نظام کی کامیابی اطاعت میں ہے۔ اللہ کی رسی کو پکڑنے اور نظام سے وابستہ رہنے میں آپ کی بقاء ہے
خطبہ جمعہ 22؍ اگست 2003ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھدوتعوذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا
نظام کی کامیابی کا اورترقی کاانحصار اس نظام سے منسلک لوگوں اور اس نظام کے قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی کرنے پر ہوتاہے۔ چنانچہ دیکھ لیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی پابندی کی شرح تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک سے بہت زیادہ ہے اوران ممالک کی ترقی کی ایک بہت بڑی وجہ یہی ہے کہ عموماً چاہے بڑا آدمی ہو یا ا فسر ہو اگر ایک دفعہ اس کی غلطی باہر نکل گئی تو پھر اتنا شور پڑتاہے کہ اس کو اس غلطی کے نتائج بہر حال بھگتنے پڑتے ہیں اور اپنی اس غلطی کی جو بھی سزا ہے اس کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ غریب ممالک میں یا آ ج کل جو ٹرم (Term) ہے تیسری دنیا کے ممالک میں آپ دیکھیں گے کہ اگر کوئی غلط بات ہے تو اس پر اس حد تک پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ احساس ندامت اور شرمندگی بھی ختم ہو جاتاہے اور نتیجۃً ایسی باتیں ہی پھر ملکی ترقی میں روک بنتی ہیں ۔تو اگر دنیاوی نظام میں قانون کی پابندی کی اس حد تک، اس شدت سے ضرورت ہے تو روحانی نظام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترا ہوا نظام ہے اس میں کس حد تک اس پابندی کی ضرورت ہوگی اورکس حد تک اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی۔یاد رکھیں کہ دینی اور روحانی نظام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں کے ذریعہ اس دنیا میں قائم ہوتے ہیں اس لئے بہر حال انہی اصولوں کے مطابق چلنا ہوگا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں اور نبی کے ذریعہ، انبیاء کے ذریعہ پہنچے اور اسلام میں آنحضرت ﷺ کے ذریعہ یہ نظام ہم تک پہنچا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا حسان ہے احمدیوں پر کہ نہ صرف ہادی ٔکامل ﷺکی امت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فرمائی جس میں ایک نظام قائم ہے، ایک نظام خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں ۔لیکن یاد رکھیں کہ یہ کڑا تو ٹوٹنے والا نہیں لیکن اگر آپ نے اپنے ہاتھ اگر ذرا ڈھیلے کئے تو آپ کے ٹوٹنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے۔ اس لئے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نظام جماعت سے ہمیشہ چمٹے رہو۔ کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں ۔ یادرکھیں شیطان راستہ میں بیٹھا ہے۔ ہمیشہ آپ کو ورغلاتا رہے گا لیکن اس آیت کو ہمیشہ مدنظر رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ}(سورۃ البقرہ :۲۰۹)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم سب کے سب اطاعت (کے دائرہ) میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو۔ یقینا وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔
حضرت مصلح موعود ؓاس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ :’’اے مومنو! تم سارے کے سارے پورے طور پر اسلام میں داخل ہو جاؤ اور اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر کامل طور پر رکھ لو۔ یا اے مسلمانو! تم اطاعت اور فرمانبرداری کی ساری راہیں اختیار کرو اور کوئی بھی حکم ترک نہ کرو۔ اس آیت میں کَآفَّۃً، اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا بھی حال ہو سکتا ہے اور اَلسِّلْم کا بھی۔ پہلی صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جاؤ۔ یعنی تمہارا کوئی فرد بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو اطاعت اور فرمانبرداری کے مقام پر کھڑا نہ ہو۔ یا جس میں بغاوت اور نشوز کے آثار پائے جاتے ہوں ۔ دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم پورے کا پورا اسلام قبول کرو۔ یعنی اس کا کوئی حکم ایسا نہ ہو جس پر تمہارا عمل نہ ہو۔ یہ قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ ہر مومن سے چاہتا ہے کہ انسان اپنی تمام آرزوؤں تمام خواہشوں اور تمام امنگوں کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دے اور ایسا نہ کرے کہ جو اپنی مرضی ہو وہ تو کرے اور جو نہ ہو وہ نہ کرے۔ یعنی اگر شریعت اس کو حق دلاتی ہو تو کہے میں شریعت پر چلتا ہوں اور اسی کے ماتحت فیصلہ ہونا چاہئے۔ لیکن اگر شریعت اس سے کچھ دلوائے اور ملکی قانون نہ دلوائے تو کہے کہ ملکی قانون کی رو سے فیصلہ ہونا چاہئے۔ یہ طریق حقیقی ایمان کے بالکل منافی ہے۔ چونکہ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کمزور لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو قومی ترقی اور رفاہیت کے دور میں فتنہ و فساد پر اتر آتے ہیں ۔ اور وہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری پہلی حالت کیا تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں کیا کچھ عطا کر دیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت فرماتا ہے کہ بے شک تم مومن کہلاتے ہو مگر تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ صرف مونہہ سے اپنے آپ کو مومن کہنا تمہیں نجات کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ تم اگر نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ اول ہر قسم کی منافقت اور بے ایمانی کو اپنے اندر سے دور کرنے کی کوشش کرو۔ اور قوم کے ہر فرد کو ایمان اور اطاعت کی مضبوط چٹان پر قائم کرو۔ دوم صرف چند احکام پر عمل کر کے خوش نہ ہو جاؤ۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل بجا لاؤ۔ اور صفات الٰہیہ کا کامل مظہر بننے کی کوشش کرو۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۲صفحہ ۴۵۶۔۴۵۷)
یہاں ان ممالک میں جہاں اسلامی قوانین لاگو نہیں ، یہ بات دیکھنے میں آتی ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہ نہ ہو کہ تمہارے مدنظر صرف اور صرف اپنا ذاتی مفاد ہو۔ لڑائی جھگڑے کی صورت میں جہاں دیکھتے ہیں کہ شریعت بہتر حق دلا سکتی ہے تو فوراً جماعت میں درخواست دیتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ جماعت کرے۔ اور جہاں ملکی قانون کے تحت فائدہ نظر آتا ہو تو بغیر جماعت سے پوچھے ملکی عدالتوں میں چلے جاتے ہیں اور جماعت کی بات کسی طرح ماننے پر راضی نہیں ہوتے کیونکہ اس وقت ان کے سر پر شیطان سوار ہوتاہے اور اگر ملکی قانون ان کے خلاف فیصلہ دے دے تو پھرواپس نظام جماعت کے پاس دوڑے آتے ہیں کہ ہم غلط فہمی کی وجہ سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروانے کے لئے ملکی عدالت میں چلے گئے تھے، ہمیں معاف کر دیا جائے۔ اب جو نظام کہے گا ہمیں قابل قبول ہوگا۔تو یاد رکھیں اب واپس آنے کا مقصد نظام جماعت کی اطاعت اورمحبت نہیں ہے بلکہ یہ کوشش ہے کہ شاید ہمارا داؤ چل جائے اور صدر یاامیر یا قاضی کو کسی طرح ہم قائل کر لیں اور اپنے حق میں فیصلہ کروا لیں ۔ تواس سلسلہ میں یاد رکھنا چا ہئے کہ جب ایک دفعہ نظام جماعت چھوڑ کر آپ اپنے فیصلوں کے لئے ملکی عدالتوں میں چلے گئے اور بغیر اجازت نظام جماعت کے چلے گئے یا نظام پر دباؤ ڈالا کہ ہم نے جماعت کے اندر فیصلہ نہیں کروانا ہمیں بہرحال اجازت دی جائے کہ ہم ملکی قانون کے مطابق فیصلہ کروائیں ۔ پھرایسے لوگوں کا کبھی بھی جب کوئی معاملہ ہو تونظام جماعت نہیں سنے گا۔ پھر وہ کبھی اپنے معاملے جماعت کے پاس نہ لائیں ۔اور جب ایسے لوگوں کے معاملے نظام جماعت لینے سے انکار کرتاہے تو پھر ایسے لوگ سیکرٹری امور عامہ، صدریا امیر کے خلاف شکایات کرنا شروع کردیتے ہیں ، اعتراض شروع کردیتے ہیں کہ دیکھو یہ لوگ ہمارے جھگڑوں کو نمٹانے میں تعاون نہیں کرتے۔ خلیفہ ٔ وقت کو بھی لمبے لمبے خط لکھے جاتے ہیں اور وقت ضائع کیا جاتاہے۔ تو یہ سب شیطانی خیال ہیں ۔وہ تمہارے دل میں پہلے وسوسہ ڈالتاہے، کہ دیکھو اپنا معاملہ جماعت میں نہ لے کے جانا۔ دوسرے فریق کے تعلقات عہدیداران سے زیادہ ہیں وہ تمہارے خلاف فیصلہ کروالے گا اوراپنے حق میں فیصلہ کروا لے گا۔تو پھر ایک دفعہ شیطان کی گرفت میں آگئے تو پھرباہر نکلنا مشکل ہوتاہے اور ایک چکّر شروع ہو جاتاہے جو آہستہ آہستہ دلوں میں داغ پیدا کرتارہتاہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں کہ :
’’اے ایما ن والو! خدا کی راہ میں گردن ڈال دو اور شیطانی راہوں کو ا ختیار مت کرو کہ شیطان تمہارا دشمن ہے۔ اس جگہ شیطان سے مراد وہی لوگ ہیں جو بدی کی تعلیم دیتے ہیں ‘‘۔ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلداول صفحہ ۶۹۸۔سورۃ البقرہ آیت ۲۰۹)
توایک تو یہ وجہ ہے کہ ذاتی جھگڑوں کی وجہ سے چاہے نظام جماعت سے فیصلہ کروایا جارہاہے یا نہیں کروایا جا رہا جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ لوگ ہیں جو تمہیں بدی کی تعلیم دیتے ہیں ، بدخیالات دل میں پیدا کرتے ہیں ، نظام کے خلاف ابھارتے ہیں ان کی وجہ سے تم شیطان کے چکر میں آجاتے ہو۔تو وہ چکر یہی ہے کہ چاہے ملکی عدالت میں جھگڑوں کی صورت میں جائیں یا نظام جماعت سے اپنے معاملات کا فیصلہ کروانے کی کوشش کریں ۔ کوئی نہ کوئی فریق جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے جماعتی عہدیداران کو ملوث کر کے اس کے خلاف ہو جاتاہے اور پھر نظام پر بدظنی شروع ہو جاتی ہے اوراس کے خلاف اظہار شروع ہو جاتاہے۔تو عملاً ایسے لوگ اپنے آپ کو نظام جماعت سے علیحدہ کر لیتے ہیں ۔ اورپھر وہ نہ اِدھر کے رہتے ہیں نہ ا ُدھر کے رہتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں اس حدیث کو ہم سب کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :جو شخص اپنے حاکم سے ناپسندیدہ بات دیکھے اور وہ صبر کرے۔ کیونکہ جو نظام سے بالشت بھر جدا ہو ا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔ (صحیح مسلم کتاب الامارہ۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃالمسلمین…)
پھر ایک حدیث میں آتاہے۔ حضر ت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : اللہ تعالیٰ میری امت کو ضلالت اور گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔اللہ تعالیٰ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔ جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ گویا آگ میں پھینکا گیا۔ (ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ)
تو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ جو بھی صورت حال ہو ہمیشہ صبر کرناہے۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ صبر ہمیشہ حق تلفی کے احساس پر ہی انسان کو ہوتاہے۔اب یہاں احساس کا لفظ مَیں نے اس لئے استعمال کیاہے کہ اکثر جس کے خلاف فیصلہ ہو اس کو یہ خیال ہوتاہے کہ یہ فیصلہ غلط ہواہے اور میرا حق بنتاتھا۔ تو یہ خیال دل سے نکال دیں ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتاکہ نیچے سے لے کر اوپرتک سارا نظام جو ہے غلط فیصلے کر تاچلا جائے اور یہ بدظنی پھر خلیفہ ٔوقت تک پہنچ جاتی ہے۔اگر ہر احمدی کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان رہے کہ {یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا}(سورۃ النساء آیت ۶۰)۔ اس کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں (اُولُوالامر سے) اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لَوٹا دیا کرو اگر (فی الحقیقت) تم اللہ پر اور یومِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر (طریق) ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔
توسوائے اس کے کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جہاں واضح شرعی احکامات کی خلاف ورزی کے لئے تمہیں کہا جائے، اللہ اور رسول کی ا طاعت اسی میں ہے کہ نظام جماعت کی،عہدیداران کی اطاعت کرو،ان کے حکموں کو، ان کے فیصلوں کومانو۔ اگر یہ فیصلے غلط ہیں تو اللہ تمہیں صبر کا اجر دے گا۔کیونکہ تم یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ پر معاملہ چھوڑو۔ تمہیں اختیار نہیں ہے کہ اپنے اختلاف پر ضد کرو۔ تمہارا کام صرف اطاعت ہے، اطاعت ہے، اطاعت ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’ اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو۔ اطاعت ایک ایسی چیزہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تودل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آ جاتی ہے۔ مجاہدات کی ا س قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتاہے۔بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیزہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پرکیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی۔یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم،قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملّیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے۔ اوراگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات میں مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اوراندرونی تنازعات بھی ہیں ۔ پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اورایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا ا للہ تعالیٰ نے حکم دیاہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے۔ اس میں یہی تو سرّہے۔ اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتاہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے۔ پیغمبر خدا ﷺ کے زمانہ میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے۔خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی۔ وہ اصول سیاست سے بھی خوف واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بارگراں کو سنبھالاہے اس سے بخوبی معلوم ہو سکتاہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسو ل کریم ﷺکے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ نے فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اُس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا۔ ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا کہ آپؐ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈتے تھے۔ اور آپ کے لب مبارک کو متبرک سمجھتے تھے۔ اگر ان میں یہ اطاعت کی تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی اصلی رائے کو مقدم سمجھتااورپھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے۔ میرے نزدیک شیعہ سنیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ صحابہ کرام میں باہم پھوٹ،ہاں باہم کسی قسم کی پھوٹ اورعداوت نہ تھی۔ کیونکہ ان کی ترقیاں اور کامیابیاں اس امر پردلالت کررہی ہیں کہ وہ باہم ایک تھے اور کچھ بھی کسی سے عداوت نہ تھی۔ ناسمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوارکے زور سے پھیلایا گیا۔ مگرمَیں کہتاہوں یہ صحیح نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریزہوکربہہ نکلی تھیں ۔یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا۔ آپ ؐ پیغمبر خدا ﷺکی شکل و صورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھاہواتھااورجو جلالی اور جمالی رنگوں کو لئے ہوئے تھی اس میں بھی ایک کشش اورقوت تھی کہ وہ بے اختیار دلوں کو کھینچ لیتے تھے۔اور پھر آپ کی جماعت نے اطاعت رسول کا وہ نمونہ دکھایا اور اس کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو ان کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہو کران کی طرف چلا آتاتھا۔ غرض صحابہ کی سی حالت اور حوادث کی ضرورت اب بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعو دؑ کے ہاتھ سے تیار ہو رہی ہے اسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ ﷺنے طیار کی تھی اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے اس لئے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلاکر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو۔ اطاعت ہو تو ویسی ہو۔باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو۔ غرض ہر رنگ میں ،ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی۔ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ۲۴۸،۲۴۶۔زیر سورۃ النساء آیت ۶۰)
اطاعت کے بارہ میں کچھ احادیث پیش کرتاہوں ۔
حذیفہؓ بن یمان سے روایت ہے کہ مَیں نے عر ض کیا یا رسول اللہ ہم برائی میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھلائی دی۔ اب اس کے بعد بھی کچھ برائی ہے؟ آپ ؐنے فرمایا ہاں ۔ مَیں نے کہا پھر اس کے بعد بھلائی ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا ہاں ۔ مَیں نے کہا پھر اس کے بعد برائی۔ آپ نے فرمایا:ہاں ۔ مَیں نے کہا کیسے؟ آپؐ نے فرمایا میرے بعد وہ لوگ حاکم ہوں گے جو میری راہ پر نہ چلیں گے۔ میری سنت پر عمل نہیں کریں گے اور ان میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے دل شیطان کے سے اور بدن آدمیوں کے سے ہوں گے۔ مَیں نے عرض کی: یارسول اللہ! اس وقت مَیں کیا کروں ۔آپؐ نے فرمایا : اگر تو ایسے زمانہ میں ہو تو حاکم کی بات کو سن اورمان خواہ وہ تیری پیٹھ پھوڑے اور تیرا مال لے لے۔ پس توُ اس کی بات سنے جا اور اس کا حکم مانتا رہ۔ (صحیح مسلم کتاب باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین…)
تو اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ظلم کی حد تک بھی تمہارے ساتھ تمہارے عہدیداران کی طرف سے سلوک ہو رہاہے تب بھی تم ان کی اطاعت کئے جاؤ۔ آنحضرت ﷺنے اطاعت کو اتنی اہمیت دی تھی کہ مختلف زاویوں سے امت کو اس بارہ میں سمجھاتے رہے۔
چند احادیث ہیں :
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا: سنو اور اطاعت کرو۔ خواہ تم پر ایسا حبشی غلام (حاکم بنا دیا جائے) جس کا سر منقہ کی طرح (چھوٹا) ہو۔ (صحیح بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ)
حضرت ابن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچا وہ اللہ تعالیٰ سے (قیامت کے دن) اس حالت میں ملے گا کہ نہ اس کے پاس کو ئی دلیل ہوگی نہ عذر۔ اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے امام وقت کی بیعت نہیں کی تھی تو وہ جاہلیت اور گمراہی کی موت مرا۔ (صحیح مسلم کتاب باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین…)
پھر ایک حدیث میں آتاہے۔حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا: تنگدستی اور خوشحالی، خوشی اور ناخوشی،حق تلفی اور ترجیحی سلوک، غرض ہر حالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ)
پھر حضرت عبادہ بن ولید اپنے دادا کی روایت اپنے والد کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت ﷺ سے سننے اور بات ماننے کی بنیاد پر بیعت کی تھی۔سختی اور راحت اور خوشی اور ناخوشی میں خواہ ہمارے حق کا خیال نہ رکھا جائے اوراس بنیاد پر کہ ہم جھگڑانہ کریں گے۔ اس شخص کی سرداری میں جو اس کے لائق ہے اور ہم سچ بات کہیں گے جہاں ہوں گے۔ اللہ کی راہ میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ (صحیح مسلم کتاب الامارہ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ)
تو آنحضرت ﷺ سے زیادہ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنے والا کون تھا۔ جیسا کہ حدیث میں آیاہے کہ حق کا نہ خیال رکھا جائے تب بھی ہم اطاعت کریں گے۔ لیکن یہاں کچھ اصول بدل رہے ہیں ۔ حالانکہ تمام صحابہ اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ آپ ﷺ حق سے بڑھ کر حق ادا کرنے والے تھے اور آپ ؐکے متعلق تو یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتاتھا کہ آپؐ کسی کے حق کا خیال نہیں رکھیں گے۔ لیکن کیونکہ یہاں نظام جماعت کی بات ہو رہی ہے جس میں اس کے ماننے والوں کا اطاعت سے باہر رہنے کا ادنیٰ سا تصور بھی برداشت نہیں ہو سکتااس لئے یہ عہد لیا جارہاہے کہ ہم ہرحالت میں چاہے ہمارے حقوق کا نہ بھی خیال رکھا جارہا ہو ہم مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کے جذبہ سے اس عہد بیعت کو نبھائیں گے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ آنحضرت ﷺ کسی کا حق ماررہے ہیں بلکہ اب جب جماعتی زندگی کا معاملہ آئے گا تو حق کے معیار بدلنے چاہئیں ۔ اب تم اپنی ذات کے بارہ میں نہ سوچو بلکہ جماعت کے بارہ میں سوچو۔ اوراپنے ذاتی حقوق خود خوشی سے چھوڑو۔اور جماعتی حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرو۔یہاں وہی مضمون ہے کہ اعلیٰ چیزکے لئے ادنیٰ چیز کو قربان کرو۔پھر جو ہمارا عہدیداریا امیر مقررہو گیا اب اس کی اطاعت تمہارا فرض ہے۔ اس کی اطاعت کریں اور یہ سوال نہ ا ٹھائیں کہ یہ کیوں بنایا گیا۔ بعض دفعہ یہ ہوتاہے کہ برادریاں لعن طعن کرتی ہیں کہ ہمارے خاندان کے اس کے ساتھ یہ یہ مسئلے تھے اور تم اس کی اطاعت کررہے ہو۔ تو اللہ کی خاطر اس لعنت ملامت سے بالکل نہیں ڈرنا۔ یہ ہے ایک اعلیٰ اور مضبوط نظام جو آنحضرت ﷺقائم کرنا چاہتے ہیں ۔
حضرت مصلح موعودؓ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :قرآن جس کو اطاعت کہتا ہے وہ نظام اور ضبط نفس کا نام ہے یعنی کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انفرادی آزادی کو قومی مفاد کے مقابلہ میں پیش کرسکے۔ یہ ہے ضبط نفس اور یہ ہے نظام۔ (تفسیر کبیر ازحضر ت مصلح موعود رضی ا للہ عنہ جلد ۱۰ صفحہ۱۵۶)
ایک حدیث میں آتاہے۔حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :سننا اوراطاعت کرنا ہرمسلمان کا فر ض ہے۔ خواہ وہ امراس کو پسند ہویا ناپسند۔ یہاں تک کہ اسے معصیت کاحکم دیاجائے۔ اور اگر معصیت کا حکم دیا جائے توپھر اطاعت اور فرمانبرداری نہ کی جائے۔ (صحیح بخاری کتاب الأحکام باب السمع والطاعۃ لامام…)
توجیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ سوائے اس کے کہ شریعت کے واضح احکام کی خلاف ورزی ہو۔ ہرحال میں اطاعت ضرو ری ہے اور اس حدیث میں بھی یہی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تم گھربیٹھے فیصلہ نہ کرلوکہ یہ حکم شریعت کے خلاف ہے اوریہ حکم نہیں ۔ ہو سکتاہے تم جس بات کو جس طرح سمجھ رہے ہو وہ اس طرح نہ ہو۔ کیونکہ الفاظ یہ ہیں کہ معصیت کاحکم دے،گناہ کا حکم دے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام جماعت اتنا پختہ ہو چکاہے کہ کوئی ایسا شخص عہدیدار بن ہی نہیں سکتاجو اس حد تک گر جائے اور ایسے احکام دے۔تو بات صرف اس حکم کو سمجھنے، اس کی تشریح کی رہ گئی۔ تو پہلے توخود اس عہدیدار کو توجہ دلاؤ۔ اگر نہیں مانتاتو اس سے بالاجو عہدیدار ہے، افسر ہے، امیر ہے،اس تک پہنچاؤ۔اورپھر خلیفۂ وقت کو پہنچاؤ۔ لیکن اگریہ تمہارے نزدیک برائی ہے تو پھرتمہیں یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ باہراس کا ذکر کرتے پھرو۔ کیونکہ برائی کو تو وہیں روک دینے کاحکم ہے۔ اب تمہارا یہ فرض ہے کہ نظام بالا تک پہنچاؤ اور اس کا فیصلے کا انتظار کرو۔
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :
’’یہ جو امارت اور خلافت کی اطاعت کرنے پراس قدر زور دیا گیاہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ امیر یا خلیفہ کا ہرایک معاملہ میں فیصلہ صحیح ہوتاہے۔ کئی دفعہ کسی معاملہ میں وہ غلطی کرجاتے ہیں ۔ مگرباوجود اس کے ان کی ا طاعت اور فرمانبرداری کا اس لئے حکم دیا گیاہے کہ اس کے بغیر انتظام قائم نہیں رہ سکتا۔ تو جب رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ مَیں بھی غلطی کرسکتاہوں تو پھرخلیفہ یا امیر کی کیا طاقت ہے کہ کہے مَیں کبھی کسی امرمیں غلطی نہیں کرسکتا۔ خلیفہ بھی غلطی کرسکتاہے لیکن باوجود اِس کے اُس کی اطاعت کرنی لازمی ہے ورنہ سخت فتنہ پیدا ہو سکتاہے۔ مثلاً ایک جگہ وفد بھیجنا ہے۔خلیفہ کہتاہے کہ بھیجنا ضرور ی ہے لیکن ایک شخص کے نزدیک ضرور ی نہیں ۔ہو سکتاہے کہ فی الواقع ضرور ی نہ ہو لیکن اگر اس کو اجازت ہو کہ وہ خلیفہ کی رائے نہ مانے تو اس طرح انتظام ٹوٹ جائے گا جس کا نتیجہ بہت بڑا فتنہ ہوگا۔ تو انتظام کے قیام اور درستی کے لئے بھی ضرور ی ہے کہ اپنی رائے پر زور نہ دیاجائے۔ جہاں کی جماعت کا کوئی امیر مقرر ہو وہ اگردوسروں کی رائے کو مفید نہیں سمجھتا تو انہیں چاہئے کہ اپنی رائے کوچھوڑ دیں ۔ اسی طرح جہاں انجمن ہو وہاں کے لوگوں کو سیکرٹری کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پر ہی اصرار نہیں کرناچاہئے۔ جہاں تک ہوسکے سیکرٹری یاامیرکو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسے سمجھاناچاہئے لیکن اگر وہ اپنی رائے پرقائم رہے تودوسروں کو اپنی رائے چھوڑ دینی چاہئے۔ کیونکہ رائے کا چھوڑ دینا فتنہ پیدا کرنے کے مقابلہ میں بہت ضرور ی ہے‘‘۔
اطاعت امیر کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کے مختلف ارشادات سنے ہیں ۔لیکن ایک یہ حدیث ہے جو مزید خوف دلوں میں پیدا کرتی ہے۔ ہر احمدی کو ہمیشہ یہ باتیں ہر وقت اپنے ذہن میں رکھنی چاہئیں ۔ کہ اطاعت امیر کس قدر ضرو ری ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (صحیح مسلم ٗ کتاب الامارۃ ٗ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ)
تو کون ہے ہم میں سے جو یہ پسند کرتاہو کہ ہم آنحضرت ﷺکے دائرہ اطاعت سے باہر نکلیں ۔ کوئی احمدی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پس جب یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تو پھر عہدیداران کی، امراء کی اطاعت خالصتاً للہ اپنے اوپر واجب کرلیں ۔ اور اگر نظام جماعت پرحرف آتے ہوئے دیکھیں تو آپ کے لئے راستہ کھلاہے خلیفۂ وقت تک بات پہنچائیں اورمناسب ہے کہ اس عہدیدار کے ذریعہ سے ہی بھجوائیں ۔ بغیر نام کے شکایت پر غور نہیں ہوتا۔ اگراصلاح چاہتے ہیں تو کھل کرسامنے آنا چاہئے۔ لیکن یاد رکھیں !آپ کو یہ قطعاً اجازت نہیں ہے کہ کسی بھی عہدیدار کی نافرمانی کریں ۔ اگر کوئی ایسی صورت ہے تو پھر حدیث کی روشنی میں آپ عہدیدار سے عدم تعاون کرکے،ان کی نافرمانی کرکے،خلیفہ وقت کی نافرمانی کررہے ہیں ۔ اورپھر یہ سلسلہ اوپر تک بڑھتا چلا جائے گا۔ پس ہر ایک کی بقا اسی میں ہے کہ وہ اس عہد پر قائم رہے کہ وہ ہر قربانی کے لئے تیار رہے گا۔
اس کے بعد اب مَیں مختصراً، آج جلسے کا آغاز بھی ہے انشاء اللہ،تو اس سلسلہ میں بعض دعائیں پیش کروں گا جو جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیں ۔ جہاں آپ نے بہت ساری دعائیں کی ہیں ان جلسوں میں شامل ہونے والوں کے لئے، وہاں آپ شامل ہونے والوں سے آپ ؑ نے کچھ توقعات بھی رکھی ہیں ۔اور فرمایاہے کہ اس جلسہ کو عام دنیاوی میلوں کی طرح نہ سمجھو کہ اکٹھے ہوئے، ٹولیاں بنائیں ، بیٹھے، اپنی مجلسیں جمائیں ۔جلسے کی کارروائی کے دوران بہرحال سب کو سوائے اشد مجبوری کے جلسہ گاہ میں جہاں جلسہ کے پروگرام ہورہے ہیں ، اس ہال میں ، یہاں بیٹھنا چاہئے اور تمام کارروائی کو سننا چاہئے۔ انتظامیہ بھی اس بات کا خیال رکھے کہ نرمی اور پیار سے تمام شاملین کو اس طرف توجہ دلائے اور آنے والوں کا بھی کام ہے کہ انتظامیہ سے اس سلسلہ میں تعاون کریں ۔ ان کے کہنے کا برا نہ مانیں اور جو بھی انتظام ہے اس کی پوری پوری اطاعت کریں کیونکہ یہ بھی اطاعت نظام کا ایک حصہ ہے اور آج سے ہی،ابھی آپ کی طرف سے اظہار سے پتہ لگنا شروع ہو جائے گاکہ کون کس حد تک اطاعت گزار ہے۔ خاص طورپر عورتیں اس بات کاخیال رکھیں کہ وہ جلسہ سننے آئی ہیں ، محفلیں جمانے کے لئے نہیں ، نہ ہی دنیا داری کی باتیں کرنے۔ یہی دن ہوتے ہیں جن میں اصلاح نفس کاموقع ملتاہے۔تو ان سے بھرپورفائدہ اٹھانا چاہئے۔پھر جن خواتین کے چھوٹے بچے ہیں ،وہ جہاں بھی ان کا انتظام ہے، مارکی لگی ہوئی ہے اس کے آخر پر بیٹھیں تا کہ بچوں کی وجہ سے دوسروں کو پروگرام سننے میں کوئی دشواری نہ ہو۔وہ آسانی سے اور سہولت سے تمام پروگرام سن سکیں ۔ پھراس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بچوں والیوں کو بچوں کی ضرورت کے وقت اٹھنا پڑتاہے،باہر جانے میں بھی آسانی رہے۔ توامید ہے انشاء اللہ تعالیٰ ان تین دنوں میں آپ لوگ یہ ثابت کردیں گے کہ محض للہ آپ اپنی زندگی گزارنے کے لئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں ۔
اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں جو آپ نے اس موقع کے لئے کیں ، پڑھتاہوں ۔ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں جماعت کے لئے دعا کرتے ہوئے:
’’ہریک صاحب جو اس للّہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ اُن کے ساتھ ہو اور اُن کو اجرعظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات اُن پر آسان کر دیوے اور اُن کے ہمّ و غم دور فرمادے۔ اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مُرادات کی راہیں اُن پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے اُن بندوں کے ساتھ اُن کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفر اُن کے بعد ان کا خلیفہ ہو۔ اے خدا اے ذوالمجد و العطاء اور رحیم اور مشکل کُشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے۔ آمین ثم آمین‘‘۔ (اشتہار ۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ ء۔ مجموعہ اشتہارات جلداول۔ صفحہ ۳۴۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ان دعاؤں اور اس کے علاوہ وہ تمام دعائیں جو آپ ؑ نے اپنی پیاری جماعت کے لئے کیں ان سب کا وارث بنائے۔ ہمیں اپنا عبادت گزار بندہ بنائے۔ ہمیں ہر قسم کے شرک سے پاک کردے،اپنی کامل فرمانبرداری میں رکھے، اور اس جلسہ کے تمام برکات سے فیضیاب فرماتے ہوئے اپنی رحمتوں اور فضلوں کی چادر ہم پرہمیشہ تانے رکھے۔آمین
اللہ کی رسی کو پکڑنے اور نظام سے وابستہ رہنے میں ہی آپ کی بقا ہے
٭…نظام کی کامیابی اورترقی کاانحصاراس نظام سے منسلک لوگوں اوراس نظام کے قواعد وضوابط کی مکمل پابندی کرنے پرہوتاہے
٭…نظام جماعت سے ہمیشہ چمٹے رہو،کیونکہ اب اسکے بغیرآپ کی بقانہیں
٭…نظام جماعت کوچھوڑکردوسری جگہوں پرفائدہ حاصل کرنے کے لئے جانے والوں کی چالاکی اورانکوتنبیہہ
٭…تمہاراکام صرف اطاعت ہے ،اطاعت ہے،اطاعت ہے،
٭…نظام جماعت کی اطاعت کرنے پرصبراورخداتعالیٰ کی طرف سے جزاء،
٭…اس جلسہ کوعام دنیاوی میلوں کی طرح نہ سمجھو۔۔۔۔۔
۲۲؍اگست ۲۰۰۳ ء بمطابق ۲۲؍ ظہور ۱۳۸۲ ہجری شمسی بمقام مئی مارکیٹ،منہائیم (جرمنی)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔