورپر تہتر فرقوں پر پھیل گیا۔ سچے مسیح کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ دلائل کے ساتھ دلوں پر فتح پاوے،نہ تلوار کے ساتھ۔ اور صلیبی عقیدہ کو واقعی اور سچے ثبوت کے ساتھ توڑ دے،نہ یہ کہ ان صلیبوں کو توڑتاپھرے جو چاندی یا سونے یا پیتل یا لکڑی سے بنائی جاتی ہیں ۔اگر تم جبر کروگے تو تمہارا جبر اس بات پر کافی دلیل ہے کہ تمہارے پاس اپنی سچائی پر کوئی دلیل نہیں ۔ ہر یَک نادان اور ظالم طبع جب دلیل سے عاجز آ جاتاہے تو پھر تلوار یابندوق کی طرف ہاتھ لمبا کرتا ہے مگر ایسا مذہب ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتا جو صرف تلوار کے سہارے سے پھیل سکتاہے نہ کسی اور طریق سے۔ اگر تم ایسے جہاد سے باز نہیں آ سکتے اور اس پرغصہ میں آ کر راستبازوں کا نام بھی دجّال اور ملحد رکھتے ہو تو ہم ان دوفقروں پر اس تقریر کو ختم کرتے ہیں {قُلْ یٰـٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ لَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ}۔(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلا م جلد ۱ صفحہ ۷۴۷۔۷۴۸)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے وہ تعلیم اور تربیت کے لئے کرتا ہے چونکہ شوکت کا زمانہ دیر تک رہتا ہے اور اسلام کی قوت اور شوکت صدیوں تک رہی اور اس کے فتوحات دُور دراز تک پہنچے اس لئے بعض احمقوں نے سمجھ لیا کہ اسلام جبر سے پھیلایا گیا۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم ہے {لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ}۔ اس امر کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے (کہ)اسلام جبر سے نہیں پھیلا اللہ تعالیٰ نے خاتم الخلفا کو پیدا کیا اور اس کاکام یضع الحرب رکھ کر دوسری طرف {لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ }قرار دیا۔ یعنی وہ اسلام کا غلبہ ملل ہالکہ پر حجت اور براہین سے قائم کرے گا اور جنگ وجدال کو اٹھا دے گا۔ وہ لوگ سخت غلطی کرتے ہیں جو کسی خونی مہدی اور خونی مسیح کا انتظار کرتے ہیں ۔‘‘ (الحکم جلد ۶۔نمبر۲۴۔ مؤرخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۲ء۔ صفحہ۳)
پھر آپ ؑ فرماتے ہیں کہ:
’’مذہبی امور میں آزادی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے {لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ} کہ دین میں کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے۔ اس قسم کا فقرہ انجیل میں کہیں بھی نہیں ہے۔ لڑائیوں کی اصل جڑ کیا تھی، اس کے سمجھنے میں ان لوگوں سے غلطی ہوئی ہے۔ اگر لڑائی کا ہی حکم تھا تو تیرہ برس رسول اکرم ﷺ کے تو پھر ضائع ہی گئے کہ آپ نے آتے ہی تلوار نہ اٹھائی۔ صرف لڑنے والوں کے ساتھ لڑائیوں کا حکم ہے۔ اسلام کا یہ اصول کبھی نہیں ہوا کہ خود ابتدائے جنگ کرے۔ لڑائی کا کیا سبب تھا، اسے خود خدا نے بتلایا ہے کہ ظُلِمُوْا۔ خدا نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مظلوم ہیں تو اب اجازت دیتا ہے کہ تم بھی لڑو۔ یہ نہیں حکم دیا کہ اب وقت تلوار کا ہے، تم زبردستی تلوار کے ذریعہ لوگوں کو مسلمان کرو بلکہ یہ کہا ہے کہ تم مظلوم ہو۔ اب مقابلہ کرو۔ مظلوم کو تو ہر ایک قانون اجازت دیتا ہے کہ حفظ جان کے واسطے مقابلہ کرے۔‘‘ (البدر جلد۲ نمبر ۱-۲۔ مورخۂ ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۳ء )
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں :
’’نواب صدیق حسن خان کا یہ خیال صحیح نہیں تھا کہ مہدی کے زمانے میں جبر کر کے لوگوں کو مسلمان کیا جائے گا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ{لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ(البقرہ:257)} یعنی دین اسلام میں جبر نہیں ہے ہاں عیسائی لوگ ایک زمانے میں جبراً لوگوں کو عیسائی بناتے تھے مگر اسلام جب سے ظاہر ہوا،وہ جبر کے مخالف ہے۔ جبر اُن لوگوں کا کام ہے جن کے پاس آسمانی نشان نہیں مگر اسلام تو آسمانی نشانوں کا سمندر ہے۔ کسی نبی سے اس قدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ کیونکہ پہلے نبیوں کے معجزات ان کے مرنے کے ساتھ ہی مر گئے مگر ہمارے نبی ﷺ کے معجزات اب تک ظہور میں آ رہے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے۔ جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت ﷺ کے معجزات ہیں ۔ مگر کہاں ہیں وہ پادری اور یہودی یا اَور قومیں ، جو اِن نشانوں کے مقابل پر نشان دکھلاسکتے ہیں ۔ ہرگز نہیں ! ہرگز نہیں !! ہرگز نہیں !!! اگرچہ کوشش کرتے کرتے مر بھی جائیں تب بھی ایک نشان بھی دکھلا نہیں سکتے کیونکہ ان کے مصنوعی خدا ہیں ۔ سچے خدا کے وہ پیرو نہیں ہیں ۔ اسلام معجزات کا سمندر ہے۔ اس نے کبھی جبر نہیں کیا اور نہ اس کو جبر کی کچھ ضرورت ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی ۳۵-۳۶۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۶۸،۴۶۹)
پھر آپ ؑ فرماتے ہیں :
’’یہ جہالت اور سخت نادانی ہے کہ اس زمانے کے نیم ملاّ فی الفور کہہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبراً مسلمان کرنے کے لئے تلوار اٹھائی تھی اور انہی شبہات میں ناسمجھ پادری گرفتار ہیں مگر اس سے زیادہ کوئی جھوٹی بات نہیں ہوگی کہ یہ جبر اور تعدی کا الزام اس دین پر لگا یا جائے جس کی پہلی ہدایت یہی ہے کہ{لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ(البقرہ:۲۵۷)} یعنی دین میں جبر نہیں چاہیے بلکہ ہمارے نبی ﷺ اور آپ کے بزرگ صحابہ کی لڑائیاں یا تو اس لئے تھیں کہ کفار کے حملے سے اپنے تئیں بچایا جائے۔ اور یا اس لئے تھیں کہ امن قائم کیا جائے۔ اور جو لوگ تلوار سے دین کو روکنا چاہتے ہیں ،ان کو تلوار سے پیچھے ہٹایا جائے۔‘‘ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۵۸)
آپؑ فرماتے ہیں کہ:-
’’تمام سچے مسلمان جو دنیا میں گزرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے۔ پس جو لوگ مسلمان کہلاکر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے، وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے۔‘‘ (تریاق القلوب۔روحانی خزائن جلد ۱۵- حاشیہ صفحہ ۱۶۷)
پس آج ہراحمدی کا یہ فرض بنتاہے کہ اسلام کی جو تصویر،جو تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھینچی ہے اور دی ہے اس کو لے کر اسلام کے امن اورآشتی،صلح اور صفائی کے پیغام کو ہر جگہ پہنچا دیں اور دنیا میں یہ منادی کریں کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ اپنی حسین تعلیم سے دنیا میں پھیلا ہے۔ اوراپنوں کوجو آنحضرت ﷺکی طرف اپنے آپ کو منسوب کررہے ہیں ، یہ پیغام دیں کہ تم کس غلط راستے پر چل رہے ہو۔ان کو سمجھائیں ،ان کے لئے دعائیں کریں کیونکہ یہ لوگ بھی اِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْن کے زمرے میں ہیں ۔دنیا کوباور کرانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی ترقی آپ ﷺکے زمانے میں بھی اس فانی فی اللہ کی دعاؤں کا نتیجہ تھی اور اس زمانہ میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے عاشق صادق اور غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور اسلام کے صحیح تصور کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی نتیجہ میں ہوگی۔انشاء اللہ
آج جماعت احمدیہ کا یہ کام ہے کہ ایک مہم کی صورت میں دنیا کے سامنے اسلام کی امن اور آشتی کی جو حسین اور خوبصورت تعلیم ہے وہ پیش کریں
٭…اسلام پر تشدد کا الزام ایک انتہائی گھناؤنا الزام ہے
٭…اسلام امن، محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دینے والا مذہب ہے
٭…آج جماعت احمدیہ کا یہ کام ہے کہ ایک مہم کی صورت میں دنیا کے سامنے اسلام کی، امن اور آشتی کی جو حسین اور خوبصورت تعلیم ہے وہ پیش کریں ۔
٭…اسلام کی فتح جنگوں سے نہیں بلکہ صلح صفائی اور خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے ہو گی۔
٭…عصرِ حاضر اور جہاد کا غلط تصور
٭…ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ اسلام کی جو تصویر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھینچی ہے ……اس کو لے کر …… پیغام کو ہرجگہ پہنچا دیں ۔
۲۰؍جون ۲۰۰۳ء مطابق ۲۰؍احسان۱۳۸۲ ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن(برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔