بیعت کی نویں شرط۔ عام خلق اللہ کی ہمدردی
خطبہ جمعہ 12؍ ستمبر 2003ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھدوتعوذکے بعدفرمایا
اسلام کی تعلیم ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے جس نے انسانی زندگی کا کوئی پہلوبھی ایسانہیں چھوڑا جس سے یہ احساس ہوکہ اس تعلیم میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں کا تقاضا ہے کہ اس کے پیارے رسو لﷺ پر اتری ہوئی اس تعلیم کو اپنا کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں ،اپنے اوپر لاگو کریں ۔ اور ہم پر تو اور بھی زیادہ ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے جو آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور غلام اور اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور شامل ہونے کا دعویٰ ہے۔تو اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کرنے اور حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے ہمیں مختلف رشتوں اور تعلقوں کے حقوق کی ا دائیگی کا بھی حکم فرمایاہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے ہی حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے شرائط بیعت کی نویں شرط میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی اوران کے حقوق کی ادائیگی کا ذکر فرمایاہے۔تو یہ جو شرائط بیعت کا سلسلہ ہے اسی سلسلے کی آج نویں شرط کے بارہ میں کچھ کہوں گا۔
نویں شرط یہ ہے ’یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا‘۔
اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے :{وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا }(النساء :۳۷)۔اس کا ترجمہ یہ ہے: اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقینا اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ نہ صرف اپنے بھائیوں ،عزیزوں ، رشتہ داروں ،اپنے جاننے والوں ،ہمسایوں سے حسن سلوک کرو،ان سے ہمدردی کرو اور اگر ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو اُن کی مدد کرو، ان کو جس حد تک فائدہ پہنچا سکتے ہو فائدہ پہنچاؤ بلکہ ایسے لوگ، ایسے ہمسائے جن کو تم نہیں بھی جانتے، تمہاری ان سے کوئی رشتہ داری یا تعلق داری بھی نہیں ہے جن کو تم عارضی طورپر ملے ہو ان کو بھی اگر تمہاری ہمدردی اور تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اگر ان کو تمہارے سے کچھ فائدہ پہنچ سکتاہے تو ان کو ضرور فائدہ پہنچاؤ۔اس سے اسلام کا ایک حسین معاشرہ قائم ہوگا۔ ہمدردی ٔ خلق اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا وصف اور خوبی اپنے اندر پیدا کرلوگے اور اس خیال سے کرلوگے کہ یہ نیکی سے بڑھ کر احسان کے زمرے میں آتی ہے اوراحسان تو اس نیت سے نہیں کیا جاتا کہ مجھے اس کا کوئی بدلہ ملے گا۔احسان تو انسان خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطر کرتاہے۔تو پھر ایسا حسین معاشرہ قائم ہو جائے گاجس میں نہ خاوند بیوی کا جھگڑا ہوگا، نہ ساس بہو کا جھگڑا ہوگا، نہ بھائی بھائی کا جھگڑا ہوگا، نہ ہمسائے کا ہمسائے سے کوئی جھگڑا ہوگا، ہر فریق دوسر ے فریق کے ساتھ احسان کا سلوک کر رہا ہوگا اور اس کے حقوق اسی جذبہ سے ادا کرنے کی کوشش کررہا ہوگا۔ اور خالصتاً اللہ تعالیٰ کی محبت،اس کا پیار حاصل کرنے کے لئے،اس پر عمل کر رہاہوگا۔آج کل کے معاشرہ میں تو اس کی اور بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔اگر یہ باتیں نہیں کروگے، فرمایا: پھر متکبر کہلاؤ گے اور تکبر کو ا للہ تعالیٰ نے پسند نہیں کیا۔ تکبر ایک ایسی بیماری ہے جس سے تمام فسادوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ …شرط میں اس بارہ میں تفصیل سے پہلے ہی ذکر آچکاہے ا س لئے یہاں تکبر کے بارہ میں تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں ۔ خلاصۃً یہ ہے کہ ہمدردی ٔ خلق کرو تاکہ اللہ تعالیٰ کی نظر وں میں پسندیدہ بنو اور دونوں جہانوں کی فلاح حاصل کرو۔
پھر اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے {وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا}(سورۃ الدھر :۹)۔ اور وہ کھانے کو، اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے، مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں ۔
اس کا ایک تو یہ مطلب ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کو اپنی ضروریات ہوتی ہیں وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ضرورتمندوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں ، آپ بھوکے رہتے ہیں اور ان کو کھلاتے ہیں ۔ تھڑدلی کا مظاہر ہ نہیں کرتے کہ جو دے رہے ہیں وہ اس کو جس کو دیا جارہاہے اس کی ضرورت بھی پوری نہ کرسکے، اس کی بھوک بھی نہ مٹاسکے۔بلکہ جس حد تک ممکن ہومدد کرتے ہیں اور یہ سب کچھ نیکی کمانے کے لئے کرتے ہیں ،اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کرتے ہیں ۔ کسی قسم کا احسان جتانے کے لئے نہیں کرتے۔ اوراس کا یہ بھی مطلب ہے کہ وہ چیز دیتے ہیں جس کی ان کو ضرورت ہے یعنی اس دینے والے کو جس کی ضرورت ہے جس کو وہ خود اپنے لئے پسند کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہیں کہ اللہ کی خاطر وہی دو جس کو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ یہ نہیں کہ جس طرح بعض لوگ اپنے کسی ضرورتمندبھائی کی مددکرتے ہیں تو احسان جتاکے کررہے ہوتے ہیں ۔بلکہ بعض تو ایسی عجیب فطرت کے ہیں کہ تحفے بھی اگر دیتے ہیں تو اپنی استعمال شدہ چیزوں میں سے دیتے ہیں یاپہنے ہوئے کپڑوں کے دیتے ہیں ۔ تو ایسے لوگوں کو اپنے بھائیوں ،بہنوں کی عزت کاخیال رکھناچاہئے۔ بہتر ہے کہ اگر توفیق نہیں ہے تو تحفہ نہ دیں یا یہ بتا کر دیں کہ یہ میری استعمال شدہ چیزہے اگر پسند کرو تو دوں ۔پھر بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہم غریب بچیوں کی شادیوں کے لئے اچھے کپڑے دینا چاہتے ہیں جو ہم نے ایک آدھ دن پہنے ہوئے ہیں ۔اور پھر چھوٹے ہوگئے یا کسی وجہ سے استعمال نہیں کرسکے۔ تو اس کے بارہ میں واضح ہوکہ چاہے ایسی چیزیں ذیلی تنظیموں ، لجنہ وغیرہ کے ذریعہ یا خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ہی دی جا رہی ہوں یاانفردی طورپر دی جارہی ہوں تو ان ذیلی تنظیموں کو بھی یہی کہا جاتاہے کہ اگر ایسے لو گ چیزیں دیں تو غریبوں کی عزت کا خیال رکھیں اور اس طرح، اس شکل میں دیں کہ اگر وہ چیز دینے کے قابل ہے تو دی جائے۔ یہ نہیں کہ ایسی اُترن جو بالکل ہی ناقابل استعمال ہووہ دی جائے۔ داغ لگے ہوں ،پسینے کی بو ُ آرہی ہو کپڑوں میں سے۔ تو غریب کی بھی ایک عزت ہے اس کا بھی خیال رکھناچاہئے۔ اور ایسے کپڑے اگر دئے جائیں تو صاف کروا کر، دھلا کر، ٹھیک کرواکر،پھر دئے جائیں ۔ اور جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا ہماری ذیلی تنظیمیں بھی، لجنہ وغیرہ بھی دیتی ہیں کپڑے تو جن لوگوں کو یہ چیزیں دینی ہوں ان پر یہ واضح کیاجاناچاہئے کہ یہ استعمال شدہ چیزیں ہیں تاکہ جو لے اپنی خوشی سے لے۔ ہرایک کی عزت نفس ہے، مَیں نے جیسے پہلے بھی عرض کیا ہے اس کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور بہت خیال رکھنا چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام {وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا}کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’…یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے او روہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔ اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے (سبحانہ تعالیٰ شانہ) ……۔پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو۔ یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو‘ ہمدردی کرو اور بلاتمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔ {وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا} (الدھر: 9 ) وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفار ہی ہوتے تھے۔ اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے۔ میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی۔ مجھے صحت ہو جاوے تومیں اخلاقی تعلیم پر ایک مستقل رسالہ لکھوں گا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میرا منشا ہے وہ ظاہر ہو جاوے اور وہ میری جماعت کے لئے ایک کامل تعلیم ہو اور ابتغاء مرضات اللہ کی راہیں اس میں دکھائی جائیں ۔ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ۔ میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی۔ میں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اٹھاتا ہے تو چار قدم گرتا ہے۔ لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کر دے گا۔ اس لیے تم بھی کوشش ‘ تدبیر‘ مجاہدہ اور دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیرکچھ بنتا ہی نہیں ۔ جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے۔‘‘ (الحکم ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۵،ملفوظات جلدچہارم صفحہ۲۱۸۔۲۱۹)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوت قدسی سے اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے سے بہت سی بیماریاں جن کا آپ کو اس وقت فکر تھا جماعت میں ختم ہو گئی تھیں اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑا حصہ ان سے بالکل پا ک تھااورہے لیکن جوں جوں ہم اُس وقت،اُس زمانے سے دور ہٹتے جا رہے ہیں ، معاشرے کی بعض برائیوں کے ساتھ شیطان حملے کرتارہتاہے اس لئے جس فکر کا اظہار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے آپ کی تعلیم کے مطابق ہی کوشش، تدبیر اور دعا سے اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو ہمیشہ کامل رکھے۔ اس میں اس بارہ میں چند احادیث پیش کرتاہوں ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: کہ اللہ عزوجل قیامت کے روز فرمائے گا اے ابن آدم ! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تیری عیادت کیسے کرتا جبکہ تو ساری دنیا کا پروردگار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ کیا تجھے پتہ نہیں چلا کہ میر افلاں بندہ بیمار تھا تو توُ نے اس کی عیادت نہیں کی تھی۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ اس پر ابن آدم کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جب کہ تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تجھے یاد نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا تو تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تم اسے کھانا کھلاتے تو تم میرے حضور اس کا اجر پاتے۔
اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگرتو نے مجھے پانی نہیں پلایا تھا۔ ابن آدم کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو ہی سارے جہانوں کا رب ہے۔اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا۔ مگر تم نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تم اس کو پانی پلاتے تو اس کا اجر میرے حضور پاتے۔ (مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض)
پھر روایت ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ا للہ ﷺنے فرمایا تمام مخلوقات اللہ کی عیال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنے مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال (مخلوق)کے ساتھ اچھا سلوک کر تاہے اور ان کی ضروریات کاخیال رکھتاہے۔ (مشکوٰۃ باب الشفقۃوالرحمۃ علی الخلق)
پھر ایک روایت آتی ہے حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں ۔نمبر ۱: جب وہ اسے ملے تو اسے السلام علیکم کہے۔نمبر ۲: جب وہ چھینک مارے تو یُرْحَمُکَ اللّٰہ کہے۔نمبر ۳۔ جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے۔
اور بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بڑی اچھی عادت ہوتی ہے کہ خود جاکرخیال رکھتے ہوئے ہسپتالوں میں جاتے ہیں اور مریضوں کی عیادت کرتے ہیں خواہ واقف ہوں یا نہ واقف ہوں ۔ ان کے لئے پھل لے جاتے ہیں ، پھول لے جاتے ہیں ۔ تو یہ طریقہ بڑا اچھا ہے خدمت خلق کا۔
نمبر۴:جب وہ اس کو بلائے تو اس کی بات کا جواب دے۔نمبر ۵:۔ جب وہ وفات پا جائے تو اس کے جنازہ پر آئے۔
اور نمبر ۶: اور اس کے لئے وہ پسند کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ اور اس کی غیر حاضری میں بھی وہ اس کی خیر خواہی کرے۔ (سنن دارمی ٗ کتاب الاستیذان ٗ باب فی حق المسلم علی المسلم)
پھرروایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو۔ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے بڑھ چڑھ کر بھاؤ نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ موڑویعنی بے تعلقی کا رویہ اختیار نہ کرو۔ ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے (اور) آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ مسلمان اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا۔ اس کی تحقیر نہیں کرتا۔ اس کو شرمندہ یا رسوا نہیں کرتا۔ آپؐ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:تقویٰ یہاں ہے۔ یہ الفاظ آپؐ نے تین دفعہ دہرائے، پھر فرمایا: انسان کی بدبختی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔ ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام اور اس کے لئے واجب الاحترام ہے۔ (مسلم، کتاب البِرّ و الصلۃ باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ)
پھر روایت آتی ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو اس سے دور کرے گا۔ اور جس شخص نے کسی تنگدست کو آرام پہنچایا اور اس کے لئے آسانی مہیا کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کے لئے آسانیاں مہیا کرے گا۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد پر تیار رہتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کے لئے تیار ہو۔ جو شخص علم کی تلاش میں نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پڑھتے ہیں اور اس کے درس وتدریس میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر سکینت اور اطمینان نازل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو ڈھانپے رکھتی ہے، فرشتے ان کو گھیرے رکھتے ہیں ۔ اپنے مقربین میں اللہ تعالیٰ ان کا ذکر کرتا رہتا ہے۔ جو شخص عمل میں سست رہے اس کا نسب اور خاندان اس کو تیز نہیں بنا سکتا۔یعنی وہ خاندانی بل بوتے پر جنت میں نہیں جاسکے گا۔ (مسلم کتاب الذکر باب فضل الاجتماع علی تلاوۃالقرآن وعلی الذکر)
تو اس میں شروع میں جو بیا ن کیا گیاہے وہ یہی ہے کہ لوگوں کے حقوق کا خیال اور یہ کہ تم اپنے بھائیوں کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو دور کرو اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسی شفقت کاسلوک تم سے کرے گا اورتمہاری بے چینیوں اور تکلیفوں کو دورکرے گا۔ آنحضرت ﷺکا ہم پر یہ احسان ہے۔فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت کی چادر میں تمہیں ڈھانپ لے تو بے چین، تکلیف زدہ اور تنگدستوں کو جس حد تک تم آرام پہنچا سکتے ہو، آرام پہنچاؤ تو اللہ تعالیٰ تم سے شفقت کا سلوک کرے گا۔ اپنے بھائیوں کی پردہ پوشی کرو، ان کی غلطی کو پکڑ کرا س کا اعلان نہ کرتے پھرو۔ پتہ نہیں تم میں کتنی کمزوریاں ہیں اورعیب ہیں جن کاحساب روز آخر دیناہوگا۔تو اگر اس دنیا میں تم نے اپنے بھائیوں کی عیب پوشی کی ہوگی، ان کی غلطیوں کو دیکھ کر اس کا چرچاکرنے کی بجائے اس کاہمدرد بن کراس کو سمجھانے کی کوشش کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ تم سے بھی پردہ پوشی کا سلوک کرے گا۔ تویہ حقوق العباد ہیں جن کو تم ادا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہروگے۔
پھر حدیث میں آتاہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی۔ اور جو شخص دوسرے کے قصور معاف کردیتاہے اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتاہے اور کسی کے قصور معاف کردینے سے کوئی بے عزّتی نہیں ہوتی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۲۳۵)
پھرروایت ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :رحم کرنے والوں پررحمان خدا رحم کرے گا۔ تم اہل زمین پررحم کرو۔ آسمان والا تم پررحم کرے گا۔ (ابوداؤد کتاب ا لادب باب فی الرحمۃ )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :-
’’اس بات کو بھی خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں – اول یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نہ اس کی ذات میں نہ صفات میں نہ عبادات میں – اور دوسرے نوع انسان سے ہمدردی کرو اور احسان سے یہ مراد نہیں کہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو- آدم زاد ہو اور خدا تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی ہو- مت خیال کرو کہ وہ ہندو ہے یا عیسائی- میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا انصاف اپنے ہاتھ میں لیا ہے، وہ نہیں چاہتا کہ تم خود کرو۔ جس قدر نرمی تم اختیار کرو گے اور جس قدر فروتنی اور تواضع کرو گے اللہ تعالیٰ اسی قدر تم سے خوش ہوگا- اپنے دشمنوں کو تم خدا تعالیٰ کے حوالے کرو- قیامت نزدیک ہے تمہیں ان تکلیفوں سے جو دشمن تمہیں دیتے ہیں گھبرانا نہیں چاہئے- میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تم کو ان سے بہت دکھ اٹھانا پڑے گا کیونکہ جو لوگ دائرہ تہذیب سے باہر ہو جاتے ہیں ان کی زبان ایسی چلتی ہے جیسے کوئی پل ٹوٹ جاوے تو ایک سیلاب پھوٹ نکلتا ہے- پس دیندار کو چاہئے کہ اپنی زبان کو سنبھال کر رکھے-‘‘ (الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۷،ملفوظات جلد ۵۔ صفحہ ۱۳۰)
پھر فرماتے ہیں :
’’یاد رکھو حقوق کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک حق اللہ دوسرے حق العباد۔حق اللہ میں بھی امراء کو دقّت پیش آتی ہے اور تکبر اور خود پسندی ان کو محروم کر دیتی ہے مثلاً نماز کے وقت ایک غریب کے پاس کھڑا ہونا بُرا معلوم ہوتا ہے۔ اُن کو اپنے پاس بٹھا نہیں سکتے اور اس طرح پر وہ حق اللہ سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ مساجد تو دراصل بیت المساکین ہوتی ہیں ۔ اور وہ ان میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور اسی طرح وہ حق العباد میں خاص خاص خدمتوں میں حصّہ نہیں لے سکتے۔ غریب آدمی تو ہر ایک قسم کی خدمت کے لئے تیار رہتا ہے۔ وہ پاؤں دبا سکتا ہے۔ پانی لا سکتا ہے۔ کپڑے دھو سکتا ہے یہاں تک کہ اُس کو اگر نجاست پھینکنے کا موقعہ ملے تو اس میں بھی اُسے دریغ نہیں ہوتا، لیکن امراء ایسے کاموں میں ننگ و عار سمجھتے ہیں اور اس طرح پر اس سے بھی محروم رہتے ہیں ۔ غرض امارت بھی بہت سی نیکیوں کے حاصل کرنے سے روک دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ مساکین پانچ سو برس اوّل جنت میں جائیں گے۔‘‘ ( الحکم ۱۷ جولائی ۱۹۰۳،ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۶۸ )
فرماتے ہیں :
’’پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اسے چھوڑ دے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔ انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے۔ جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت ‘ سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے‘‘۔
فرمایا :’’یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔ کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے۔ میں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو۔ نہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ تم خداتعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور۔ میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔
فرماتے ہیں :-
’’غرض نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ان پر ٹھٹھے کیے جاتے ہیں ۔ ان کی خبرگیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے۔ جو لوگ غرباء کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاویں ۔ اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے اس کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کریں ۔ اور اس خداداد فضل پر تکبر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کچل نہ ڈالیں ۔‘‘ (الحکم ۱۰ نومبر ۱۹۰۵ء،ملفوظات جلد چہارم۔ صفحہ ۴۳۹)
آپ فرماتے ہیں :-
’’قرآن شریف نے جس قدر والدین اور اولاد اور دیگر اقارب اور مساکین کے حقوق بیان کئے ہیں ۔ مَیں نہیں خیال کرتا کہ وہ حقوق کسی اَور کتاب میں لکھے گئے ہوں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا }۔ (سورۃالنساء: ۳۷) تم خدا کی پرستش کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھیراؤ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور اُن سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں (اس فقرہ میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دور کے تمام رشتہ دار آگئے) اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسایہ ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علمِ دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں ا ور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو۔ خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا۔‘‘ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ۲۰۸۔۲۰۹)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ ا س بارہ میں فرماتے ہیں :
’’منشاء یہ ہو کہ اس لئے کھانا پہنچاتے ہیں کہ {اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا} (الدھر:۱۱) کہ ہم اپنے رب سے ایک دن سے جو عبوس اور قمطریر ہے ڈرتے ہیں ۔عَبُوْستنگی کو کہتے ہیں قَمْطَرِیْردراز یعنی لمبے کو۔یعنی قیامت کا دن تنگی کا ہوگا اور لمبا ہوگا۔ بھوکوں کی مدد کرنے سے خداتعالیٰ قحط کی تنگی اور درازی سے بھی نجات دے دیتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے {فَوَقٰھُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَقّٰھُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًا}(الدھر:۱۲) خدا تعالیٰ اس دن کے شر سے بچا لیتا ہے اور یہ بچانا بھی سرور اور تازگی سے ہوتا ہے۔
میں پھر کہتا ہوں کہ یاد رکھو آج کل کے ایام میں مسکینوں اور بھوکوں کی مدد کرنے سے قحط سالی کے ایام کی تنگیوں سے بچ جاؤ گے۔ خدا تعالیٰ مجھ کو اور تم کو توفیق دے کہ جس طرح ظاہری عزتوں کے لئے کوشش کرتے ہیں ابدالاباد کی عزت اور راحت کی بھی کوشش کریں ۔ آمین (حقائق الفرقان جلد ۴صفحہ۲۹۰۔۲۹۱)
تو یہ جماعت احمدیہ کا ہی خاصہ ہے کہ جس حد تک توفیق ہے خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور جو وسائل میسر ہیں ان کے اندر رہ کر جتنی خدمت خلق اور خدمت انسانیت ہو سکتی ہے کرتے ہیں ،انفرادی طورپربھی اورجماعتی طورپر بھی۔ تو احباب جماعت کو جس حد تک توفیق ہے بھوک مٹانے کے لئے، غریبوں کے علاج کے لئے،تعلیمی امداد کے لئے،غریبوں کی شادیوں کے لئے،جماعتی نظام کے تحت مدد میں شامل ہوکر بھی عہدبیعت کو نبھاتے بھی ہیں اورنبھانا چاہئے بھی۔اللہ کرے ہم کبھی ان قوموں اور حکومتوں کی طرح نہ ہوں جو اپنی زائد پیداوار ضائع تو کردیتی ہیں لیکن دُکھی انسانیت کے لئے صرف اس لئے خرچ نہیں کرتیں کہ ان سے ان کے سیاسی مقاصد اور مفادات وابستہ نہیں ہوتے یا وہ مکمل طورپران کی ہر بات ماننے اور ان کی Dictation لینے پر تیار نہیں ہوتے۔ اور سزا کے طورپر ان قوموں کو بھوکا اور ننگا رکھا جارہاہے اور ننگا رکھا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو پہلے سے بڑھ کر خدمت انسانیت کی توفق عطا فرمائے۔
یہاں ایک اور بات بھی عرض کرناچاہتاہوں کہ جماعتی سطح پر یہ خدمت انسانیت حسب توفیق ہو رہی ہے۔مخلصین جماعت کو خدمت خلق کی غرض سے اللہ تعالیٰ توفیق دیتاہے،وہ بڑی بڑی رقوم بھی دیتے ہیں جن سے خدمت انسانیت کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ میں بھی اور ربوہ اور قادیان میں بھی واقفین ڈاکٹر اور اساتذہ خدمت بجا لارہے ہیں ۔ لیکن مَیں ہر احمدی ڈاکٹر، ہر احمدی ٹیچر اور ہر احمدی وکیل اور ہر وہ احمدی جو اپنے پیشے کے لحاظ سے کسی بھی رنگ میں خدمت انسانیت کرسکتاہے، غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آسکتاہے،ان سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ضرور غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آنے کی کوشش کریں ۔ تو اللہ تعالیٰ آپ کے اموال ونفوس میں پہلے سے بڑھ کر برکت عطا فرمائے گا انشاء اللہ۔ اگر آپ سب اس نیت سے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہوں کہ ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ ایک عہد بیعت باندھاہے جس کوپورا کرنا ہم پر فرض ہے تو پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ،اللہ تعالیٰ کے فضلوں اوربرکتوں کی کس قدر بارش ہوتی ہے جس کو آپ سنبھال بھی نہیں سکیں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
بنی نوع انسان کی ہمدری خصوصاً اپنے بھائیوں کی ہمدردی اور حمایت پر نصیحت کرتے ہوئے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں ۔ میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں ۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔ اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو۔اپنے تو درکنار، میں تو کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو۔ لاابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔
ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جا رہا تھا۔ ایک پٹواری عبدالکریم میرے ساتھ تھا۔ وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے۔ راستہ میں ایک بڑھیا کوئی ۷۰ یا ۷۵ برس کی ضعیفہ ملی۔ اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔ میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ اس نے وہ خط مجھے دیا۔ میں اس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا۔ اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا۔ کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔ (الحکم ۱۰ اگست ۹۰۴،،ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۸۲۔۸۳)
فرماتے ہیں :’’اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو۔ اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو۔ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ …… بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خودنمائی سے ان کی تذلیل۔ اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خودپسندی سے ان پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔‘‘ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۱۔۱۲)
پھر فرمایا:
’’لوگ تمہیں دُکھ دیں گے اور ہر طرح سے تکلیف پہنچائیں گے۔ مگر ہماری جماعت کے لوگ جوش نہ دکھائیں ۔ جوشِ نفس سے دل دُکھانے والے الفاظ استعمال نہ کرو اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگ پسند نہیں ہوتے۔ ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے۔‘‘
آپ مزید فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کی عظمت کو یاد کرکے سب ترساں رہو اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں ۔ کسی پر ظلم نہ کرو۔ نہ تیزی کرو۔ نہ کسی کو حقارت سے دیکھو جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے تو وہ سب کو گندہ کردیتا ہے۔ اگر حرارت کی طرف تمہاری طبیعت کا مَیلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹٹولو کہ یہ حرارت کس چشمہ سے نِکلی ہے۔ یہ مقام بہت نازک ہے۔‘‘ (بدر نومبر ۱۹۱۱ء،ملفوظات جلد نمبر ۱ صفحہ ۸۔۹)
فرمایا:-
’’ایسے بنو کہ تمہارا صدق اور وفا اور سوز و گداز آسمان پر پہنچ جاوے۔ خداتعالیٰ ایسے شخص کی حفاظت کرتا اور اس کو برکت دیتا ہے جس کو دیکھتا ہے کہ اس کا سینہ صدق اور محبت سے بھرا ہوا ہے۔ وہ دلوں پر نظر ڈالتا اور جھانکتا ہے نہ کہ ظاہری قیل و قال پر۔ جس کا دل ہر قسم کے گند اور ناپاکی سے مُعَرَّا اور مُبَرَّا پاتا ہے، اس میں آ اُترتا ہے اور اپنا گھر بناتا ہے‘‘۔ (الحکم ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۳ء،ملفوظات جلد سوم صفحہ ۱۸۱)
فرمایا :-
’’مَیں پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ نافع الناس ہیں اور ایمان، صدق و وفا میں کامل ہیں ، وہ یقینا بچا لئے جائیں گے۔ پس تم اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کرو‘‘۔ (الحکم ۱۷ دسمبر۱۹۰۴ء،ملفوظات جلد چہارم۔ صفحہ۱۸۴)
فرمایا:-
’’تم اُس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو۔ بڑے ہوکر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ اُن کی تحقیر۔ اور عالم ہوکر نادانوں کو نصیحت کرو،نہ خودنمائی سے اُن کی تذلیل۔ اور امیر ہوکر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔ خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو۔… کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو اِن باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور مَیں نے بیان کیں ۔ تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔ تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے۔ اور بدبخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا۔ ‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد۱۹۔ صفحہ ۱۲ تا ۱۳)
فرمایا:
’’دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا؟ کبھی نہیں ۔ حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی، مگر نہیں ۔ اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حُسنِ سلوک گویا مالک کے ساتھ حُسنِ سلوک ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چِڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سردمہری برتے کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے۔‘‘ (الحکم ۲۴ جنوری ۱۹۰۵،ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۲۱۵تا ۲۱۶۔ جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے۔اور آپ سے جوعہدبیعت ہم نے باندھاہے اس کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آخرمیں مَیں جماعت احمدیہ جرمنی میں کام کرنے والے کارکنان کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتاہوں ۔ جرمنی میں خطبہ کے دوران مَیں کسی وجہ سے کہہ نہیں سکاتھا۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام کارکنان اورکارکنات نے انتہائی جوش اور جذبے سے مہمانوں کی خدمت کی ہے۔ اور جلسے کے ابتدائی انتظامات میں بھی اور آخر میں بھی جب کہ کام سمیٹنا ہوتاہے اورکافی مشکل کام ہوتاہے یہ بھی۔بڑی محنت سے وقت کے اندربلکہ وقت سے پہلے تمام علاقے کو صاف کرکے متعلقہ انتظامیہ کے سپرد کردیااور الحمدللہ کہ جہاں جہاں بھی جلسے ہوئے یہی نظارے دیکھنے میں نظر آرہے ہیں اور سب سے زیادہ خوشکن بات جومجھے لگی اس جلسہ میں وہ یہ تھی کہ اس سال لجنہ کی، خواتین کی حاضری مردوں سے زیادہ تھی اورکم و بیش دو ہزار عورتیں مردوں کی نسبت تعداد میں زیادہ تھیں تو اس سے یہ تسلی بھی ہوئی کہ
انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلیں بھی خلافت اور جماعت سے محبت اوروفا کا تعلق لے کر پروان چڑھیں گی۔ انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ تمام عہدیداران، کارکنان اور شاملین جلسہ کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے اورخلافت سے وفا اور تعلق بڑھاتارہے اوراپنی جناب سے ان کو اجر دے۔
اسی طرح فرانس کا جلسہ بھی اپنے لحاظ سے الحمدللہ بہت کامیاب تھا۔ یہاں کے کارکنان بھی شکریہ کے مستحق ہیں اور یہاں کے جلسے کی جو سب سے بڑی خوبی تھی وہ یہ ہے کہ یہاں کافی بڑی تعداد ایسی ہے جو غیر پاکستانی احمدیوں کی ہے جن میں افریقہ، الجیریا، مراکو، فلپائن وغیرہ کے لوگ شامل ہیں اور سب نے اسی جوش وجذبہ سے ڈیوٹیاں ادا کی ہیں اور بڑی خوش اسلوبی سے ا دا کی ہیں اور اس طرح ادا کرتے رہے جس طرح بڑے پرانے اور ایک عرصہ سے تربیت یافتہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے ا یمان و اخلاص میں برکت عطا فرمائے۔ ان لوگوں کی بھی خلافت اور جماعت سے محبت ناقابل بیان ہے۔اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتارہے اورثبات قدم عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جلسہ کے دوران دس سعید روحوں کو جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی ملی۔اللہ تعالیٰ ان کو ثابت قدم رکھے۔احباب جماعت ان دونوں جگہوں یعنی جرمنی اور فرانس کی جماعتوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ تعالیٰ ان کو بھی اور ہم سب کو بھی عہدبیعت نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
بنی نوع انسان سے ہمدردی بہت بڑی عبادت اور رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے
٭…عام خلق اللہ کی ہمدردی ۔۔۔۔نویں شرط بیعت کی پرحکمت تشریح
٭…کسی کی مددکرتے ہوئے ،تحائف دیتے ہوئے دوسروں کی عزت نفس کاخیال رکھیں ،ذیلی تنظیمیں بھی توجہ کریں
٭…بیماروں کی عیادت ،دوسروں کی تکلیف کاخیال رکھنااورمعاف کرنا۔۔۔۔
٭…یادرکھوخداتعالیٰ کے دوحکم ہیں اول یہ کہ ا سکے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو اور دوسرے نوع انسان سے ہمدردی کرو
٭…خدمتِ خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیناجماعت احمدیہ کاخاصہ ہے
٭…احمدی ٹیچر، وکیل، ڈاکٹرز اور دیگرماہرین ، غریبوں اور ضرورت مندوں کے کام آئیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کے اموال ونفوس میں پہلے سے بڑھ کربرکت عطافرمائے گا۔انشاء اللہ
۱۲؍ستمبر ۲۰۰۳ ء بمطابق ۱۲؍ تبوک ۱۳۸۲ ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن(برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔